جنس کا جغرافیہ - قسط:18 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-07

جنس کا جغرافیہ - قسط:18


human-breast
قدرت نے عورت کے جسمانی حسن میں پستان کو نمایاں مقام عطا کیا ہے ۔ ہر زمانے میں اس کو حسن کا مرکز سمجھا گیا ۔ در حقیقت یہ پورے جسم میں سب سے زیادہ جاذب نظر بھی ہوتے ہیں ۔ ان کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر شاعروں اور ادیبوں نے انار، آم ، قبۂ نور اور گوئے سیمیں وغیرہ سے تشبیہ دی ہے ! چنانچہ ان کی اہمیت کے پیش نظر یہ مشورہ دیا گیا کہ "زن پیوہ مکن گرچہ حور است" یعنی جس عورت کے پستان نہ ہو ں اگر وہ حور کی مانندحسین ہو تب بھی اس سے شادی مت کرو ۔
عورت کے اعضائے جنسی میں پستان کا بھی شمار ہوتا ہے ۔ لڑکی جب بالغ ہونے لگتی ہے تو اس کے سینے پر دونوں طرف دو ابھار ظاہر ہونے لگتے جو بڑھتے بڑھتے خوش نما اور گول شکل اختیار کرلیتے ہیں ۔ نابالغ لڑکیوں کے پستان بہت چھوٹے ہوتے ہیں لیکن سن بلوغ کے قریب وہ جلد جلد بڑھنے لگتے ہیں ۔ بالغ ہونے کے بعد ایام شباب میں ، نو جوان عورتوں کے پستان تو بس غضب ڈھانے لگتے ہیں ۔ عورتوں کے پستان کا حجم یکساں نہیں ہوتا ۔ بعض عورتوں کے چھوٹے اور بعض عورتوں کے کافی بڑےہوتے ہیں ۔ یہ نہ صرف لیموں سے لیےکر تربوز کی سائز تک ہوتے ہیں بلکہ مختلف شکل ، مختلف رنگ اور مختلف مزاج کے ہوتے ہیں !
عورتوں کے پستان عام طور پر آم سے مشابہ ہوتے ہیں بلکہ آم کے چیک کی طرح ان کے سرے پر ایک گھنڈی ہوتی ہے ، جیسے بھٹنی بھی کہتے ہیں ۔ گھنڈی کے اطراف سرخ رنگ کا ہالہ ہوتا ہے جو پستان کو اور بھی دیدہ زیب بنا دیتا ہے ۔ نو جوان لڑکیوں میں یہ دونوں جسم گگلوں یا سرخ رنگ کے ہوتے ہیں ۔ اگر ان کو ہاتھ سے چھوا جائے تو ان میں سختی نمودار ہوتی ہے ۔ پستان بہت حساس ہوتے ہیں اور شہوت کا منبع ہیں ۔ جماع سے پہلے ان پر دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرنے سے عورت کو بڑا لطف آتا ہے ۔ عورت کے پستان سے اس کے اندام نہانی کا راست تعلق ہوتا ہے ۔ یہ نہ صرف موٹر کے ہارن کی شکل کے ہوتے ہیں بلکہ ہارن کا کام بھی دیتے ہیں ! کیونکہ ان کے دبانے سے شرم گاہ کی ساری رکاوٹیں دور ہوکر راستہ صاف اور گیلا ہوجاتا ہے !
حمل کے دوران پستانوں کاحجم بھی بڑھنا شروع ہوجاتا ہے ۔ پستان کی گھنڈی کے سر پر نہایت چھوٹے چھوٹے دس پندرہ باریک سوراخ ہوتے ہیں ا ور بچہ جب اس کو منہ میں لیتا ہے تو ان سوراخوں سے دودھ بننے کے لیے آجاتا ہے ، اس واسطے حمل کے دنوں میں پستان بہت بڑھ جاتے ہیں ۔ قدرت کی یہ بڑی شفقت اور کرم ہے کہ اس نے حاملہ عورت کے جسم پر ہی بچے کی خوراک بھی مہیا کردی ہے جو ہر ایک امیر و غریب میں وضع حمل کے ساتھ بلکہ اس سے کچھ پیش تر تیار ہوجاتی ہے ۔

اکثر عورت اور مرد اس بات سے ناواقف رہتے ہیں کہ آخر حیض کیا چیز ہے ؟ لڑکیاں جب بالغ ہوتی ہیں یعنی جب وہ کلی سے پھول بننے لگتی ہیں تب اب کی عادت و اطور اور ان کی چال ڈھال میں طرح طرح کی تغیرات رونما ہونے لگتے ہیں ۔ اندام نہانی سے کبھی کبھی خون آنے لگتا ہے ۔ پستان بڑھنے لگتے ۔ کولھے بھی کسی قدر پھیلنے لگتے ہیں ۔ شرمگاہ کی بیرونی حصے اوربغل میں بال اگنے لگتے ہیں ۔ ہاتھ پاؤں اور سارا بند ن بڑھنے لگتا ہے ، چال میں عجیب نزاکت ، ادائیں دلکش اور چہرے پر عجیب دلکشی پیدا ہوجاتی ہے ۔ لڑکیاں جب بالغ ہونے لگتی ہیں تو ان کی اندام نہانی سے ہر مہینہ اٹھائیس دن کے بعد چار یا پانچ دن تک دو سے لے کر تین چھٹانک تک خون خارج ہوتا ہے جسے حیض یا ماہورای ہتے ہیں ۔ یہ حیض کسی عورت کو کم کسی عورت کو زیادہ آتا ہے ۔ عام طور پر گرم ملکوں میں تیرہ سے پندرہ سال کے درمیان اور سرد ملکوں میں پندرہ سے اٹھارہ سال میں لڑکیاں بالغ ہوجاتی ہیں ۔ماہورای کا خون رحم کی دیوراوں میں جمع ہوتا ہے اور وہاں سے فرج کی نالی کے ذریعہ بہہ کر باہر آجاتا ہے ۔
حمل قرار پانے سے ماہواری کا خاص تعلق ہے ۔ حمل کی حالت میں ماہواری آنی بند ہوجاتی ہے ۔ جب حیض آنے والا ہوتا ہے تو جسم میں ایک خاص ہلچل پیدا ہوجاتی ہے ۔سر میں ہلکا سا درد ، پیٹ میں تھوڑا سا نفخ ، پستانو ں میں میٹھا میٹھا درد ۔ عام قاعدہ تو یہ ہے کہ ہر مہینہ اٹھائیس دن کے بعد حیض آیا کرتا ہے ۔ مگر بعض صورتوں میں اس میں تاخیر یا تغیر و تبدیلی بھی ہوجایا کرتی ہے ۔ عام طور پر 45 سے 50 سال کی عمر تک حیض آتا رہتا ہے ۔ اس کے بعد بند ہوجاتا ہے ۔ جس سے عورت بچہ جننے کے قابل نہیں ہوتی لیکن شہوت باقی رہتی ہے !
قرار حمل کے سلسلہ میں عورت کے جسم کے اندر ہونے والا عمل بڑا ہی پیچیدہ ہے ۔ حمل کیونکہ ٹھہرتا ہے ، اس سے آج کے عام شوہر اور بیوی اچھی طرح واقف نہیں ۔ اس کا واحد سبب یہی ہے کہ جنسی اعضاء سے متعلق گفتگو ، فحش پوشیدہ اور ناقابل ذکر سمجھی جاتی ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم لوگ اپنی زندگی کے اہم پہلو سے ناواقف رہتے ہیں اور اس لا علمی کی وجہ سے اکثر عورتوں اور مردوں کو بھاری تکلیفیں اٹھانی پڑتی ہیں ۔ جنسی واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے آدمی بہت سے توہمات اور غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتا ہے ۔ ایک نو جوان جس کا نیا نیا بیاہ ہوا تھا اس غلط فہمی میں مبتلا تھا کہ عورت کو بوسہ لینے سے ہی حمل قرار پاتا ہے ! ایک دوسرے نوجوان کا یہ خیال تھا کہ بچہ عورت کی ناف سے پیدا ہوتا ہے ! بعض اچھے خاصے پڑھے لکھے مردوں ے بارے میں بھی عجیب واقعات سننے میں آتے ہیں ، جو یہ سمجھتے ہیں کہ عورت کے ساتھ مباشرت پیچھے سے کی جاتی ہے اور بچہ آگے سے پیدا ہوتا ہے !
حمل قائم کرنے کی نیت سے جب مرد مباشرت کرتا ہے تو اس کامادہء منویہ عورت کی فرج کے پیچھلے حصے میں جمع ہوجاتا ہے جس میں عورت کے رحم کا منہ ڈوب جاتاہے ۔ منی کے اس تالاب میں لاکھوں جراثیم تیرتے رہتے ہیں اور یہاں سے وہ ٹولیاں بنا کر رحم میں داخل ہوتے ہیں ۔ سب ہی تو رحم میں نہیں پہنچ پاتے تاہم پہنچنے والوں کی تعداد کافی ہوتی ہے ۔ رحم میں پہنچ کر وہ بیضے کی تلاش میں گھومتے پھرتے ہیں ۔ ادھر پختہ انڈا بیضہ دانی سے نکل کر بیضہ نلی میں بیٹھا منی کے جراثیم کا انتظار کرتا ہے ۔ ماہر اجسام کا کہنا ہے کہ بیضہ اپنے جسم سے ایک خاص قسم کی بو چھوڑتا ہے جو منی کے جراثیم کو اپنی طرف کھینچتی ہے ۔ بیضے کے قریب پہنچ کر منی کا جرثومہ اس کی دیوار کو توڑ کر اس میں سما جاتا ہے کہ دونوں ایک جان ہوجاتے ہیں ۔ اس ملاپ کے بعد بیضہ لڑھک کر رحم میں آجاتا ہے اور اس کی دیوار سے چپک کر بچہ کی شکل میں بڑھنا شروع کر دیتا ہے ، یہاں تک کہ نو مہینے کے بعد بچہ فرج کے راستے رحم سے باہر آجاتا ہے اور اس طرح ایک نیا آدم یا ایک نئی حوا پیدا ہوتی ہے ۔
جسمانی اور نفسیاتی دونوں اعتبار سے استقرار حمل ایک الگ اور واضح حالت ہے۔ اس کے باعث ایک ایسی مسلسل جسمانی تبدیلی کی ابتداء ہوتی ہے جو نفسیاتی رد عمل کا اظہار کیے بغیر نہیں رہتی ، کیونکہ اہم سر گرمی کا ایک بڑا نیا مرکز پیدا ہوجاتا ہے جو تمام جسمانی نظام میں تبدیلی پیدا کرتا ہے ۔ جس لمحہ جنین کا وجود عورت میں ہوتا ہے ، اسی لمحہ خون کا ہر قطرہ ، جسم کا ہر عضو کا ہر ریشہ متاثر ہوتا ہے ۔
ایک حاملہ عورت کی ظاہری بدصورتی میں ایک ملکوتی حسن اور خوبصورتی ہوتی ہے ! چونکہ عورت کا اصل مقصد ماں بننا ہے اور اس کے مقصد کی تکمیل استقرارِ حمل کے بعد ہی ہوتی ہے اس لیے عورت حمل کے دوران اور زیادہ خوبصورت نظر آتی ہے ۔ ہوتا بھی یہی ہے ۔ حمل کی ابتداء کے ساتھ ہی جلد کی رنگ میں تازگی اور نزاکت آجاتی ہے اور پستان سخت ہوجاتے ہیں ۔ آنکھوں میں چمک اور نظروں میں والہانہ پن ظاہر ہونے لگتا ہے ، جسم میں گرمی بڑھ جاتی ہے وزن زیادہ ہوجاتا ہے اور حمل عور ت کےجسم پر پھول کی طرح کھل اٹھتا ہے اور چہرہ قدرتی رنگوں کی آمیزش نظر آتا ہے ۔ پستان کی گھنڈیاں اور پیٹ کا درمیانی حصہ سیاہی مائل ہوجاتا ہے ۔ عورت اپنی کمانی دار کمر اور ابھرے ہوئے پیٹ کے ساتھ مخصوص قسم کا فخر محسوس کرتی ہے ۔ حاملہ عورت انسانوں کی سطح سے بلند ہوتی ہے کیونکہ وہ ایک انمول موتی کو پیدا کرنے والی صدف کے مماثل ہوتی ہے۔ اگر کوئی قدرت کی صناعی کو سمجھے اور دور بیں نظر سے دیکھے تو بے شک ایک حاملہ عورت دنیا کی بیش قیمت شئے ہے ۔ جس کا دنیا کی کوئی دولت مقابلہ نہیں کرتی کہ آدم کی تخلیق کا بوجھ وہ اٹھائے رہتی ہے کیا خوب کہا ہے اقبال نے " آتش مار! بہ جان خود زند" ہماری آگ اپنی جان پر لے لیتی ہے !


Jins Geography -episode:18

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں