ضامن علی حسرت کی تصنیف متاع ادب کا خصوصی مطالعہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-14

ضامن علی حسرت کی تصنیف متاع ادب کا خصوصی مطالعہ

ضامن علی حسرت کی تصنیف متاع ادب کا خصوصی مطالعہ
مصنف : ضامن علی حسرت
مبصر: محمد عبدالعزیز سہیل،ریسرچ اسکالر(عثمانیہ)

ضامن علی حسرت ؔکا نام اردو دنیا کے لئے کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے وہ ریاست آندھراپردیش کے ادبی شہر نظام آباد سے تعلق رکھتے ہیں جن کی متعدد تصانیف شائع ہو کر مقبولیت حاصل کر چکی ہیں۔ ان کا شمار آندھراپردیش کے ممتاز شاعروں اور افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے انہوں نے اپنی شعری ونثری تحقیقی و تنقید ی تخلیقات کے ذریعے ادب کی دنیا میں اپنی منفرد پہچان بنائی ہے۔ ادبی انجمنوں کی سرپرستی اور تحقیق و تنقید ،تصنیف و تالیف ان کے روز و شب کے مشاغل ہیں اور وہ آئے دن اپنی کسی نئی کتاب کی اشاعت کے ذریعے سرخیوں میں رہتے ہیں ۔
زیر تبصرہ کتاب متاعِ ادب ضامن علی حسرت ؔکی چھٹویں تصنیف ہے اس سے قبل ان کی تصانیف" ریت کی دیوار"( افسانوی مجموعہ) 1993ء،" توبہ میری توبہ"( طنز و مزاح کا مجموعہ)1997ء، "عید ہماری چاند تمہارا "(طنز و مزاح کا مجموعہ )2003ء،"تِشنہ ساحل "(شعری مجموعہ )2006ء، "آبلہِ دل " (شعری مجموعہ)2007ء شائع ہو کر اردو دنیا میں مقبول عام ہو چکے ہیں ۔ متاعِ ادب میں مصنف نے اردو کے منتخب ادیبوں اور شاعروں کی شاہکارتخلیقات کا تجزیاتی وتنقیدی جائزہ پیش کیا ہے یہ کتاب 108صفحات پر محیط ہے جس میں تقریباً10مضامین شامل ہیں یہ کتاب اردو اکیڈیمی آندھراپردیش کے جزوی مالی تعاون سے 2012ء میں شائع کی گئی ہے کتاب کا انتساب انہوں نے ان سے جدا ہونے والی شخصیتوں کے نام معنون کیا ہے کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر حبیب ضیاء سابق صدر شعبہ اردو ویمنس کالج جامعہ عثمانیہ حیدرآباد نے رقم کیا ہے۔ انہوں نے ضامن علی حسرتؔ کی اس تصنیف کا پیش لفظ لکھتے ہوئے متاعِادب کو ادب کا گلدستہ قرار دیا ہے وہ لکھتی ہیں :
"متاعِ ادب میں ضامن علی حسرت ؔنے صرف قلمکاروں کی منتخب تخلیقوں پر ہی قلم نہیں اٹھایا ہے بلکہ بعض اہم ادبی شخصیات کے اہم گوشوں کوبھی نہایت ہی سلجھے ہوئے انداز سے ضبط تحریر میں لایا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی کتاب"متاع ادب " ایک ادبی گلدستہ بن چکی ہے۔ "
(ڈاکٹر حبیب ضیاء، پیش لفظ متاع ادب ص10)
اس اقتباس پر غور کرنے کے بعد اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی معمولی تصنیف نہیں ہے بلکہ ایک تحقیقی کارنامہ ہے جس کو ضامن علی حسرت ؔنے بڑے ہی عرق ریزی کے ساتھ انجام دیا ہے۔ پیش لفظ کے بعد ایک تعارفی مضمون "ضامن علی حسرتؔ خلوص و فن کے آئینہ میں " شامل تصنیف ہے جس کو محمد نصیر الدین ریسرچ اسکالر نے تحریر کیا ہے۔
انہوں نے اپنے اس مضمون میں ضامن علی حسرت کے ساتھ گذرے لمحات کی بہترین منظر کشی کی ہے ساتھ ہی ضامن علی حسرت کی ایک خوبی کا تذکرہ کیا ہے جو کہ دنیا کا ایک مقدس رشتہ سے متعلق ہے یہ رشتہ دراصل ماں اور بیٹے کے درمیان پائی جانے والی محبت کا ہے جس کو منور راناؔ نے اپنے ان ا شعار میں کیا خوب بیان کیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔

کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھرمیں سب سے چھوٹا تھا میرے حصہ میں ماں آئی
میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑدیں
صرف ایک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا
اس ضمن میں ضامن علی حسرتؔ کے بھی مشہورا شعار ماں کے عنوان پر ملاحظہ ہو۔
لذتیں آج بھی قائم ہیں زباں پر میری
ماں کے ہاتھوں سے جو کھائے تھے نوالے میں نے
میدان جنگ میں تھی دعا ماں کی میرے ساتھ
دشمن کے آگے سر کو جھکانا نہیں پڑا
محمد نصیر الدین نے متاع ادب کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا ہے کہ :
"یہ ضامن علی حسرت ؔکی ادبی صلاحیتوں کا ایک اور خوبصورت تحفہ ہے جس میں ادب کے بہت سارے رنگ بکھرے پڑے ہیں مثلاً سریندر پرکاش کے افسانے "بجوکا"، قرۃ العین حیدر کے افسانے " نظارہ درمیاں ہے "،’منٹو کے تین شاہکار افسانوں " کھول دو، بواور ہتک" کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ،مخدومؔ کی نظم چاند تاروں کابن اور فیض ؔکی نظم صبح آزادی کا تقابلی مطالعہ، خطوط غالب کا جائزہ اس کے علاوہ ادب کی دواہم شخصیتوں غوث خواہ مخواہ اور ثقلین حیدر ؔکی شخصیت پر ضامن علی حسرتؔ نے سیر حاصل مضامین لکھ کر اپنی ادبی صلاحیتوں کا ثبوت دیا ہے۔
(محمد نصیر الدین، متاع ادب، ص14)
محمد نصیر الدین کے تعارفی مضمون کے بعد مصنف نے "اپنی بات" کے تحت کتاب کا مقدمہ لکھا ہے جس میں انہوں نے تصنیف کی اشاعت کی غرض و غائیت کو بیان کیا ہے اور کتاب کی اہمیت اور انفرادیت سے متعلق لکھا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب کا پہلا مضمون "منٹو کے افسانے کھول دو کا تجزیاتی مطالعہ، ، کے عنوان سے شامل اشاعت ہے۔ فاضل مصنف نے اس تجزیاتی مضمون میں منٹو کی افسانہ نگاری کی نئے گوشوں کو اجاگر کیا ہے وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
"منٹو کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ حقیقتاً عورت کا افسانہ نگار ہے عورتوں کے لئے منٹو کے دل میں محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے جیساکہ عام خیال یہی ہے کہ منٹو عورت کے صرف جنسی پہلو کو ہی دیکھتا ہے منٹو کے اندر کے فنکار کو جو لوگ سمجھ نہیں پائے ہیں وہی لوگ ایسا سوچتے ہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ منٹو کی عورتیں ہی منٹو کی ہمدردیاں حاصل کر لیتی ہے۔ وہ چاہے "زینت "ہو یا" جانکی" یا "موزیل" ہویا پھر"نیلم" ہو۔ اسکے نزدیک عورت کا سب سے مقدس لمحہ وہ ہوتا ہے جب اس کے اندر ماں کی ممتا جاگتی ہے اور یہیں ہمیں منٹو کا اعلیٰ روپ نظر آتا ہے (ضامن علی حسرت، منٹو کے افسانے، متاع ادب ص20)
اس اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فاضل مصنف نے منٹو پر اپنے مطالعے سے یہ ثابت کیا کہ منٹو کو جس طرح سے بدنام کیا گیا وہ درست نہیں ہے اور یہ کہ منٹو کے اندر ایک اچھا انسان موجود تھا اور منٹو حقیقت پسندانہ مزاج کے حامل تھے اور ان کی تحریریں اردو دنیا میں انفرادیت لیئے ہوئے ہیں۔ فاضل مصنف نے منٹو کی شخصیت کو کھول کھو ل کر پیش کیا ہے۔
زیرتبصرہ تصنیف کا دوسرا مضمون ’اردو میں سفرناموں کی روایت ۔ تجزیاتی مطالعہ" کے عنوان سے شامل ہیں فاضل مصنف نے اس مضمون میں انیسویں صدی کے آغاز میں اردو ادب میں نئی اصناف کے فروغ پر اظہار خیال کیا ہے اور سفر ناموں کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور اردو کے ابتدائی سفر ناموں کو پیش کیا ہے جس میں اولیت یوسف خان کمبل پوش کے سفرنامہ" عجائبات فرہنگ "کو دی ہے۔ (حالیہ دنوں مجھے بھی راجہ گردھاری پرشاد باقیؔ کے سفر نامہ توشہ عاقبت (فارسی) جس کا ترجمہ ڈاکٹر شیلاراج نے اردو زبان میں کیا تھا اپنی تحقیق کے دوران دیکھنے کا اتفاق ہوا) سفرناموں میں تہذیب و تمدن اس دور کے حالات رسم و رواج مذہبی روداری غرض یہ کہ معلومات کا خزانہ مل جاتا ہے اور تاریخ سے واقفیت بھی ملتی ہے اپنے اس تجزیاتی مطالعہ میں ضامن علی حسرت ؔنے اس بات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
"سفرنامے محض سیاحت یا تاریخی مشاہدہ کا نام نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی اہم ضرورت ہیں اور انہی سفرناموں سے پچھلی صدیوں کے چہروں سے نقاب اتار کر آج کے انسان کو اس دور کی تاریخ اور تمدن سے روشناس کروایاجاسکتا ہے۔ "
(ضامن علی حسرت، اردو میں سفرناموں کی روایت، ص29)
فاضل مصنف نے اردو کے سفرناموں کا بہت ہی عمدہ تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ڈاکٹر وزیر آغاز اور علامہ شبلی نعمانی کے اقتباسات کو شامل کر کے اپنے مضمون کو معتبر بنایا ہے۔
زیرتبصرہ کتاب کا چھٹواں مضمون فیض احمدفیضؔ کی نظم" صبح آزادی" اور مخدوؔمحی الدین کی نظم" چاند تاروں کابن" کا تقابلی مطالعہ ہے ۔ اس مضمون میں فیض ؔاور مخدوم ؔکی مشہور نظموں کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے ۔ دونوں نے ایک ہی موضوع یعنی آزادی کے عنوان پر نظمیں لکھی تھی اور دونوں کے دلوں میں ملک کی آزادی کا جزبہ کرواٹیں لے رہا تھا۔ فاضل مصنف نے اس تقابل میں فیض ؔاور مخدوم ؔکی نظم نگاری پر مختلف نظموں کے حوالے سے گفتگو کی ہے انہوں نے مخدوم ؔکے انتقال پر فیضؔ کی لکھی دو غزلوں کے اشعار کو بیان کیا ہے۔ ملاحظہ ہو
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر
ایک امید سے دل بہلتا رہا
ایک تمنا ستاتی رہی رات بھر
دوسری غزل کا مطلع یہ ہے
اس انداز سے چل باد صبا آخر شب
یاد کا پھر کوئی دروازہ کھلا آخر شب
صبح ہوئی تو وہ پہلو سے اٹھا کر آخر شب
وہ جو ایک عمر سے آیا نہ گیا آخر شب
(ضامن علی حسرت، متاع ادب ص56)
فاضل مصنف نے اس تقابلی مطالعہ میں ایک ایک بند کو پیش کر کے تجزیہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ دونوں کی نظموں کا موضوع آزادی ہے اور دونوں کے بہت سے اشعار ہم معنی ہیں اور دونوں نظمیں مشترکہ نظر آتی ہیں مضمون کے آخر میں وہ تقابل کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ دونوں ہی نظمیں لاجواب ہیں ۔ معیاری ہیں اور سبق آموز ہیں اور دونوں کو بھی ادب میں اہم مقام ملا ہے اور کسی کو بھی کسی پر فوقیت نہیں دی جاسکتی ۔ بہرحال انہوں نے بہترین تقابل اور تجزیہ پیش کیا ہے۔ اور اس مضمون کے ذریعے اردو میں تقابلی تنقیدکی ایک اور اچھی مثال قائم کی ہے ۔
ان تین مضامین کے علاوہ دیگر مضامین میں قرۃ العین حیدر کے افسانے "نظارہ درمیاں ہے " کا تجرباتی مطالعہ منٹو کے افسانوں، بواور ہتک کاخصوصی مطالعہ، ہمیں سوگئے داستان کہتے کہتے ،غوث خواہ مخواہ کی مزاحیہ شاعری کا تہذیبی وسماجی پس منظر، سریندر پرکاش کے افسانے "بجوکا"کا خصوصی مطالعہ، خطوط غالب کا خصوصی مطالعہ، مضمون اور انشائیہ میں طنز و مزاح(سرسری جائزہ) شامل ہیں ۔ متاع ادب میں شامل ضامن علی حسرت ؔکے مضامین ان کے اعلیٰ تحقیقی و تنقیدی مزاج کی دلالت کرتے ہیں ۔ انہوں نے اردو کے شاہکار ادبی فن پاروں کو تنقید کے لئے منتخب کیا۔ جس پر پہلے ہی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ۔ فاضل نقاد نے پیشررو تنقید کا مطالعہ کیا اور اپنے تجزیاتی نظریات ان مضامین میں شامل کرتے ہوئے اردو ادب کے ان فن پاروں کے مطالعے کو نئی جہت عطا کی۔ ضامن علی حسرت نئی بات کہنے سے ہچکچاتے نہیں اور اپنی بات میں وزن پیدار کرنے کے لئے مناسب دلیل بھی دیتے ہیں ۔ جس کا اندازہ ان کے ان مضامین کے مطالعے سے ہو گا۔ کتاب کی زبان صاف سادہ اور سلیس ہے طباعت اور کاغذ عمدہ ہے۔ ٹائٹل بھی جاذب النظر ہے کتاب کی ترتیب سے مصنف کی صلاحیتوں کا اعتراف ہوتا ہے صفحات جملہ 108ہے اور قیمت175روپیئے رکھی گئی ہے۔
امید ہے کہ یہ کتاب اردو دنیا میں اپنی انفرادیت کے باعث شہرت کی منزلیں طئے کرے گی۔ اوربالخصوص تحقیق و تنقید کے طالب علموں کے لئے لائق مطالعہ ہے۔ اس گراں قدر کتاب کی اشاعت پر میں ضامن علی حسرت کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ساتھ ہی امید کرتا ہوں کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور جستجو سے مزید تحقیق و تنقیدکا سفر جاری رکھیں گے اور ادب کے طالب علموں کی پیاس یوں ہی بجھاتے رہیں گے۔
کتاب ملنے کاپتہ :
ضامن علی حسرت مکان نمبر9-16-60احمدپورہ کالونی نظام آباد اے پی (فون نمبر9440882330)

ایم اے عزیز سہیل

A review on Zamin Ali Hasrat book Mata-e-Adab. Article by: M.A.Azeez Sohail

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں