اخترالایمان کی نظم کا تجزیاتی مطالعہ‎ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2025-03-31

اخترالایمان کی نظم کا تجزیاتی مطالعہ‎

akhtarul-iman-nazm

"کالے سفید پروں والا پرندہ اور میری ایک شام" کا تجزیاتی مطالعہ


اختر الایمان (1915- 1996) کی شاعری فکری اعتبار سے جتنی وسیع اور ہمہ جہت ہے۔ فنی لحاظ سے بھی اس میں اتنی ہی رنگا رنگی نظر آتی ہے۔ انہوں نے اظہار کے مختلف پیرائے تلاش کیے اور لفظیات و تراکیب، تشبیہات و استعارات کا استعمال حسبِ ضرورت کیا۔ انہوں نے شعری لوازمات کے فنکارانہ استعمال سے اپنی فکر کو بہت مؤثر اور دیرپا بنا دیا۔ اس بات کی توثیق کے لیے مناسب یہی ہے کہ ہم اختر الایمان کی ایک نظم "کالے سفید پروں والا پرندہ اور میری ایک شام" کا تجزیہ بھی کرکے دیکھیں، تاکہ ہم اختر الایمان کو ان کی تخلیق کی روشنی میں سمجھ سکیں۔ اختر الایمان نے یہ نظم 08/نومبر 1975 کو لکھی اور یہ ان کے ساتویں شعری مجموعے "نیا آہنگ"(ستمبر 1977) میں شامل ہے۔ یہ نظم سلائیڈ شو کی شکل میں ہے اور اس میں گاؤں اور شہر دونوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اختر الایمان کے دس شعری مجموعے ہیں، جن کے نام اس طرح سے ہیں۔ گرداب(1943)، تاریک سیارہ(1947)، سب رنگ(1947)، آبجو(1959)، یادیں(1961)، بنتِ لمحات(1969)، نیا آہنگ(1977)، سروساماں(1983)، زمین زمین(1990) اور، زمستاں سرد مہری کا(1997) وغیرہ، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، نئی دہلی نے 2000 ان کا کلیات شائع کیا، جسے ان کی بیوی سلطانہ ایمان اور بیدار بخت نے مرتب کیا ہے۔


محمد آصف زہری کے بقول "ہیئتاً یہ ایک آزاد نظم ہے، جس کے افاعیل "فعلُن فعلُن فعلُن فعلُن" ہیں اور بحر کا نام "بحرِ متدارک مثمن مقطوع" ہے۔ یہ بحر، ہندی عروض میں "پِنگل"(اوہٹ میں جب پراکرتی روایات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے تو اسے پنگل کہتے ہیں) کے نام سے مستعمل ہے نیز "پرتھوی راج راسو" اسی بحر میں لکھی گئی ہے۔"(بحوالہ، اختر الایمان کی دس نظمیں، صفحہ نمبر 164)


اس بنیادی گفتگو کے بعد اب نفسِ موضوع "کالے سفید پروں والا پرندہ اور میری ایک شام" کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جارہا ہے۔ نظم کا پہلا بند : جب دن ڈھل جاتا ہے، سورج دھرتی کی اوٹ میں ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیرتِ نبوی، ترکِ دنیا اور مولوی صاحب کے حلوے مانڈے میں کیا رشتہ ہے؟


اس نظم میں کل چھے بند (حصّے) ہیں اور پہلا بند سب سے بڑا ہے اس میں پوری نظم کی تمہید بیان کی گئی ہے کہ جب دن ڈھل جاتا ہے اور سورج دھرتی کے اوٹ میں ہوجاتا ہے تو بھڑوں کے چھتے جیسی بھنبھناہٹ کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ یہ بھنبھناہٹ، غلاظت اور گندگی کی علامت ہے۔ اس بند میں نئی نسل اور پرانی نسل کے متضاد رویوں، انسانی زندگی کے فکری و عملی تضادات کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ اسں میں کم سن لڑکوں، لڑکیوں کی جنسی بے راہ روی اور کثیر آبادی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جنسی بے راہ روی کو عام کرنے میں 2G، 3G، 4G اور اب تو 5G جیسی سہولیات نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے، بہت پہلے ہی کسی شاعر نے کہا تھا کہ
ٹیلی ویژن کی بدولت فصل پہلے پک گئی
بچہ بچہ قوم کا بالغ نظر آنے لگا
جنسی آسودگی اور پیٹ کی بھوک کے بارے میں اختر الایمان نے ہی کہیں لکھا ہے کہ جب انسان کی یہ دونوں خواہشیں بآسانی پوری ہو جائیں تو اس کے زندہ رہنے کی ساری خواہشات دم توڑ دیتی ہیں۔ بڑھتی تعمیرات سے بڑھتی آبادی کا پتہ چلتا ہے، چنانچہ آگے کے مصرعوں سے دھیرے دھیرے نظم اپنے عروج کی جانب بڑھتی ہے اور تھیٹر و تفریح گاہوں میں تالے پڑ جانے کے بعد بظاہر دنیا سوجاتی ہے، لیکن بباطن دنیا جاگتی رہتی ہے۔
میں اپنے کمرے میں بیٹھا سوچا کرتا ہوں
کتوں کی دم ٹیڑھی کیوں ہوتی ہے؟
ظاہری طور پر یہ ایک فضول اور لایعنی سا سوال ہے۔ لیکن آگے کے مصرعوں میں اسی بات کی وضاحت موجود ہے۔ یہ چتکبری دنیا جس کا کوئی بھی کردار نہیں ہے۔ یہاں لفظ "چتکبری" بھی اپنے آپ میں غور طلب ہے، کیونکہ چتکبری میں کوئی بھی رنگ واضح اور نمایاں نہیں ہوتا ہے۔ اس فانی دنیا میں کسی فلسفہ، کسی اقدار اور کسی بھی معیار کو ہمیشگی اور پائندگی حاصل نہیں ہے۔ پھر بھی دانشور حضرات اور وِدوان و فلسفی موٹی موٹی اور ادق کتابیں کیوں لکھتے ہیں؟ میرے خیال میں یہ استفہام انکاری ہے۔ آگے کے مصرعوں میں اخترالایمان نے مثالوں اور کرداروں کی مدد سے اسی گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی ہے کہ فرقت کی ماں نے شوہر کے مرنے پر کتنا کہرام مچایا تھا، لیکن عدت کے دن پورے ہونے سے ایک ہفتہ پہلے ہی نیلم کے ماموں کے ساتھ بدایوں جاپہنچی تھی۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ نیلم کا ماموں کون ہے؟ کیا یہ فرقت کا بھائی ہے اور نیلم فرقت کا بیٹا ہے یا یہ کوئی اور شخصیت ہے؟ بی بی کی صحنک(حضرت فاطمہ رضی اللّٰه عنہا کی نیاز کا کھانا جو مٹی کی کوری رِکابی میں ڈال کر کھلایا جاتا ہے۔) کونڈے(امام جعفر صادق کی نیاز جو رجب کے مہینے میں دلائی جاتی ہے۔ یہ جس برتن میں دلائی جاتی اسے کونڈے کہتے ہیں۔) فاتحہ خوانی، جنگِ صفین(یہ جنگ 657 عیسوی میں ہوئی) جنگِ جمل (یہ جنگ 656 عیسوی میں ہوئی) جنگ بدر (یہ جنگ 624 عیسوی میں ہوئی) کے قصوں، سیرتِ نبوی، ترکِ دنیا اور مولوی صاحب کے حلوے مانڈے (ایک قسم کی پتلی اور بڑی روٹی جو میدے میں گھی ملا کر تنور میں پکائی جاتی ہے۔ ایک طرح کا شیر مال) میں کیا رشتہ ہے؟ اب رسوم و رواج میں پہلے جیسا خلوص نہیں رہا بلکہ یہ سب چیزیں ڈھکوسلہ بن کر رہ گئی ہیں اور ہماری عبادات، عادات بن کر رہ گئی ہیں۔


میرے خیال سے یہاں ان ساری چیزوں کا تذکرہ اس لیے ہے، کیونکہ یہ ساری چیزیں ہماری دنیاوی زندگی اور زیست کی مصروفیات و مشغولیات کے ساتھ ساتھ ہمارے رسوم و رواج اور ہماری دل لگی و دل بستگی کا سامان ہیں۔ یہ ساری چیزیں ہمیں ہماری زندگی کے حقیقی اور اصل مسائل سے ہماری توجہ بھٹکا دیتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم انہیں چیزوں میں منہمک ہوکر رہ جاتے ہیں اور اپنی تخلیق کے حقیقی مقصد سے بھٹک جاتے ہیں۔


دوسرا بند : دن تو اڑ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ جو دن بیت گئے کتنے اچھے تھے !
اس نظم کا دوسرا بند بہت ہی خوب صورت ہے۔ جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ دن تو کسی طرح گزر جاتا ہے، لیکن راتوں کو جب اکثر لوگ سکون و راحت محسوس کرتے ہیں تب بھی بہت سارے لوگوں کو راحت نصیب نہیں ہوتی ہے۔ یعنی ایسے لوگوں کے لیے راحت اور سکون ایک خواب و خیال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی امیدوں کے دامن میں بھی پیوند لگے ہوتے ہیں۔ یہ انتہائی مفلسی اور تنگ دستی کی زندگی گزار رہے ہیں، ان کے کپڑے اتنے بوسیدہ ہو چکے ہیں یہ اگر ایک طرف اس کو سلتے ہیں تو دوسری طرف سے وہ پھٹ جاتا ہے۔


یہاں دو کردار مریم اور غضنفر کے حسن و عشق کا قصہ بیان ہوا ہے، جیسا کہ ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ دو محبت کرنے والوں میں شروع شروع سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہتا ہے۔ اسی طرح مریم اور غضنفر کا معاشقہ بھی ہے، لیکن غضنفر کہیں اور شادی کر لیتا ہے اور مریم اپنی مجرد زندگی کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے بالکل تھک چکی ہے اور کپڑے وغیرہ سی کر اپنی معمولاتِ زندگی کو کھینچ رہی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس غضنفر دوسری جگہ شادی کرچکا ہے۔ یہ اب اپنی بیٹی پر قدغن رکھتا ہے۔ اسے روکتا ٹوکتا ہے۔ کیوں کہ نئے زمانے کی اولاد اب اپنے والدین کی فرمانبردار نہیں رہ گئی اور یہ چیز تو سبھی مانتے ہیں کہ جو دن گزر گئے وہ اچھے تھے۔ جیسا کہ ایک حدیث شریف میں بھی ہے۔ "خیر القرون قرنی، ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم"(صحیح بخاری کتاب الشہادات، صحیح مسلم کتاب الفضائل)، یہاں غضنفر کا کردار مردوں کی علامت ہے اور مریم کا کردار عورتوں کی، جبکہ زینب کا کردار سماج کی علامت ہے۔


تیسرا بند: برگد کے نیچے بیٹھو یا سولی چڑھ جاؤ۔۔۔۔۔سامنے جو کچھ ہے رنگوں، آوازوں، چہروں کا میلا ہے !
اس نظم کا تیسرا بند پہلے بند کے ایک مصرعے کی مزید صراحت اور وضاحت ہے کہ "کتے کی دم ٹیڑھی کیوں ہوتی ہے ؟" یہاں سے یہ نظم اپنے مخصوص تلمیحی رنگ میں نظر آتی ہے کہ برگد کے نیچے بیٹھ کر گوتم بدھ (566-452 قبل مسیح) نے نروان حاصل کیا تھا اور عیسائی عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے قیامت تک پیدا ہونے والے تمام لوگوں کے گناہوں اور جرائم کی پاداش میں خود کو مصلوب کرا لیا تھا، لیکن پھر بھی دنیا میں یہ ناہنجار قسم کے لوگ (بھینسے) لڑنے سے باز نہیں آئیں گے۔ بھینسے سامراجی نظام کی علامت ہیں۔ جیسا کہ Sensex یا شیئر بازار وغیرہ کے ساتھ عموماً ان بھینسوں کی تصاویر بھی ہوا کرتی ہیں۔ موت سے ہم نے ایک تعاون کر رکھا ہے، کیونکہ، موت بقول میر تقی میر(1723-1810)
مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
شاید اسی وجہ سے اب ہمارے یہاں ہندوستان میں بھی اختیاری موت کی کورٹ سے اجازت بھی مل چکی ہے۔
سڑکوں پر ہر لمحہ ایک میت جاتی ہے
پس منظر میں کیا ہوتا ہے، نظر کہاں جاتی ہے
سامنے جو کچھ ہے، رنگوں، آوازوں، چہروں کا میلا ہے۔


چوتھا بند: گرگل اڑ کر وہ پلکھن پر جا بیٹھی۔۔۔۔۔۔۔سرکاری تحویل میں تھا اک مدت سے !
چوتھے بند میں بظاہر کسی خاص بات کا تذکرہ موجود نہیں، رپورتاژ اور نوسٹیلجیا(Nostalgia) کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ کچھ باتوں کا بیان ہے کہ بچپن میں ہم سب بہت چھوٹی چھوٹی اور معمولی باتوں میں اپنی خوشیاں تلاش لیتے تھے، لیکن اب بڑے ہونے کے بعد یہ ساری چیزیں ایک کر کے ہم سے چھن جاتی ہیں۔ پھر دھیرے دھیرے بڑے ہو جانے کے بعد ہماری مصروفیات و مشغولیات بھی دوسری ہو جاتی ہیں، یہاں تک کہ ہم اتنے خود غرض ہو جاتے ہیں کہ اپنے پڑوسی کے گھر کو نیلامی سے روکنے کے لیے کوئی تگ و دو نہیں کرتے بقول شاعر
ہے حسی نے لا تعلق کر دیا کچھ اس قدر
اک پڑوسی جل رہا ہے دیکھتا کوئی نہیں


پانچواں بند : شاید پت جھڑ کا موسم آپہنچا۔۔۔۔۔پس منظر میں نظر کہاں جاتی ہے۔
اس بند میں پت جھڑ کے موسم سے بات آگے بڑھائی گئی ہے کہ شاید پت جھڑ کا موسم آگیا ہے، جس کی وجہ سے مسلسل پتوں کے گرنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ پھر آزاد تلازمۂ خیال کے تحت چیچک کے ٹیکے کا ذکر کیا گیا ہے، جو بیماری کو روکے رکھتا ہے۔ ضبط تولید اور اسقاطِ حمل سے برتھ کنٹرول اور انسانی آبادی کے روکنے کی بات کہی گئی ہے اور بیماریوں پر روک تھام کے بجائے نسل کشی کے تاریخی اقدام کا ضمناً تذکرہ ہے۔ پھر ڈارون کے نظریئے ارتقاء پر چوٹ کی گئی ہے کہ جب سے بندر نے دو ٹانگوں پر چلنا سیکھا۔ تب سے پتوں کے گرنے کی آواز مسلسل آ رہی ہے، یعنی اس کے بعد زوال آگیا اور پھر اس سے زیادہ ترقی نہیں ہوسکی کہ دو ٹانگوں کی مدد سے چلنے والا ایک ٹانگ پر چلنا سیکھ جائے یا پھر اس کے بعد اڑنا ہی شروع کر دے،کیونکہ ارتقاء کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے اور اس میں خوب سے خوب تر کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ انسانی آبادی پر اتنی روک تھام کے باوجود بھی ہمیں ہر روز سڑکوں پر نئے چہروں سے سابقہ پڑتا رہتا ہے۔ اس بند میں بھی تیسرے بند کے کچھ مصرعے پھر سے دہرائے گئے ہیں۔


اس نظم کے آخری بند میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ پھولوں کی خوشبو سے کیا کیا یاد آتا ہے۔ عمومی طور پر پھول، خوشی اور غم دونوں موقعوں پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ پارٹی، شادی اور سالگرہ کے مواقع پر ہم اسے خوشی کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جبکہ کسی کی موت پر آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے بھی ہم پھولوں ہی کا استعمال کرتے ہیں اسی لیے کہا جاتا ہے کہ
خوشی کے ساتھ دنیا میں، ہزاروں غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں
پھولوں کا تذکر اس نظم کے آخری بند میں ہے۔ یہی پھول جب سڑ گل جاتے ہیں تو بدبو میں اضافے کا سبب بنتے ہیں، جیسا کہ اس نظم کے پہلے بند میں بھی، گندگی، غلاظت، تعفن، بدبو اور بھنبھناہٹ وغیرہ کا ذکر ہے۔ پھولوں کو استعمال کرنے کے بعد ہم انہیں کوڑے دان کے حوالے کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے ان پھولوں میں سڑاند پیدا ہو جاتی ہے۔ اس بند میں بھی آزاد تلازمۂ خیال سے کام لیا گیا ہے۔ پھولوں کی بات سے یک بارگی گفتگو کا رخ دہلی کے خونی دروازے کی طرف چلا جاتا ہے۔ بعینہ اس طرح جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک
یہ خونی دروازہ وہی ہے جہاں شہزادوں کی پھانسی کا اعلان ہوا تھا اور اسی عہد میں بقول میر تقی میر(1723-1810)
شہاں کی کہلِ جواہر تھی خاکِ پا جن کی
انہیں کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں


اس بند میں بھی مختلف بند کر مصرعوں کو دہرایا گیا ہے اور آخر میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ سبھی کے جیبوں میں انسانوں کے دکھ درد کا درماں ہے۔ سب کے پاس خوشیوں کا نسخہ بندھا پڑا ہے، لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے، جب نسخہ کھلتا ہے 1857 جاتا ہے اور 1947 آجاتا ہے۔ یعنی انتہائی سرعت سے ہماری خوشیوں کے ایام گزر جاتے ہیں۔ یہاں فرقت کا کردار انفرادی زندگی کی علامت ہے اور 1857 اجتماعی زندگی کی، 1857 اور 1947 ہندوستانیوں کے اجڑنے کے سال ہیں، پھر دھیرے دھیرے ہمارے یہ زخم بھی بھرنے لگے اور کسی نہ کسی طرح سے ہندوستانوں کی زندگی بسنے لگی، یہی زندگی کا استعارہ ہے۔


اس نظم کا مرکزی خیال اور نقطۂ نظر انسانی درد و کرب ہے، جس سے ہم انسان شب و روز نبر آزما ہیں۔ پھر بھی ہمیں اس سے نجات نہیں ملتی۔ آخر کار ہم آپسی غم غلط کرنے کے لیے مختلف چیزوں میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ اس طرح سے یہ نظم اپنے مرکزی خیال کی طرف، تسلسلِ خیال اور ارتقائے خیال کی مدد سے دھیرے دھیرے بڑھتی ہے اور اپنے پورے عروج پر پہنچتی ہے۔ عروج پر آنے کے بعد یہ نظم اپنے قاری پر ایک بہترین اور خوشگوار تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ میں بلا تأمل یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس نظم میں بلیغ استعارات و علامات اور شعور کی رو، سلائیڈ شو جیسی کئی مختلف تکنیک مستعمل ہونے کی وجہ سے میں اس نظم کے تجزیئے کا حق ادا نہیں کر سکا۔


حوالہ جات:
(1) نیا آہنگ: اختر الایمان، رخشندہ کتاب گھر، بمبئے 50، ستمبر 1977
(2) اختر الایمان کی دس نظمیں، تجزیاتی مطالعہ : محمد آصف زہری، سنہ اشاعت 2010
(3) اُردو ادب( سہ ماہی رسالہ) : مدیر، اطہر فاروقی، شمارہ نمبر 237 جلد نمبر 59 (اختر الایمان پر خصوصی شمارہ، مارچ 2016)
(4) اُردو ادب( سہ ماہی رسالہ) : مدیر، اطہر فاروقی، شمارہ نمبر 238 جلد نمبر 60، {مضمون، "اختر الایمان کی شاعری کا فکری پس منظر: شاہ
عالم"}
(5) اُردو دنیا (ماہنامہ)، نومبر 2015، مدیر ارتضیٰ کریم
(6) تخلیق و تحقیق(سہ ماہی رسالہ): مدیر، ظہیر حسن ظہیر، جلد نمبر 02، شمارہ نمبر 04، (اکتوبر تا دسمبر 2018)


***
محمد اشرف یاسین (دہلی)

Mohd Ashraf C/o Mohd Noorain
E-224 Third Floor, Shaheen Bagh, Abdulfazal Enclave-II, Jamia Nagar, Okhla, New Delhi-110025. Mob.: 8750835700

محمد اشرف

A review on a poem by Akhtar-ul-Iman - Reviewer: Mohd Ashraf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں