سقوط حیدرآباد کی خون ریز کہانی - پنڈت سندرلال کی زبانی -2 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-02-03

سقوط حیدرآباد کی خون ریز کہانی - پنڈت سندرلال کی زبانی -2


Fall-of-Hyderabad-Pt-Sunderlal-Report
سقوط حیدرآباد کے ساتھ ہی جو قیامت صغری برپا کی گئی اس کاجائزہ لینے کے لئے اس وقت کے وزیراعظم ہند پنڈٹ جواہر لال نہرونے پنڈت سندرلال کی قیادت میں ایک سہ رکنی وفد روانہ کیا تھا۔ اس وفد نے جو رپورٹ تیار کی تھی اس کی ایک قسط یہاں (یکم دسمبر 2013ء کو روزنامہ اعتماد کے شمارہ جائزہ میں) شائع کی گئی۔ رپورٹ کی دوسری قسط پیش ہے۔
- ایم اے ماجد (اعتماد نیوز ، 8/ دسمبر 2013)
"ان تمام واقعات کا تعلق پولیس ایکشن سے ہے اور رضا کار تنظیم کے ختم ہونے کانتیجہ ہے۔ اس تنظیم نے مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھادی تھی کہ وہ ایک ہندو راج( سلطنت) کو قائم ہونے سے روکنے کا یک موثر ذریعہ ہے۔ عام حیدرآبادی مسلمانوں میں یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ ریاستی کانگریس جو ایک ذمہ دار حکومت کا مطالبہ کرتے ہوئے جدوجہد کررہی ہے وہ اکثریتی ہندوؤں کی منشاو مرضی پر موقوف ہوگی۔

مسلمان عوام عام طورپر اس بات کو محسوس نہیں کئے تھے کہ انہیں ہندو عوام کی جانب سے ایک ناگزیر انتظامی کارروائی سے دوچار ہونا پڑے گا۔ رضا کار جو عملی طورپر ہر حیدرآباد مسلمانوں کے ذہن میں نرم گوشہ رکھنے والی تنظیم تھی، نے چند ہفتہ قبل ہی ہندوؤں پر جو جبر و استبداد کیا تھا اس کو دیکھتے ہوئے ایک یقینی انتقامی کارروائی کا عام مسلمانوں کو ادارک نہیں ہوسکا۔ مسلمانوں میں بھی کئی ایسے لوگ اور شخصیتیں تھیں جو رصاکاروں کی سرگرمیوں کی پسند نہیں کرتی تھیں اور انہیں اس کی قیمت بھی چکانی پڑی تھی۔ ایسے مسلمان جو سقوط حیدرآباد کے حالات کو رضاکاروں کا سبب قرار دیتے ہیں وہ بھی پولیس ایکشن کیلئے حکومت ہند کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ جس طرح رضا کاروں نے جبر و استبداد کیا ایسا ہی مسلمانوں کے خلاف جنہوں نے سنگین جرائم کئے ان کے بارے میں عام مسلمان یہ مانتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف مظالم کے پس پشت موجودہ نظم و نسق ہے۔ (ہندوستانی حکومت) بدقسمتی سے جو رنگ دیا گیا ہے اس پر یقین کرنے کے واضح وجوہات بھی ہیں۔ حیدرآباد میں جو نظم و نسق قائم کیا گیا اس کی کئی غلطیوں کے سبب یہ عام تاثر دیکھا گیا ہے کہ یہ نظم و نسق فرقہ وارانہ جارحیت کا مظاہرہ کررہا ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان غیر متعصبانہ رویہ اختیار کرنے میں ہندوستانی حکومت کو جو بھروسہ پیدا کرنا چاہئے تھا ایسا محسوس نہیں ہوا ہے۔ حالانکہ ہندوستانی حکومت پر غیر متعصبانہ رویہ کی بات بے بنیاد ہے لیکن سینکڑوں ہزاروں مسلمانوں کی مشکلات و مصائب اور کئی ہزار مسلمانوں کی جانوں کا اتلاف اس سمت کی غمازی کرتا ہے کہ حکومت ہند نے غیر متعصبانہ طریقہ پر کام نہیں کیا۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی ایک شخص نے غلطی کی ہو لیکن اس کی سزا تو سینکڑوں بے قصور لوگوں کو دی گئی۔ یہی شبہات پروان چڑھتے رہے اور شکایتوں کے انبار لگ گئے۔ نظم و نسق(انتظامیہ) نے پولیس ایکشن سے قبل ریاست کی خدمات سے وابستہ رہے بے شمار ملسمانوں کو خدمات سے ہٹادیا۔ اس کی ایک فہرست (ضمیمہ) میں منسلک کی گئی ہے۔ ان مسلم ملازمین میں سے ہوسکتا ہے کہ چند ایک قصور وار ہوں یا انہوں نے عدول حکمی کی ہو لیکن بڑے پیمانے پر ملازمت سے ان کا اخراج یہی سمجھا جاتا ہے کہ چوں کہ وہ مسلمان ہیں اس لئے انہیں نکال دیا گیا ہے۔ ملازمتوں سے تنزلی کے سبب ان مسلمانوں کو کافی مشکلات سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔ ان حالات میں ایک مسلمان کی یہی سوچ ہوگی کہ اس کے خلاف سخت انتظامی کارروائی کی جارہی ہے۔ ان کی زندگی کو معمول پر لانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے ان کا مداوا نہیں کیا گیا۔ موجودہ انتظامیہ نے چند ایک موثر اقدامات کئے ہیں جس کی وجہہ سے کچھ راحت ہوئی ہے لیکن ان اقدامات کے باوجود شکوک و شبہات دور نہیں ہوئے۔ بالخصوص حکومت ہند کے اداروں سے جس کے ہاتھ میں ان کا مستقبل پنہاں ہے۔ دوسری طرف فرقہ واریت کے سنگین جو نتائج برآمد ہوئے ہیں اور جو تجربات دیکھے گئے ہیں اس سے وہ (مسلمان) غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔ فطری بات ہے کہ مسلمان بھی جیو اور جینے دو کے نظریہ پر عمل آوری چاہتے ہیں۔ موجودہ حکومت پر عدم اعتماد کی فضاء سے وہ خوشی سے باہر نکلنا چاہتے ہیں اور وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے مستقبل کیلئے (حکومت کی) کیا پالیسی ہوگی؟ میجر جنرل چودھری کے نظم و نسق کی جانب سے جو تحفظ مسلمانوں کو حاصل ہوا ہے اس سے ہمارے خیر سگالی مشن کو بڑی مدد حاصل ہوئی ہے لیکن مزید کئی ایسے اقدامات کی ضرورت تھی جس سے اعتماد بحال ہوسکتا ہے۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے ہم چند سفارشات پیش کررہے ہیں۔ چاہے یہ کتنے ہی گراں کیوں نہ ہوں، ہمارا مقصد حیدرآباد میں فرقہ ورانہ امن و ہم آہنگی کو پیدا کرنا ہے۔ ہمارا یہ مقصد نہیں کہ انتظامیہ کی جانب سے کئے گئے اقدامات پر اگلی اٹھائیں۔ ہماری سفارشات جو حسب ذیل ہیں ان کے ذریعہ موجودہ انتظامیہ کو توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ہماری بیشتر سفارشات پر انتظامیہ عمل کررہا ہو لیکن پھر بھی ہم معاملات کی فہرست پیش کررہے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ ہماری جو آراء ہے اس کے مطابق ذیل میں ترجیحی طورپر چند باتوں کی ہم سفارش کررہے ہیں جو توجہ طلب ہیں۔ 1۔ سب سے اول اور سب سے اہم اس بات کی ضرورت ہے کہ جو متاثر ہوئے ہیں ان تمام کو موزوں و مناسب راحت حاصل ہونی چاہئے۔ (الف) مکانات و اراضیات جو مسلمانوں سے چھین لی گئی ہیں انہیں دوبارہ واپس کیا جائے اور ضرروی ہوتو انہیں قابضین کے قبضوں سے پاک کرتے ہوئے مسلمانوں کے حوالے کیا جائے۔ (ب) جو مکانات تباہ برباد کئے گئے ہیں ان کی دوبارہ مرمت کرتے ہوئے انہیں رہائش کے قابل بنایاجائے۔ (ت) جن عورتوں، لڑکیوں اور بچوں کا اغوا کیا گیا ہے ان کو فوری برآمد کرتے ہوئے ان کے قانونی سرپرستوں کے حوالے کیا جائے ۔ اگر ان کے سرپرست دستیاب نہ ہوں تو حکومت ان کی دیکھ بھال اور ان کی کفالت کرے۔ انہیں زندگی گزارنے کیلئے مناسب تربیت دیتے ہوئے ان کیلئے روزگار کے مواقع فراہم کرے۔ (ج) ان تمام لوگوں کو جو اپنی روٹی روزی سے محروم ہوچکے ہیں بشمول ان تمام جن کے کاروبار تباہ ہوگئے ہیں، کیلئے سرمایہ فراہم کیا جائے، ان کے کاروبار شروع کئے جائیں وغیرہ۔ جو اس قابل نہیں ہیں انہیں ان کے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے تک کم ازکم 6مہینے جو بھی لمبا عرصہ ہوتا ہو ان کے روزہ مرہ کے گذارہ کیلئے حکومت ذمہ داری لے۔ (د) ضرورت مند زراعت پیشہ افراد کو سبسیڈی دی جائے۔ انہیں ان کی اراضیات کا قبضہ بحال کرنے ضروری مدد کی جائے۔ 2۔ مساجد کو باز آباد کیا جائے۔ تباہ شدہ مساجد کی ضروری مرمت کی جائے جو ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں ان کے حوالے کیا جائے۔ جن مساجد میں جہاں جہاں مورتیاں رکھی گئی ہیں وہاں سے مورتیوں کو ہٹادیاجائے۔3۔ جبر استبداد کے ذریعہ تبدیلی مذہب کو کالعدم قرار دیاجائے اور انہیں مذہب و عقیدہ کی پوری آزادی دی جائے۔ ان تمام سفارشات کو روبہ عمل لانے کیلئے ہم یہ مفید مشورہ دیتے ہیں کہ ایک کمیٹی جس میں سرکاری و غیر سرکاری عہدیداروں جو ہندو اورمسلمان طبقات پر مشتمل ہوں، قائم کی جائیں۔ جن مقاصد کیلئے ہم نے کمیٹی کی سفارش کی ہے اس کی عاجلانہ تشکیل ہو۔ اس حصہ میں ہماری دوسری سفارش ایچ ای ایچ دی نظام (نواب میر عثمان علی خان بہادر) سے ہے۔ نظام اپنی جیب خاص سے اپنی مسلم رعایا کی بازآبادکاری اور راحت کا کام انجام دیں۔ اس لئے کہ مسلمان بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ پنڈت سندرلال کو حضور نظام نے ملاقات کیلئے مدعو کیا تھا۔ اس ملاقات میں حضور نظام سے شخصی طورپر جب یہ بات کہی گئی تو انہوں نے پہلی ہی فرصت میں اس سے انکار نہیں کیا۔ نوٹ:۔ رپورٹ میں نیچے دئیے گئے جملہ کو لکھ کر کاٹ دیا گیا۔ (ہمارایہ ماننا تھا کہ یہ بہتر ہوگا کہ نظام شخصی طورپر اس پر رقم خرچ کرے، راحت کاری کیلئے حیدرآباد کے ادا کرنے والوں سے کچھ حاصل نہ کریں۔) تفرقہ پرداز عناصر اور غلط کام کرنے والوں کی سرگرمیوں سے فرقہ وارانہ امن کو دھکا لگ رہا ہے۔ ملٹری گورنر جنہیں سیول اڈمنسٹریشن کو مکمل مدد حاصل ہے ایسے افراد سے موثر طورپر نمٹنے کے کام میں مشغول ہیں۔ ہم اس بات کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں کہ جہاں جہاں صروری ہو وہاں سخت اختیار کردہ موقف و اقدامات میں راحت دی جائے۔ جہاں جہاں ضروری ہو بلا تامل سخت اقدامات کئے جائیں۔ ہماری دوسری تجاویز کو بناکسی تامل کے ہم پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا جو جائز فریضہ ہے اس سے ہم آگے بڑھنا نہیں چاہتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اقدامات کی اہمیت کو درپیش جوکھم کے سبب مزید حسب ذیل سفارشات منسلک کررہے ہیں۔ ہم اس بات کو پہلے ہی متوجہ کراچکے ہیں کہ مسلمانوں کے ذہن میں جو شدید حقیقی خوف ہے کہ ریاست حیدرآباد میں ایک ذمہ دار حکومت کے ہوتے ہوئے اکثریتی ہندوؤں کی مرضی و منشاء کے تحت کا انجام دے رہی ہے۔ اس تاثر کو دور کرنے کی ضرورت ہے اور ہم بہت ہی ادب کے ساتھ یہ بات کہہہ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت کے انتظامیہ کی ہےئت و شکل میں تبدیلی نہ کرتے ہوئے بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں۔ مسلمانوں کے ذہنوں سے خوف و ہراسانی کو ختم کرنے کیلئے حکومت کم ازکم تین سال (اگریہ موزوں نہیں) نظم و نسق میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔ ریاست کے نظم و نسق میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔ ریاست کے نظم و نسق کے ڈھانچے میں مسلمانوں کو شامل رکھے تاکہ ان میں اعتماد کی فضا پیدا ہو اور وہ دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ خدمت انجام دے سکیں۔ خدمات کے اعلیٰ سطح پر موثر صلاحیتوں کے لئے ۔ہم اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ سرکاری ملازمتوں میں ان کی برقراری ضروری ہے۔ خدمات میں تبدیلی سے یہ رنگ پیدا ہوگا کہ حکام کے ذہن مخالف مسلمان یا مخالف حیدرآبادی تعصب کے حامل ہیں۔آخر میں ہم ان لوگوں پر رحم کرنے کی سفارش کرتے ہیں اور جو اپنے کئے پر شرمندہ ہیں۔ خطاکار چا ہیں کتنے ہی اعلی مرتبہ کے ہوں انہیں انصاف کے کٹہڑے میں لایاجائے۔ملڑی گورنر مشتبہ عناصر کو رہا کررہے ہیں اور پکڑے گئے لگوں کی قابلک لحگظ تعداد کو چھوڑا جارہاہے لیکن جرائم کرنے والے حقیقی خطاکاروں سے ہٹ کرشک کی بنیاد پر جن لوگوں کو پکڑا گیا ہے ان کے بارے میں ہم یہ سفارش کرتے ہیں کہ ان میں اگر کوئی معافی کا طلب گار ہیو(سوائے سنگین جرائم کے ارتکاب)انہیں معافی دی جائے۔عفود درگزرسے کام لیا جائے۔انسانی بنیاد پر صبروتحمل کو ملحوظ رکھا جائے۔اس طرح کے اقدامات کئے جاتے ہیں تو حکومت ہند کے مخالف مسلم تعضب کو شبہات ہوں اس کو ختم کرنے میں آسانی ہوگی۔یہ ایک اچھا اقدام ہوگا۔اس کی شروعات کی جائے اور عملی طور پر ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے والے طبقات میں مستقل امن وہم آہنگی کی فضا پیدا ہوا

مواضعات کے نام جہاں دورہ کیا گیا۔

بیدر ضلع -
1کاوالی،-2رنجھول،-3ظہیرآباد -4 ہمناباد -5 راجہ سور

گلبرگہ ضلع-6کلیانی -7جلکوٹے

عثمان آباد ضلع -8نلدرگ -9 تلجاپور -10 عثمان آباد(مستقر) -11 دھوکی -12 تیر -13 لاتور

بیدرضلع -14چکور -15 اودگیر -16 داوینی ناند یڑ ضلع -17 قندھار -18 لوہا -19 ناندیڑ (مستقر) -20 دیگلور (مستقر) نظام آباد ضلع -21 نظام شوگر فیکٹری میدک ضلع -22 شنکرم پیٹ 23 - اولادرگ -24 چلیر -25 اندولجوگی پیٹ -26سنگاریڈی

حکومت سنٹرل پراوینس
محکمہ متّفّنہ اسمبلی
منجانب شری ایس۔ آر۔کھرابے
سپرنٹنڑنٹ
لچسلیٹیو اسمبلی ڈپارٹمنٹ

برائے
شری سندرلال
جی 40A، ہنومان روڈ،نئی دہلی
مورخہ نا گپور۔جنوری 1949ء

محترم جناب
مجھے عزت مآب شری جی ایس گپتا کی جانب سے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ آپ کے ساتھ کا غزات کی ایک زائد کاپیحوالے کی جائے۔براہ کرم اس وضول ہونے کی اطلاع دیں۔
آپ کا مخلص
دستخط
(ایس آرکھرابے)
سپرنٹنڑنٹ لچسلیٹیو اسمبلی ڈپارٹمنٹ۔


The Violent tale of Fall of Hyderabad by Pundit Sunderlal Report. part-2

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں