جنس کا جغرافیہ - قسط:13 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-28

جنس کا جغرافیہ - قسط:13



دنیا کی نہایت سادہ، کھلی اور فطری حقیقت جنس ہے اور یہی ہمارے لئے سب سے بڑا راز بنی ہوئی ہے ۔ سماج نے اس کے اطراف تقدس اور توہم کا ایک ایسا حصار باندھ دیا ہے کہ کوئی فرد اس میں داخل نہیں ہو سکتا، خصوصاً جنس کے تعلق سے جس مجرمانہ رمزیت اور خاموشی سے کام لیا گیا ہے اس کے مضر نتائج سے آج انسان لرزہ براندام ہے ۔ جنسی مسائل کے بارے میں معلومات پر کڑی نگرانی رکھنے کا ایک برا نتیجہ بھی ہے کہ جنسی تعلیم و تربیت کے نا اہل ذرائع آزاد ہو گئے اور نوجوان فطری تجسس کی اپنے انداز میں تشفی کرنے لگے۔ سستے جنسی ادب، گندہ افسانوں، فحش تصویروں اور پردہ سمیں کی عریانیوں نے بالغ لڑکوں اور لڑکیوں کے دل میں ایسی بارود بچھادی جو بھڑک اٹھنے کیلئے کسی دیا سلائی کی محتاج نہیں، لیکن ستم تو یہ ہے کہ معصوم اور متجسس نوجوانوں کیلئے قحبہ خانے مکتب بن گئے اور استاد کی جگہ اناڑی اور بگڑے دوستوں اور سہلیوں نے لے لی۔

ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہمارے سماج میں گھر سے لے کر جامعات تک کوئی ایسا ادارہ نہیں جس نے تربیت جنسی کا انتظام کیا ہوا یا کم ازکم اس کی وکالت کی ہو۔ ہمیں یہ بھی اعتراف ہے کہ ہم نے جنسی مسائل سے متعلق اپنی پود میں وہ صحیح شعور پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی، جس پر اس کی شخصیت کی تعمیر کا انحصار ہے۔ جنسی جبلت کو اتنی اہمیت بھی نہیں دی گئی جس کی علم سلیم متقاضی ہے بلکہ اسے غیر فطری میلان سمجھ کر دبایا گیا اور موسم کی چیز خیال کرکے اپنی اولاد کو اس کے چھکنے سے بازرکھا گیا۔ انتہا یہ ہے کہ آج بھی جنسی علم ایک ہوا بنا ہوا ہے اور وہ یا تو ممنوعہ کتابوں میں قید ہے یا معلمین اخلاق کے ضمیروں میں ایک گناہ کی طرح چھپا پڑا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ کوتاہیاں اور نادانیاں رنگ لائے بغیر نہ رہیں، سلگتے شباب بھڑک اٹھے اور دہکتی جوانیاں اپنی ہی آگ میں جل کر ڈھیر ہوگئیں۔ اب خاکستر میں کچھ چنگاریاں بھی باقی رہ گئی ہیں جو نفسی امراض کے چنگل میں دم توڑ رہی ہیں۔

گو فرائڈ اور اس کے پیروؤں نے پاکیزہ محبت کے ضمیر میں جنس کا کانٹا چھبو دیا ہے اور تقدیر انسانی کو جنسی جبلت کا قیدی بنادیا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہں کہ ہم جنس کو زندگی کی کلید سمجھیں۔ فرائڈ اور اس قبیل کے دوسرے ماہرین نفسیات نے اپنی کم نگاہی سے علم اور انسان کی بڑی بد خدمتی کی ہے اور ایسے نظرئیے پڑ دنیا کو ایمان لانے کی تلقین کی ہے جس کی صحت پر خود انہیں یقین نہیں تھا اور جس کے مغالطوں کو وہ ساری عمر رفع نہ کرسکے۔

فرائڈ نے جنسی جبلت کے مفہوم کو بہت وسیع کردیا ہے۔ اسے محبت کے اعلیٰ مدارج میں بھی جنسی فعلیت نظر آتی ہے، حالانکہ اس نظرئیے کو اکثرماہرین نفسیات تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک جنسی جبلت متعدد جبلتوں میں سے ایک ہے اور اسے کوئی خصوصی اہمیت حاصل نہیں۔ جبلتوں کی قوت کی پیمائش کے جو تجربات حال ہی میں ہوئے ہیں ، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ انائی، جبلت، مماتی جبلت، والدینی جبلت، بھوک پیاس وغیرہ جنسی جبلت سے زیادہ قوی محرکات ہیں۔ خود ایڈلر کو اپنے استاد سے اختلاف ہے اور وہ غلبہ و قوت کی جبلت کو اساسی جبلت سمجھتا ہے۔

اگر ہم جنسی جبلت کو مرکزی ا ور بنیادی جبلت نہ بھی سمجھیں تب بھی ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ افسانوی دنیا کے علاوہ حقیقی دنیا میں بھی اس کا کافی اثر ہے۔ وہ نوع انسان کے آدھے افکار اور توانائیوں پر چھائی ہوئی ہے۔ اور اس کی بہت سی کوششوں کی منزل بنی ہوئی ہے۔ وہ کبھی اہم واقعات پر مخالف انداز میں اثر ڈالتی ہے۔ کبھی اہم مشاغل میں خلل پیدا کردیتی ہے۔ کبھی بہترین دماغوں کو پراگندہ کردیتی ہے۔ کبھی دانشوروں کی سنجیدہ بات کو مضحکہ خیز بنادیتی ہے اور کبھی محققین کی علمی دریافتوں میں روڈا بن جاتی ہے۔ بعض اوقات تو فلسفیانہ مسودوں سے عشقیہ خطوط اور کاکل خمدار برآمد ہوئے! غرض کہ آئے دن کے قتل و خون اور صحت، دولت اور آسودگی کی قربانیوں میں اس جبلت کا بڑا ہاتھ ہے اور اس نے مسلمہ راست بازوں، وفاداروں، زاہدوں اور سنیاسیوں کو اپنے ضمیر سے محروم کردیا ہے۔ وہ ایک کپٹی شیطان کی طرح ہر چیز کو اپنی فطرت سے منحرف کردینا چاہتی ہے۔ اس لئے عقل اور تجربہ کا یہ تقاضہ ہے کہ جنسی رجحان کو بے لگام نہ چھوڑا جائے بلکہ صحیح تربیت جنسی کے ذریعہ اس میں تعمیری صلاحیت پیدا کی جائے، کیونکہ جسم ، دماغ اور روح کے متوازن نشوونما سے انسان اپنے لئے ایک نصب العین پیدا کرسکتا ہے اور سچی قدروں کے سرمایہ سے مالا مال کرسکتا ہے۔

اگر ہمیں چند ماہرین نفسیات کے اس دعویٰ سے اختلاف بھی ہو کہ تمام انسانی افعال، جنسی جذبے ہی کی پیداوار ہیں، تب بھی ہم اس ٹھوس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ جنس کو انسانی زندگی میں نہایت اہم مقام حاصل ہے بلکہ بعض حقیقت پسندوں کے نزدیک تو جنس، انسانی زندگی کا مرکزی نقطہ ہے! انسانی زندگی کی جڑ ہے! انسانی زندگی کا گرم گرم لہو ہے! اسی لئے تو آسمانی صحیفوں میں عورت اور مرد کے باہمی تعلقات کو اتنی اہمیت دی گئی ہپے۔ جنس کے نام سے بھاگنے یا کانوں پر ہاتھ دہرنے کے بجائے ہمیں اسے جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔

قدرت نے انسان کو جنس جیسی بیش بہا نعمت اس لئے دی ہے کہ نسل انسان کا سلسلہ قائم رہے۔ ہر انسان کا یہ مقدس فرض ہے کہ وہ قدرت کے اس منشاء کو پورا کرے اور اس سے رو گردانی کفران نعمت ہے۔ دنیا کے پہلے شوہر نے اگر پہلے پہل فطری تقاضوں سے مجبور ہوکر وقتی جراء ت سے کام نہ لیا ہوتا اور دنیا کی پہلی بیوی، اپنی فطری شرم کو چند لمحوں کیلئے بالائے طاقت رکھ کر اپنے ہمر اہی سے بغل گیر نہ ہوگئی ہوتی تو آج دنیا کا نقشہ ہی بدلا ہوتا۔ مگر ایک مبارک ساعت میں، عشق نے حسن کو اپنی بانہوں میں نہ لیا ہوتا تو آج یہ دنیا ایک ویرانہ ہوتی، کیونکہ دنیا کی ساری رنگنیاں عورت اور مرد کے جنسی اتصال سے قائم ہیں۔ قدرت یہی چاہتی ہے کہ افزائش کا یہ لامتناہی سلسلہ یونہی چلتا رہے اور اس کار خیر میں عورت اور مرد دونوں برابر کے حصے دار ہیں۔ ایک کا وجود دوسرے کیلئے بالکل ناگزیر ہے۔

تمام جاندار، حیوان، چرند، پرند، درند جنس سے لیس ہیں۔ بلکہ ماہرین نباتیات کا کہنا ہے کہ نباتیات میں بھی باقاعدہ جنسی ملاپ ہوتا ہے۔ قدرت نے درختوں میں بھی نر اور مادہ کا امتیاز رکھا ہے اور ان میں جنسی ملاپ کا طریقہ سب سے نرالا ہے۔ اگر ایک خاص غبار، نردرختوں سے اڑ کر مادہ درختوں پر جاکر نہ گرے تو ان درختوں میں کبھی پھل نہ آئے اور وہ درخت ہمیشہ بانجھ رہے! اگر نظام قدرت کا بغور مطالبہ کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ جمادات بھی جذبہ جنس سے عاری نہیں۔۔۔۔ شاید لوہے کے چھوٹے چھوٹے ذرات بھی جنسی کشش کے باعث مقناطیس کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں!

Jins Geography -episode:13

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں