جنس کا جغرافیہ - قسط:10 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-07

جنس کا جغرافیہ - قسط:10



محبت مرد بھی کرتا ہے اور عورت بھی، لیکن محبت کے بارے میں دونوں کے نظریات میں نمایاں فرق ہے۔ مرد محبت کرنا چاہتا ہے اور عورت کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس سے محبت کی جائے۔
مرد چاہتا ہے کہ اس کے کارناموں کی عزت کی جائے ، انہیں سراہا جائے۔ لیکن عورت چاہتی ہے کہ خود اس کی عزت کی جائے، اس کی تعریف کی جائے۔
مرد محبوب کی خدمت میں اپنے کارنامے پیش کرنا چاہتا ہے لیکن عورت خود اپنی ذات پیش کرتی ہے۔ مرد کی محبت کا دائرہ وسیع ہوتا ہے یعنی وہ اپنی آئیڈیل سے اور بیوی دونوں سے محبت کرتا ہے لیکن عورت صرف شوہر سے محبت کرتی ہے۔
مرد محبوبہ کی خوشی کیلئے زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہتا ہے لیکن عورت شوہر کے کام کو اپنا رقیب سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کامیاب مفکروں، ادیبوں، شاعروں، ڈاکٹروں، لیڈروں، تاجروں، وکیلوں وغیرہ کی بیویاں اپنے شوہروں کی محبت پر اعتبار نہیں کرتیں اور ان کے پیشوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔
مرد کار نمایاں انجام دینا چاہتا ہے لیکن عورت ذاتی برتری کو ترجیح دیتی ہے۔ مرد کی شخصیت خود پسند ہوتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خود غرض ہوتا ہے۔ وہ دنیا پر اپنی خودی کا ایسا نقش جمانا چاہتا ہے جو ہمیشہ قائم رہے۔ اس کی محبت کا مرکزخودی ہوتا ہے لیکن عورت کی محبت کا مرکز مرد ہوتا ہے۔ وہ اپنے من مندر میں شوہر کے بت کو بٹھاتی ہے۔ وہ شوہر اور بچوں کی خدمت میں اپنے آپ کو بھول سکتی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کی محبت ہمیشہ بے لوث اور بے غرض بھی ہوتی ہے۔

مرد آئیڈیل پسند ہوتا ہے۔ وہ شادی کے ابتدائی ایام میں بیوی کی خامیوں کو نہیں دیکھتا بلکہ یہ سوچنا ہے کہ اس کی رفیقہ حیات بے عیب ہے، لیکن عورت بہت جلد اپنے شوہر کی خامیوں کو دیکھ لیتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ شوہر کی خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود اس سے محبت کر سکتی ہے۔ اسے یہ یقین ہوتاہے کہ وہ اپنی محبت کے ذریعہ شوہر کی خامیوں کو دور کرے گی لیکن جب اسے شوہر کی شخصیت کو بدلنے میں ناکامی ہوتی ہے تو وہ مایوس ہو جاتی ہے۔
مرد اپنی محبت کی خاطر خطرات مول لے سکتا ہے لیکن عورت اس معاملے میں محتاط ہوتی ہے۔ عورت کے گریز سے مرد کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ وہ اس محبت سے لطف اندوز نہیں ہوتا جو آسانی سے ہاتھ آجائے۔ وہ محبوبہ کیلئے جدوجہد کرنا چاہتا ہے لیکن عورت مرد کے گریز یا بے نیازی کو بہت کم برداشت کر سکتی ہے۔
مرد کی نفسیات سے واقفیت رکھنے والی عورت شادی کے طویل عرصے بعد بھی شوہر کے بارے میں مناسب لاپرواہی، بے نیازی یا گریز سے کام لیتی ہیں تاکہ محبت کا شعلہ ٹھنڈا نہ ہوجائے۔

حجاب اکسیر ہے آوارۂ کو ئے محبت کو
مری آتش کو بھڑکاتی ہے تیری دیر پیوندی
عورت، مرد سے دل و جان سے محبت کرتی ہے اس لئے جسمانی محبت (جنسی تعلقات) کی نسبتاً کم ضرورت محسوس کرتی ہے۔ مرد اپنی جارحیت کی وجہ سے جسمانی محبت کی ضرورت زیادہ محسوس کرتا ہے۔ اگر کوئی عورت چاہے جانے کے بجائے مرد کو بہت زیادہ چاہنے لگے اور اپنی محبت کے اظہار کیلئے اس کا پیچھا کرنے لگے تو ممکن ہے مرد کی محبت بالکل ختم ہو جائے کیونکہ مرد مطلوب ہونے کے بجائے طالب ہونا زیادہ پسند کرتا ہے۔

ہم ایک زمانے سے اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ذہانت صرف مردوں کے حصے میں آئی ہے اور عورت ناقص العقل ہے۔ آئیے ذرا دیکھیں کہ حقیقت کیا ہے؟
مرد تسخیر کائنات کے معاملے میں ذہین ہے اور عورت شخصی معاملات میں، مثلاً خدمت، مامتا، آرائش و زیبائش وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس اور فلسفہ میں عورت کا حصہ بہت کم ہے۔ اگر عورت نے سائنس اور فلسفہ میں کار نمایاں انجام نہیں دئیے تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کر لینا کہ وہ ناقص العقل ہے درست نہیں۔
ذہین دونوں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ دونوں کی ذہانت کا میدان الگ الگ ہے۔ عورت کی ذہانت، عقلی کم اور وجدانی زیادہ ہے۔ وہ کسی واقعے کی تفصیلات کا تجزیہ کئے بغیر اپنی جذباتی قوت، احساس اور وجدان کی مدد سے ایک نتیجہ اخذ کر لیتی ہے۔
کوئی کام کیوں ضروری ہے؟ اس سوال کے جواب میں وہ دلائل نہیں دے سکتی، لیکن اس کے باوجود اس کی رائے شحصی یا خاندانی معاملات کے بارے میں درست ہو سکتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص اسے بُری نگاہ سے دیکھتا ہے تو فوراً بھانپ جائے گی اور محتاط ہوجائے گی۔ عورت اپنے احساس اور وجدان سے زیادہ کام لیتی ہے لیکن مرد غور و فکراور منطق پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے۔
عورت جذباتیت کی وجہ سے زیادہ جانبدار اور متعصب ہو سکتی ہے۔ کسی بات کا ردعمل عورت پر جلد اور مرد پر دیر میں ہوتا ہے۔ مرد کچھ کہنے یا کرنے سے قبل غور و فکر کرے گا لیکن عورت کو جو کچھ کرنا ہے وہ فوراً کر گزرے گی۔
مرد تجریدی ہوتا ہے اسی لئے وہ کسی مسئلہ کو مختلف حصوں میں بانٹ کر ایک ایک حصے کا تجزیہ کرتا ہے۔ وہ مسئلے کو ہر زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اپنے غور وفکر ، چھان پھٹک، بحث و تمحیص، منطق وغیرہ کی وجہ سے سائنسی، قومی اور بین الاقوامی مسائل کو بہتر طریقے سے حل کر سکتا ہے۔
لیکن عورت ذاتی اور شخصی مسائل میں فطری طورپر زیادہ دلچسپی لیتی ہے۔ کیونکہ اس کا کام تسخیر کائنات نہیں بلکہ خاندان کی خدمت ہے۔ وہ گھر سے باہر کے خطرات مول لینے سے گریز کرتی ہے۔ وہ اسکول میں پڑھائے یا اسپتال میں تیمار داری کرے، ہر جگہ گھریلو ماحول پیدا کر لے گی۔ مرد تسخیر کائنات کیلئے مستقبل کی جانب زیادہ متوجہ رہتا ہے۔ وہ یہ سوچتا ہے کہ اگر یہ تبدیلی کر دی جائے تو کیا ہوگا؟ لیکن عورت، جو کچھ سامنے ہے موجود ہے اسی کو باقی رکھنا چاہتی ہے۔

عورت مرد کی طرح انقلاب پسند نہیں بلکہ قدامت پرست ہوتی ہے۔ وہ نت نئے راستوں کی تلاش کرنے کے بجائے گھسے پھٹے راستوں پر چلنا زیادہ پسند کرتی ہے خواہ اسے تکلیف ہی کیوں نہ ہو۔ اپنی فطری کمزوریوں کی بناء پر وہ تحفظ چاہتی ہے۔ عورت اپنے آپ کو ماحول سے جلد ہم آہنگ کر لیتی ہے۔ وہ اپنے مقصد کے حصول کیلئے اپنے آپ کو جھٹلا سکتی ہے۔ وہ فطری طور پر موقع پرست ہے۔
عورت عام مسائل کے بارے میں فیصلہ کرنے کے بارے میں جلد باز ہوتی ہے۔ اس کے مشورے، فیصلے، اخذ کردہ نتائج، غور و فکر کے بجائے کیفیات پر مبنی ہوتے ہیں، اسی لئے وہ زیادہ غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا شکار ہو سکتی ہے۔
مرد خاندان ضروریات کی تکمیل کرتا ہے، لیکن کوئی غیر متوقع حادثہ رونما ہونے کی صورت میں وہ شش و پنچ میں مبتلا ہو سکتا ہے، لیکن عورت ایسی صورتحال سے بخوبی نمٹ لیتی ہے۔
عورت اپنی جزئیات پسندی کی وجہ سے بچوں کی تعلیم و تربیت، مریضوں کی خدمت وغیرہ عمدہ طریقے سے کر سکتی ہے۔ عورت اپنی جزئیات پسندی کے سبب سماجی حالات میں انتہا پسند ہو سکتی ہے۔
مرد اور عورت دونوں ہی منطق سے کام لیتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ مرد کی منطق نظریات اور اصولوں پر مبنی ہوتی ہے، لیکن عورت کی منطق واقعات اور حادثات پر منحصر ہوتی ہے، اسی لئے مرد کے اخذ کردہ نتائج زیادہ غیر جانبدارانہ اور درست ہوتے ہیں اور عورت کے نتائج شخصی اور ذاتی ہوتے ہیں۔

عورت اور مرد کے تخیل میں بھی بین فرق ہوتا ہے۔ عورت کا تخیل جاندار اور مسرت انگیز ہوتا ہے۔ وہ مرد کے مقابلے میں خیالی پلاؤ زیادہ پکاتی ہے۔ اسی تخیل کی وجہ سے وہ بے بنیاد اندیشوں سے خائف اور پریشان رہتی ہے اور قیاس آرائیوں اور بدگمانیوں کی وجہ سے اپنی خوشی کا گلہ گھونٹی ہے۔ اس کے برعکس مرد کا تخیل اعتدال پسند اور تخلیقی ہوتا ہے۔ مرد پیچیدہ مسائل کو آسانی سے سلجھا سکتا ہے اور مادی قوتوں کو مغلوب کر سکتا ہے۔

جہاں تک جذبات کا تعلق ہے مرد غیر جانبدار اور بے نیاز ہو سکتا ہے، لیکن عورت اور جذباتی غیر جانبداری ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ وہ کسی شئے سے محبت کرے گی یا نفرت! عزت کرے گی یا حقارت کی نگاہ سے دیکھے گی!
مختصر یہ کہ وہ ہر وقت کسی نہ کسی جذبے کی گرفت میں رہتی ہے۔ مامتا کی وجہ سے عورت میں ہمدردی اور رحم کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کی ضروریات اور دکھ درد کو بخوبی محسوس کر سکتی ہے۔
فطری طورپر قوت احساس کی کمی اور عقل کے غلبہ کی وجہ سے مرد دوسروں کے دکھ درد کو نسبتاً کم محسوس کرتا ہے۔ عورت کے جذبات کا تعلق اشخاص اور اقدار سے زیادہ ہوتا ہے۔ وہ محسوس نہ ہو سکنے والی باتوں سے تعلق رکھنا پسند نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نظریات کے بجائے نظریات کے علمبردار انسانوں کی پرستش کرتی ہے، لیکن مرد شخصیت پسند کم اور نظریات اور اصول پسند زیادہ ہوتا ہے۔
وہ اپنے آئیڈیل کیلئے بڑی سی بڑی قربانی بخوشی دے سکتا ہے لیکن عورت کا ایثار عموماً کسی ذات کیلئے ہوتا ہے۔ عورت گھریلو جانوروں، پھولوں اور دیگر اشیائے سے بھی اسی طرح سلوک کرتی ہے گویا وہ اشیاء نہیں انسان ہیں، لیکن مرد اس کی طرح اشیاء کو شخصی جامہ نہیں پہناتا۔
عورت اپنی زندگی شوہر، بچوں رشتے داروں اور سہیلیوں کیلے وقف کر دیتی ہے اور اگر اس کے خلوص، محبت، ایثار اور قربانی کی قدر نہ کی جائے تو اس کا شیشۂ دل چور چور ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی وہ زندگی سے مایوس ہوجاتی ہے، لیکن خلوص پر مبنی تحسین و ستائش کا ایک لفظ اس کی تمام تکان اور افسردگی کو کافور کر دیتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ مرد بھی اپنے خاندان سے محبت کرتا ہے لیکن اس کی محبت جذباتی کم اور عقلی زیادہ ہوتی ہے اور پھر اس کی محبت کا دائرہ زیادہ وسیع ہوتا ہے۔

Jins Geography -episode:10

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں