ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:4 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-23

ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:4


"نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں کہ آپ کوئی بات کہیں اور میں اس پر یقین نہ کروں " پروفیسر تارک ناتھ نے اب اپنی مسکراہٹ ختم کر دی۔
ونود نے چند منٹ کے اندر پروفیسر کو رات کی پوری داستان سنادی اور پھر کہا کہ "میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ نہ میری نظروں نے فریب کھایا اور نہ میں کسی وہم میں مبتلا ہوں ۔ میں اپنے بارے میں آپ کو یہ بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ میں بھوت پریت پر بالکل یقین نہیں رکھتا"۔

ونود کی داستان سننے کے بعد پروفیسر چند لمحات تک آنکھیں بند کئے بیٹھا رہا اور پھر اس نے کہاکہ "آپ نے یقینا ایک ناقابل یقین داستان سنائی ہے لیکن میں بہرحال اس پر یقین کر رہا ہوں کیونکہ میں ماضی کی بھی ایسی کئی کہانیوں سے واقف ہوں جب روح دوبارہ اس دنیا میں واپس آئی اور اس نے اس دنیا کی سیرت کی۔ لیکن میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ آپ مجھ سے کس قسم کی مدد لینا چاہتے ہیں ؟ "
"میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ اس بت کے بارے میں ایک مرتبہ پھر تحقیقات کریں کہ اس بت کی کہانی کیا ہے ؟ یہ بت کس کا ہے ؟ یہ بت کنویں میں کیوں پڑا تھا؟" ونود نے کہا۔
"میں کوشش کروں گا"۔
"نہیں پروفیسر صاحب" ونود نے کہا
"آپ آج ہی سے یہ کام شروع کر دیجئے۔ اس کام پر آپ میری طرف سے دل کھول کر روپیہ خرچ کر سکتے ہیں کیونکہ میں ہر قیمت پر اس بت کا راز حاصل کرنا چاہتا ہوں "۔
"لیکن اس سے آپ کو فائدہ کیا ہو گا"پروفیسر نے سوال کیا۔
"میں بت کی بے چین روح کو سکون دلانا چاہتا ہوں "۔ ونود نے جواب دیا" اور اگر اس کی زندگی میں کوئی تمنا ادھوری رہ گئی ہے یا کوئی کام نامکمل رہ گیا ہے تو میں اسے سبھی پورا کر دینا چاہتا ہوں تاکہ روح کے بے قراری کو قرار آ جائے ۔"

"میں آپ کے خیالات کی قدر کرتا ہوں مسٹر ونود"۔ پروفیسر تارک ناتھ نے کہا
"میں بہرحال ہر ممکن کوشش کروں گا کہ اس بت کے بارے میں جو کچھ بھی معلومات ہوں وہ جلد ازجلد فراہم کر کے آپ تک پہنچادوں "۔
ونود اور پروفیسر تارک ناتھ دیر تک روح کے مسئلہ پر گفتگو کرتے رہے ۔ پروفیسر تارک ناتھ نے اپنی گفتگو کے دوران اگات پور کے بارے میں کچھ نئی باتیں بھی بتائیں ۔ انہوں نے کہا
"اگات پور کے حکمران راجپوت صرف بہادر ہی نہیں غیور بھی تھے ۔ ان کے یہاں بیوہ عورتوں کے ستی ہو جانے کا بھی رواج تھا۔ یہ کبھی غیر خاندان میں اپنے لڑکے کی شادی نہیں کرتے تھے اور نہ ہی لڑکی کی.... میں نے بہت تحقیقات کی لیکن مجھے کوئی پتہ نہیں چل سکا کہ یہ حکمران خاندان اگات پور چھوڑنے کے بعد کہاں چلا گیا تھا اور راجہ کی نسل آج کل کس علاقہ میں آباد ہے "
پروفیسر تارک ناتھ نے یہ بھی کہا "آپ بھوت پریت اور ارواح خبیثہ پر یقین کریں یا نہ کریں لیکن میرا یقین ہے کہ مرنے کے بعد بھی بعض روحیں اس دنیا میں موجود رہتی ہیں ان میں سے بعض نیک ہوتی ہیں اور بعض بد... بعض انسانوں کو نقصان پہنچاتی ہیں اور بعض فائدہ پہنچاتی ہیں اور بعض نہ فائدہ پہنچاتی ہیں اور نہ نقصان"۔

حویلی کے بت کے بارے میں انہوں نے کہا
" میں نہیں کہہ سکتا کہ عورت کی روح نیک ہے یا بد... لیکن یہ بات ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ اس عورت کی روح آپ کی بیوی شانتا کے کمرے میں کیوں داخل ہوئی تھی اور اگر داخل ہو بھی گئی تھی تو اس کے پلنگ کے قریب کھڑی ہو کر شانتا کی شکل غور سے کیوں دیکھ رہی تھی"۔
"ہاں ....ونود نے کہا
" خود یہی سوال میرے ذہن میں بھی کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے ۔"
جواب میں پروفیسر نے کہا "آپ نے عورت کے وجود کے بارے میں شانتا سے جھوٹ بول کر بہت ہی اچھا کیا۔ ورنہ وہ نہ صرف پریشان ہوتی بلکہ شائد وہ اس حویلی میں ایک لمحہ کو بھی نہیں رکتی"۔

ونود پروفیسر سے باتیں کر کے اگات پور واپس آیا تو شانتا حسب معمول مالیوں سے باغ میں کام لے رہی تھی، رات کے حادثے کا اس کے چہرے پر کوئی ردعمل باقی نہیں رہا تھا۔ ونود کو دیکھ کر وہ فوراً اس کے قریب آئی اور اس نے پوچھا "تم نے پولیس میں رپورٹ درج کرادی.."
"ہاں شانتا... ونود نے جھوٹی مسکراہٹ کو اپنے لبوں پر بکھیرتے ہوئے جواب دیا۔
"لیکن تم نے اس عورت کا حلیہ کیا لکھوا یا ہے ۔ " شانتا نے پوچھا۔
"وہی حلیہ جو اس بت کا ہے ...، ونود نے بت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور پھر موضوع بدلنے کیلئے شانتا سے کہا :
"کھانا تیار ہے یا نہیں "۔
"بالکل تیار ہے "۔ شانتا بولی "تم چل کر ہاتھ منہ دھوؤ میں ابھی میز پر کھانا لگواتی ہوں "۔
شانتا یہ جواب دے کر حویلی کے رسوئی گھر کی طرف چلی گئی لیکن ونود حویلی میں داخل نہیں ہوا وہ چلتے چلتے حوض کے قریب رک کر بت کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔
بت کی طرف دیکھتے ہی دیھکتے ونود نے اچانک محسوس کیا جیس بت کی نگاہیں زندہ ہو گئی ہیں اور ساکت آنکھوں میں زندگی کی چمک پیدا ہو گئی ہے ۔ چند لمحات بعد اس نے بت کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بھی پھیلتے دیکھی اور پھر قریب تھا کہ ونود کے حلق سے ایک چیخ سی نکل جاتی کہ کالکا وہاں آ گیا۔
ونود نے جب دوبارہ بت کی طرف دیکھا تو بت بدستور ساکت و جامد تھا۔ نہ بت کی آنکھوں میں چمک تھی نہ لبوں پر مسکراہٹ تھی اور نہ چہرے پر کوئی سرخی تھی۔ وہ اپنے وہم پر دل ہی دل میں ہنسا اور کالکا سے باتیں کرتا ہوا حویلی کے اندر داخل ہو گیا۔
ابھی شانتا رسوئی گھر سے نہیں آئی تھی لیکن ونود کھانے کی میز پر بیٹھ چکا تھا۔ اپنے مالک کو فرصت میں دیکھ کر کالکا نے کہا :
"آج میں دیہات کے بازار گیا تھا وہاں میں نے ویدجی سے آپ کی رات والی بے ہوشی کا تذکرہ کیا تو انہوں نے مجھے ایک بالکل نئی بات بتائی۔
"یہ وید جی کون ہیں ...پہلے تو تم نے کبھی ان کا کوئی تذکرہ نہیں کیا تھا"۔
"گاؤں کے بڑے پرانے لوگوں میں سے ایک ہیں مالک" کالکا نے جواب دیا۔
"وید جی کبھی اپنے مکان سے باہر نہیں نکلتے اور نہ ہی کسی مریض کے علاج کی فیس لیتے ہیں ۔ ""انہوں نے تم سے کہا کیا ہے ..."
ونود نے بڑی گھبراہٹ کے ساتھ سوال کیا۔

"انہوں نے یہ کہا مالک کہ یہ حویلی جس میں ہم رہتے ہیں بڑی منحوس ہے "۔
کالکانے بڑے پراسرار انداز میں کہا۔ "کیوں کہ یہاں رہنے والی کوئی بہو ایک سال سے زیادہ زندہ نہیں رہی ہے ۔ زمیندار کو جب اس بات کا پتہ چلا تو اس نے اپنی بہو اور بیٹی کو حویلی میں نہیں رکھا"۔
"کیا وید جی نے کسی ایسی بہو کی مثال دی جو اس حویلی میں مری ہو...." ونود نے اب پہلی مرتبہ کالکا کی گفتگو میں دلچسپی لی۔
"جی ہاں ...انہوں نے کہا کہ اگات پور کے ایک زمیندار کی بہو ایک رات اپنے کمرے میں مردہ پائی گئی۔ چند برسوں کے بعد جنہوں نے اپنے دوسرے بیٹے کی شادی کی اور بہو حویلی آئی تو یہ بہوی بھی چند ماہ بعد اپنے کمرے میں مردہ ملی چنانچہ اس نے اس کے بعد پنڈتوں سے مشورہ کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ سے کوئی بہو اس حویلی میں نہیں رکھی جائے گی چنانچہ حویلی کی بہوؤں کیلئے گاؤں میں ایک بڑا مکان بنوا دیا گیا"۔
"کیا تمہارے وید جی نے اس کا سبب بھی بتایا کہ ذمیندار کے لڑکوں کی بیویوں کے مرنے کا سبب کیا تھا"۔
"نہیں بتایا..."کالکا نے جواب دیا۔
"بس انہوں نے اتنا کہا کہ یہ حویلی منحوس ہے "۔
"سب بکواس..." ونود نے کہا:
"تم جا کر شانتا سے کہوں کہ وہ جلد کھانابھجوائے مجھے ستخت بھوک لگ رہی ہے ۔ ونود نے کالکا سے کہنے کو تو کہہ دیا تھا کہ وید جی نے صرف بکواس کی ہے لیکن جیسے اُس کا دل کہنے لگا کہ گاؤں کا یہ وید اس حویلی کے بارے میں کوئی اہم بات ضرور جانتا ہے ۔
اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ کھانا کھانے کے بعد گاؤں جا کر اس وید سے ضرورت ملاقات کرے گا۔ کھانے کے دوران شانتا اور ونود نے بت کے مسئلہ پر کوئی بات نہیں ہوئی کیونکہ کالکا موجود تھا اور ونود شانتا سے منع کر چکا تھا کہ وہ نوکروں کی موجودگی میں اس مسئلہ پر کوئی بات نہ کرے ۔
کھانا کھا کر ونود نے شانتا سے کہا :
"میں ذرا گاؤں جا رہا ہوں "۔
"کیا اسی سلسلے میں ...."شانتا نے راز داری کے خیال سے آنکھ کا اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
"ہاں " ونود نے مختصر سا جواب دیا۔
"اور میں جلد ہی واپس آ جاؤں گا"۔

حویلی سے گاؤں کی آبادی زیادہ دور نہیں تھی ونود جلد ہی وہاں پہنچ گیا، وید جی کے مکان تلاش کرنے میں بھی اُسے زیادہ دیر نہیں لگی۔ وید جی نے جب یہ سنا کہ حویلی کا نیا مالک ان سے ملنے آیا ہے تو وہ فوراً باہر چلے آئے ونود نے ان سے کہا
"میں آپ سے تنہائی میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں "۔
وید جی نے بیٹھ کھلوا کر ونود کو بڑے احترام سے بٹھایا اور پھر اس سے کہا "میں آپ کی ہر خدمت کیلئے تیار ہوں "۔
ونود نے کہا "آج آپ نے میرے نوکر سے کہا تھا کہ میری حویلی منحوس ہے "۔
"جی ہاں " وید نے جواب دیا۔
"اور آپ کے نوکر نے مجھے سے یہ کہا تھا کہ کل رات آپ برآمدہ میں بے ہوش پائے گئے تھے اور آپ کی بیوی اپنے کمرے میں "۔
"اس نے ٹھیک کہا تھا لیکن ہم دونوں کی بے ہوشی کا حویلی کے منحوس ہونے سے کیا تعلق ہے "۔ ونود نے بڑے نرم لہجے میں جواب دیا۔

"بہت بڑا تعلق ہے " وید نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ اور یہ تعلق اتنا اہم ہے کہ آپ نے اپنی بے ہوشی کا اصل سبب اپنے نوکروں سے چھپایا ہے ۔
"نہیں یہ غلط ہے "ونود نے کہا۔
"نہیں ونود بابو"وید نے بڑی شفقت سے کہا "ڈاکٹر اور وکیل سے کوئی بات نہیں چھپانا چاہئے آپ نے اپنے نوکروں سے صحیح بات نہیں بتائی تو یہ اچھا کیا لیکن آپ نے مجھ سے بھی یہ بات پوشیدہ رکھی تو آپ خود سوچئے کہ کیا میں حویلی کے منحوس ہونے کے بارے میں آپ کو پکا ثبوت دے سکوں گا"۔
بوڑھے وید نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی تھی کہ ونود اب اس سے کوئی بات نہیں چھپا سکا۔ اس نے بڑی تفصیل سے وید کو ساری داستان سنادی۔
ونود کی کہانی سننے کے بعد وید نے کہا:
"آپ کی کہانی کوئی نئی کہانی نہیں ہے ۔ میرے پتا جی بھی اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ اس حویلی میں کوئی بے چین روح موجود ہے جو شائد کسی عورت کی ہے "۔
"لیکن آپ اس سلسلے میں میری کیا مدد کر سکتے ہیں "۔ ونود نے پوچھا۔
"میں آپ کو صرف مشورہ دے سکتا ہوں بشرطیکہ آپ اس پر عمل کریں "۔ وید نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔
"اگر آپ کا مشورہ قابل قبول ہوا تو میں اسے ضرور مان لوں گا"۔ ونود نے جواب دیا۔
اب اس کے لہجے میں ایک مایوسی سی آ گئی تھی۔

"آپ عورت کے بت کو دوبارہ کنویں میں پھینک دیں "۔ وید نے بڑی آہستہ آواز میں کہا۔
اس نے مزید کہا"میں یقین دلاتا ہوں کہ ماضی میں بھی جب اس عورت کو روح نے حویلی والوں کو پریشان کیا ہو گا انہوں نے ہی اپنے وقت کے پنڈتوں اور گیانیوں سے مشورہ کرنے کے بعد اس بت کو کنویں میں پھینک دیا ہو گا اور اس طرح انہوں نے بت کو مصیبت سے نجات حاصل کر لی ہو گی"۔
"لیکن وید جی" ونود نے کہا
"سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بت کو کنویں میں پھینک دیا جاتا ہے تو عورت کی روح کی سرگرمیاں کیوں ختم ہو جاتی ہیں" ۔

"میرے پاس آپ کے اس سوال کا جواب نہیں ہے" ۔ وید نے جواب دیا
" میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ حویلی منحوس ہے ۔ پرانے راجاؤں کی بنوائی ہوئی یہ حویلی یقینا آسیب زدہ ہے ۔ اس لئے یا تو آپ اسے خالی کر دیجئے اور یا اس بت کو کنویں میں پھینک دیجئے" ۔
وید جی نے اس کے بعد ونود کو روحوں کے اور کئی قصے سنائے ۔ اس نے اپنے بارے میں بھی سب کچھ ونود کو بتادیا اس نے کہا
"میں خاندانی وید ہوں ، میرے باپ دادا سب ہی وید تھے اور پرانے زمیندار کے خاندانی ملازم تھے"۔۔۔
" جتنا میں اگات پور کے بارے میں جانتا ہوں اتنا کوئی نہیں جانتا ہو گا"۔

"وید جی ..." ونود نے چلتے چلتے کہا:
"مان لیجئے کہ میں نہ حویلی خالی کروں اور نہ بت کو کنویں میں پھینکوں "۔
"تب آپ کا بھگوان ہی مالک ہے " وید نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا
"آپ کو آنے والے حادثات کا مقابلہ کرنے کیلئے خود کو تیار کر لینا چاہئے" ۔

ونود اس کے بعد وہاں سے چلا آیا۔ وہ بہرحال یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ نہ حویلی خالی کرے گا اور نہ بت کو کنویں میں پھینکے گا۔ بلکہ اس نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ آج رات بت کے زندہ ہونے کا انتظار کرے گا اور بت سے باتیں کرے گا۔
ونود حویلی واپس آیا تو شانتا سو رہی تھی۔ اس کو دوپہر کے بعد کھانا کھا کر سونے کی عادت تھی اور یہ اس کا روزانہ کا معمول تھا۔ یہ دن ونود کا سخت الجھن میں کٹا۔ کسی نہ کسی طرح شام ہو گئی اور پھر چاروں طرف رات کا اندھیرا پھیل گیا۔ اس اندھیرے میں حویلی کے درخت یوں پرسکون نظر آ رہے تھے جیسے وہ اس حویلی کے پہریدار ہوں اور کسی کے جنازے کی آمد کا انتظار کر رہے ہوں ۔
ونود ڈرے بغیر باغ میں ٹہلتا رہا اور پھر حوض کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔ اب چاند بھی نکل آیا تھا اور اس کی سفید روشنی چاروں طرف پھیلنے لگی تھی ۔ دور آسمان پر یہ چاند بالکل ایسا نظر آ رہا تھا جیسے یہ چاند نہ ہو کسی بیوہ کی آنکھ میں لرزتا ہوا آنسو کا قطرہ ہو۔

ونود بت کی طرف دیکھتا رہا۔ اور پھر اسے اچانک ایسا محسوس ہوا جیسے بت کی یہ ساکت و جامد آنکھیں ایک ہی نگاہ میں ماضی، حال اور مستقبل تینوں کو دیکھ رہی ہوں ، ونود کو ایسا محسوس ہوا جیسے یہ آنکھیں زندہ ہو گئی ہوں جیسے یہ آنکھیں آنسوؤں ک یسمندر میں تیر رہی ہوں جیسے بت کے شاداب چہرے پر بالکل اچانک نفرت و حقارت کی لکیریں ابھر آئی ہوں ۔ ونود نے واقعی ایسا محسوس کیا جیسے بت کے ہونٹوں پر ایک دبی ہوئی غم ناک مسکراہٹ پھیل گئی ہو اور یہ مسکراہٹ پکار پکار کر اپنی لٹی ہوئی آرزوؤں کی کہانی سنا رہی ہو، اپنی مسلسل خاموشی کی داستان بیان کر رہی ہوں ، اپنی ناکام تمناؤں کا افسانہ سن رہی ہو،۔ وہ ایسا محسوس کرنے لگا جیسے اس پر کسی نے سحر کر دیا ہو... اب وہ حود ایک بت بن چکا تھا۔ زندہ بت، زندگی کی سانسیں لیتا ہوا بت، دیکھتا ہوا بت، سنتا ہوا بت، پندرہ منٹ تک ونود پریہ حالت طاری رہی۔

اس کے بعد وہ چونکا اور حویلی میں داخل ہو گیا۔ شانتا سو چکی تھی۔ تمام نوکر بھی اپنے کوارٹروں میں جا چکے تھے پوری حویلی خاموشی اور سکون میں ڈوبی ہوئی کھڑی تھی۔ ونود حویلی کے اس کمرے میں جا کر خاموشی سے بیٹھ گیا جس کی ایک کھڑکی سے نظر آ رہا تھا۔ وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ تمام رات اس کمرے میں جاگتا رہے گا اور خود اپنی آنکھوں سے دیکھے گا کہ بت جاگتا ہے یا نہیں ۔
اور ... جیسے ہی بارہ کا گھنٹہ بجا ونود کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی رگوں میں دوڑتا ہوا خون اچانک تھم گیا ہو، اس کے دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہو گئی اور کیسے نہ ہوتیں جب کہ عورت کا بت واقعی زندہ ہو چکا تھا۔
عورت کا بت زندہ ہوا، اس زندہ عورت نے گردن گھما کر چاروں طرف دیکھا، ایک پراسرار مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیلی، پھر وہ چبوترے سے اتر کرحوض میں آئی اور حوض سے نکل کر باہر کھڑی ہو گئی۔ چند لمحات تک وہ ایک عجیب ادا سے وہاں کھڑی رہی اور اس کے بعد حویلی کی پشت کی طرف قدم اٹھانے لگی۔
ونود نے اس کو صرف چلتے ہوئے ہی نہیں دیکھا اس کے پیروں کی پازیب کی جھنکار بھی سنی، اب ونود بھی اپنی مکیں گاہ سے باہر نکل آیا وہ اب عورت کا دبے پاؤں تعاقب کر رہا تھا۔
عورت حویلی کے پیچھے جا کر ایک مسمار مکان میں جو حویلی کے احاطہ کے اندر ہی تھا داخل ہو گئی۔ اور پھر غائب ہو گئی۔ ونود چونکہ بہرحال ایک انسان تھا اس لئے وہ ڈر گیا۔
وہ زندہ بت کا مزیدتعاقب نہ کر سکا اور بوسیدہ مکان کے کھنڈر میں داخل ہونے کی ہمت نہ کر سکا۔ لیکن وہ دور کھڑا ہو کر بت کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔ دس منٹ بعد عورت کا بت دوبارہ کھنڈر سے نکلا۔ اس مرتبہ اس کے قدموں کا انداز بوجھل تھا۔ وہ بڑے تھکے تھکے قدموں کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی وہ سیدھی حوض کے قریب آئی اور دوبارہ چبوترے پر چڑھ گئی۔ ونود کے دیکھتے ہی دیکھتے دوسرے ہی لمحہ عورت دوبارہ پتھر کے ایک بے جان بت میں تبدیل ہو گئی۔

تمام رات ونود جاگتا رہا۔ صیح ہوتے ہی وہ سب سے پہلے اس کھنڈر میں گیا۔ وہ اس حویلی میں کئی مہینے سے رہ رہا تھا۔ لیکن اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کھنڈروں کے نیچے ایک تہہ خانہ بھی ہے ۔ آج کھنڈر میں داخل ہوتے ہی اس کی نگاہ ایک شکستہ زینے پر پڑی جو نیچے جا رہا تھا۔ وہ بلا کسی جھجک کے بالکل جنونی کیفیت میں اس زینے سے نیچے اتر گیا۔ تقریباً 20 سیڑھیوں کے بعد یہ زینہ ایک بڑے تہ خانے میں جا کر ختم ہو گیا۔
تہ خانے میں ہلکی ہلکی روشنی پھیل چکی تھی۔ ونود نے آنکھیں پھاڑپھاڑکر تہ خانے میں چاروں طرف دیکھا اور پھر جیسے اس کے حلق سے ایک گھٹی گھٹی چیخ نکل گئی۔ کیونکہ تہہ خانے کے وسط میں انسانی ہڈیوں کا ایک پنجرا پڑا ہوا تھا۔

۔۔۔۔۔
اس کے بعد کیا ہوا؟
وہ بت کس کا تھا؟ تہ خانے میں پائی جانے والی لاش کا پنجر کس کا تھا؟
بت نے کیا تباہی پھیلائی؟ کیا یہ بت انتقام لے رہا تھا؟
یہ سب جاننے کے لیے اگلی قسط کا انتظار فرمائیں۔



Novel "Aik Bot" by: Salamat Ali Mehdi - episode:4

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں