اردو افسانہ اور تہذیبی روایتیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-21

اردو افسانہ اور تہذیبی روایتیں

Urdu fiction and cultural traditions
تہذیب ، ایک پانچ حرفی لفظ ہے جس میں معنی و مفہوم کا ایک سمندر پوشیدہ ہے جو انسانی طرز حیات،رسم و رواج،فنون لطیفہ( ادب،فن تعمیر،موسیقی،سنگ تراشی اور مصوری)،سماجی رویہ،نشست وبرخواست،آداب گفتگو،افکار و اذکار،مذہب و فلسفہ، معاشرت،انسان دوستی،روّیہ،برتاو غرض سب کچھ تہذیب کے بنیادی اجزاء ہیں۔تہذیب و ثقافت قوموں کے تشخص کا اصل سرچشمہ ہیں۔
کسی بھی سماج کو تہذیب یافتہ بنانے میں زبان و ادب کا غیر معمولی کردار ہوتا ہے کہ زبان و ادب سے ہی نہ صرف رشتے استوار ہوتے ہیں بلکہ نسل در نسل منتقل بھی ہوتے رہتے ہیں کیوں کہ ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے اور ہر سماج کی اپنی ایک تہذیب ہوتی ہے۔افسانہ ، فسوں سے نکلا ہے مگر حقیقت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔اسی لیے پریم چند نے کہا تھا:
"تاریخ میں سب جھوٹ ہوتا ہے سواے نام کے اور افسانہ میں سب سچ ہوتا ہے سواے نام کے۔ "
افسانہ یا کہانی کی بنیاد قصّہ ہے اور ہر قصّہ میں کو نہ کوئ کردار ہوتا ہے اورہر کردار اپنے دور یا علاقہ یا زبان یا مذہب کی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کرتا ہے۔پتہ نہیں کہانی کہنے کا فن کس نے ایجاد کیا۔جس گھر میں نانی یا دادی ماں ہوتی ہیں اس گھر میں کہانیاں سفر کرتی ہیں۔یہ کہانیاں ان معصوم بچوں کی ذہنی آبیاری کرتی تھیں۔ان میں شجاعت اور حوصلہ کا جوہر بھرتی تھیں۔ خاندانی رسم و رواج،آداب گفتگو،طرز زندگی غرض تہدیب وثقافت کی لا زوال دولت سے مالامال کرتی تھیں۔ہمارے گھروں کی یہ عظیم خواتین اکثر ناخواندہ ہوتی ہیں مگر بچوں کو پڑھانے کا ہنر جانتی ہیں انہیں تہذیب و ثقافت سے جوڑنے کا فن جانتی ہیں مشکل حالات میں خود کو سنبھالنے او ر ابھارنے کے داؤ پیج سکھاتی ہیں۔ اب یہ سب کچھ افسانہ بن گئے ہیں۔آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ اگلے زمانے کے لوگ اکثر ناخواندہ ہوا کرتے تھے مگر ان کی اولادیں تہذیب یافتہ ہوا کرتی تھیں،آج ہم لوگ تعلیم یافتہ ہیں،کئی علمی ڈگریاں رکھتے ہیں اس کے باوجود آج کی نسل تہذیب و ثقافت سے کافی دور ہے۔۔۔!دراصل ہمارا موجودہ سماجی و خاندانی نظام کچھ اس انداز سے ابھرا ہے کہ بچوں کی تربیت کے لیے ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہے اس کے علاوہ تعلیمی نظام کا یہ حال ہے کہ سواے تہذیب و ثقافت کے سب کچھ پڑھایا جاتا ہے اور انہیں مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے جھونک دیا جاتا ہے۔اگر ہماری مائیں خصوصا دادی نانی ماں بچپن کی کہانیوں کی طرف توجہ دیں تو صورت حال تبدیل ہو سکتی ہے۔کیوں کہ ان کہانیوں کے توسط سے تہذیب و ثقافت اور معاشرت کے بہت سے اصول و ضوابط سیکھے جاتے ہیں۔اس طرح سے کہانی یا افسانہ تہذیبی روایتوں کی پاسداری میں بہت حد تک ممد و معاون ہوسکتا ہے۔
افسانہ کا بنیادی موضوع انسان ہے اور انسان سے جڑی ہوی ایک ایک شئے اس کے لوازمات ہیں اس لیے افسانہ سماجی حقیقتوں کو بہتر طور پر پیش کرتا ہے۔ پروفیسر قمر رئیس کا خیال ہے کہ ہر ادبی تخلیق خواہ وہ کسی بھی باطنی تجزیے یا داخلی حقیقت کا اظہار ہو، اس کا پیرایۂ بیان کتنا ہی نازک اور تہہ دار ہو کسی نہ کسی سماجی صورت حال کا عکس ہوتی ہے اس پر تبصرہ بھی ہوتی ہے اور اس کی تفسیر بھی تنقید بھی"(تلاش و توازن ص ۹)
افسانہ سماجی حقیقت نگاری اور تہذیب و ثقافت کی پیش کشی کا سب سے بڑا وسیلہ ہے اس مختصر سے مقالے میں صرف دو چار افسانہ نگاروں کا ہی تذکرہ کیا جاسکتا ہے جنھوں نے افسانوں کے ذریعے تہذیبی روایتوں کو آگے بڑھایا۔ اردو افسانے میں سماجی حقائق کو سب سے پہلے پیش کرنے والے منشی پریم چند ہیں۔جنھوں نے شمالی ہند کے دیہاتی معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں کو افسانوں کا موضوع بنایا جس کے توسط سے اس دور کی زبان ،تہذیب،تمدن،مذہب،عقیدہ،رہن سہن حتٰی کہ طبقاتی
کشمکش سماجی نا ہمواریاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ محض سماجی حقیقت نگاری کے بل بوتے پر ہی پریم چند نے اردو افسانہ پر چار دہوں تک حکمرانی کی ہے۔ان کا ایک مشہور افسانہ "نجات" کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو جس میں ہندوستانی تہذیب و تمدن کے مختلف مظاہر دیکھے جاسکتے ہیں۔
" پنڈتانی چمٹے سے پکڑ کر آگ لائ تھیں۔انہوں نے پانچ ہاتھ کے فاصلہ پر گھونگھٹ کی
آڑ سے دکھیؔ کی طرف آگ پھینکی۔ایک بڑی سے چنگاری اس کے سر پر پڑی۔جلدی
سے پیچھے ہٹ کر جھاڑنے لگا۔اس کے دل نے کہا۔یہ ایک پاک برہمن کے گھر کن ناپاک
کرنے کا نتیجہ ہے۔بھگوان نے کتنی جلدی سزا دے دی ۔ اسی لیے تو دنیا پنڈتوں سے ڈرتی
ہے اور سب کے روپے مارے جاتے ہیں۔برہمن کے روپے کوئ مار تو لے۔گھر بھر کا
ستیاناس ہوجاے۔ہاتھ پاوں گل گل کر گرنے لگیں۔"
پریم چند کے بعد بیشتر افسانہ نگاروں نے ان کی روایات کو برقرار رکھا۔کرشن چندر، ترقی پسند تحریک کا سب سے بڑا افسانہ نگار اور مبلغ ہے انہوں نے سماج کے نہایت اہم اور سلگتے ہوے مسائل کو افسانوں میں پیش کیا۔ان کا ایک مشہور افسانہ "کالو بھنگی" ہے جس کا ایک اقتباس یہاں نقل کیا جارہا ہے جو بظاہر آمد نی و خرچ کا بہی کھاتہ لگتا ہے مگر اس کے توسط سے کرشن چندر نے ایک مخصوص طبقے کی تہذیبی،وثقافتی اور معاشرتی سچّائیاں بیان کی ہیں۔
"اچھا یہ بتاؤ تم تنخواہ لے کر کیا کرتے ہو؟ہم نے دوسرا سوال پوچھا۔
تنخواہ لے کر کیا کرتا ہوں۔وہ سوچنے لگتا ۔آٹھ روپے ملتے ہیں۔وہ انگلیوں پر گننے لگتا ہے
"چار روپے کا آٹا لاتا ہوں۔۔۔ ایک روپے کا نمک،ایک روپے کا تمباکو۔۔۔آٹھ آنے کی چاے،
چار آنے کا گڑ،چارآنے کا مصالحہ، کتنے روپے ہوگئے چھوٹے صاحب"۔"سات روپے"
ہاں سات روپے۔۔۔ہر مہینے ایک روپیہ بنیے کو دیتا ہوں۔اس سے کپڑے سلوانے کے لیے
روپے کرج لیتا ہوں۔سال میں دو جوڑے تو ہونے چاہئیں۔کمبل تو میرے پاس ہے۔خیر۔
لیکن دو جوڑے تو ہونے چاہئیں اور چھوٹے صاحب، کہیں بڑے صاحب تنخواہ میں ایک روپیہ
بڑھادیں تو مزہ آجاے گا۔"
وہ کیسے ؟
گھی لاؤں گا ایک روپے کااور مکی کے پراٹھے کھاوں گا،کبھی پراٹھے نہیں کھاے، مالک۔ بڑا جی
چاہتا ہے"

محمد سعادت حسن منٹوؔ ، اردو افسانے کا سب سے بڑا نام ہے۔منٹو نے کئ ایک افسانے لکھے جو بدنام یا مشہور ہوے۔ آج منٹو کو گزرے ہوے اٹھاون سال بیت گئے۔وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ آج پھر سے منٹوکا مطالعہ کیا جاے کیوں کہ ان افسانوں سے کہیں زیادہ جنسی بے باکی اور فحش نگاری ہم افراد خاندان کے ساتھ بیٹھ کر فلم،سیریلس اوراشتہارات میں دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔اوراس پر کسی کو کوئ اعتراض نہیں ہوتا شائد یہی وجہ ہے کہ ہم منٹو صدی منانے پر مجبور ہوے ہیں اور اب منٹو بدنام نہیں بلکہ مشہور ہوا ہے۔منٹو کی لفظیات پر کسی کو اعتراض ہو سکتا ہے مگر افسانوں کے تھیم پر نہیں۔منٹو بنیادی طور پر طوائفوں کا وکیل ہے۔ اور طوائف تو ہماری تہذیب کا ایک لافانی جز رہا ہے تبھی تو لکھنو کے روساء و امراء اپنے بچوں کو تہذیب و معاشرت سکھانے کے لیے طوائفوں کے کوٹھے پر بھجوایا کرتے تھے۔ منٹو کا کہنا ہے کہ ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی مگر ہر ویشیا عورت ہوتی ہے ۔ ’ ’ بابو گوپی ناتھ "ایک ایسی طوائف کی کہانی ہے جو کئ افراد کے ساتھ زندگی گزارتی ہے مگر اس کے دل میں دلہن بننے کی خواہش اپنی جگہ برقرار رہتی ہے ۔ ’ ’کالی شلوار" ایک ایسی عورت کا افسانہ ہے جو جسم فروش ہے مگر محرم کے موقع پر وہ سوگ مناتی ہے اور کالی شلوار زیبِ تن کرنا چاہتی ہے۔"ہتک" میں سوگندیؔ ایک ایسے کردار کا نام ہے جو طوائف ہے۔جسم فروشی کا کاروبار کرتی ہے مگر اپنے حسن کی تذلیل برداشت نہیں کرتی۔"ٹھنڈا گوشت"ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو وحشی ہے۔عورتوں کا رسیّا ہے مگر انسانیت کا چھوٹا سا جذبہ اس کے دل میں بھی موجود ہے جب اسے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک سوئ ہوئ لڑکی سے نہیں بلکہ لڑکی کی لاش سے منہ کالا کیا ہے تو اس کی ساری مردانگی ہمیشہ کے لیے کافور ہوجاتی ہے۔"کھول دو" ا ن شرفاء کی کہانی ہے جو ملک کے بٹوارے کے بعد رفیوجی کیمپوں میں رفاہی کام انجام دیتے ہیں مگر اپنے ہی قوم کی کوئ حسین لڑکی مل جا ے ہے تو اس کی متواتر عزت لوٹنے میں کوئ غیرت محسوس نہیں کرتے۔یہ افسانہ تہذیبی اقدار کی پامالی کی بہترین مثال ہے ۔ نفرت اور انتقام ، ۔۔۔یہ۔دو منفی جذبے ہیں جب کسی انسان میں پیدا ہوتے ہیں تو اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کب انسان سے حیوان بن گیا ہے۔
عصمت چغتائ نے بھی متوسط عورتوں کے نفسیاتی الجھنوں پر افسانے لکھ کر مسلم سماج کی چند پوشیدہ حقیقتوں کو بیان کیا ہے ۔البتہ راجندر سنگھ بیدی نے اپنے افسانوں کے ذریعے ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور ان کی روایتوں کو فنی نقطہ نظر سے پیش کیا ہے۔انہوں نے بڑے معرکہ کے نفسیاتی افسانے لکھے۔قراۃ العین حیدر، اردو کی ایک جینئس افسانہ نگار ہے انہوں نے نہایت باریک بینی سے سماج کا مطالعہ کیا اور اپنے کرداروں کے توسط سے سماجی حقیقتوں کو پیش کیا۔دیش کی آزادی یا بٹورے کے دوران جو کچھ ہوا اس کو اردو افسانہ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیا ہے۔عصر حاضر کے افسانے بھی دور حاضر کی تہذیب و تمدن کے آئینہ دار ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ اپنی تہذیبی روایتوں سے رشتے استوار کرتے رہیں گے۔

***
dramsf[@]yahoo.com
موبائل : 09849377948
مکان نمبر: 537-9-16 ، نزد واٹر ٹینک ، قدیم ملک پیٹ ، حیدرآباد - 500036۔
ڈاکٹر فضل اللہ مکرم

Urdu fiction and cultural traditions. Article: Dr. Syed Fazlullah Mukarram

5 تبصرے:

  1. ڈاکٹر فضل اللہ مکرم صاحب واقعی بہت ہی منفرد انداز میں آپ نے یہ مضمون تحریر کیا ھے
    میرے حساب سے آپ نے اپنے اس مضمون میں سعادت حسن منٹو کو بہترین طریقہ سے خراج پیش کیا ھے اور ان کے شاہکار افسانوں کی مثال واقعی قابل تعریف ھے میں بھی ھمیشہ سے ہی مانتا آیا ھوں کہ سعادت حسن منٹو کو فحش نگار کہنا ان کے خلاف زیادتی کے سواء اور کچھ بھی نہیں ہے ۔۔ میری جانب سے تہہ دِل سے مبارکباد پیش ھے

    جواب دیںحذف کریں
  2. سر G!آپ کے مضامین بہت ہی شاندار ہوتے ہیں۔میں خامہ بگوش کے بعد آپ کے مضامین اتنی دلچسپی سے پڑھتی ہوں۔چاہے وہ تبصرے ہوں یا تنقیدی/تجزیاتی مضامین,آپ خامی اور خوبی اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ قاری مجبور ہوجاتا ہے اس مصنف کی کتاب یا مضمون پڑھنے کو یعنی ایک معنوں میں آپ قاری کو اکساتے ہیں کتاب پڑھنے کو۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. پتہ نہیں آپ نے کیا سوچ کر یہ لکھا ہے ۔یہ تبصرہ نہیں مضمون ہے۔کچھ تو پڑھ لیا کیجیے ۔ورنہ مکرم نیاز صاحب کو برا لگے گا ۔

      حذف کریں
    2. یقینا یہ مضمون ہی ہے۔میں نے دوسرے اور مضامین اور تبصروں کا ذکر کیا ہے۔ہم نے اپنی بات کی ہے کسی کو بھلا لگے کہ برا۔۔۔۔۔۔۔۔۔:(

      حذف کریں