جنس کا جغرافیہ - قسط:11 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-14

جنس کا جغرافیہ - قسط:11



شاعروں ، ماہرین نفسیات اور حیاتیات نے مرد اور عورت کی محبت کو اپنے اپنے مخصوص نقطۂ نظر سے دیکھا ہے اور اس نقطۂ نظر کے مطابق اس کی کیفیات کو مختلف زاویوں سے ظاہر کیا ہے۔
عورت اور مرد کے درمیان جو محبت ہوتی ہے اس کا مفہوم پوری طرح سمجھنے کیلئے ہم ان کے بیانات سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ یہاں ہمارا تعلق زیادہ تر ماہرین حیاتیات کے نظریات سے ہے۔ ماہرین حیاتیات عورت مرد کی محبت کو قدرت کی ایک ایسی چال سمجھتے ہیں جس کے مطابق دو جنسیں آپس میں ملتی ہیں اور اس طرح بقائے نوع انسانی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ماہرین جنس کو افزائش نسل کے ساتھ لازم قرار دیتے ہیں۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ حیوانات کی دنیا میں ان دونوں کا آپس میں اتنا گہرا تعلق ہے کہ ایک دوسرے سے جدا کرنے کی کوشش مصنوعی اور لاحاصل ہے۔ اس کے برعکس انسان کی جنس، جہاں اس کی جذباتی اور رومانی ترقی کا ذریعہ ہے وہاں یہ بقائے نسل کا بھی آلہ ہے۔ موجودہ انسان جنس اور افزائش نسل دونوں کو بالکلیہ جدا کرنے کے طریقے دریافت کر چکا ہے اور سمجھ چکا ہے کہ یہ ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم نہیں۔

سائنس، محبت یا اس کے مختلف عناصرکی تشریح نہیں کرتی۔ اس کا تعلق محبت کے صرف جسمانی تقاضوں سے ہے اور ان کا مطالعہ کرنے کیلئے سائنس وہی طریقہ استعمال کرتی ہے جو دوسری نفسی کیفیات مثلاً جذبۂ خوف کے مطالعہ کیلئے کرتی ہے۔ فرض کیجئے ایک شخص کو چلتے چلتے راستہ میں شیر ملتا ہے۔ شیر کو دیکھتے ہی اس کے دماغ میں بصری و سماعی تاثرات پیدا ہوتے ہیں۔ جن کے نتیجے میں اس کے بدن میں چند جسمانی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ اس کی پتلیاں پھیل جاتی ہیں، رنگ پیلا پڑ جاتا ہے، پیسنہ آنے لگتا ہے، حلق خشک ہو جاتا ہے اور دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں۔ تقریباً اسی انداز میں ایک سائنس داں جذبۂ خوف کی صراحت کرتا ہے۔

اسی طریقے سے وہ محبت اور متعلقہ مظاہر کی وضاحت کرتا ہے۔ جب ایک مرد، ایک عورت سے باصرہ، سامعہ، شامہ، لامسہ اور ذائقہ سے تاثرات لیتا ہے تو اس میں جنسی خواہش بیدار ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی اس کے جسم میں چند تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ چند خاص عملی مشاغل انجام دینے پڑتے ہیں جو جسمانی ملاپ پر اختتام پذیر ہوتے ہیں۔
کیا اسی کا نام "محبت" ہے؟ یقیناً نہیں۔ یہ تو محض محبت کے جذبے سے متعلق جسمانی اظہار کا بیان ہے۔ آج تک کسی سائنس داں نے محبت کی مکمل تعریف نہیں کی اور نہ ہی یہ بتایا کہ دو فرد روحانی اور جسمانی ملاب کے جویا کیوں رہتے ہیں؟ بلکہ اپنی لاعلمی پر محض ایک نیا اور بدنما پردہ ڈال دیا ہے۔

اگر ہم اس سوال کا جواب دل سے معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ "محبت" کیا ہے؟ تو ہمیں شاعر اور آرٹسٹ سے رجوع کرنا پڑے گا، کیونکہ شاعر اور فنکار کے نزدیک دل ہی تخیلات کا مرکز ہوتا ہے۔ اس لئے صبح و شام یہی ان کے ورد زبان ہوتا ہے۔۔
"دل گیا رونق حیات گئی"۔

محبت یا عشق چاہے دماغ کا خلل ہو یا روح کی گہرائیوں میں چھپا ہوا ایک جذبۂ لطیف، بہرحال اتنا ضرور ہے کہ یہ "آتش" جو لگائے لگتی نہیں، بجھائے بجھتی نہیں، اس پر کسی کا زور نہیں۔ غالب بھی اس پر غالب نہ آ سکے۔
محبت عین فطرت انسانی ہے۔ آدم و حوا کی کہانی بھی اسی محور پر گھومتی تھی اور آج بھی محبت دنیا کو آباد کئے ہوئے ہے۔ جنت کی تمام رنگینیوں کے باوجود آدم نے اپنے آپ کو تنہا پایا اورقدرت نے ان کی تنہائیوں کے خلاء کو بھرنے کیلئے حوا کی تخلیق کی۔
حسن نے مچل کر ضد کی اور عشق نے انجام سے بے خبر ہو کر دانۂ گندم کھا لیا!
دنیا وجود میں آئی اور ہر آدم اپنی حوا کیلئے بے چین ہو اٹھا۔ قدیم یونانی تصور چاہے حقیقت پر مبنی نہ ہو مگر ہے دلچسپ کہ پہلے مرد عورت ایک ہی جسم میں مکمل تھے۔ مگر دیوتاؤں نے غصہ میں آ کر ان کو دو حصوں میں بانٹ کر دنیا کے مختلف مقامات پر پھینک دیا۔
اب عالم وجود میں آنے کے بعد دونوں ہی حصے ایک دوسرے سے ملنے کیلئے بے تاب رہتے ہیں اور جب تک ایک دوسرے سے مل نہیں پاتے، اس وقت تک تکمیل و تسکین کا احساس نہیں ہو پاتا۔
بہرحال محبت زندگی کا ایک حقیقت ہے۔ تلخ بھی اور شیریں بھی۔ کچھ فلسفیوں نے محبت جیسے جذبے کو فلسفے کو خار زار میں گھسیٹنے کی کوشش کی ہے۔ ایک طرف افلاطون کی افلاطونی محبت ہے تو دوسری طرف فرائڈ کا جنسی بھوک کا تصور!
ایک طرف بائرن اس کو نور یزدانی کا ایک پرتو اور روح کا ارتقاء کہتا ہے تو دوسری طرف غالب بہ بانگ دہل عشق کو دماغ کا خلل کہہ کر اس کی مٹی خراب کرتے ہیں!
شاید غالب نے یہ مصرعہ اس وقت کہا ہوگا جب وہ چچا بننے کی عمر میں آ گئے تھے ورنہ جوانی دیوانی تو خود دماغ کا خلل ہے! جس میں کسی دوسرے خلل کے بارے میں سوچنے کی گنجائش کہاں؟
آنکھ کو عاشق نے شعلہ، خنجر، تیر سمجھ کر دل پر زخم اٹھا لئے، پیمانہ و میخانہ سمجھ کر جام لنڈھائے !
کہیں نیم باز آنکھوں کو دیکھ کر میر کو شراب کی مستی یاد آ گئی۔ کہیں سودا صاحب کو کیفیت چشم کا تصور بندھ جانے پر سودا ہونے لگا۔
دل کے ہاتھوں بیچارے شاعر کتنے پریشان رہے۔ کہیں دل میں کائنات سما گئی اور کہیں آپریشن کرنے پر دل میں بس ایک قطرۂ خون نکلا !
مگر برا ہوا ان سائنس دانوں کا جنہوں نے سب گڑ بڑ کر دیا۔ ڈاکٹر کہتا ہے کہ آنکھ مہین پردوں اور کچھ رطوبتوں سے مل کر بنا ہوا ایک عضو ہے۔ جس سے نظر نہیں آتا بلکہ جس میں چیزوں کا عکس پڑتا ہے اور ہزاروں اعصابی تاروں کے ذریعہ دماغ اس عکس کو پہچان لیتا ہے۔
اب بتائیے جو صاحب نیچی نظر کے اٹھنے کے انتظار میں کھڑے ہوں اور نظر اٹھنے پر بے ہوش ہو کر گر پڑنے کو تیار ہوں۔ انہیں آنکھ کے اس مشینی طریقۂ کار کو سمجھنے کی فرصت کہاں؟

ڈاکٹر کی ستم ظریفی تو ہم نے دیکھ لی، ماہر نفسیات نے تو جینے کا سہارا بھی چھین لیا۔ یہ لوگ شاعروں، ادبیوں، فنکاروں اور فلم سازوں کی بربادی کے درپے ہیں جو کہتے ہیں کہ دل اور جذبات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ دماغ ہی سب کچھ محسوس کرتا ہے، دل تو ایک ضروری عضو ہے جو جسم میں خون پھیلانے کا کام کرتا ہے ۔ اب بھلا ان سائنس دانوں سے پوچھئے کہ قبلہ وہ لاکھوں لوگ کس طرح زندہ رہتے ہیں جنہوں نے اپنے دل دوسروں کو دیدئیے ہیں۔

عاشق اور سائنس داں کی کبھی نہیں بنے گی۔ حضرت عاشق اول تو دل نہیں رکھتے ہیں اور اگر رکھتے ہیں تو زار و نزار۔۔۔ مردہ، پژمردہ جو دھڑکتا بھی مشکل سے ہے۔ خون ان کا گرمئی عشق اورسوزِ جگر سے جل جاتا ہے۔ اب ان کا دوران خون کیسے جاری رہتا ہے؟ یہ بات سائنس داں کی سمجھ میں نہیں آسکتی!
یہ تو رہا محبت کا شاعرانہ تصور، اب دیکھیں کہ محبت کے بارے میں ماہرین نفسیات اور سائنس داں کیا کہتے ہیں؟!

Jins Geography -episode:11

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں