جنس کا جغرافیہ - قسط:12 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-21

جنس کا جغرافیہ - قسط:12



اس دور میں ہم میں سے کوئی مشکل ہی سے کسی شاعر سے یہ پوچھنے کی زحمت گوار کرے گا کہ "جناب محبت کسے کہتے ہیں اور یہ کہاں اور کس وقت پیدا ہوتی ہے؟" وہ یہی سوال ایک سائنس داں کے پاس لے کر جانا زیادہ پسند کرے گا۔ جس سے ایک بہتر جواب کی توقع کی جاسکتی ہے۔ جو محبت کو خوردبین کی سلانڈ پر رکھ کر اس کے تمام پہلوؤں کی وضاحت کردے گا۔ جو ایک ایک چیز کو سمجھانے کی کوشش کرے گا۔
مثلا یہ کہ جسم کے اعصابی سروں میں تحریک پیدا کرنے والے علاقوں۔ غیر شعوری و شعوری افعال، غدور اورہارمونس کا محبت سے کیا تعلق ہے اور یہ کہ جذبہ محبت ان تمام چیزوں اور پورے جسم کو کتنا متاثر کرتا ہے، کیسی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے؟ یہاں شاعر یا اس کی شاعری کی مذمت مفقود نہیں، کیونکہ شاعری اب بھی ایک ایسی ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جب کوئی لڑکا کسی لڑکی سے یا کوئی لڑکی کسی لڑکے سے محبت کرنے لگتی ہے اور اسے اپنا مقصد حیات سمجھ لیتی ہے تو شاعری کے پٹ کھل جاتے ہیں ۔ دماغ میں رومانی اشعار خود بخود گونجنے لگتے ہیں ۔ چاندنی راتیں اچھی معلوم ہونے لگتی ہیں اور ہر طرف جیسے بہار آ جاتی ہے ۔ مطلب یہ کہ سائینٹفک تجزیہ، عاشق اور اس کی محبوبہ کو شاعری کی طرف مائل ہونے اور اشعار گنگنانے سے انہیں روک سکتا۔

آئیے ہم ذرا یہ معلوم کریں کہ محبت کے دوران جسم کے اندر کیا کیفیات پیدا ہوتی ہیں ... ان کیفیات کا تجزیہ خالی از دلچسپی نہ ہو گا، لیکن اس کیلئے سب سے پہلے محبت کے غیر شعوری عمل کو تھوڑا بہت سمجھ لینا ضروری ہے ، کیونکہ محبت ایک عجیب سی پیچیدہ کیفیت ہوتی ہے ۔ محض ایک معمولی سی چیز کسی کے عشق میں مبتلا ہو جانے کا سبب بن سکتی ہے ۔ کسی کی نرم اور پرکشش آواز یا خوبصورت ٹانگین یا زلفیں ، یا لباس کی ایک ہلکی سی خوشبو ہی ہم کو بے چین کر سکتی ہے ۔ ہمارا سکون اور راتوں کی نیند چھین سکتی ہے ، شائد اسی لئے کہتے ہیں کہ محبت کی نہیں جاتی بلکہ ہو جاتی ہے ۔

بیسویں صدی کے شروع میں ایک روسی سائنس داں "پاؤلوف" نے کتوں پر تجربات کا ایک دلچسپ سلسلہ شروع کیا تھا۔ بہت عرصہ تک وہ کتوں کو گھنٹی بجا کر کھانے کیلئے بلاتا اور ان کے سامنے کھانے کی چیزیں رکھ دیتا تھا۔ یہاں تک کہ کتنے اس طریق کار کے عادی ہو گئے اور گھنٹی کی آواز سنتے ہی کھانے کیلئے پہنچ جاتے تھے ! ایک دن پاؤلوف نے گھنٹی بجا کر کتوں کو بلایا مگر ان کو کھانے کے ئلے کچھ نہیں دیا اور اسں طرح روسی سائنس داں نے یہ ثابت کیا کہ نظام ہا)ۃ کے بعض افعال کا تعلق وقت اور کسی خاص خارجی عمل کے ساتھ قائم کیا جاسکتا ہے ، کیونکہ اس نے دیکھاکہ صرف گھنٹی کی آواز پرکتے آپہنچے اور کچھ نہ ملنے کے باوجود لعاب خارج کرنے والا غدود نے اپنا عمل شروع کر دیا ہے ۔ اسی طرح کسی مقررہ وقت پر ہمارے کھانا نہ کھانے کے باوجود معدے کے بعض غدود اپنے معمول کے مطابق رطوبتیں خارج کرنا شروع کر دیں گے اور اس وقت بھول ہمارے لئے ناقابل برداشت ہو جائے گی۔ بہرحال سائنس داں موصوف کے تجربات، محبت کے موضوع پر بھی ایک اچھی روشنی ڈالتے ہیں اور کہا جاسکتا ہے کہ بسا اوقات محض کسی کی انگیا دیکھ کر یا ٹیلفون پر کسی کی پرکشش آواز سن کر دل مچل اٹھتا ہے اور محبت کی ایک داخلی کیفیت اپنا دامن پھیلا دیتی ہے ۔

کہتے ہیں کہ محبت ایک داخلی جذبہ ہوتی ہے اور دوسرے تمام داخلی جذبات کی طرح یہ اتنی خود کار ہوتی ہے کہ اس پر مکمل طورپر قابو حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے ۔ جب ہمارے سامنے کوئی خوبصورت پیکر ہوتا ہے تو اس وقت دماغ میں ایسے خود کار خیالات پیدا ہونے لگتے ہیں اور ہم پرصنف مخالف کے حس کا ایک ایسا اثر ہوتا ہے کہ اس پر قابو پانا اتنا ہی مشکل ہو جاتا ہے جیسے منڈلاتے ہوئے پتنگے کو دیکھ کر آنکھوں کا خود بخود بند نہ ہونا! شاید اکثر لوگوں کو معلوم نہیں کہ آنکھوں کا یہ عمل بالکل غیر ارادی ہوتا ہے اور ایک ایسی ہی غیر شعوری کیفیت کو محبت کہتے ہیں ۔

محبت کے داخلی جذبے کا تعلق ہمارے جسم کے ان بہت سے افعال سے ہوتا ہے جنہیں ہم اپنی کسی قوت کے ذریعہ نہیں روک سکتے ۔ یہاں تک کہ قوت ارادی بھی اس معاملے میں ہماری مدد نہیں کر سکتی مثلاً حرکت قلب، ہاضمہ، خون کا دباؤ اور جنسی فعل وغیرہ۔ اسی لئے ان کو جسم کے غیر ارادی افعال سے موسم کیا جاتا ہے ۔ ان اعمال کو دماغ کے بالائی حصے کے ذریعہ بھی نہیں روکا جاسکتا جو خود بھی اہم پارٹ ادا کرتا ہے ۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ہم اپنی قوت ارادی کی کسی بھی مقدار کے ذریعہ اپنی حرکت نبض کو نہیں دباسکتے ۔ اپنے نظام ہاضمہ کے کسی عمل میں مداخلت نہیں کر سکتے !

اب جنسی فعل کو لیجئے .... اسے چند غدود کنٹرول کرتے ہیں ۔ ان غدودوں کو جب اعصابی ریشوں سے کوئی تحریک ملتی ہے تو وہ اپنے قاصدوں یعنی ہارمونز کو جسم کے اندر دوڑاتے ہیں ۔ جب ایک لڑکی کو کسی لڑکے سے عشق ہو جاتا ہے تو اس کی محبت کی داخلی کیفیت ان غدودوں کو متحرک کر دیتی ہے جو اس تحریک کے اثر سے غدوروں کو ایک قسم کا ہارمون تیار کرنے کا پیغام بھیجتے ہیں ۔ یہی رطوبت دوران خون میں شامل ہو کر غدود میں تحریک پیدا کرتی ہے ۔ غدود کا عمل اس لڑکی کی رومانی توانائی کو مزید تقویت پہنچاتا ہے ۔ اسے اپنی رطوبت خارج کر کے مزید حسین اور خوبصورت بنادیتا ہے ۔ یہ غدود کا ہی عمل ہوتا ہے کہ جس کے ذریعہ ایک لڑکی اپنی رومانی کیفیت میں دوسروں کی نظروں کو بہت بھلی معلوم ہونے لگتی ہے ایک لڑکی کو جب واقعی کسی سے محبت ہو جاتی ہے تو اس خاص غدود کے ذریعہ اس کی اس کیفیت کا اثر اس کے دوسرے غدود پر بھی ہوتا ہے اور اس کے بال بہت چمکیلے ہو جاتے ہیں ، لیکن محبت کے دوران مردوں کی کیفیت عورتوں کے مقابلے میں کچھ مختلف ہوتی ہے ۔ ان کے اندر مزید سختی پیدا ہو جاتی ہے اور ان کے چہروں پر بال زیادہ اگنے لگتے ہیں !

یہ درست ہے کہ جذبہ محبت، جسم کے اندرونی نظام میں ایک ہلچل برپا کر دیتا ہے اور اعصاب و غدور کے افعال کو تیز کر دیتا ہے لیکن جنسی مواصلت سے پہلے کچھ اخلاقی اقدار اور اصول کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے ورنہ محبت کا ایک رخ جتنا حسین اور دلکش ہو گا اتناہی دوسرا رخ بدنما اور گندہ ہو جائے گا۔

محبت واقعی ایک زبردست مقناطیسی قوت ہے ، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سائنس دانوں کو مذکورہ بالا باتوں کی طرح یہ بات بھی سمجھانی پڑے گی اور شاید ہم محبت کے اخلاقی پہلو پر بھی ان کی کسی رائے اور نصیحت کے منتظر ہیں ۔ ویسے ان کی یہ تحقیق تو چٹان کی طرح ٹھوس اور مضبوط ہے کہ "محبت کا صرف دل سے نہیں بلکہ پورے جسم سے تعلق ہوتا ہے "۔

اگرچہ دل جذبات و احساسات کا سرچشمہ ہے ، یہ وہ گہوارہ ہے جس میں تمنائیں جھولتی ہیں اور یہ وہ کشت ہے جہاں اگل آرزو مہکتے ہیں اس لئے دل اور کاروبار دل پر لکھتے وقت شاعر اپنے قلم میں چاندی کا سحر، غنچوں کا تبسم اور صبا کی مست خرامی بھر لیتا ہے لیکن جب نفسیاتی لحاظ سے جذبہ محبت اور اس کے اظہار کے متنوع اور گوناگوں صورتوں کا جائزہ لیا جاتا ہے تو اس میں دل کا کوئی تعلق نہیں نکلتا بلکہ یہ تمام نیرنگی کیفیات ذہن اور شخصیت کے بعض لاشعوری حرکات کی پیدا کردہ ہوتی ہیں ۔

Jins Geography -episode:12

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں