تاریخی داستاں کی عکاس فلم - چھاوا - ایک جائزہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2025-02-15

تاریخی داستاں کی عکاس فلم - چھاوا - ایک جائزہ

chhaava-bollywood-movie-2025-review
تاریخ کی کتب میں موجود داستانوں کو جب عصر حاضر میں توڑ موڑ کر سیلولائیڈ پر پیش کیا جاتا ہے تو کس قدر ناانصافی اور تعصب سے کام لیا جاتا ہے؟ اس کا اظہار ہر دور میں ہر زبان کے غیرجانبدار اور منصف مزاج قلمکار کرتے آئے ہیں۔ شواجی کے فرزند اول سمبھاجی کی حیات پر مبنی تازہ ہندی فلم "چھاوا" کا ایک جائزہ راہل دیسائی نے آج "دی ہالی ووڈ رپورٹر (انڈیا)" میں پیش کیا ہے۔ متذکرہ فلمی جائزے کے بیشتر اہم پیراگراف کی اردو ترجمانی مکرم نیاز نے کی ہے۔

فلم کا نام: چھاوا - [Chhaava]
ریلیز تاریخ: 14/فروری 2025ء
فلم کی نوعیت: تاریخی داستاں (چھترپتی شواجی کے فرزند سمبھاجی مہاراج کی حیات پر مبنی)
ڈائریکٹر: لکشمن اُتیکر [Laxman Utekar]
مرکزی اداکار: وکی کوشل، اکشے کھنہ، رشمیکا مندانا
فلم کی ریٹنگ: 8.3 IMDB


منطق یہ ہے کہ: اگر ہر کوئی دھوکہ دیتا ہے، تو دھوکہ دینا اب معمول کی بات ہے۔
اب صرف اتنا جاننا باقی رہ جاتا ہے کہ: کون زبردست دھوکہ دیتا ہے یا کون بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے؟ تاریخی موضوعات سے کھلواڑ کرتی بالی ووڈ کی تازہ فلم "چھاوا" آج اسی نکتے پر ٹکی نظر آتی ہے!
ہندوستانی سیکولرازم کے قدیم مکتب کے مستند تصورات پر قابو پانے کے لیے تاریخی داستانوں کے خودساختہ بیانیے کو بساط شطرنج پر پیادوں کی طرح یہ کہتے ہوئے بطور "چیک میٹ" استعمال کیا جاتا ہے کہ: کھیلی جا رہی چالیں جدید ترین ہیں!


بین السطور میں مخفی موضوعات جیسے اسلاموفوبیا، تعصب، پروپگنڈہ، قوم/طبقہ/ذات/زبان کو جبراً معدوم کرنے کی مہم اور جنگجوانہ وطن پرستی آجکل اس قدر عام ہو گئے ہیں کہ انہیں ہمارے سماج نے عمومی طور پر قبول کر لیا ہے۔
یہ پہلے سے طےشدہ "پِچ" ہے لہذا اب یہ قول مقبولِ عام ہے کہ: "سیاست کو ایک طرف رکھیے"۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسی فلمیں بنیادی طور پر اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہیں کہ کوئی کھلاڑی "چوہا ریس" کی دوڑ میں جیت نہیں پاتا۔ مقابل پر برتری حاصل کرنے کے لیے یہ "ثقافتی ڈوپنگ" گویا مصنوی اور غیرقانونی عناصر کے ذریعے اعتدال پسندی اور فریب پر مبنی ایک سطحی میدانِ کھیل کی تشکیل کرتی ہے۔ اس کھیل میں ریس کی اختتامی لکیر کو پار کرنا مقصد نہیں رہا بلکہ پہاڑ کی چوٹی سے ریس دیکھنا یا دکھانا مقصود ہے۔۔۔ اور پہاڑ بھی کوئی ایسا ویسا نہیں بلکہ براہ راست "ماؤنٹ ایوریسٹ" کہیے۔


آج کل "ٹور ڈی فرانس" ایک بین الاقوامی تشبیہ سمجھی جاتی ہے، جس کے ایک معنی یہ ہیں کہ فتح کے اپنے ہدف کو حاصل کرنے کس طرح ٹیم ورک کا سہارا لیا جائے۔ فلم "چھاوا" کا یہ جائزہ اسی پس منظر میں ہے کہ آیا یہ فلم (17) سترہویں صدی کی حقیقی داستاں کا بیانیہ ہے یا مذکورہ بالا "ٹور ڈی فرانس" کی تشبیہ؟!
چلیے فرض کر لیتے ہیں کہ ۔۔۔ مراٹھا سلطنت کے بانی اور پہلے بادشاہ چھترپتی شیواجی کے سب سے بڑے بیٹے اور سلطنت کے دوسرے بادشاہ سمبھاجی مہاراج کی یہ داستان دراصل اس نظریے کا متبادل بیانیہ ہے کہ: "ہندو صالح اور مسلمان بدنیت ہیں"۔ اور ساتھ ہی یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ مراٹھوں کی خیرہ کن دلیری اور مغلوں کی نادیدہ کھوٹ ایک مذہبی پس منظر بھی رکھتی ہے۔
کیوں نہ یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ بایوپک اور جنگی فلمیں ہماری نئی نصابی کتابیں ہیں۔ ہمیں مان لینا چاہیے کہ فرقہ وارانہ سیاق و سباق کا بیانیہ ہی اب ہمارا مقدر ہے۔ جو کہانیاں ہم اپنی اگلی نسلوں کو سناتے رہے وہ اب ختم ہو چکی ہیں، تو پھر بچا کیا ہے؟ یقیناً اصل کہانی کی ایسی پیش کش جو موجودہ فرقہ وارانہ رجحان کی تائید کرتی ہو!


فلم "چھاوا" کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ فلم اپنی ہمعصر دیگر فلموں کی طرح، تجسس کے سہارے تخلیق نہیں کی گئی بلکہ لنگڑے خوف کے زیراثر آگے بڑھتی ہے۔ یعنی وہ خوف جو افراد، جماعت، مقامات، برادریوں، کنیتوں، جانوروں، کیڑے مکوڑوں کو مجروح کرتا اور جس ہوا میں انسان سانس لیتا ہے اسے آلودہ کرتا ہے۔ اور خوف وہ عنصر ہے جو تعظیم کو جنم دیتا ہے۔
مگر یہ تعظیم حقیقتاً مفلوج ہے۔ فلم کے ذریعے تعظیم کا جو منظر نامہ تخلیق کیا گیا ہے اس میں تخلیقی صلاحیتوں، تخیل، تشریح، منفرد پیشکش یا حقیقی جذبات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حتیٰ کہ وکی کوشل جیسے شاندار اداکار کو ایک (بہت بلند) نعرہ تک محدود رکھ کر ضائع کر دیا گیا ہے۔ "چھاوا" کی دنیا میں برہمی کے اظہار کا مطلب جنگلیوں کی طرح چیخ و پکار برپا کرنا ہے، دلیری کا مطلب جنگلیوں کی طرح چیخنا، قتل و غارت گیری کا مطلب جنگلیوں کی طرح لڑنا ہے۔
بالی ووڈ کے ایک اور قابل ذکر اداکار اکشے کھنہ، اورنگ زیب کا کردار نبھاتے ہوئے مغل شہنشاہ کو ویلن جتانے کے لیے اس قدر پرعزم ہیں کہ وہ اپنی کردارنگاری کو خود ہی ویلن بنا دیتے ہیں۔


فلم "چھاوا" کا ہر کردار ایسا لگتا ہے جیسے وہ یا تو ٹیلی پرامپٹر پر دیکھ کر مکالمے ادا کر رہا ہو یا بندوق کی نوک پر شاہی صفات کی تحسین و توصیف بیان کرنے پر مجبور ہو۔ مراٹھا ہیرو عظیم حکمران اور لامحدود انسانی خوبیوں سے لبریز مضمون بن جاتا ہے: خاندان سے محبت، ملک سے محبت، شاعری سے محبت۔ اور سرمہ لگی آنکھوں والا ہر مغل مضحکہ خیز جہل کی انسانی علامت لگتا ہے: خاندان سے دھوکہ دہی، وطن سے محروم، مراٹھوں سے محض اس بات پر حسد کہ وہ اپنا ایک خاندان اور اپنا ایک ملک رکھتے ہیں۔


اس تبصرے کے اختتام پر ایک دلچسپ بات مزید پڑھ لیجیے۔ میرے سامنے کی نشست پر ایک لڑکی کلائمکس کے مناظر کی تصاویر کلک کرتے ہوئے اپنی "انسٹاگرام اسٹوری" لائیو پوسٹ کر رہی تھی۔ اندازہ تو یہی رہا کہ وہ فلم سے متاثر نہیں بلکہ صرف اپنی "انسٹا اسٹوری" پوسٹ کرنے کی خاطر کلائمکس دیکھنے پر مجبور ہے۔ جیسا کہ انسٹا اسٹوری پر اس کا تحریری متن کچھ یوں تھا: "کم از کم کلائمکس اچھا ہے"۔ یہ بھی ایک دوسری بات ہے کہ فلمی ناظرین کا مشاہدہ کرنے کی خاطر میں بھی کلائمکس تک فلم دیکھنے کے لیے مجبور تھا۔


شاید کسی نے یہ سچ کہا ہے کہ: فلم بین صرف اتنی ترقی کر سکتے ہیں جتنے معیار کی وہ فلمیں دیکھتے ہیں۔ بہرحال اگر ہر کوئی دھوکہ دینے میں مصروف ہے بشمول فلم بین ۔۔۔ تو کیا دھوکہ دہی اب کوئی غیرمعمولی بات رہ گئی ہے؟ یا ہمارے لیے اب اتنا جاننا باقی رہ گیا ہے کہ: کون زبردست دھوکہ دے رہا ہے یا کون بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے؟


Movie review of 2025's Bollywood epic movie "Chhava" (Vicky Kaushal, Akshaye Khanna, Rashmika Mandanna).

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں