جنس کا جغرافیہ - قسط:14 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-05-05

جنس کا جغرافیہ - قسط:14



جنس زندگی کی سب سے بڑی اور زندہ حقیقت ہے اور صرف ایسے لوگ ہی اس حقیقت سے انکار کرتے ہیں جن کو قدرت نے اس نعمت سے محروم رکھا ہے۔
جنس اس دنیا کی ایک زبردست طاقت ہے۔ یہاں تک اس کی تخلیقی صلاحیت کی وجہ اس کی پرستش بھی کی جاتی ہے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جنس نہ صرف انسان کی ساری زندگی پر محیط ہے بلکہ دنیا کے سارے کاہارئے نمایاں اسی کے زیر اثر انجام پاتے ہیں۔ کوہ کن اعظم بیچارا فرہاد، برسوں کی رات دن کی محبت کے بعد پہاڑ کاٹ کر دودھ کی نہریں نہ نکالا ہوتا اگر اس کی محبوبہ شیریں نے اسے کسی "چیز" کا لالچ نہ دیا ہوتا!
جنس کے کھیل بھی نرالے ہیں۔ وہ نرم شہزادہ سلیم کو گرم شیرافگن بنا دیتی ہے اور بیچاری انار کلی جنسی تسکین کی تمنا لئے دیوار میں زندہ چن دئیے جانے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔
یہ جنس ہی کی ریشہ دوانیاں ہیں کہ کبھی تو آدمی ہمالیہ کی فلک بوس چوٹیوں پر چڑھ جاتا ہے اور کبھی سمندر کی تہ سے موتی نکال لاتا ہے۔ جنس نے بڑے بڑے غزل گو شاعر پیدا کئے ہیں۔ جو گل و بلبل کی داستانوں کے بہانے، ڈھکے چھپے الفاظ میں، جنسی ملاپ کے نغمے الاپتے ہیں۔ یہ جنس ہی کا تو چکر تھا کہ اچھے بھلے شہنشاہ انگلستان ایڈورڈ ہشتم نے چپکے سے کوہ نور لگا ہوا تاج اتار کر رکھ دیا۔
انتہا تو یہ ہے جنس مر کر بھی زندہ رہتی ہے اور تاج محل کے روپ میں روئے زمین پر ایک عجوبہ بن جاتی ہے !

جنس میں اتنی طاقت ہے کہ وہ بے جان چیزوں میں زندگی پیدا کرسکتی ہے اس کی جیتی جاگتی تصویریں ایلورا ۔ اجنٹہ کے وہ غار ہیں جہاں پتھروں نے جنس کا گیت گایا ہے ۔ اور اس کا یہ کرشمہ کچھ کم ہے کہ کتنے ہی محبت کرنے والے جوڑے وہاں پکنک پر جاتے ہیں اور انسان کی کاریگری کے ان نمونوں میں گم ہوکر ، پتھر کے ان جنسی سانچوں کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر ، شوہر اور بیوی بن کر واپس آتے ہیں ! جنس ہی کے کرتوت ہیں کہ اچھی خاصی عورتیں جنسی بے لگامی کی وجہ سے کلوپیٹرا ، کیتھرائن ، اور کرسٹین کیلر بن کر "مشاہیر" کی فہرست میں شامل ہوجاتی ہیں ۔ کوئی چیز جنس زہرہلاہل بھی ہے اور جنس آب حیات بھی ہے ۔

فرائڈ جس کی جہالت نے علم کا لباس چرایا ہے ، ایک ایسا نظریہ جنس پیش کیا ہے ، جسے ایک عام آدمی کا دماغ قبول نہیں کرتا ۔ فرائڈ زندگی کے تمام افعال کو جنس کی پیداوار بتاتا ہے ۔ اس طرح ۔ یہاں تک کہ وہ بچے کے معصوم سے معصوم فعل کو بھی جنسی گردانتا ہے ۔ ، حالانکہ اس کے شاگرد یونگ اور ایڈلر نے اس کے نظریے سے اتفاق نہیں کیا اور اس کو زیادہ معتدل کر کے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
تماشہ یہ ہے کہ بعض ماہرین نفسیات اور بعض ادیبوں نے فرائڈ کے اس نظریے کو آنکھ بند کر کے تسلیم کر لیا ہے اور اس کی تبلیغ و اشاعت میں دل کھول کر حصہ لیا ہے اور ایسی ساری کتابوں میں انسان کی جنسیات کو عالم حیوانی اور جذبات وحشیانہ کی بنیاد بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ ہمارے ماہرین جنسیات نے بھی کم و بیش اس کی تقلید کی ہے ، چنانچہ انہوں نے انسان کو انسانی پیمانے سے ناپنے کے بجائے وحشی اور بربری پیمانے سے ناپا ہے اور ان نظریات سے انسان کی زندگی میں جو عیش پرستی اور حیوانی صفات پیدا ہوتی ہیں وہ دنیا کی تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ ہیں۔ زندگی کے تمام افعال اور اعمال کو اگر جنسی عینک سے دیکھا جائے تو اس سے جو سفلی مزاج پیدا ہوگا وہ کسی کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں۔

مفکرین نے انسانی خواہشات پر کافی تحقیق کے بعد بھوک اور جنسی ہیجان کو خاص طور پر اہمیت دی ہے۔ ان دونوں تحریکوں کے بغیر نسل انسانی کی بقا کی کوشش بالکل بےسود ہے۔ عورت اور مرد کو غذا ، پانی ، نیند کی جتنی ضرورت ہے اتنی ہی جنسی تسکین کی بھی ہے ، لیکن اولیت غذا کو حاصل ہے۔ اس کے بغیر جنسی ملاپ ہی ممکن نہیں۔ کیونکہ جب ایک بھوکا مرد اور ایک بھوکی عورت ہم بستر ہوں گے تو ظاہر ہے کہ دونوں کی صحت پر خاصے مضر اثرات مرتب ہوں گے۔

جنس کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کو زندگی کا محور بھی نہیں بنایا جا سکتا۔ یقیناً جنسی جذبے کی بھی تسکین ہونی چاہیے ۔۔۔ انسان کو جب بھوک لگتی ہے تو کھانے پینے کی اشیا سے پیٹ بھرتا ہے۔ جب پیاس لگتی ہے تو پانی اور مشروبات سے تشنگی رفع کرتا ہے۔ یہ اصولِ فطرت ہیں ، جن کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اس طرح انسان کو جماع کی بھی حاجت ہوتی ہے۔ جب ان اعضا سے وہ کام نہ لیا جائے جو قدرت نے ان کے لیے مخصوص کر دیا ہے تو اس کا دماغ اور جسم پر اثر ہونا لازمی ہے۔
چنانچہ جنون کی بیماری کنواری اور بیوہ عورتوں میں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ جنسی ہیجان کو مقدس بھوک کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ اس کے دور ہوتے ہی انسان کو جسمانی ، ذہنی اور روحانی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ میاں بیوی میں ، جب تک کہ وہ بالکل تندرست رہتے ہیں ، مباشرت کی خواہش بھوک کی طرح بیدار ہوتی ہے اور جنسی بھوک کی سیر فرد کی تندرستی اور ذہنی سکون کے لیے نہایت ضروری ہے۔

مخالف جنس سے فرار ہونے کا نتیجہ بعض صورتوں میں ہم جنس پرستی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ مردوں کے بعض طبقات میں عورتوں سے بیزارگی کی وجہ ہم جنس پرستی کی وبا پھیلتی جا رہی ہے۔ مرد کا مرد سے جسمانی اتصال نہ صرف خلاف وضع فطری عمل ہے بلکہ ان کے بیمار ذہنوں کا بھی اشتہار ہے۔ اس سے زیادہ خطرناک وہ ہم جنسی میلان ہے جو عورتوں کے بعض طبقوں میں سرایت کر گیا ہے۔
یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ ہم فطرت سے جتنے دور ہوتے جاتے ہیں ، تباہی سے اتنے ہی قریب ہوتے جاتے ہیں۔ قدرت کے اصولوں سے رو گردانی کے صلے میں ہمیں ذہنی پریشانی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ بعض لوگ جنسی بےراہ روی کے نتیجے میں جانوروں سے بھی جنسی طور پر لطف اندوز ہوتے ہیں اور اس طرح جانوروں پر اپنے اشرف المخلوقات ہونے کا سکہ بٹھاتے ہیں۔ کسی نفسانی خواہش سے نجات پانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ فطری طور پر اس کی تکمیل کر لی جائے۔ یہ اصول جنسی خواہش کے بارے میں بھی مفید ثابت ہوا ہے۔

جنسی وظیفہ بالکل فطری ہے۔ اس سے کبھی احساس گناہ یا ندامت پیدا نہیں ہوتی۔ جس طرح زمین میں بیج بونا مقدس کام ہے ، اسی طرح یہ عمل جو جسمانی محبت کا روحانی اظہار ہے ، مقدس اور لائق احترام ہے کیونکہ یہ انتہائی لذت و سرور کے عالم میں نسل انسانی کو دوام بخشتا ہے۔

Jins Geography -episode:14

2 تبصرے:

  1. آہ
    اس مضامین میں جو حوالا جات ہین وہ نظرئیہ محبت اور محبت کی حقیقت کی ضد ہیں-
    بوالہوسی اور حسن پرستی الگ الگ اور جنس زدگی معاذاللہ-
    بقول مرزا غالب-
    بوالہوسوں نے جسن پرستی شعار کی-
    اب ابروئے شیوئہ اہل نطر گئی-

    شعر ترتیب مین غلط ہو سکتا لیکن ہے ضرور

    جواب دیںحذف کریں
  2. حضور، جنوں کی بیماری صرف خواتین میں ہی نہین ھوتی۔ بلکہ اکثر کنوارے اور رنڈوے حضرات بھی اس میں مبتلا ھوتے ھیں۔ شائد اظہار کا طریقہ مختلف ھوتا ھے۔

    جواب دیںحذف کریں