ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:2 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-09

ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:2


ایک منٹ خاموش رہنے کے بعد بوڑھے زمیندار نے کہا۔ "میں آپ کی الجھن دور کرنے کیلئے اس کنویں کے بارے میں آپ کو ایک بات اور بتادینا چاہتا ہوں ۔ یہ کنواں میرے خاندان میں سے کسی نہیں بنوایا ہے بلکہ یہ ہماری حویلی کی تعمیر سے قبل بھی موجود تھا اور استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ اب زمیندار سے مزید گفتگو بالکل بے کار تھی۔ اس لئے ونود وہاں سے قدیم تاریخ کے ایک پروفیسر مسٹر تارک ناتھ کے یہاں گیا اور اس نے ان سے بھی بت نکلنے کی کہانی بیان کی۔ پروفیسر تارک ناتھ نے یہ کہانی بڑی دلچسپی سے سنی اورکہا "میں بت دیکھے بغیر نہیں بتا سکتا کہ اس بت کی عمر کیا ہے ۔ "پھر آپ ابھی اور اسی وقت میرے ساتھ اگات پور چلیں ۔ " ونود نے پروفیسر سے درخواست کی اور پروفیسر اس کے ساتھ چلنے پر راضی ہو گیا۔ کیونکہ اسے پرانی چیزوں کے بارے میں تحقیق کرنے کا شوق تھا۔ گاؤں پہنچنے پر پورے دس گھنٹے تک پروفیسر تارک ناتھ اس بت کا معائنہ کرتا رہا اور اس کے بعد اس نے ونود سے کہا "میرے اپنے نظریہ کے مطابق اس بات کی عمر کم ازکم 200 سال ہے کیونکہ یہ بات جو لباس پہنا ہے اور جس قسم کے زیور اس کے بدن پر دکھائے گئے ہیں وہ 200 سال قبل ہندوستان کے امراء کی عورتیں استعمال کرتی تھیں ۔ پروفیسر تارک ناتھ نے مزید کہا "یہ بت کسی امیر گھرانے یک غیر شادی شدہ عورت کا ہے ۔ کیونکہ جس قسم کا لباس یہ پہنے ہے وہ اس زمانے میں صرف کنواری لڑکیاں پہنا کرتی تھیں لیکن جس عورت کا یہ بت بنایا گیا ہے اس کی عمر کم ازکم 22 سال ضرور رہی ہو گی۔ "لیکن پروفیسر" ونود نے پروفیسر کی باتوں میں دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا یہ کیسے پتہ چلے گا کہ یہ خوبصورت بت اس اندھے کنویں میں کیسے اور کیوں پھنکا گیا؟ صاف ظاہر ہے کہ اگر یہ بت اوپر سے پھینکا گیا ہوتو تو یقینا ٹوٹ جاتا اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ بت بالکل ٹھیک حالت میں ہے اور اس کی پالش تک باقی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کسی نے حفاظت کے استھ اس کو رسیوں سے باندھی کر کنویں میں اتارا ہو۔ پروفیسر نے کچھ سوچ کر جوا ب دیا۔ لیکن کس لئے ؟ ونود نے پریشان ہو کر پوچھا۔ یہ راز صرف بت ہی بتاسکتا ہے ۔ پروفیسر نے جوا ب دیا۔ ہو سکتا ہے کہ کسی بت تراش نے یہ بت اپنے پڑوسیوں سے چھپت کر بنایا ہو اور مکمل ہونے کے بعد اس کو کنویں میں چھپادیا ہو۔ اچھا پروفیسر صاحب کیاآپ ہی کوشش کر کے اگات پور کے ماضی کا پتہ نہیں چلاسکتے ۔ ونود نے اب ایک نیا سوال کیا۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے ۔ پروفیسر نے کہا۔ لیکن اس سے بھی ہم کو یہ نہیں معلوم ہو سکے گا یہ بت کس کا ہے اور اس کنویں میں کیوں رکھا گیا۔ دو دن تک پروفیسر تارک ناتھ اس کنویں سے برآمد ہونے والی تمام چیزوں کا معائنہ کرتا رہا اور اس کے بعد ونود سے یہ کہہ کر چلایا گیا کہ وہ ایک ہفتہ کے اندر اگات پور کے بارے میں اپنی تحقیق اس کو بھیج دے گا۔ لیکن پروفیسر کے جانے کے بعد بھی ونود نے آرام نہیں کیا اس نے گاؤں بڑے بوڑھے بلائے اور ان سے درخواست کی کہ وہ اس پرانے کنویں کے بارے میں جو کچھ بھی جانتے ہوں اسے بتادیں ۔ ونود کے سوال کے جواب میں ایک بوڑھے نے کہا" میں اپنے بچپن سے اس کنویں کو اسی طرح دیکھ رہا ہوں ۔ اس کا پانی استعمال نہیں کیا جاتا تھا اور اس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ اس کنویں کا پانی ناپاک ہے اور جو بھی اس کو پی لیتا ہے بیمار ہو کر مرجاتا ہے ۔ ایک دوسرے بوڑھے نے کہاکہ "میں نے اپنے بچپن میں ایک مرتبہ اپنے باپ کو کہتے سنا تھا کہ اس کنویں میں کوئی خزانہ دفن ہے لیکن کنویں کے اندر ایک سیاہ ناگ اس خزانے کی حفاظت کرتا رہتا ہے ۔ اس لئے آج تک کسی نے اس خزانے کو نکالنے کی ہمت نہیں کی۔ ایک اور آدمی نے کہا"میں نے اپنے لڑکپن میں بڑے بوڑھوں سے یہ سنا تھا کہ اس کنویں میں کوئی بھوت رہتا ہے جو رات کو کنویں سے باہر آتا ہے اور راہ گیروں کو پریشان کرتا ہے ۔ یہ کہانی اتنی زیادہ مشہور ہو گئی تھی کہ لوگوں نے اس کے پاس سے گذرنا بھی چھوڑدیا تھا لیکن اگات پور کے زمیندار نے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں کی اور اس کنویں کے پاس ہی اپنی حویلی بنوالی۔ ونود کی یہ کوشش بھی بے کار گئی اُس کو اس بت کے بارے میں کوئی نئی بات نہیں معلوم ہو سکی۔ ایک ہفتہ اور گذر گیا۔ کنویں کی صفائی ہوتی رہی اور یہ بت کنویں کے قریب ہی زمین پر پڑا رہا۔ اسی اثناء میں پروفیسر تارک ناتھ کا خط آ گیا جس میں انہوں نے اگات پور کے بارے میں اپنی تحقیق کا نچوڑلکھ دیا تھا۔ پروفیسر تارک ناتھ کی تحقیق کے بموجب ۔ اگات پور میں تقریباً 200 سال قبل ایک راجپوت خاندان کا راجہ راج کرتا تھا یہ راجہ دہلی کے مغل بادشا ہوں کا دوست تھا لیکن کسی بات پر راجہ اور مغل بادشاہ میں اختلاف ہو گیا۔ مغل فوجوں نے ریاست پر حملہ کیا اور اس جنگ میں راجہ مارا گیا۔ راجہ کے مرتے ہی یہ گاؤں جو پہلے ایک بڑا شہر تھا بالکل ویران ہو گیا۔ یہاں کے رہنے والے بھاگ کھڑے ہوئے اور راجہ کے خاندان کے بقیہ لوگ پناہ لینے کیلئے اپنے رشتہ داروں کے یہاں چلے گئے لیکن رفتہ رفتہ اگات پور دوبارہ آباد ہونے لگا اور کچھ نئے لوگوں نے آ کر اپنے جھونپڑے بنالئے اور کھیتی باڑی شروع کر دی۔ پروفیسر نے اپنے اس خط میں مزید لکھا تھا "بہت ممکن ہے کہ یہ بُت اسی راجہ کے خاندان کی کسی عورت کا ہو اور راجہ کے رشتہ دار بھاگنے سے قبل اس کو کنویں میں ڈال گئے ہوں لیکن اگر یہ بات سچ مان لی جائے تب بھی یہ سوال اپنی جگہ باقی رہ جاتا ہے کہ اوپر سے پھینکے جانے کی صورت میں یہ بت ٹوٹا کیوں نہیں ؟ ونود اس کے بعد خاموش ہو گیا۔ اُس بت کے بارے میں مزید چھان بین ختم کر دی اور یہ فیصلہ کر لیا وہ اس بت کو باغ کے حوض کے وسط میں نصب کرادے گا تاکہ حوض بھی خوبصورت نظر آئے اور باغ بھی۔ تین دن کے اندر اس نے راج مزدوروں سے باغ کے حوض میں ایک خوبصورت چبوترا بنوایا اور پھر کنویں سے برآمد شدہ اس بت کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس چبوترے پر نصب کرادیا۔ اس کام سے فارغ ہونے کے اس نے اپنی بیوی شانتا سے کہا "شانتا ہمیں نہیں معلوم یہ بات کس کا ہے لیکن جیسے میرا دل کہہ رہا ہے کہ یہ بات صرف تخیل کی بنیاد پر تراشنے والے نہیں تراشا ہے بلکہ یہ بت ایسی عورت کا ہے جو کبھی ہماری طرح زند ہتھی۔ تم ذرا اس بت کے ہونٹوں پرپھیلی ہوئی نازک سی مسکراہٹ کو غور سے دیکھ تم بھی میری رائے سے اتفاق کرنے لگو گی۔ بہرحال یہ بت کسی کا بھی ہو مجھے یقین ہے کہ آج کے بعد اس کی روح کو سکون ضرور مل جائے گا۔ رات کے کھانے کے بعد ونود نے شانتا سے کہا "اب تم مالیوں کو ساتھ لے کرباغ لگانا شروع کر دو اور میرا خیال ہے کہ کل سے ہی کام شروع کر دو۔ اس گفتگو کے دو دن بعد... ونود اپنے فارم میں کام کی نگرانی کر رہا تھا کہ ایک مزدور سے ٹریکٹر ٹوٹ گیا۔ اس کے ٹوٹنے سے چوں کہ نقصان ہونے کا اندیشہ تھا اس لئے ونود نے سوچا کہ وہ آج ہی اس کا ٹوٹا ہوا پرزہ لے کر شہر چلا جائے اور اس کو ٹھیک کرا لائے یا نیا خرید لائے ۔ چنانچہ اس نے حویلی آ کر شانتا سے کہا "میں رات ذرا دیر سے آؤں گا تم کھانے پر میرا انتظار نہ کرنا، میں اپنے ٹریکٹر کا ایک پرزہ لینے کیلئے شہر جا رہا ہوں "۔ ونود اتنا کہہ کر اُسی وقت شہر چلا گیا۔ شانتا دیر تک اس کی موٹر سائیکل کی آواز سنتی رہی اور سوچتی رہی کہ ونود اُس کا کتنا خیال رکھتا ہے ۔ شام سے قبل وہ مالیوں کا کام دیکھنے کیلئے باغ آئی۔ سب سے پہلے اس کی نگاہ عورت کے بت پر پڑی اور پھر عورت ہونے کے باوجود جیسے شانتا اس عورت کے حسن میں کھوکر رہ گئی۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ آج پہلی مرتبہ اس بت کو دیکھ رہی ہو۔ آج اس نے یہ دیکھا کہ اس خاموش اور سنکی عورت کے بال گھنگھریالے ہیں اور بالوں کی ایک لٹ اس کی سفید پیشانی پر پڑی ہوئی ہے بالوں کا یہ انداز اسے بہت پسند آیا۔ اس نے غیر ارادی طورپر خود اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرا اور پھر اسے افسوس ہی ہوا کہ خود اس کے بالوں میں یہ پیچ و خم کیوں نہیں ہے ۔ مالیوں نے جو کام کیا تھا شانتا نے اس کا معائنہ کیا۔ دوسرے دن کیلئے ان کو ہدایت دیں اور دوبارہ اپنے کمرے میں چلی آئی حویلی میں داخل ہوتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اس نے اس بت کو دیھکا اس مرتبہ اس کی آنکھوں سے بہت کیلئے ایک حسد سا جھان کرہا تھا۔ ونودکو شہر سے واپسی میں دیر ہو گئی اس کی موٹرسیکل خراب ہو گئی اور اسے ریل کے ذریعہ اگات پور آنا پڑا۔ جب وہ اپنی حویلی کے سامنے پہنچا تو رات کے 12:05 ہورہے تھے۔ وہ تیز تیز قدموں کے ساتھ حویلی میں داخل ہوا پھر جیسے اس کے قدم اپنی جگہ جم کر رہ گئے ۔ حویلی کے سامنے والے حوض میں بت کا چبوترہ بالکل خالی پڑا تھا۔ ایک لمحہ کیلے اس نے سوچا کہ بہت ممکن ہے بت حوض میں گر پڑا ہو اور اسی لئے چبوترہ خالی نظر آ رہا ہوں لیکن جب قریب آ کر اس نے یہ دیکھا کہ حوض بھی خالی پڑا ہے تو اس کی حیرت کی کوئی حدو انتہا نہیں رہی۔ چاندنی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی سرد ہوا کے تیز جھونکے چل رہے تھے ایک لمحہ تک ونود اس خالی چبوترے کو دیکھتا رہا اور پھر جیسے اس کا خون سرد ہونے لگا۔ فوری طورپر اس کے خوف زدہ ہونے کی وجہہ یہ تھی کہ اب وہ حوض کے باہر زمین پر گیلے قدموں کے نشان دیکھ رہا تھا۔ اور اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ یا تو یہ نشانات بت کے قدموں کے ہیں یا اس عورت کے جس نے اس بت کو اس کی جگہ سے ہٹایا تھا۔ کیوں یہ نشانات بالکل تازے تھے اور یقینا کسی عورت کے تھے ۔ ونود انتہائی ڈراور خوف کے عالم میں وہاں سے شانتا کے کمرے کی طرف بھا گا لیکن شانتا نے بھی اس کی کوئی مدد نہیں کی۔ کیوں کہ وہ اپنی مسہری پر بالکل بے ہوش پڑی تھی۔ گیلے قدموں کے یہ نشانات اس کی مسہری کے پاس بھی موجود تھے ۔ بجلی کی سی سرعت کے ساتھ اس نے شانتا کے ننگے تلوؤں کو دیھکا۔ اس کے تلوے بالکل خشک تھے ۔ اب وہ گھبرا کر تقریباً چیختا ہوا دوبارہ حویلی کے باہر نکلا برآمدے میں پہنچتے ہی اس کی نگاہ حوض پر پڑی۔ عورت کا بت دوبارہ اپنی جگہ کھڑا تھا۔ ونود نے ایک چیخ ماری اور اُسی جگہ گر کر بے ہوش ہو گیا۔



Novel "Aik Bot" by: Salamat Ali Mehdi - episode:2

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں