جنس کا جغرافیہ - قسط:19 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-14

جنس کا جغرافیہ - قسط:19


wedding-first-night
ازدواجی زندگی کو خوشحال بنانے کی ضرورت اس قدر شدت سے کبھی محسوس نہیں کی گئی تھی جتنی آج کل سمجھی جا رہی ہے۔ بیشتر لوگ جو حصول مسرت کی توقع میں شادی کرتے ہیں اکثر سخت مایوسی سے دوچار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں دوبارہ آزادی حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اکثر شوروغل تو بہت مچاتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ ان کی بد بختی کی بنیاد شادی کی زنجیروں سے بڑھ کر خود ان کی جہالت ہے ۔
شادی شدہ زندگی کو دلچسپ ، دلفریب اور پائیدار بنانا کوئی آسان کام نہیں ۔ اصل میں یہ ایک ایسا مستقل کارنامہ ہوتا ہے، جو ایک خود غرض ، پست ہمت اور بزدل شخص کی طاقت سے باہر ہے ۔ ازدواجی زندگی کے مسئلے بے حد پیچیدہ ہوتے ہیں اور انہیں حل کرنے کے لئے صبر، استقلال اور ہمدردی کی سخت ضرورت ہے ۔
بعض لوگ جنسی تربیت کی حد تک یہ کہتے ہیں کہ کیا اس کے لئے فطرت کافی نہیں ہے؟ کیا فطرت جنس کے بارے میں انسان کی بہترین استاد نہیں ہے؟ اس کا بس یہی ایک جواب ہے کہ نہیں !
فطرت قطعاً کافی نہیں ہے ۔ ہر انسانی فعل کے تعلق سے یہ تسلیم کیاجاچکا ہے کہ تربیت کا حصول لازمی ہے۔ ایک بلی جانتی ہے کہ اپنے نوزائیدہ بچوں کی پرورش کیونکر کرے اور انہیں تربیت کیونکر دے لیکن اشرف المخلوقات کی ماں کو جب تک تعلیم اور تربیت نہ دی جائے وہ نہیں جانتی کہ بچوں کو کیونکر سنبھالے اور تربیت دے ۔ یہ تعلیم و تربیت وہ یا تو کسی سے راست حاصل کرتی ہے یا دوسری ماؤں کو دیکھ کر اپنی قوت مشاہدہ کے ذریعہ حاصل کرتی ہے ۔ بلی اپنے سارے فرائض طبعاً یا فطرتاً پورے کرتی ہے، لیکن انسان کی ماں کو پیچیدہ فرائض کی تکمیل کے لئے تعلیم و تربیت حاصل کرنا ضروری ہے۔
پس لطیف ازدواجی تعلقات کی حقیقت بھی یہی ہے ۔ ہمارے ملک کی اکثریت کواعلیٰ انسانی فن "فن مباشرت" کی الف بے تک نہیں معلوم۔ جس کی وجہ سے بعض لوگوں کو اس جنسی جہالت کی اپنی ازدواجی زندگی میں بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ۔

انسانی زندگی میں اولیات کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ ہر وہ بات خاص دلچسپی رکھتی ہے جو پہلے پہلے وقوع میں آتی ہے۔ ہر شئے کا آغاز توجہ کا طالب ہوتا ہے ۔ کسی تماش گاہ کا پہلا کھیل ، کسی اسکول کا پہلا دن ، کسی کتاب کا پہلا سبق ، عملی زندگی کا پہلا قدم، محنت کی پہلی آمدنی۔۔۔ غرض کوئی بات ہو، اس کی ابتداء اہم اور دل میں اختلاج پیدا کرنے والی ہوتی ہے اور اسی اصول کے ماتحت جو بات جتنی اہم، جتنی دلچسپ اور جتنی نشاط آور ہوتی ہے اتنا ہی اس کا آغاز عصبی نظام کے لئے احساس آفریں ہوتا ہے ۔

ازدواجی زندگی کی پہلی رات بھی اپنے جلو میں جذبات کی ایک قوس قزح لئے ہوتی ہے ۔ اندازہ کیجئے کہ عورت جو مرد کے لئے سراپا تصویر نشاط ہے، جس کی مواصلت کا دامن سر تا سر لذتوں سے لبریز ہے ۔ جب پہلے پہل مرد کی آغوش کی زینت بنتی ہے اور اس کے دل کے دروں خانے میں رونق افروز ہوتی ہے تو اس کے ولولوں کا کیا عالم ہوتا ہے؟ اور شادی جو عورت اور مرد کے لئے ابتداءً جنت سے کچھ زیادہ معنی خیز ہے ، اپنی ابتدائی رنگینیوں اور شوق آفرینیوں کے ساتھ خود کو روشناس کراتی ہے ، اس طرح یہ کہنا مبالغہ آمیز نہ ہوگا کہ شادی کی پہلی رات انسانی زندگی میں ایک یادگار اور فیصلہ کن رات ہوتی ہے ۔

دیگر ممالک کی بہ نسبت ہمارے یہاں "سہاگ رات" اور بھی زیادہ دلچسپ اور اختلاج آور ہوتی ہے اور اس کا انتظار بیم و رجا کی کشمکش سے معمور ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں اکثر اجنبیت کا اختتام، یا انس اور الفت کا آغاز اسی رات میں ہوتا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسی حالت میں جب کہ دونوں اجنبی ہیں اور انہوں نے ایک دوسرے کو بھی نہیں دیکھا ، ایک دوسرے کا طریق عمل کیا ہونا چاہئے اور اس اجنبیت کو کیوں کر دور کیا جائے؟ شوہر کی اگر پہلی شادی نہیں ہے تو وہ اس معاملہ خاص میں اپنی معلومات ضرور رکھتا ہے جو ایک دوشیزہ سے زیادہ ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ مرد بے باک، دست دراز اور اپنے کو دبانے کی طرف سے قدرتاً بے پروا ہوتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ اپنے گھر میں ہے اور جانتا ہے کہ مذہب، قانون اور سوسائٹی نے اسے اجازت دے رکھی ہے کہ وہ آج کی رات جس طرح چاہے بسر کرے اور اپنی مرضٰ کے مطابق لطف اندوز ہو اور اپنی بیوی سے جو چاہے سلوک کرے۔
دوسری طرف نو عمر عورت ہے جس کی عمر کا بیش تر حصہ چار دیواری میں عورتوں کے ساتھ بسر ہوا ہے۔ اس نے کسی اجنبی مرد سے بات چیت نہیں کی۔ وہ شرم و حجاب کے لحاظ سے پہلے دن کی نئی دلہن ہے ۔ ماں باپ کا گھر ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر آئی ہے ۔ بالکل اجنبی جگہ آئی ہے ، ان ساری باتوں سے بڑھ کر وہ اپنی دوشیزگی کے چھن جانے کے تعلق سے ضرورت سے کچھ زیادہ ہی خائف ہے ۔ اب ان حالات کے پیش نظر یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ دلہا کو دلہن کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہئے ۔

عام طور پر ہمارے ہاں جو طریقہ رائج ہے اور بلا استثنائے تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ، مہذب اور غیر مہذب ہر شخص کا جو ماحول ہے وہ در حقیقت بےحد وحشیانہ اور بےدردانہ ہے ۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ان میں کوئی تفاوت ، کوئی امتیاز نہیں، تمام باتیں اول سے آخر تک ہر شخص کو یکساں پیش آتی ہیں۔ یعنی جب دلہا کمرے میں پہنچتا ہے اور مسہری پر قدم رکھتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ وہ پیکر ناز ایک دوپٹے میں سراپا ملفوف ہے ۔ اس نے چہرے سے آنچل اٹھانا چاہا لیکن چونکہ اس نے سر کے نیچے اور ایک ہاتھ سے جو تکیہ اور سر کے درمیان تھا، اچھی طرح دبا لیا تھا ، بڑی مشکل سے کامیابی ہوئی ، منہ کھلنے کے بعد پہلی بات چیت زبان سے نہیں بلکہ لبوں سے ہوئی اور دوسری گفتگو لبوں سے بھی نہیں بلکہ ہاتھوں سے اور چند منٹ کے بعد بڑھی ۔ فریق ثانی نے بہت کچھ روکا، قسمیں دیں ، ہاتھ جوڑے، منتیں کیں ، آہوں اور آنسوؤں سے رحم کی طلب گار ہوئی مگر شوہری سرکار پر کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی اور آخر کار ایک طرف "مرکب تواں تاختن" اور دوسری طرف "سپر باید انداختن" کے مشورے پر عمل کیا گیا۔

انصاف شرط ہے کہ جس شخص سے بالکل شناسائی نہ ہو اور جس کے تعلق سے شرم و حیا اور تمام نسوانی صفات کا تسلیم کیاجانا ضروری ہو، اس کے ساتھ اس بےدردی اور درندگی سے پیش آنا کون سی جوانمردی ہے ۔ کھانا ہمارے سامنے پکایاجاتا ہے ۔ ہم بھوکے بھی ہوتے ہیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ہم جلتی ہوئی دیگچی کو منہ لگا دیں یا توے سے اترتے ہی گرم روٹی کو حلق سے نیچے اتار لیں۔ اگر کوئی چیز ہمارے لئے جائز ہے تواس کے یہ معنی نہیں کہ ہم اس کے طریق استعمال میں بھی جواز کی پروانہ کریں۔ اس یقین کے باوجود کہ ایک ہستی ہمارے تصرف میں دے دی گئی ہے اور اطمینان کے باوصف کہ وہ ساری دنیا کی دسترس سے باہر ہے اور ہم اس پر مستقل اور دائمی اقتدار رکھتے ہیں، اس قدروحشت زدہ ہونا، اور اس طرح گھبراکر "اول طعام بعدہ کلام" کے دہقانی اصول پر عمل کرنا کہاں کی انسانیت ہے اوراس زرین مقولے کو بھلا دینا کون سی دانش مندی ہے کہ " مقصد پر سد جویائے کام آہستہ آہستہ"!
بعض صاحبان تو دنیا بھر کی دور اندیشی اسی شب کے لئے اٹھا رکھتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ اگر پہلی رات ہم نے بیوی کو اپنی بد مزاجی ، غصہ، زبردستی وغیرہ کا یقین نہ دلایا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمام عمر تلخ کلامی میں بسر ہوگی یعنی وہ "گربہ کشتن روزِ اول" کی مشہور مثل پر عمل کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ شوہر کے تعلق سے خوش اخلاقی، نرم دلی اور خوش مزاجی کا حال معلوم کر کے بیوی خوش رہ سکتی ہے ۔ یا خود غرضی ، غصہ اور بد مزاجی کی صفات سے متصف دیکھ کر وہ مسرور و مطمئن ہوسکتی ہے ؟

اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ شادی کے بعد عورت اور مرد ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے ایسے محرم ہوتے ہیں جس کے مثال دنیا کے کسی رشتے میں نہیں ملتی ۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ شوہر اور بیوی کے جو تعلقات برسوں کی یکجائی کے بعد پیدا ہوتے ہیں وہ پہلی رات کے پہلے ہی گھنٹے سے فرض کرلئے جائیں ۔ ان تعلقات کی ابتداء تو بڑی متانت، بڑی تہذیب اور شائستگی سے ہونی چاہئے ۔
شوہر کو چاہئے کہ پہلے بیوی سے گفتگو کرے ۔ گفتگو میں موانست پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے میکے کا ذکر ہو ۔ بھائیوں، بہنوں اور دوسرے رشتے داروں کے تعلق سے بات چیت کی جائے۔ پھر اس کی تعلیم و تربیت کے بارے میں معلومات لی جائے۔ اس کی عادات کا ذکر ہو، پسند، ناپسند کا پتہ چلایاجائے اس کے محبوب مشاغل کی دریافت کی جائے ۔ اس کی مرغوب اشیاء کی تحقیق کی جائے۔ شوہر اور بیوی کے تعلقات پر تبصرے ہوں ۔ اگر سلیقے سے گفتگو کی جائے گی تو جانبین میں بہت جلد بے تکلفی پیدا ہوجائے گی۔ پھر اگر بتدریج جذبات کو عیاں کیاجائے گا تو چنداں مضائقہ نہیں اور فریق ثانی کے لئے بے لطفی کا باعث نہیں ہوگا ۔
جن دلہنوں کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور جو شباب کی منزل میں کبھی کی قدم رکھ چکی ہوتی ہیں، وہ بہت جلد بے تکلف ہوجاتی ہیں کیونکہ اگر ایک طرف شرم و خوف سے ان کے جذبات میں کمزوری پیدا ہوجاتی ہے تو دوسری طرف فطرت ان کو ابھارتی ہے اور شوہر کی پرلطف باتوں سے شہ پاکر وہ تھوڑے ہی عرصے میں بے حجاب ہوجاتی ہیں۔

بہر حال یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بیوی صرف شباب کے عارضی ولولوں کی آماجگاہ ہی نہیں ہے بلکہ وہ ایک رفیق ہے جو زندگی کے رنج وراحت ، نشیب و فراز اور سرد و گرم میں ساتھ دینے کے لئے حاصل کی گئی ہے ۔ پس پہلی رات صرف جذبات پروری میں بسر کرنے کے لئے نہیں ہے ۔ بلکہ اس رات باہم ایسی گفتگو ہونی چاہئے جس سے جانبین ایک دسرے کے ہمدرد اور غمگسار بنیں ۔ ایک دوسرے کے تعلق سے حسن ظن پیدا ہو۔ بیوی شوہر کو پا کر یہ نہ محسوس کرے کہ اگر اس نے ماں باپ ، بھائی بہن اور اس گھر کو خیرآباد کہا جس میں وہ پل کر جوان ہوئی تو اس کا بدل اس کو کچھ نہیں ملا اور اگرا س نے بہت کچھ کھویا ہے تو بہت کچھ پایا بھی ہے ۔
اور شوہر کے دل میں یہ خیال جاگزیں ہو کہ اس نے جس ہستی کو اپنا شریک زندگی بنایا ہے اور تمام عمر جس کا بار اٹھانے کی ذمہ داری لی ہے ، وہ ہر طرح اس کی اہل ہے ۔ اور اس سودے میں اسے کسی طرح خسارہ کا احتمال نہیں ہے ۔ اگر پہلی رات ان خوشگوار توقعات کی بنیاد پر بسر کی جائے گی تو یقیناًیہ اک دوسرے کی دلکشی اور دل آویزی کا باعث ہوگی ۔ اور پھر تمام عمر عیش و آرام اور دائمی مسرتوں کے ساتھ گزرے گی ۔

مرد عورت کے درمیان گہری اور آسودہ رفاقت ، خواہ افزائش نسل کے لئے یا حظِ نفس کے لئے ، ہر حالت میں اہم ترین ہے ۔ اگر یہ رفاقت آسودگی کے ساتھ ساتھ محبت اور اس کی مسرت پیدا کرسکے تو کیا کہنے ۔ کیونکہ محبت کی مسرت زندگی کا سب سے بڑا انعام ہے ۔ محبت زندگی کی طلسمی چنگاری کی طرح ایک سربستہ راز اور ایک جوہری قوت ہے ۔
بدقسمتی سے نہ جانے کیوں یہ رسم چلی آرہی ہے کہ لوگ اپنی شادی کی پہلی رات کی اصلی نوعیت کو چھپاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ لوگ یہ سمجھیں کہ ان کی پہلی رات بہت کامیاب رہی۔ اس میں شک نہیں کہ اس رات کی مسرتوں کا مقابلہ دنیا کی تمام مسرتیں ملاکر بھی نہیں کرسکتیں ۔ ایک ایک لمحہ، ایک ایک ساعت، قربت، ہمدمی میں گزرتی ہے ۔ لیکن مشکل ہی سے کوئی اعتراف کرتا ہے کہ اس کا پہلا جنسی تجربہ کچھ زیادہ کامیاب نہیں رہا ۔ اگریہ اعتراف عام لوگوں کو ہوتا تو نہ صرف وہ اپنی ازدواجی زندگی کے محلات ریت پر بناتے بلکہ ڈھول میں خول جیسے اعتقادات ختم ہوجاتے ۔ لیکن اس اعتقاد کو کیا کہئے کہ پہلی رات کامیاب ترین لمحوں کی رات ہونی چاہئے ۔ ہر ملک کا ادب یہی کہتا ہے ، ہر ملک کا فرد یہی ٖظاہر کرتا ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس جھوٹ کے اثرات کیا ہوتے ہیں۔

فرض کیجئے ایک نوجوان عورت اور مرد کی شادی ہوئی ، پہلی رات آئی لیکن وہ ان نغموں کو نہ سن سکے ۔ اس بہار کو محسوس نہ کرسکے ۔ جو ہر ایک شادی کا خاصہ ہونا چاہئے ۔ ان کو کچھ کمی محسوس ہوئی ، تو وہ سوچتے ہیں کہ دنیا بھر میں وہی دونوں بد قسمت ہیں ۔ ضرور دونوں میں سے کسی ایک میں خرابی ہے ۔ تب ہی تو دنیا کے تمام لوگوں کی طرح مسرتوں کو حاصل نہ کرسکے۔ وہ ایک دوسرے کی طرف کچھ حیران کچھ مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں ۔ اگر ان کو معلوم ہوتا کہ دنیا میں زیادہ تر شادی شدہ افراد، ابتدائی دنوں میں مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں تو ان کے اتنے تلخ تاثرات ہرگز نہ ہوتے ۔
پہلی رات جنسی قربت ضروری نہیں!
ممکن ہے یہ جملہ پڑھ کر مرد اور عورتوں کو تعجب ہوگا۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ اگر جنسی قربت کو کچھ دنوں کے لیے ملتوی رکھا جائے تو اس کے اچھے نتائج نکلتے ہیں۔ مگر ایک رسم عجیب سی یہ چلی آ رہی ہے کہ پہلی رات اگر شوہر جنسی قربت میں ناکام رہتا ہے تو وہ خود بھی اور بیوی اور دوسرے عزیز و احباب بھی اس کی قوتِ مردمی پر شک کرنے لگتے ہیں۔ اس لیے شوہر ہر قیمت پر ، بیوی کی رضامندی حاصل کیے بغیر اس کی تھکاوٹ کی پروا نہ کرتے ہوئے جنسی قربت ، زبردستی کی حد تک ضرور حاصل کرتا ہے۔ اس سے بیوی کو جو جسمانی تکلیف اور ذہنی کوفت ہوتی ہے وہ برسوں نہیں جاتی۔ کبھی کبھی تو وہ ہمیشہ کے لیے جنسی قربت سے متنفر ہو جاتی ہے۔ عموماً جو عورتیں جنسی معاملات میں اپنی طرف سے پہل نہیں کرتیں یا دلچسپی نہیں لیتیں ، ان میں زیادہ تر پہلی رات کے تلخ تجربات کا شکار ہوتی ہیں۔
شادی کا آغاز جماع بالجبر سے نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اکثر زبردستی قربت سے نہ صرف ۔۔۔۔۔
(۔۔۔ بقیہ اگلی قسط میں)

Jins Geography -episode:19

1 تبصرہ:

  1. جنس کا جغرافیہ شروع کیے سال گزر چکا ہے، براے مہربانی سلسلہ مکمل کیجیے۔

    جواب دیںحذف کریں