ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:3 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-16

ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:3


رات گئے جب کالکا کی آنکھ کھلی تب اُسے یادکہ اس کا مالک شہر گیا تھا چنانچہ یہ معلوم کرنے کیلئے کہ ونود واپس آیا کہ نہیں وہ اپنی کوٹھری سے باہر نکلا۔ اور پھر یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی کوئی حد و انتہا نہیں رہی کہ ونود برآمدے کے فرش پر بے ہوش پڑا ہوا ہے ۔
اس وقت رات کے 3بج رہے تھے ۔ کالکا گھبرا کر شانتا کے کمرے کی طرف بھاگا تاکہ اس کو جگا کر ونود کی بے ہوشی کی اطلاع دے لیکن جب ا س نے شانتا کو بھی اپنے پلنگ پر بے ہوش پایا تو وہ پریشان ہو کر بے تحاشہ چیخنے لگا۔ اس کی چیخیں سن کر دوسرے نوکبر بھی جاگ کر پہنچ گئے ۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ شانتا اور ونود بے ہوش کیوں ہوئے تھے ۔

15 منٹ کی کوششوں کے بعدبہرحال ونود کو ہوش آ گیا۔ پہلے ہوش شانتا کو آیا تھا۔ اس نے آنکھیں کھولتے ہی سب سے پہلے گھبرا کر چارں طرف دیکھا اور جب اُسے مانوس چہرے نظرآئے تو اس نے بڑی مردہ آواز میں کالکا سے پوچھا "تمہارے مالک کیا اب تک نہیں آئے "۔

"آ گئے مالکین...." کالکا نے روہانسی آواز میں جواب دیا۔
"کہاں ہیں وہ ..."شانتا نے دوسرا سوال کیا۔
"برابر کے کمرے میں "۔ کالکانے جواب دیا۔ "آپ کی طرح وہ بھی بے ہوش پڑے تھے لیکن آپ گھبرائیں نہیں ...ابھی وہ بھی ہوش میں آ جائیں گے "۔ اتنا کہنے کے بعد کالکا نے شانتا سے پوچھا
آپ دونوں کو کیا ہو گیا تھا مالکین۔
"کچھ نہیں ...." شانتا نے کالکا سے اصل بات نہ بتانے میں ہی عافیت سمجھی۔ اس نے کالکا سے کہا "آو میرے ساتھ" اتنا کہہ کر وہ کالکا کا سہارا لے کر اٹھی اور اس کمرے تک گئی جہاں ونود بے ہوش پڑا تھا۔

اس وقت شانتا کا چہرہ غم اور خوف کی وجہہ سے اتنا سفید نظر آ رہا تھا جیسے کسی نے اس کے جسم کا سارا خون نچوڑلیا ہو۔ ایک ہی رات میں وہ اتنی کمزور ہو گئی تھی کہ اس سے قدم نہیں اٹھائے جا رہے تھے دونوں کی بے ہوشی کی خبر نے اس کے ذہنی خوف میں اور بھی اضافہ کر دیا تھا۔ اب بھی جب وہ رات کے منظر کے بارے میں سوچنے لگتی اس کے جسم کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے تھے اور وہ خوف زدہ ہرنی کی طرح گھبرا کر چاروں طرف دیکھنے لگتی تھی۔
لیکن.....اس کا یہ خوف کم ہو گیا جب اس نے ونود کو ہوش میں دیکھا۔ ونود ادھ کھلی آنکھوں کے ساتھ مسلسل چھت کی طرف دیکھ رہا تھا شانتا کی آواز سن کر اس نے اپنی پوری آنکھیں کھولیں اور بڑی نیم مردہ آواز میں کہا ’میں بالکل ٹھیک ہوں شانتا"۔

لیکن آپ کو کیا ہو گیا تھا....شانتا نے بڑی آہستہ آواز میں پوچھا۔ "تم جانتی ہو شانتا کہ تمہارے سوال کا جواب کیا ہے ۔ ونود نے شانتا کو انگریزی میں جواب دیا تاکہ دوسرے نوکروں کو بے ہوشی کا اصل سبب نہ معلوم ہو سکے ۔ اس نے مزید کہا "بہرحال میں نوکروں کے جانے کے بعد تمہاری آپ بیتی سبھی سنوں گا اور اپنی کہانی بھی سناؤں گا۔ اس وقت ہماری خاموشی ہی مناسب ہے کیونکہ اگر نوکروں کو ہماری بے ہوشی کا اصل سبب معلوم ہو گیا تو وہ ہمیں اطلاع دئیے بغیر حویلی سے بھاگ جائیں گے ۔

پندرہ منٹ کے بعد جب کالکا اوردوسرے نوکروں نے یہ دیکھا کہ شانتا اور ونود کی طبعیت بالکل ٹھیک ہے تو وہ اجازت لے کر چلے گئے صرف کالکا موجود رہا لیکن ونود نے اس کو بھی جانے کیلئے کہہ دیا۔ اب وہ جلد ازجلد تنہائی چاہتا تھا تاکہ شانتا کی کہانی سن سکے اور اپنی سناسکے ۔ انسان کی عجیب فطرت ہے دوسروں کا غم سن کر خود اس کا غم ہلکا ہو جاتا ہے اور اپنا غم دوسروں کو سنانے کے بعد بھی وہ ایسا محسوس کرنے لگتا ہے جیسے اس کے غم میں کمی آ گئی ہے ۔

کالکا کے جانے کے فوراً بعد ہی ونود نے شانتا سے پوچھا "ہاں اب بتاؤ کہ تم بے ہوش کیوں ہوئی تھیں ؟ تم نے کیا دیکھا تھا؟"

"میں تمہارے انتظار میں ایک ناول پڑھ رہی تھی کہ تھک کر میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔ چند منٹ بعد گھڑی نے 12کے گھنٹے بجائے میں نے آنکھیں بند کئے کئے سوچا کہ آخر تمہیں شہرسے آتے ہوئے اتنی دیر کیوں ہو گئی ہے ۔ اسی طرح 5منٹ گزر گئے ۔ اچانک میں نے محسوس کیا جیسے کمرے میں میرے علاوہ کوئی اور بھی موجود ہے ۔ میں نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں اور پھر ونود۔ یہ دیکھ کر میری آواز حلق میں پھنس کر رہ گئی کہ میرے پلنگ کے بالکل قریب ایک عورت میری طرف دیکھ رہی تھی۔
پہلی ہی نظر میں پہچان چکی تھی کہ یہ عورت وہی ہے جس کا بت پرانے کنویں سے نکلا تھا اور ج تم نے حویلی کے سامنے حوض میں نصب کرادیا تھا اتنا کہنے کے بعد شانتا ایک لمحہ کیلئے خاموش ہو گئی اس نے بڑی خوف زدہ نظرو سے اپنے چاروں طرف دیکھا اور پھر کہا "ونود... اس عورت کو اپنے بالکل قریب دیکھ کر میں نے چیخنا چاہا لیکن چیخ نہ سکی، میں نے اٹھ کر بھاگنا چاہا لیکن میرا جسم جیسے شل ہو گیا تھا اور پھر دوسرے ہی لمحہ میں آواز نکالے بغیر بے ہوش ہو گئی"۔

یہ عورت کیسا لباس پہنے تھی"۔ ونود نے پوچھا۔ "وہی لباس جو بت کے جسم پر موجود ہے ۔ شانتا نے بڑی مردہ آواز میں جواب دیا۔
کیا وہ بالکل خاموش تمہارے نزدک کھڑی تھی تمہیں دیکھ رہی تھی۔ ونود نے دوسرا سوال کیا۔
ہاں ....بالکل خاموش کھڑی تھی۔ شانتا نے جواب دیا۔
کیا اس کی پلکیں جھپک رہی تھیں ۔ ونود نے نیا سوال کیا کیونکہ اس نے سن رکھا تھا کہ بھوتوں اور چڑیلوں کی پلکیں زندہ انسانوں کی طرح نہیں جھپکتی ہیں اور بالکل ساکت و جامد رہتی ہیں ۔
"یہ میں نے غور نہیں کیا کہ اس کی پلکیں جھپک رہی تھیں یا نہیں البتہ میں نے یہ ضرور محسوس کیا کہ اُس کی آنکھوں میں خلاف معمول بہت زیادہ چمک تھی۔

اس نے تم سے کوئی بات کی۔۔۔ ونود نے پوچھا۔
"نہیں بس وہ میری طرف دیکھے جا رہی تھی"۔ "اچھی طرح یاد کر کے بتاؤ شانتا کہ کیا تم نے کوئی خواب تو نہیں دیھا تھا.... ونود نے شانتا کو تسلی دینے اور اس کا خوف دور کرنے کیلے پوچھا۔

نہیں ونود.... شانتا نے بڑے یقین بھرے لہجے میں کہا۔ "میں پورے ہوش و حواس کے ساتھ کہہ رہی ہوں کہ میرے قریب بالکل وہی عورت کھڑی تھی جس کا سنگی بت کنویں سے نکلا تھا۔
"اچھایہ بتاؤ کہ تم نے اس کے پیروں کی طرف دیکھا بھی تھا" ونود نے پوچھا۔ "ہاں دیکھا تھا اور سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس کے پیرہی دیکھ کر بے ہوش ہوئی تھی"۔ "کیا اس کے پیر چڑیلوں کی طرح مڑے ہوئے تھے "۔ ونود نے سوال کیا۔ "نہیں ونود... اس کے پیر زندہ انسانوں کے پیر تھے لیکن وہ بالکل گیلے تھے ۔ بالکل اس طرح جیسے وہ پانی میں چل کر میرے کمرے تک آئی ہو...."

ونود نے اس کے بعد شانتا سے اورکوئی سوال نہیں کیا چند منٹ تک وہ بالکل ساکت نظروں سے شانتا کی طرف دیکھتا اور پھر اس نے کہاکہ "تم ٹھیک کہتی ہو شانتا۔ وہ واقعی پانی میں چل کر تمہارے پاس آئی تھی...." ایک لمحہ کی خاموشی کے بعد اس نے مزید کہا "میں نے اس عورت کے گیلے قدموں کے نشان دیکھے تھے "۔

"لیکن تم برآمدے میں بے ہوش کیسے پائے گئے "۔ شانتا نے پوچھا۔ "تم رات کو کس وقت واپس آئے تھے ؟ کالکا کہتا تھا کہ اس نے رات کو 3بجے تم کو برآمدے میں بے ہوش پایا تھا"۔ "میں نے اس عورت کو دیکھ لیا تھا شانتا" ونود نے اب شانتا سے جھوٹ بولنا ہی مناسب سمجھا۔ اس نے کہا "لیکن میرا خیال ہے کہ وہ اس علاقہ کی کوئی چور عورت ہے جو حویلی میں چوری کرنے آئی تھی اور مجھے دیکھ کر بھاگ گئی"۔
"لیکن ونود..."شانتا نے کہاکہ "اس کی شکل اور اس کا لباس پرانے کنویں کے بت سے ہوبہو ملتا جلتا تھا اور پھر اس کے پیر بھی گیلے تھے "۔

ہو سکتا ہے کہ جس عورت کا یہ بت ہے اس نے دوبارہ جنم لیا ہو اور اسی لئے اس کی شکل بت سے بالکل مشابہہ ہو ونود نے اپنا جھوٹ ثابت کرنے کیلئے فلسفہ آواگون یعنی تناسخ کا سہارا لیا۔

"اور اب یہ ثابت کرو کہ اس کے پیر کیوں گیلے تھے ؟ شانتا نے بڑے بھولے پن سے پوچھا۔ "بہت ممکن ہے کہ وہ حوض میں نصب شدہ خود اپنا بت دیکھ کر حیران ہوئی اور اس نے پانی میں اتر کر اس بت کو غور سے دیکھا ہو.... ونود نے دوسرا جھوٹ بولا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تم کیوں بے ہوش ہو گئے تھے ۔ شانتا اب اصل مطلب کی طرح آئی۔

سچی بات تو یہ ہے شانتا کہ میں حویلی میں ایک اجتنی عورت کودیکھ کر ڈرگیا تھا جیسے تم ڈر گئی تھیں ۔ ونود نے جواب دیا۔
ونود نے سوچا اور ٹھیک ہی سوچا کہ اگر وہ شانتا سے یہ کہہ دے گا کہ اس نے حویلی میں داخل ہوتے ہی بت کا چبوترہ خالی پایا تھا اور جب وہ دوبار اس کے کمرہ سے باہر نکل کر برآمدے سے آیا تھا تو اس نے حسب معمول بت کو اپنی جگہ موجود پایا تھا تو شانتا نہ صرف یہ کہ انتہائی خوف زدہ ہو جائے گی بلکہ اسی لمحے حویلی چھوڑدے گی چنانچہ اس نے شانتا کو تسلی دینے کیلئے اور اس کے ذہنی خدشات کو دور کرنے کیلئے جھوٹ کا سہارا لیا تھا۔

اس حادثہ کے بعد دونوں میاں بیوی ساری رات جاگتے رہے تھے ۔ دونوں اپنی اپنی جگہ بت کے سوال پر غور کر رہے تھے لیکن دونوں کا انداز فکر ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھا۔ ونود سوچ رہا تھا کہ بت زندہ کیسے ہو گیا اور شانتا سوچ رہی تھی کہ یہ اجنبی عورت کون ہو سکتی ہے ۔ دونوں اپنی اپنی جگہ فکر مند تھے دونوں خوف زدہ تھے اور دونوں کو بڑی بے چینی سے آنے والی صبح کا انتظار تھا۔

صبح ہوتے ہی ونود نے سب سے پہلے آ کر بت والے حوض کا معائنہ کیا اور ایک مرتبہ پھر خود کو یہ یقین دلانا چاہا کہ اس نے رات کو جو کچھ دیکھا وہ اس کا وہم نہیں تھا۔ بت حسب معمول چبوترے پر نصب تھا اور حوض کے چاروں طرف کسی قسم کا کوئی نیا نشان نہیں تھا۔ ونود دیر تک کھڑا اس خوبصورت عورت کے بت کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہاکہ وہ رات کی بات کا یقین کرے یا نہ کرے ۔
ونود ایک لمحہ کیلئے بھی یہ ماننے کیلئے تیار نہیں تھا کہ رات کو اُس کی آنکھوں نے دھوکہ کھایا ہو گا۔ اس نے اپنی بیدار اور زندہ آنکھوں سے بت کو چبوترہ خالی دیکھا تھا۔ حوض کے آگے برآمدے میں گیلے قدموں کے نشان دیکھے تھے ۔ پھر وہ یہ کیسے مان لیتا کہ رات کو اس نے جو کچھ دیکھا تھا وہ اس کی نظروں کا فریب تھا۔ ونود نے سوچا کہ اگروہ تھوڑی دیر کیلئے یہ مان بھی لے کہ رات کو اس کی نظروں نے دھوکہ کھایا تھا تو پھر کیا شانتا کی نظروں نے بھی دھوکہ کھایا تھا کیا وہ بھی خواب دیکھ رہی تھی؟
لیکن یہ بالکل ناممکن تھا کہ شانتا نے خواب دیکھا ہو۔ اس لئے کہ خود اس نے اپنی آنکھوں سے شانتا کی مسہری کے قریب گیلے قدموں کے نشان دیکھے ۔ ونود بت کی طرف دیکھتا رہا اور اس کا ذہن مختلف خیالات کی آماجگاہ بنا رہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اب کیا کرے ۔ اگات پور میں اس کا کوئی دوست بھی نہیں تھا جس سے وہ کوئی مدد یا مشورہ لیتا۔ اچانک اس کا ذہن پروفیسر تارک ناتھ کی طرف گیا جس سے اُس نے بت کی تاریخ معلوم کرنے میں مدد لی تھی۔ اس نے شانتا سے آ کر کہا کہ وہ چار گھنٹے کیلئے شہر جا رہا ہے اور دوپہر تک واپس آ جائے گا شانتا چونکہ ونود کے جھوٹ کی وجہہ سے اب بالکل خوف زدہ نہیں تھی اس لئے اُس نے بھی ونود کو نہیں روکا۔

ونود نے چلتے چلتے شانتا سے یہ بھی کہا "تم رات والی عورت کی بات کالکا یا کسی دورسے نوکر کو نہ بتانا"۔
"کیوں نہ بتاؤں ؟" شانتا نے پوچھا۔
"تم نہیں جانتیں یہ چھوٹی طبعیت کے لوگ ہوتے ہیں یہ لوگ بات کا بتنگڑبنالیں گے اور اس طرح میں اس چور عورت کو تلاش نہ کرپاؤں گا"۔
"تو کیا تم شہر اسی عورت کے چکر میں جا رہے ہو"۔ شانتا نے پوچھا۔
"ہاں ....." ونودنے ایک اور جھوٹ بولا "میں پولیس کو اطلاع دینے جا رہا ہوں "۔
"حیر...پھر میں اپنی زبان بند رکھوں گی"۔ شانتا نے بڑے مطمئن لہجے میں جواب دیا۔

ونود شہر پہنچا تو اتفاق سے پروفیسر تارک ناتھ اپنی کوٹھی میں ہی مل گئے ۔ اس دن ان کی طبیعت خراب تھی اس لئے وہ یونیورسٹی نہیں گئے تھے ۔ ونود کو دیکھتے ہی مسکرائے اور انہوں نے کہا
"میرا خیال ہے آپ اسی بت کے سلسلے میں آج بھی آئے ہیں "۔
"جی ہاں ...." ونود نے بڑی ہلکی آواز میں جواب دیا۔
"لیکن آپ کو کیسے پتہ چل گیا کہ میں پرانے بت کے سلسلے میں ہی آپ سے ملنے آیا ہوں "۔
اس لئے کہ آپ کچھ پریشان نظر آ رہے ہیں ۔ پروفیسر نے بدستور اپنی مسکراہٹ باقی رکھی۔
"ہاں پروفیسرصاحب...." ونود نے جواب دیا۔ "اورمیری یہ پریشانی اتنی عجیب و غریب ہے کہ آپ شائد میری بات کا یقین نہ کریں "۔



Novel "Aik Bot" by: Salamat Ali Mehdi - episode:3

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں