امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-27

امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد

مولانا ابوالکلام آزاد 11/نومبر1888ء کو مکہ معظمہ سرزمین حجا ز میں پیدا ہوئے ۔ گویا 11!نومبر1888کی صبح نے ایک نئے آفتاب کو خوش آمدید کہا ۔ اسی آفتاب و ماہتاب کی روشنی نے خاص طورپر برصغیر کے مسلمانوں کو اندھیرے میں راستہ دکھلایا۔ وہ راستہ جو ہم بھٹک چکے تھے ۔ مولانا آزاد کے والد مولانا خیر الدین بھی ایک عالم تھے ۔ مولاناخیر الدین اپنے اہل و عیال کے ساتھ 1898ء میں کولکتہ آ گئے ۔ مولانا آزاد کا تعلیمی سلسلہ بڑے بھائی ابوالنصر غلام ے ٰسین کے ساتھ مکے ہی میں شروع ہو چکا تھا۔ اب وہ کلکتہ کے اساتذہ سے گھر ہی پر 15 برس کی عمر میں روایتی اور رائج مذہبی تعلیم کی مناسب سے تعلیم کا نصاب پورا کیا اور "عالم " بن گئے ۔ عام طورپر طلبہ اس عمر میں نصف مسافت بھی کم طے کرپاتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ خود درس دینے لگے ۔ مولانا کی والدہ مکہ کی اک علمی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ۔ مولانا بچپن ہی سے ذہین تھے ۔ وہ روایات سے ہٹ کر افکار کی نئی دنیا میں رہتے ۔ جس کا محور مذہب اسلام ہی رہتا۔ اُن کے ساری سوچ عمل غور و فکر کا محور مذہب اسلام، قرآن اور سنت نبویؐ رہی اس پر مرتے دم تک قائم رہے ۔ علماء کے ایک قدامت پسند خاندان کے چشم و چراغ اور تقریباً تمام اسلامی علوم میں گہری بصیرت کے حامل مولانا آزاد نے اپنے علم و دانشمندی کے ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں پر اک تعمیری اور مثبت اثر چھوڑا۔ مولانا آزاد قران مجید اور اسلام کے بڑے عالم تھے جس کا متعرف ایک عالم ہے ۔ انہیں عربی، فارسی پر دسترس تھی۔ انگریزی اور فارسی بخوبی جانتے تھے ۔ ایک عظیم مقرر تھے ۔ سامعین کو گھنٹوں پر مدلل باتوں سے محسور کر دیتے تھے ۔ وہ ایک غیر لچک نیشنلسٹ تھے ۔ تحریک آزادی کے زبردست مجاہد تھے ۔ اُن کے جیسا قابل عالم فاضل ان کے ہم عصری مسلمانوں میں کوئی نہ تھا۔ نہ آج تک ہے ۔ یہاں کہ اُن کے دلداہ، عقیدت مندوں ، غیر مسلموں میں خاطر خواہ تعداد میں تھے جو آج بھی ہیں ۔ ادب، انشائ، اسلامی علوم، تحریک آزادی کا سچا سپاہی، بہترین خطیب، متعدد زبانوں پر عبور وغیرہ مولانا میں کیا خوبیاں نہ تھیں ۔ گویا اﷲ تعالیٰ نے متعدد خوبیوں کو اک انسان کے سانچہ میں ڈھال دیا۔ مولانا ازاد کی خوبی یہ اہم رہی کہ وہ گفتار کے غازی نہ تھے کردار کے غازی تھے ۔ وہ چاہتے تو موروثی اعتبار سے پیری مریدی ہی میں پڑے رہتے ، چاہتے تو اک خانقاہ میں بیٹھ کر درس و تدریس کا کام انجام دیتے یا جلسے جلوسوں میں جا کر صرف اپنی آواز کا سحر چلاتے مگر ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے غالباً سوچا کہ زندگی کا جو مشن ہے وہ بے پناہ عملی جدوجہد کے ذریعے پورا کیا جاسکتا ہے ۔ اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو وقت کا مورخ "گفتار کا غازی بن تو گیا کردار کا غازی بن نہ سکا" کے نام سے یاد رکھے گا۔ ابتداء کم عمری ہی سے مولانا آزاد غور و فکر کے ساتھ ساتھ عمل کی جانب رواں دواں تھے ۔ خود کہتے ہیں "واقعہ یہ ہے کہ ابھی میری تعلیم ختم نہ ہوئی تھی اور زیادہ سے زیادہ میری عمر 13 سال کی تھی کہ میرا دل اچانک اپنی موجودہ حالات اور ارد گرد کے حالات سے اچاٹ ہو گیا اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں کسی اچھی حالت میں نہیں ہوں ۔ یہ بے اطمینانی بڑھتی گئی حتی کہ مجھے ان ساری باتوں سے جو لوگوں کی نظروں میں انتہا درجہ عزت اور احترام کی باتیں تھیں اک طرح کی نفرت ہو گئی۔ ابتداء میں مولانا آزاد ، سرسید سے ذہنی و فکری سطح پر قریب آئے ۔ مگر بعد کو وہ سرسید سے دور ہو گئے ۔ جس کی خاص وجہہ سرسید کی انگریزوں کو مشروط وفاداری رہی۔ آزاد، مولانا شبلی نعمانی کے کافی دلدادہ رہے ۔ شبلی گویا اک وجرہی تھے ۔ یقینی طورپر وہ آزاد کی ذہانت، علمی دینی قابلیت و خطابت سے متاثر ہوں گے ۔ انہوں نے مولانا آزاد کو اس وقت کے اپنے مشہور ماہنامہ الندوۃ میں شمولیت کی دعوت دی۔ مولانا راضی ہو گئے کہ اس وقت انہیں اک ایسے عالم کی سرپرستی ضروری تھی جس کے زیر سایہ رہ کر اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر سکے ۔ الندوہ میں صرف 6ماہ مولانا آزاد نائب مدیر کی حیثیت سے رہے ۔ اس سے پہلے مولانا آزاد کی تحریریں دوسرے اخبارات و رسائل کے ذریعہ عوام الناس میں پہنچ کر مقبول ہو چکی تھیں ۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ الندوہ کی ادارت میں شامل ہو کر آزاد اپنے قلم کے ذریعہ کمال دکھاتے رہے ۔ قلم میں جو کسر رہ گئی تھی وہ علامہ شبلی کی علمی تربیت گاہ میں پوری ہو گئی۔ وہ مزید خوب سے خوب تر ہو گئے ۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے ٹھیک ہی لکھا۔ "1905ء میں مولانا شبلی سے ممبئی میں ملے اور یہ ملاقات ایسی تاریخی ثابت ہوئی کہ ابوالکلام کو مولانا ابوالکلام بنادیا۔ مولانا شبلی مرحوم ان کے اپنے ساتھ ندوہ لائے اور اک زمانہ تک ان کو اپنے پاس ندوہ میں رکھا وہ ان کی خلوت جلوت کی علمی صحبتوں میں شریک رہنے اور اپنی مستثنیٰ فطری صلاحیتوں کی بدولت ہر روز آگے بڑھتے گئے "۔ مولانا آزاد اور علامہ شبلی کے درمیان تعلقات بہت عمدہ اور غایب درجہ کے رہے ۔ اک دوسرے کو عزیز رکھنے کا رشتہ مولانا شبلی کی حیات تک ہی نہیں بلکہ وفات کے بعد بھی قائم رہا۔ مولانا آزاد نے 1912ء میں "الہلال" نام سے اردو ہفتہ وار نکالا۔ جس کا اہم مقصد مسلمانوں میں مذہبی اصلاح کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا تھا۔ الہلال نے شروع دن سے عام مسلمانوں میں مقبولیت حاصل کر لی۔ مسلمان ہی کیا اُسے خاطر خواہ تعداد میں غیر مسلم اردو داں بھی پڑھتے تھے ۔ کئی مضامین الہلال میں مولانا سید سلیمان ندوی کے شائع ہوئے ۔ الہلال ایک بین الاقوامی سیاسی تحریک سمجھی جاتی تھی۔ مولانا آزاد شروع ہی سے متحدہ قومیت کے حامی تھے ۔ انہیں اس بات کی بڑی فکر تھی کہ مسلمان تحریک آزادی میں پیچھے نہ رہ جائیں ۔ ہندوؤں کے شانہ بشانہ لڑیں ۔ مولانا آزاد نے یکم دسمبر کو الہلال میں لکھا "مسلمانوں کی بڑی غلطی یہی ہے کہ وہ تعداد ک قلت و کثرت کے چکر میں پڑگئے ۔ تعداد کو قوی کرنا چاہتے ہیں مگر دلوں کو نہیں ۔ حالانکہ اسلام کی نظر میں تعداد کوئی چیز نہیں "۔ الہلال کے 18دسمبر 1912ء کے شمارے میں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے لکھا کہ "ہندوؤں کے ملک کی آزادی کیلئے جدوجہد کرنا داخل حب الوطنی ہے ۔ مگر آپ کیلئے فرض اور داخل جہاد فی سبیل اﷲ ...جہاد کے معنی میں ہر وہ کوشش داخل ہے جو حق و صداقت، انسانی بندو استبداد اور غلامی کو توڑنے کیلئے کی جاتی ہے ۔ پس اٹھ کھڑے ہوکہ خدا اب تم کو اٹھانا چاہتا ہے اور اُس کی مرضی یہی ہے کہ مسلمان جہاں کہیں ہیں بیدار ہوں اور اپنے فراموش کردہ جہاد کو زندہ رکھیں "۔ جید عالم و سرکردہ مسلم شخصیت شیخ الہندؒ نے الہلال کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ ہم سب اپنا اصلی کام بھولے ہوئے تھے ۔ الہلال نے یاد دلایا۔ آزاد ہندو ومسلم اتحاد کے حامی تھی۔ 25!اکتوبر1921ء کو اگرہ میں مجلس خلافت سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ "اگر رسولؐ خدا مٹھی بھر قریش کے مقابلہ میں (ابوسفیان کے مقابلہ) اطراف مدینہ کے قبائل سے اتفاق کر سکتے تھے تو آج اس عظیم الشان قوت کے غرور، گھمنڈ، خونخواری کے مقابلہ میں جو تمام مشرق کی آزادی کو پامال کرنا چاہتی ہے تو کیا ہندوستان کے مسلمانوں کا فرض نہیں ہے کہ 22!کروڑہندوؤں کے ساتھ مل کر ایک ہو جائیں "۔

Imam-al-Hind Maulana Abul Kalam Azad

1 تبصرہ:

  1. تقسیم کے حوالے سے انکی جو خطبات ہیں، اس میں مولانا نے کمال ہی کردیا ہے۔انکا ایک ایک خطبہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔

    کاش برصغیر کے مسلمان انکے خطبات سے فائدہ اٹھا لیتے تو شائد آج دن بدلے ہوتے ۔

    جواب دیںحذف کریں