امریکی سخت گیری کو سبق سکھانے کا موقع - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-21

امریکی سخت گیری کو سبق سکھانے کا موقع

امریکہ میں ہندوستانی سفیر کے ساتھ ہورہی زیادتیوں میں حکومت ہند کی جانب سے قائم کئے گئے سفارتی دبا کے بعد امریکہ ضد میں کچھ کمی آئی ہے۔ امریکی محکمہ انصاف نے ہندوستانی سفارتکار دیویانی کھوبرا گاڈے کے اوپر ویزا فراڈ کا الزام عائد کرکے ان کو پریشان کرنے کی مہم چلا رہی ہے۔
ان کو گرفتار بھی کیا گیا اور ان کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کیا گیا جیسے ایک ملزم کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اب معاملہ طول پکڑ گیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ہندوستان کے سکیورٹی صلاح کار سے گفتگو کی، اس کے بعد سے امریکی محکمہ خارجہ کے بڑے افسروں نے ہندوستان میں اپنے ہم رتبہ افسروں سے رابطہ قائم کیا ہوا ہے۔ عام طورپر امریکہ کے افسر ترقی پذیر ممالک کے شہریوں کے ساتھ عجیب و غریب طرح کا سلوک کرتے رہے ہیں اور کامیاب ہوتے رہے ہیں۔
ہندوستان کے بڑے سے بڑے افسر اور اہم شخصیات کو امریکہ کے ہوائی اڈے پر ذلیل کیا جاچکا ہے۔ معروف فلم اداکار شاہ رخ خان اور ہندوستان کے اس وقت کے وزیر دفاع جارج فرنانڈیز کا معاملہ سب کو معلوم ہے۔
ہندوستانی سفارت کار دیویانی کھوبرا گاڈے کے ساتھ نیویارک میں جو کچھ بھی ہوا ہے، اس سے انتقام کے جذبہ کی بو آتی ہے۔ سیدھا سا معاملہ ہے کہ دیویانی کھوبر گاڈے نے ایک عورت کو ہندوستان سے لے جاکر اپنے گھر پر ملازم رکھا اور اس کو تمام قوانین پر عمل کرتے ہوئے کام دیا۔ درمیان میں ہند نژاد ایک امریکی وکیل آگئی۔ وہ وکیل وہاں کی حکومت کے محکمہ قانون میں بڑے عہدہ پر ہے۔ اس نے ایسا معاملہ بنادیا جیسے نیویارک کے ہندوستانی مشن کی سب سے بڑی افسر دیویانی کھوبرا گاڈے نے کوئی ایسا جرم کیا ہو جس کیلئے بہت بڑے پیمانے پر قانونی اور پولیس کارروائی کی ضرورت ہو۔ پریت بھرارا نام کی ہند نژاد اس امریکی افسر نے اپنی سرکار کو اتنی مشکل میں ڈال دیا ہے کہ اب امریکہ کے بڑے افسران معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہندوستانی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس امریکی کارستانی کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ سرکار نے یہاں کام کرنے والے امریکہ سفارت کاروں کو دی گئی بہت ساری مراعات ختم کردی ہیں، جو ویانا کنونش کے بعد جاری کردی گئی تھیں۔
مثال کے طورپر امریکی سفارت کاروں کو ہندوستانی کے ہوائی اڈے پر آنے جانے کیلے خصوصی پاس دئیے گئے تھے وہ سب واپس لے لئے گئے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ایک بڑی افسر وینڈی شرمن نے ہندوستانی خارجہ سکریٹری سجاتا سنگھ بات کرکے صفائی دی ہے کہ وہ امریکی وکیل پریت بھرارا کے اس بیان سے متفق نہیں ہیں جس میں انہوں نے کہا ہے کہ معاملہ میں شکایت کرنے والی عورت کے شوہر کو ہندوستان سے بچا کر لایا گیا ہے۔ اس سے قبل ہندوستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان سید اکبر الدین نے پریت بھرارا کے بیان پر غصہ کا اظہار کیا تھا اور بھرارا کو تنبیہ کی تھی۔ انہوں نے کہاکہ جب ہندوستان میں ملازمہ کے اوپر ایک مقدمہ چل رہا ہے، تو اس کے کنبے کو خاموش طریقے سے امریکہ لے جانا درست نہیں ہے۔ پریت بھرارا نے ہندوستانی عدالتی نظام پر بھی غیر مہذب تبصرہ کیا تھا۔ بہرحال اب معاملہ ایسے موڑ پر آگیا ہے کہ پریت بھرارا کی ملازمت تو جائے گی ہی، ایسا لگتا ہے ان کو جیل کی ہوا بھی کھانی پڑ سکتی ہے۔
دیویانی کھوبرا گاڈے کا معاملہ اس قدر طول پکڑ چکا ہے کہ اب حکومتوں اور دیگر افراد کے بیانات ہی خبر بن رہے ہیں۔ پورے معاملہ کی اطلاع اب ردعمل سے ہی آرہی ہے۔ ایسی حالت میں یہ ضروری ہے کہ تمام باتوں کو ایک بار سلسلہ وار طریقہ سے سمجھاجائے۔

سال بھر پہلے ہندوستانی سفیر دیویانی کھوبرا گاڈے نے نئی دہلی میں ایک ملازمہ کو بھرتی کیا اور اس کو ساتھ لے کر نیویارک پہنچیں۔ قریب 7 ماہ بعد 23 جون 2013ء کو وہ لڑکی گھر سے باہر گئی اور واپس نہیں آئی۔ اس کے شوہر سے جب دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہاکہ ان کو نہیں معلوم ہے کہ وہ کہاں ہیں لیکن کچھ دن بعد ہی پتہ چل گیا کہ وہ ملازمہ وہیں نیویارک میں ہی کہیں ہے۔ کیونکہ اس نے ہندوستانی سفارتکار دیویانی کھوبرا گاڈے کو فون کرکے بتایاکہ وہ کہیں اور ملازمت کرنا چاہتی ہے ، اس کیلئے اسے اجازت چاہئے۔ دیویانی نے اس کو بتایاکہ اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ وہ غیر قانونی ہوگی۔
24 جون 2013ء کو ہی امریکہ میں متعلقہ افسران کو اسے تلاش کرنے کیلئے عرضی دے دی گئی تھی۔ 8 جولائی 2013ء کو اس کا پاسپورٹ اور سفارتخانہ کی طرف سے دیا گیا شناختی کارڈ منسوخ کردیا گیا۔ نیویارک پولیس نے ہندوستانی سفارتکار دیویانی کھوبرا گاڈے کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا، جب انہوں نے اپنی ملازمہ کی گمشدگی کی رپورٹ لکھوانے کی کوشش کی تھی۔ ان کو بتایا گیا کہ ملازمہ کے کسی رشتہ دار کو ہی رپورٹ درج کرانے کا اختیار ہے۔ لیکن اس کے شوہر رچرڈ نے رپورٹ درج کرانے سے انکار کردیا۔ کافی کوشش کے بعد نیویارک پولیس میں رپورٹ درج کرائی جاسکی۔
یکم جولائی 2013ء کو معاملہ کا انکشاف ہوگیا کہ جب ملازمہ کی وکیل نے دھمکی آمیز فون کیا اور کہاکہ ہندوستانی سفارتکار دیویانی کھوبر گاڈے کے اوپر ملازمہ نے مقدمہ کرنے کی اسکیم بنالی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہوا۔ مقدمہ سے بچنے کیلئے کچھ شرطیں رکھی گئیں۔ شرطیں تھیں کہ دیویانی کھوبرا گاڈے اس ملازمہ سنگیتا رچرڈ کے ساتھ ہوئے ملازمت کے کنٹریکٹ کو منسوخ کردے، اس کو سرکاری ویزا کے بجائے ایک عام ویزا دلوائے اور 19 گھنٹے یومیہ کے حساب سے باقاعدہ تنخواہ دے۔ دیویانی نے انکار کردیا اور کہاکہ جو بھی فون کررہی ہے، وہ اپنا نام بتائے، لیکن اس نے فون کاٹ دیا۔
8 جولائی 2013ء کو دیویانی کھوبرا گاڈے کوامگیریشن معاملہ کے ایک وکیل کے دفتر میں صلح کرنے کیلئے بلایا گیا۔ وہ اپنے افسران کے ساتھ وہاں گئیں۔ وہاں سنگتیا رچرڈ پہلے سے ہی موجود تھیں۔ ان سے10 ہزار ڈالر کا مطالبہ کیاگیا۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ سرکاری پاسپورٹ کے بجائے ایک عام ہندوستانی پاسپورٹ بنوایا جائے اور امریکہ میں رہنے کیلئے امیگریشن کیلئے تعاون کیا جائے۔ ہندوستانی افسروں نے ملازمہ سنگیتا رچرڈ کو صاف طورپر بتادیا کہ ان کو غیر قانونی طریقے سے امریکہ میں نہیں رہنا چاہئے۔ ان کو واپس ہندوستان چلے جانا چاہئے اوراگرتنخواہ کے بارے میں کوئی تنازعہ ہے، تو اس کو سفارت خانے میں آکر طے کرلینا چاہئے۔ سنگیتا رچرڈ نے صاف طورپر انکار کردیا اور کہاکہ وہ امریکہ میں ہی رہنا چاہتی ہیں۔ ہندوستانی سفارت کار دیویانی کھوبرا گاڈے نے اس سارے معاملہ کی اطلاع نیویارک پولیس کو دے دی، لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ دیویانی کھوبرا گاڈے نے ہندوستان میں بھی اس کیس میں جو بھی قانونی طورپر ضروری تھا، سب کچھ کیا۔ اب تک سارے سلسلہ واقعات کو دیکھنے سے پتہ چلتاہے کہ سنگیتا رچرڈ اور ان کے شوہر فلپ رچرڈ ایک اسکیم کے تحت کام کر رہے تھے۔ اس دوران ہندوستان میں بھی گھریلو ملازمین کیلئے کام کرنے والی تنظیموں نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت ہند کی افسر دیویانی نے اپنے گھر میں کام کرنے والی عورت کو مزدوری ہضم کرنے کی کوشش کی اور جب یہ بات کھل گئی تو اس کو سیاسی طاقت کے زور پر سفارتی افسروں کا معاملہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
مرکزی حکومت اس طرح کی تنقیدسے فکر مند نہیں ہے۔ وزیر خارجہ سلمان خورشید نے پارلیمنٹ میں بیان دیا ہے کہ امریکہ کی زور زبردستی کی پالیسی کو ہندوستان کے مفاد کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور دیویانی کے ساتھ انصاف کریں گے۔ اب جبکہ امریکی افسر نرمی سے بات کرنے لگے ہیں، ہندوستان کے افسر صاف طورپر کہنے لگے ہیں کہ جب تک امریکی انتظامیہ معافی نہیں مانگتا، اس وقت تک مسئلہ سلجھنے والا نہیں ہے۔
صحیح معنی میں بین الاقوامی تعلقات کے نئے پیمانے شروع ہوچکے ہیں۔ سرد جنگ کے بعد کی سیاست میں امریکہ پہلے سے کمزور ہوا ہے اور ہندوستان مضبوط ہوا ہے۔ آج امریکہ کے حکمراں ہندوستان کی بات کو آسانی سے نظر انداز نہیں کرسکتے۔ ایسی صورت میں ہندوستان نے بھی سخت رخ اختیار کرلیا ہے۔ اب سرکاری طورپر کہا گیا ہے کہ جب تک امریکہ معافی نہیں مانگ لیتا،اس وقت تک ہندوستان کے رخ میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
امریکہ کی عادت ہے کہ وہ ہندوستان کو بھی دیگر ترقی پذیرممالک کی طرح سمجھے۔ ابھی 5 سال قبل تک وہ ہندوستان اور امریکہ کو برابر سمجھ رہاتھا لیکن اب امریکہ کو بھی معلوم ہے کہ وہ ہندوستان کو ناراض نہیں کرسکتا۔ ایسی صورت میں دیویانی کے معاملہ میں اس کو جھکنا پڑے گا لیکن معافی مانگنے کی بات شاید بڑی بات ہے۔ معافی مانگنے کی بات تو ممکن نہیں معلوم ہوتی لیکن اتنا طے ہے کہ آنے والے وقت میں امریکی افسران ہندوستان کے تعلق سے سنبھل کر بات کیا کریں گے۔

شیش نارائن سنگھ

Opportunity to teach a lesson to U.S oppressiveness. Article: Shesh Narain Singh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں