دوسروں کی ذاتی زندگی میں جھانکتی سوشل میڈیا کی آنکھ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2025-01-05

دوسروں کی ذاتی زندگی میں جھانکتی سوشل میڈیا کی آنکھ

personal-life-in-danger-of-social-media

اس حقیقت سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دور جدید میں روٹی ، کپڑا اور مکان کی طرح سوشل میڈیا بھی ضروریات زندگی کا اہم جزو بن چکا ہے۔ کام کے مقامات سے لے کر تعلیمی اداروں تک اور ذاتی زندگی سے لے کر سماجی تعلقات تک ہر جگہ سوشل میڈیا کا اثر نمایاں طور پر دیکھا جا رہا ہے، لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ اب یہ ہمارے گھروں کی دہلیز تک بھی پہنچ چکا ہے۔


سوشل میڈیا کا مقصد لوگوں کو جوڑنا اور معلومات فراہم کرنا تھا لیکن آج یہ ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں ہر شخص دوسرے کی زندگی میں جھانکنے اور اسے موضوع بحث بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہمارے گھروں کی چار دیواری جو ہمیشہ سے نجی زندگی کا محافظ سمجھی جاتی تھی اب سوشل میڈیا کی "آنکھ" کے سامنے بے نقاب ہو رہی ہے۔
حال ہی میں ایک افسوسناک پیش آیا جہاں ایک شخص اپنے گھر میں تولیہ باندھے ہوئے تھا اور اس کا خفیہ طور پر ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا گیا۔ نتیجہ میں اس ویڈیو نے نہ صرف اس شخص کی زندگی کو مشکل میں ڈال دیا بلکہ یہ واقعہ مار پیٹ اور تشدد کا بھی سبب بنا۔ لوگوں نے اس کی پٹائی کر دی۔ یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا کسی کو اپنے گھر میں اپنی مرضی کا لباس پہنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے؟ اور تعجب کی بات یہ ہے کہ کسی کے گھر کے اندر جھانکنے والے کو سبق سکھانے کے بجائے لوگ اس شخص کو ہی مار پیٹ کرتے نظر آئے جو اپنے گھر میں اپنی مرضی کا لباس پہنا ہوا تھا۔ اسے اخلاقی پستی نہیں تو اور کیا کہا جائے؟


قانون اور اخلاقیات کے مطابق ہر فرد کو اپنی نجی زندگی جینے کا پورا پورا حق حاصل ہے لیکن سوشل میڈیا پر لوگوں کی ذاتی زندگیوں کو اچھالنا اور انہیں شرمندہ کرنا نہ صرف اخلاقی اقدار کی خلاف ورزی ہے بلکہ قانونی طور پر جرم بھی ہے۔ سوشل میڈیا کے استعمال کو مثبت اور تعمیری انداز میں فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ لوگوں کو یہ سمجھانا ہوگا کہ دوسرے کی نجی زندگی میں مداخلت کرنا غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے۔ ہم سب کو سوشل میڈیا کے استعمال میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ کسی بھی مواد کو شیئر کرنے سے پہلے سوچنا ہوگا کہ آیا یہ دوسرے کی زندگی کو متاثر تو نہیں کرے گا؟ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ کسی کی ذاتی زندگی پر تبصرہ کرنے یا اسے وائرل کرنے سے پہلے اس کے نتائج کا جائزہ لیں۔ سوشل میڈیا کی آزادی کے ساتھ ذمہ داری کا مظاہرہ بھی ضروری ہے۔ نجی زندگی کا احترام اور تحفظ ہر انسان کا بنیادی حق ہے چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا باہر۔ ہمیں اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے سوشل میڈیا کا استعمال کرنا چاہیے۔ لیکن ان دنوں اس کا فقدان دیکھا جا رہا ہے۔


یہ بات قابل غور ہے کہ سوشل میڈیا پر موجود ہر فرد کی زندگی اب کسی حد تک عوامی بن چکی ہے۔ آپ جو کچھ بھی کرتے ہیں، چاہے وہ آپ کی ذاتی زندگی سے متعلق ہو، وہ کسی نہ کسی شکل میں عوام کے سامنے آ ہی جاتا ہے۔ جب آپ ایک تصویر شیئر کرتے ہیں یا کوئی ویڈیو اپ لوڈ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے ذاتی لمحوں کو دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔ یہ عمل آپ کی پرائیویسی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال نے لوگوں کی ذاتی زندگی کو ایک کھلی کتاب بنا دیا ہے۔ جہاں ایک طرف لوگ اپنی خوشیاں، غم ، اور ذاتی لمحات دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں وہیں دوسری طرف ان کی پرائیویسی ختم ہو رہی ہے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ آج کل سوشل میڈیا پر آپ کے ہر پیغام، ہر سرگرمی اور ہر پوسٹ کو انتہائی تفصیل سے ٹریک کیا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی شخص آپ کی سرگرمیوں کا تجزیہ کر سکتا ہے چاہے وہ آپ کے دوست ہوں یا کوئی اجنبی۔
یہ معاملہ اس حد تک سکین ہو چکا ہے کہ آپ کی ذاتی زندگی کے چھوٹے چھوٹے پہلو بھی لوگوں کی نظر میں آ سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اگر چہ ہم اپنی ذاتی زندگی کو دنیا سے شیئر کرنے کے لئے آزاد ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی اس کا خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے۔ ہماری جانب سے اپنی ہی تفصیلات سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کا تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ کوئی بھی آپ کی ذاتی معلومات، تصاویر یا ویڈیوز کا غلط استعمال کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بے شمار ایسے لوگ بھی ہیں جو فرضی اکاؤنٹس بنا کر سوشل میڈیا پر آپ کی زندگی کا پیچھا کرتے ہیں اور اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور آپ سائبر دھوکہ دہی کا شکار ہو سکتے ہیں۔


ان دنوں ویڈیوز بنا کر بلیک میل کرنے کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ سوشل میڈیا کی آزادی اور ہر کسی کے پاس موبائل فون اور انٹرنیٹ کی دستیابی نے اس رجحان کو ہوا دی ہے۔ کچھ لوگ دوسروں کی نجی زندگی میں مداخلت کرتے ہیں ان کے ویڈیوز بناتے ہیں اور پھر ان ویڈیوز کو بلیک میلنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ انتہائی غیر اخلاقی بھی ہے۔
یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر ایسے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے جنہیں اخلاقیات اور قانونی ضوابط کا علم نہیں ہے۔ یہ لوگ محض ویوز ، سبسکرائبرز، اور فوری شہرت کے لالچ میں غیر اخلاقی مواد تخلیق کرتے ہیں۔ کچھ افراد نے تو ویڈیوس بنا کر بلیک میلنگ کو ایک پیشہ کے طور پر اختیار کر لیا ہے اور یہ طریقہ آمدنی کا ذریعہ بن چکا ہے۔ ہر شخص کے پاس موبائل فون کی موجودگی اور سوشل میڈیا کا آزادانہ استعمال جہاں ایک راحت ہے و ہیں یہ خطرناک بھی ہے۔


اس صورتحال میں مرکزی حکومت کی جانب سے ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن قوانین کا مسودہ جاری کیا گیا ہے جس کے تحت بچوں کو سوشل میڈیا اکاؤنٹ بنانے کے لیے والدین کی پیشگی اجازت لینا لازمی ہوگا۔ 18 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ بنانے کے لیے والدین کی رضا مندی لازمی ہوگی۔ یہ ضابطہ ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ 2023 کے مسودہ قوانین کا حصہ ہے جسے مرکزی حکومت نے جاری کیا اور اس پر اعتراضات و تجاویز پیش کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
مسودہ کے مطابق ڈیٹا فیڈوشیریز (وہ ادارے جو ذاتی ڈیٹا کو سنبھالنے کی ذمہ داری لیتے ہیں) کو نابالغوں کے ڈیٹا پر عمل ( منیجمنٹ) کرنے سے پہلے بچوں کے والدین کی رضا مندی حاصل کرنی ہوگی۔ صارفین کو اپنا ڈیٹا ڈیلیٹ کرنے اور کمپنیوں سے اس بارے میں شفافیت کا مطالبہ کرنے کا حق ہوگا کہ ان کا ڈیٹا کیوں اور کیسے اکٹھا کیا جا رہا ہے؟
ڈیٹا کی خلاف ورزی کی صورت میں 250 کروڑ روپے تک کے جرمانے کی تجویز رکھی گئی ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ان قوانین کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کی جانب سے ڈیٹا پروٹیکشن بورڈ قائم کیا جائے گا جو ایک مکمل ڈیجیٹل ریگولیٹری باڈی کے طور پر کام کرے گا۔ اس طرح کے اقدامات وقت اور حالات کا تقاضا ضرور ہیں لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ کئی طرح کے قوانین بنائے جاتے ہیں مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ صرف قانون سازی پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس پر عمل آوری کو یقینی بنایا جائے تبھی اس کے ثمر آور نتائج بر آمد ہوں گے۔

***
بشکریہ: روزنامہ 'اعتماد' حیدرآباد۔ اتوار ایڈیشن، 5/جنوری 2025ء

Personal life in danger of social media, Essay by: Aziz Ahmed Tasleem

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں