« پچھلی قسط --- تمام اقساط »
سقوط حیدرآباد کے ساتھ ہی جو قیامت صغری برپا کی گئی اس کا جائزہ لینے کے لئے اس وقت کے وزیراعظم ہند پنڈت جواہر لال نہرو نے پنڈت سندر لال کی قیادت میں ایک سہ رکنی وفد روانہ کیاتھا۔ اس وفد نے جو رپورٹ تیار کی تھی اس کی دو قسطیں (یکم دستمبر2013)اور(8دسمبر2013) کو روزنامہ اعتماد کے شمارہ جائزہ میں شائع کی گئیں۔ رپورٹ کی تیسری قسط پیش خدمت ہے۔
- ایم اے ماجد (اعتماد نیوز ، 15/ دسمبر 2013)
انتہائی رازداری :بخدمت
(1) عزت ماّب وزیراعظم حکومت ہند نئی دہلی
(عزت مآب وزرائے مملکت حکومت ہند' نئی دہلی
جناب'
ہمیں ایک غیر سگالی مشن کے طورپر حکومت ہند کی جانب سے ریاست حیدرآباد جانے کے لئے کہاگیا۔ اپنے کام کی تکمیل کے بعد ہم ہماری رپورٹ اب آپ کی خدمات میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔
تعارف:
(1)یہ وفد پنڈت سندر لال 'قاضی عبدالغفار اورمولانا عبداللہ مصری پر مشتمل تھا۔ یہ 29نومبر کو حیدرآباد پہنچا اور21ڈسمبر 1948کو دہلی واپس ہوا۔ اس مدت کے دوران ہم نے ریاست کے16اضلاع کے منجملہ9کا دورہ کیا۔ 7ضلع مستقر'21ٹاون اور 23مواضعات کے علاوہ ہم نے 500سے زائد افراد جن کا تعلق 109مواضعات سے ہے جہاں ہم نے دورہ نہیں کیا ہے' انٹرویو لیا ہے۔ مختلف مقامات پر مزید31جلسوں'27خانگی نشستوں جن میں ہندو'مسلمان' کانگریسی 'سرکاری عہدیداران ' ارکان جمعیۃ العلماء اور اتحاد المسلمین کے ارکان' مختلف تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے طلبہ واسٹاف ' ترقی پسند مصنفین کی اسوسی ایشن کے ارکان'ہندوستانی پرچار سبھا وغیرہ کے نمائندوں' مندوبین وکارکن شامل تھے سے خطاب کیا۔ جن اہم شخصیتوں ' عہدیداروں سے ہم نے بات چیت کی ان میں قابل ذکر پی ایچ ایچ دی نظام(نواب میر عثمن علی خاں بہادر)'ایچ ایچ وی پرنس آف برار(نواب اعظم جاہ بہادر)'میجر جنرل چودھری ' مسٹر بکھلے دی چیف سیول اڈمنسٹریریٹر' سوامی رمانند تیرتھ' ڈاکٹرملکوٹے' مسرز رام چندر راؤ' راما چاری' کے ودیا' وینکٹ راؤ'عبدالحسن سید علی' نواب یاور جنگ' نواب زین یا جنگ' راجہ دھونڈے راج 'مولانا ابویوسف 'مولوی ابوالخیر اورمولوی حمید الدین قمر فاروقی شامل ہیں۔ان تمام ملاقتوں ' اجلاس اور نشستوں میں اصل مسئلہ جو زیر بحث رہاوہ مختلف طبقات کے درمیان بہتر تعلقات کو پیدا کرنا اورامن کوبرقراررکھنا ہے ۔ عوام سے یہ اپیلیں بھی کی گئیں کہ وہ ماضی کوبھول جائیں اور امن وہم آہنگی کو پیدا کرنے مل جل کر کام کریں۔ ان اجلاس اور ملاقتوں میں ہند۔ یونین کے مقصد اورپالیسیوں کا خلاصہ کیاگیااوراس بات پر خصوصی توجہ دی گئی کہ حکومت ہند کا مقصد حیدرآباد کے عوام کے لئے ایک سیکولر حکومت قائم کرنا ہے جہاں بلحاظ مذۃب وملت ' رنگ ونسل 'تمام مساویانہ آزادی 'شہری حقوق 'ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں گے ۔ ملٹری ایڈمنسٹریشن کو یہ بات بھی واضح اورمکمل طورپر بتادی گئی ہے کہ اس کا جو فریضہ ہے وہ اس پالیسی کو روبہ عمل لانا ہے ۔ جہاں جہاں مواقع دستیاب ہو ہم نے اپنے موقف کی وضاحت بھی کردی کہ ہمارا صرف ایک خیر سگالی مشن ہے ۔ پولیس ایکشن کے بعد جو واقعات پیش آئے ہیں اس کی یہ تحقیقات کا کوئی کمیشن نہیں ہے اورنہ ہی ان واقعات کی جانچ ان کے ذمہ ہے۔ بہترفرقہ وارانہ تعلقات کو بحال کرنے کے مقصد کے تحت ہمیں ذمہ داری دی گئی ہے ۔ ساتھ ہی ہم یہ اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ہمارا دورہ کے دوران ہمارے علم میں جو باتیں آئی ہیں اور جو کچھ ہم نے دیکھا ہے اورجسے ہم نے اپنی دانست میں اہم سمجھا ہے اس کو یہاں پیش کیاگیا ہے۔
قتل اور لوٹ مار:
(2)حیدرآباد 16اضلاع پر مشتمل ایک ریاست ہے جہاں تقریباً 22ہزار دیہات ہیں۔ ان کے منجملہ سوائے تین اضلاع کے جو جزوی طورپر متاثر ہوئے ہیں( مکمل طورپر نہیں)پوری ریاست ہنگاموں سے متاثر رہی ہے ۔ابتدا میں رضاکاروں کی سرگرمیوں کے دوران اور بعد میں تنظیم کے ختم ہوجانے کے بعد جبر واستبداد کے واعقات ۔ دیگر4اضلاع میں میں حالات بے حد سنگین رہے لیکن ایسے کہ مابقی 8اضلاع میں دیکھے گئے۔ ان8اضلاع کے منجملہ بدترین طورپر جو متاثر اضلاع ہیں وہ عثمان آباد' گلبرگہ ' بیدر اورناندیڑ ۔ان چار اضلاع میں پولیس ایکشن کے بعدجن لوگوں کوہلاک کیاگیا ان کی تعداد18ہزار سے کم نہیں ۔دیگر4اضلاع اورنگ آباد' بیڑ' نلگنڈہ اورمیدک میں جن لوگوں کی جانیں گئیں ان کی تعداد کم از کم5ہزار ہوگی۔ ہمارے بہت انتہائی محتاط اندازہ کے مطابق پولیس ایکشن کے بعدجن لوگو ں کی جانیں ان کی تعداد27ہزارسے40ہزار کے درمیان ہوگی۔ ہمیں حکام کی جانب سے یہ اطلاع دی گئی کہ یہ8اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اورہمارے وفد کی خیرسگالی خدمات کی زیادہ ہے ۔اس لئے ہم نے ان اضلاع پرزیادہ توجہ دی اور اس میں ہم کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ ان اضلاع میں ہم نے باہمی رنجش کے ماحول کو دور کرنے کی ایک مخلصانہ کوشش کی۔ یہ ایک قابل ذکر پہلو ہے کہ شدید طورپر متاثرہ8کے منجملہ 4اضلاع(عثمان' گلبرگہ' بیدر اور ناندیڑ) راضکاروں کا گڑھ رہا۔ ان چاروں اضلاع کے عوام رضاکارو ں کے ہاتھوں کافی متاثررہے۔ قاسم رضوی کا آبائی ٹاؤن لاتور جو ایک بڑا تجارتی مرکز رہا جو دولت مند کچی مسلم تاجرو ں سے بھرا پڑاتھا ۔ اس ٹاؤن میں 20دن سے زائد قتل عام جاری رہا۔ اس ٹاؤن میں10ہزار سے زائد مسلمانوں کی آبادی تھی۔ ہم نے دیکھا کہ یہاں اب بمشکل3ہزار مسلمان بھی نہیں ۔ ہزار سے زائد قتل کردیئے گئے او رمابقی اپنی جان بچاکر یہاں سے بھاگ نکلے اورکل کے یہ مالدار مکمل طورپر قلاش ہوگئے۔
دیگر جرائم:
(3)تقریباً تمام مقامات پر متاثرہ علاقو ں میں فرقہ وارانہ جنون صرف قتل تک محدود نہیں رہا ۔ مردوں کے علاوہ عورتوں اوربچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ عصمت ریزی اور عورتوں کے اغوا( کئی واقعات میں ریاست حیدرآباد کے باہر ہندوستانی شہروں جیسے شوالاپور' ناگپور سے آکر یہ جرائم کئے گئے)لوٹ مار' آتشزدگی' مساجد کی بے حرمتی' جبری تبدیلی مذہب' مکانات اور اراضیات پر قبضے' انسانی ہلاکتوں کے علاوہ ہیں۔ کروڑہا روپئے مالیت کی املکاک لوٹ لی گئی ںیا تباہ کردی گئیں اور متاثر ہونے والے مسلمان جو دیہی علاقوں میں بے یارومددگار ایک اقلیت ہیں۔ یہ مظالم ڈھانے والے صرف وہی نہیں تھے جنہیں رضاکاروں کے ہاتھوں تکلیف پہنچی ہو اوریہ مظالم ریاست حیدرآباد کے غیر مسلموں پر نہیں تھے۔ یہ مظالم انفرادی افراد کے علاوہ عوام کے ہجوم نے بھی انجام دیئے۔ مسلح یا غیرمسلح ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ہندوستانی فوج کے ریاست حیدرآباد میں داخلہ کے ساتھ سرحد پار سے داخل ہوگئے۔ ہم قطعی طورپر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ شوالار پور سے ایک مشہور ہندو فرقہ وارانہ تنظیم سے وابستہ تربیت یافتہ اورمسلح بے شمار لوگ اورہندوستان کے دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے ان کے ساتھ ساتھ مقامی وغیرمقامی کمیونٹیوں نے ان دنو ں میں حصہ لیا اور چند علاقوں میں انہوں نے بلوائیوں کی قیادت بھی کی۔
مسلح افواج اور پولیس:
(4)ہمارے فریضہ نے ہمیں اس بات کے لئے مجبور کیا ہے کہ ہم نے ان بالکل ناقابل تردید واقعات کا بھی ذکر کریں جہاں ہندوستانی فوج اورمقامی پولیس نے کیسے لوٹ مار اور دیگر جرائم میں حصہ لیا ہے ۔ ہمارے دورہ کے درمیان ہمیں صرف چند مقامات سے نہیں بلکہ مختلف مقامات سے یہ معلومات حاصل ہوئیں کہ کیسے سپاہیوں نے ہندو ہجوم کی ہمت افزائی کی انہیں ترغیب دی اورکئی واقعات میں ان کو مجبور کیا کہ وہ مسلمانو ں کی دکانو ں اورمکانو ں کولوٹ لیں۔ ایک ضلع کے شہر میں وہاں موجود انتظامیہ کے ہندو سربراہ نے ہمیں یہ بات بتائی کہ اس مقام پر ملٹری(فوج) نے مسلمانو ں کی دکانوں کو کھلے عام لوٹ لیا ہے ۔ ایک دوسرے ضلع میں مسلمانوں کے مکانات اور دیگر املاک کو سپاہیوں نے لوٹ لیا اورایک تحصیلدار کی بیوی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ لڑکیوں کے اغوا اوران کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی بے شمار شکایتیں بالخصوص سکھ سپاہیوں کے خلاف حاصل ہوئی ہیں۔ یہ واقعات بڑے پیمانے پر کئے گئے ۔ ہمیں مختلف مقامات پر یہ بات بتائی گئی کہ لوٹی گئی املاک میں سے ملٹری نے سونا' نقد'چاندی ودیگر قیمتی اشیا اپنے پاس رکھ لیں اور مابقی اشیا ہجوم کے حوالے کردیا۔ بدبختی کی بات یہ ہے کہ مسلح فوج کے ایسے کئی عناصر پائے گئے جو فرقہ وارانہ تعصب سے پاک نہیں ہیں۔ اس کی شائد یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ مختلف علاقوں میں ان کے لواحقین پر جو مظالم ڈھائے گئے ہوں شاید وہ ان کو بھلانہ پاسکے۔ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہندوستانی فوج اور حیدرآباد میں اس کے عہدیدار ان قابل لحاظ حد تک بہتر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہندوستانی فوج اپنے اعلیٰ معیار اور ڈسپلن اور فرض کی ادائیگی میں منہمک ہے۔ جنرل چودھری میں کوئی فرقہ وارانہ تعصب ہم نے نہیں دیکھا ۔وہ ایک پابند ڈسپلن اور ایک شریف النفس انسان ہیں۔ ڈھائے گئے مظالم کے اس خلاصہ کوختم کرنے سے پہلے ہم یہ عہد واثق کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ بیان ہے وہ یوں ہی نہیں اور نہ ہی حقائق کے مغائر' ہم مکمل ذمہ داری کے ساتھ اس کو پیش کئے ہیں۔ ہم نے جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ہمیں نہ صرف متاثرین بلکہ ان کے دوست احباب اوربالکل قابل اعتبار فریقوں نے جن کا تعلق ہندوؤں اور مسلمانوں سے ہے 'نے ہمیں بتایا ہے ۔ کانگریس کے حمایتی معروف ہند وافراد رضاکاروں کے مخالف مسلمان' سرکاری عہدیدار موجود ہ انتظامیہ سے واسبتہ افراد' کئی انفرادی شخصیتوں نے جو کچھ ہم سے بیان کیا ہے او رہم نے مکمل غوروخوض سے جن کی سمعات کی ہے اس کے بعد ہی ہم 'ہمارے اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔ شواہد کی تفیصلات میں جانے سے ہم نے احتراز کیا ہے ۔ جس طرح سے ہم سے خواہش کی گئی ہے کہ اسی کی بنیاد پر ہم نے کام انجام دیا ہے ۔ اگر ایسی خواہش کی جاتی ہے تو ہم وہ تمام مناسب وموزوں مواد جسے ہم نے اکھٹا کیا ہے 'آپ تمام کے سامنے پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ پیچھے بیان کردہ صفحات میں ہم نے جو مایوس کن تصویر پیش کی ہے اس کے باوجود فرقہ وارانہ تناؤ کے سیاہ بادلوں کے درمیان امید کی کچھ کرنیں بھی دیکھی گئی ہیں۔ چند ایسے بھی واقعات ہوئے ہیں جہاں مسلمانوں کی ہندوؤں نے مدافعت کی ہے۔ ہندوؤں نے اپنے مسلم پڑوسیوں کے تحفظ کوفراہم کیا ہے۔ اپنی جان پر کھیلتے ہوئے مسلم مرد' عورتوں کی زندگی بچائی ہے ۔ ایک ہی پیشہ سے وابستہ طبقات میں ایسے واقعات دیکھے گئے ہیں۔ مثال کے طورپر ایک مقام پر ہندو بافندوں نے اپنے مسلم بافندوں کو ہندو بلوائیوں سے بچایا اور اس کی حفاظت کی بھاری رقم(بشمول جان پر کھیل کر)چکانی پڑی۔ کئی اغوا کی گئی مسلم عورتوں کوبچانے میں کئی ہندوؤں نے مدد کی۔
ہندو راج اورمسلم راج
(5)یہ فرقہ وارانہ ہنگامے' پولیس ایکشن او راس کے ساتھ ہی رضاکارانہ تنظیم کے خاتمہ کے ساتھ ہی شروع ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے ذہن میں عام طوپر یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ رضاکارانہ تنظیم ہندو راج کو روکنے میں موثر ثابت ہوگی۔ حیدرآباد میں ایک ذمہ دا رحکومت کامطلب ہندو راج ہوگااو روہ اکثریتی ہندو طبقہ کی مرضی ومنشا پر محنصر ہوگی۔ مسلمان عوام اس حقیقت کو نہیں سمجھ پائے کہ چند دن پہلے ہندوؤں پر رضا کارو ں کی جانب سے جومظالم ڈھائے گئے تھے اس کا انتقام ناگزیر ہوجائے گا اورانہیں بھی اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ حیدرآباد میں مسلمانوں کی بڑی تعداد رضاکارانہ تحریک سے ہمدردی رکھتی تھی۔ ان میں سے کوئی ان کوئی ان کی برسر عام مخالفت کی ہمت نہیں کرپاتاتھا۔ رضاکاروں کی سرگرمیوں کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑے ۔ رضاکاروں کی طرح مسلمانوں کے خلاف مظالم ڈھانے والوں کا یہ ایقان تھا کہ انہیں حکام کی پوری مدد مل رہی ہے اور اس تاثر کویقین اس بات سے ملا کہ حکام کی غلطیوں کے سبب لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات پھیل گئی اور اس کی وجہ سے فرقہ وارانہ زہر بھی پھیلنے لگا۔ ہندوستانی حکومت پر شکوک وشبہات اس طرح کے واقعات کے سبب ہونے لگے۔ ہزاروں لوگوں کا قتل عام 'ہزاروں لوگوں کی زندگی کے وسائل سے محروم کردینا ان کی مشکلات ومصائب سے ایسا ہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے ۔ اس انتقامی کاروائی میں اے بے شمار متاثر ہوئے ہیں جہاں ایک شخص کی غلطی کی سزا ہزاروں کو بھگتنی پڑی۔"
The Violent tale of Fall of Hyderabad by Pundit Sunderlal Report. part-3
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں