چائے اور اردو اخبارات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-02-17

چائے اور اردو اخبارات

Tea & Urdu newspapers
ہمارے ایک دوست کے بقول چائے اور اردو اخبارکا تعلق چولی دامن کا ہے۔
صبح کی چائے بغیر اردو اخبار کے مزہ نہیں دیتی اور اسی طرح اردو اخبار چائے کے ہوٹل میں بیٹھ کر پڑھنے میں وہ مزہ آتا ہے جو خرید کر گھر کے لان میں بیٹھ کر پینے میں نہیں آتا۔اس وقت شہروں اور قصبات میں بلکہ بازاروں میں حقیقی معنوں میں اردو کے قارئین انھیں چائے کے ہوٹلوں میں نظرآتے ہیں۔ جدھر دیکھیں ایک ایک خبر پر دسیوں لوگ سرجمائے بیٹھے بحث کرتے نظرآتے ہیں۔اور اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ پورا اخبار کسی کے پاس نہیں رہتا بلکہ دو پیج کسی کے پاس ہے تو ایک ٹکڑا کوئی اور لیے ہوئے ہے۔اردواخبار کی مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ گاؤں سے اپنی سواری کے ذریعے صرف اردواخبار ہی پڑھنے کے لیے کئی روپئے خرچ کرکے آتے ہیں اور اردو اخبار کا لطف اٹھاتے ہیں۔
ہمارے ایک دوست ہیں جنھیں الگ الگ اردو اخبار پڑھنے کے لیے کئی ہوٹلوں کا چکر لگانا پڑجاتا ہے۔اور چائے کے پانچ روپئے خرچ کرنے کے بجائے دس کا نوٹ صرف اردو اخبار پڑھنے کے لیے صرف کرنا پڑتاہے۔میرے خیال میں اس وقت ہندوپاک میں اردو کی صحیح خدمت یہی چائے کے ہوٹل والے ہی کررہے ہیں۔ سب سے زیادہ اردو اخبار انھیں ہوٹلوں میں نظر آتا ہے۔چائے کی چسکیوں کے ساتھ اخبار کا ادبی ایڈیشن پڑھنے میں جو لطف آتا ہے اس کا صحیح اندازہ شاعرو ادیب ہی لگاسکتا ہے۔ اس پر مزید لطف اُس وقت دو بالا ہوجاتا ہے جب لطیفے اور چٹکلے بھی اخبار کے گوشے میں نظر سے گذرتے ہیں۔ چائے کی تعریف میں مولانا ابو الکلام آزاد نے بہت کچھ لکھا ہے لیکن اردو اخبار اور چائے کے بارے میں شاید وہ لکھنے سے چوک گئے یا ان کی نظر اس موضو ع سے چوک گئی ورنہ وہ اس کو ضرور مو ضوع بناتے یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے دور میں لوگ اردو اخبار خریدکر پڑھا کرتے تھے یا اس وقت اخبار کی مقبولیت اس قدر نہ رہی ہو کہ لوگ اسے چائے کی ہوٹلوں میں پڑھتے ! خیر جو بھی ہو، ہماری نظر سے ابھی تک مولانا کا اس موضوع پر کوئی مضمون نہیں گذرا۔
آج لوگ ہر طرف یہ واویلا مچائے ہوئے ہیں بلکہ ہڑبونگ مچائے ہوئے ہیں کہ اردو کے ساتھ انصاف نہیں ہورہا ہے۔اردو کی تئیں حکومت مخلص نہیں ہے۔اُر دو کا رشتہ کاروبار سے کاٹ دیا جارہا ہے۔اس کے لیے کئی تنظیمیں کئی ادارے پیش پیش ہیں جو اپنی خدمات کا دم بھرتے نظر آرہے ہیں اور اردو کا رونا رورہے ہیں۔کتنے بیچارے تو ایسے ہیں جو ہندی میں تختیاں لیے ہوئے نعرے لگانے میں مصروف ہیں۔آخر اردو کی اتنی فکر کیوں لاحق ہوگئی ہے کیا اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کا چلن اردو سے زیادہ ہے ؟ یقیناًجواب نفی میں ہے ۔ اردو ایک گلوبل زبان بن چکی ہے۔ اس کے بولنے اور لکھنے والے صرف ہندو پاک میں ہی نہیں ہیں بلکہ آج پوری دنیا میں موجود ہیں۔اس کے باوجود ہمارے ملک میں ہر ہندو مسلم لیڈر اردو کی فکر میں دبلے ہوئے جارہے ہیں اور اپنی سیاست اسی زبان کے سہارے چمکانے میں لگے ہوئے ہیں۔کہیں اردو کو روزی روٹی سے جوڑنے کی بات چل رہی ہے تو کہیں اس کے مدرسے کھولے جارہے ہیں۔جب کہ حکومت کی طرف سے اردو کی خدمات میں قومی و ریاستی اکیڈمیاں بھی سرگرمِ عمل ہیں۔
خیر بات چل رہی تھی چائے اور اردو اخبارات کی ، اردو اخبارات اس وقت کثرت سے نکل رہے ہیں جتنے اخبارات دم توڑ رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ وجود میں آرہے ہیں۔گرچہ کم اخبارات کو دوام و زندگی مل رہی ہے ۔رہی بات چائے کی تو چائے پینے والوں کی تعداد میں مستقل اضافہ ہورہاہے۔ آئے دن چائے کی فضیلت و اہمیت پر ریسرچ جاری ہے ، ابھی چند دن پہلے ایک اخبار میں پڑھا کہ دن میں تین گرم چائے پینے سے دانتوں کی بہت سی بیماریاں لاحق نہیں ہوتیں۔اس سے قبل ایک تحقیق سامنے سے گزری پڑھ کر آنکھ کھلی کی کھلی رہ گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ چائے پانی کی کمی کودور کرتا ہے اس لیے جو لوگ پانی کم چائے زیادہ پیتے ہیں ان کے لیے یہ چائے ان کی صحت کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ چائے کے بارے میں مستقل تحقیق ہنود جاری ہے لیکن افسوس ہوتا ہے کہ چائے کے ساتھ اردو اخبارات کے قاری کی تعداد میں برابر کمی واقع ہورہی ہے ، سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کہ چائے پینے والوں میں تو اضافہ ہورہا ہے اور اردو اخبار پڑھنے والوں میں کمی ہورہی ہے۔میری ناقص رائے میں اس کے ذمہ دار اردو اسکول والے ہیں جو اردو کی صحیح تعلیم نہیں دے رہے ہیں۔بچوں میں اردو کی اہمیت کوٹھیک طریقہ سے اجاگر نہیں کرپارہے ہیں جس سے کہ طلباء اردو کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کو سیکھنے کی کوشش کریں۔
اردو اخبارات کے ساتھ یہی رویہ رہا تو ایک دن ایسا آئے گا جب چائے کے ہوٹل میں اردو اخبارات کے ساتھ چائے کی چسکیاں دم توڑ دیں گی۔اور اسی کے ساتھ اردو تہذیب بھی اپنی گنگا جمنی تہذیب بھی کھودے گی۔اور ہم اس میٹھی زبان سے محروم ہوجائیں گے۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ چائے کے ہوٹل والے اردو اخبارات خرید کر اپنی ہوٹل کو زینت بخشیں تاکہ چائے کے ساتھ اردو قاری میں اضافہ ہو ،اس سے چائے والوں کا بھی فائدہ ہوگا اوراردو تہذیب بھی پروان چڑھے گی۔اب قارئین کے لیے حاضرہے گرم گرم چائے کے ساتھ اردو اخبارکا ادبی ایڈیشن، اب سرخیوں پر نظر رکھتے ہوئے چسکیاں لیں !

***
salman_pbh[@]rediffmail.com
موبائل : 09341378921
نمبر26، ہینس روڈ تھرڈ فلور ، اجپشین بلاک، بنگلور۔ 560051

Tea & Urdu newspapers. Article: Abdullah Salman Riyaz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں