ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں اردو تحقیق - شاہانہ مریم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-06-26

ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں اردو تحقیق - شاہانہ مریم

کتاب کا نام : ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں اردو تحقیق
مصنفہ : شاہانہ مریم ۔ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی
صفحات : 412 مجلد قیمت : 450 روپیے
ناشر : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤز۔نئی دہلی
تبصرہ نگار : ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم۔ حیدرآباد

تحقیق ، آج اردو ادب کا المیہ بھی ہے اور فیشن بھی۔ المیہ اس طرح سے کہ اب جامعاتی تحقیق کا معیار باقی نہیں رہا اور فیشن اس طرح سے کہ اب ہر کوئ پی.ایچ.ڈی. کرنا چاہتا ہے.ادھر ایم اے مکمل ہوا ادھر پی.ایچ.ڈی کے لیے دوڑ دھوپ شروع ہوگء۔اللہ سلامت رکھے سنٹرل یونیورسٹیز کو جہاں اسکالرشپ کے نام سے ایک بدعت شروع ہو گئ ہے جو ماہانہ ایک فیملی پنشن سے کم نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے داخلہ کے لیے ایک لمبی قطار لگی رہتی ہے پھر امیدوار کا حسب نسب،رنگ و روپ اور لب و لہجہ دیکھ کر پہلے اسے اپنا مرید بنایا جاتا ہے پھر داخلہ دیا جاتا ہے تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آے۔پہلے تقررات کے ضمن میں یہ مراحل درپیش تھے اب تو داخلہ کے لیے اسی پل صراط سے گزرنا پڑتاہے تبھی تو جسے داخلہ ملتا ہے وہ ڈاکٹر بن کر ہی نکلتا ہے.جامعاتی تحقیق سے متعلق رشید حسن خاں کا خیال ہے کہ “ ہماری یونیورسٹیاں تحقیقی مقالوں کے کارخانوں کی حیثیت اختیار کرچکی ہیں، طلباء کے علاوہ دانش گاہوں کے اساتذہ بھی حسب توفیق اس شمار میں اضافہ کرتے رہتے ہیں اور یہ حقیقت ہے اس کثرت اور تیز رفتاری نے پستی معیار کو عام کردیا ہے"

شاہانہ مریم ، شعبہء اردو حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کی ایک ذہین طالبہ ہے، انہوں نے ایم.فل کا مقالہ" ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں اردو رتحقیق" کو بہت جلد کتابی شکل دے کر ایک اہم کام انجام دیا ہے جس کے لیے وہ مبارک باد کی مستحق ہیں.ویسے اسی موضوع پر ڈاکٹر کلیم الحق قریشی نے ایم فل کے لیے 1985ء میں مقالہ تحریر کیا تھا۔کتاب کا پیش لفظ پروفیسر انورالدین کا لکھا ہوا ہے علاوہ ازیں مصنفہ نے ایک مربوط و مبسوط مقدمہ لکھ کر کتاب کی اہمیت و افادیت میں اضافہ کیا ہے.وہ حوصلہ جٹاکر لکھتی ہیں “ ہماری یونیورسٹیوں میں تحقیقی معیار کی پستی کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ ایسے اسکالرز جو تحقیق سے فطری وابستگی نہیں رکھتے ، کسی نہ کسی سیاسی مصلحت کے تحت یا پھر اہل اقتدار سے ذاتی وابستگی کی وجہ سے انھیں جامعات میں داخلہ مل جاتاہے۔اس کے برعکس ذہین اور با صلاحیت اسکالرز تحقیق سے فطری لگاؤ اور وابستگی کے باوجود بھی دانش گاہوں میں داخلہ سے محروم ہوجاتے ہیں.اس قسم کی علمی بد دیا نتی ہماری دانش گاہوں کی روش عام ہوگئ ہے. جس سے نہ صرف مستحق طلباء اور ہونہار اسکالرز داخلہ سے محروم اور مایوسی کا شکارہو رہے ہیں۔بلکہ تحقیق کا معیار بھی پست ہوتاجارہا ہے"(ص28)

مصنفہ نے اپنے مقدمہ میں ہی یونیورسٹیوں میں کی جانے والی تحقیقی موضوعات کی زمرہ بندی بھی کی ہے اور اس کے تحت یونیورسٹیوں میں داخل کیے گئ اہم مقالوں کی فہرست بھی دی ہے جن میں کچھ اہم نام سامل ہونے سے رہ گئے ہیں۔صحافت کے زمرے میں راقم کے مقالہ کوشامل فہرست نہ کرنا کوئ حیرت کی بات نہیں ہے مگر د کنیات کے تحت پروفیسر محمد علی اثر کا نام نہ لکھنا یقیناًایک ادبی بددیانتی ہے.زیر نظر تصنیف میں تقریبا (72) یونیورسٹیز کی ایک فہرست انگریزی حروف کی ترتیب پر بنائ گئ ہے جہاں پر اردو میں ایم فل ، پی ایچ ڈی اور ڈی ۔لٹ کی سہولت میسر ہے.ہندوستان میں سب سے پہلے اردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دینے کا اعزاز الہ آباد یونیورسٹی کو حاصل ہے جس نے 1942ء میں ڈاکٹر رفیق حسن کے مقالہ “اردو غزل اور اس کی نشوونما 1857ء تک"کو عطا کی ۔جبکہ اردو میں چوتھے پی ایچ ڈی کا اعزاز جامعہ عثمانیہ کے ڈاکٹر حفیظ قتیل (مقالہ:اردو غزل کا ارتقا۔1947ء) کو حاصل ہے۔ بہر حال یہ تمام تفصیلات کو مصنفہ نے خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

مصنفہ نے کئ ایک ذرائع سے معلومات اکھٹا کی ہیں ہر یونیورسٹی کے تحت داخل کیے گئ مقالوں کے موضوعات ، مقالہ نگار،نگران کا ر کے نام اورسن ایوارڈ بھی درج کیے گے ہیں۔مگر یہ فہرست سنین کے لحاظ سے ترتیب دی جاتی تو بہتر ہوتا کہیں کہیں اس کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ہر یونیورسٹی کے آخر میں جس ذریعہ سے فہرست حاصل کی گئ ہے اس کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔لیکن تحقیق کا مرحلہ یہیں ختم نہیں ہوتابلکہ موصولہ فہرست کی جانچ پڑتال بھی ضروری ہے۔مثلا جامعہ عثمانیہ کے تحت اردو میں تبصرہ نگاری اور قطب سر شار حیات اور کارنامے پر مقالے لکھے ہی نہیں گئے مگر انھیں ڈگری ایوارڈ یافتہ فہرست میں شامل کیا گیا ہے اس کے علاوہ راقم کی نگرانی میں بھی تحقیقی مقالے لکھے گئے مگر اس کا تذکرہ ہی نہیں ہے اس ضمن میں جو کمیاں رہ گئ ہیں اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔یقین کامل ہے کہ ان فہرستوں کو اگلے ایڈیشن میں اپ ڈیٹ کیا جا ے گا۔

بہرحال یہ ایک کار آمد تصنیف ہے،موضوع کے انتخاب میں اور تکرار موضوع سے بچنے کے لیے اس تصنیف کا مطالعہ لازم ہے۔ ہر یونیورسٹی کی لائیبریری میں اس کا ہونا ضروری ہے۔ طلباء ،ریسرچ اسکالرز اور اساتذہ کو اس تصنیف کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔
کتاب کی قیمت زیادہ ہے مگر رعایتی قیمت پر مصنفہ (09394034168) کے علاوہ انجمن بکڈپو۔اردو ہال۔حمایت نگر، حیدرآباد سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

***
dramsf[@]yahoo.com
مکان نمبر: 537-9-16 ، نزد واٹر ٹینک ، قدیم ملک پیٹ ، حیدرآباد - 500036۔
ڈاکٹر فضل اللہ مکرم

Urdu research in universities of India: A book by Shahana Maryam. Article: Dr. Fazlullah Mukarram

4 تبصرے:

  1. Mashallah bahut acha tabsera hai tho book bhi achi hogi.mubassir ne khoobian khamian bayan karke tabsera ka haque ada kardia hai.

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاء الله بہت عمدہ تبصرہ کیا ہے.

    جواب دیںحذف کریں
  3. مصنفہ کا یہ کام قدر کی نگاہوں سے دیکھا جانے والا کام ہے۔ پاکستان سے بھی مشہور صاحب قلم رفیع الدین ہاشمی صاحب کی کتاب ’’ جامعات میں اردو تحقیق ’’ بھی اسی نوعیت کی کتاب منظر عام پر آچکی ہے۔ اگر کوئی ان دنوں کا تقابل کرکے بتائیں تو مزید اس نوعیت کا کام کرنے والوں کے بہتر ہوسکتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ... دونوں کتابوں میں ایک بنیادی فرق یہ کہ ہاشمی صاحب اقبالیات کے موضوع سے متعلق تقریباً ساری چیزیں شامل کردی ہیں. کیونکہ وہ ہاشمی صاحب کا موضوع بھی ہے...

      حذف کریں