اورنگ زیب - آدمی اور فسانہ : امریکی تاریخ دان کی کتاب کا جائزہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2024-08-04

اورنگ زیب - آدمی اور فسانہ : امریکی تاریخ دان کی کتاب کا جائزہ

Aurangzeb, the man and the myth by Audrey Truschke

امریکی تاریخ دان پروفیسر آڈری ٹرشکے کی کتاب
'اورنگزیب - دی مین اینڈ دی متھ' کا ایک جائزہ


آڈری ٹرشکے، روٹگرس یونیورسٹی امریکہ میں تاریخ کی معلمہ ہیں۔ تاریخ برصغیر کے گہرے مطالعے کی خاطر انھوں نے سنسکرت اور فارسی زبانیں سیکھیں۔ تین پر مغز کتابوں کی تصنیف کا کام کیا اور اسکالروں میں اپنا مقام بنایا۔ 2017ء میں ان کی کتاب " اور نگ زیب: ایک شخص اور فرضی قصے" منظر عام پر آئی۔ مشکل اور متنازع موضوع پر یہ کارِ وحشت، آڈری کے لئے وجۂ شہرت بنا۔
دلائل کے ساتھ تنقید میں کوئی برائی نہیں ہوتی۔ کوئی سچا عالم اپنے کو تنقید سے مبرا نہیں سمجھتا۔ لیکن اس کتاب کی اشاعت کے ساتھ ہی ای۔ بھیڑیوں کا ایک جھنڈ، آڈری پر پل پڑا۔ دیکھا دیکھی حقیقی دنیا کے بھکتوں نے بھی یلغار کر دی۔ طوفانِ بدتمیزی بپا ہوا۔ لیکچروں کے دوران زبانی حملے کئے گئے۔ کچھ جگہوں پر منتظمین کو اُنکے پروگرام منسوخ کرنے پر مجبور کیا گیا۔ روٹگرس یونیورسٹی پر اُنکی برخاستگی کیلئے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ امریکہ میں مقدمہ دائر کیا گیا لیکن فیصلہ آڈری کے حق میں آیا۔
تاریخ میں ہمیں کس اورنگزیب کی تلاش ہے؟ اس سے زیادہ مخلصانہ اور حقیقت پسندانہ سوال یہ ہوگا کہ تاریخی ریکارڈ اور شواہد کا معروضی تجزیہ دراصل کس اورنگزیب کو ہمارے سامنے پیش کرتا ہے؟ آڈری کے مطابق اورنگزیب کی ہندو مخالف ہونے اور ہندوستان کو مندروں سے پاک کرنے کے عزائم رکھنے والے کی شبیہ، نو آبادیاتی دور کی تحریروں کے سبب بنی۔ جس کے لئے انگریزوں کے اپنے مقاصد تھے۔ ایک تو ہندو اور مسلمانوں میں مستقل نفرت پیدا کرنا اور دوسرے خود کو مغلوں کے مقابلہ زیادہ وسیع النظر ثابت کرنا۔ آج کے دور میں دائیں بازو کی نفرتی سیاست ، اس من گھڑت بیانیے کو خوب خوب فروغ دیتی ہے۔ کبھی چالاک دانشوری کے پیرہن میں نفاست سے اور کبھی جہالت کے رقص برہنہ کی ہلڑ بازی کے ذریعہ۔


اپنی تحقیق کے دوران مصنفہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ ہندوستان میں جگہ جگہ موجود مندروں میں صرف چند درجن کی مسماری شہنشاہ کے احکامت کے تحت ہوئی۔ لیکن 'اسکی وجہ ہندوؤں سے نفرت تھی' اس نکتہ نظر میں متعدد خامیاں ہیں۔ مغل انتظامیہ کے تحت تمام مندروں کو حکومت کا تحفظ حاصل تھا اور دیکھ بھال میں تعاون بھی۔ لیکن مغلیہ دستور ہی کے مطابق، حکومت سے عدم وفاداری یا اس کے مفاد کی خلاف ورزی چند مخصوص بت خانوں کو تحفظ و عنایات سے محروم کر دیتی تھی۔ چند استثنائی معاملات کے سوا، اپنی غیر مسلم رعایا کے معاملے میں اورنگزیب مروجہ عام اسلامی اصولوں سے بھی کچھ زیادہ مہربان نظر آتا ہے۔ اورنگزیب کا نظریہ عدل و انصاف ساری رعایا کو ایک خاص درجے کی مذہبی آزادی فراہم کرتا تھا۔ اُس وقت کی یورپی بادشاہتوں کے مقابلے ہندوستان میں زیادہ مذہبی آزادی میسر تھی۔ اورنگزیب کے دور میں بڑے پیمانے کی جبراً اتبدیلئ مذہب کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔


ایک شاہی فرمان کے ذریعہ ، بنارس کے مغل افسران کو غیر مسلموں کے مذہبی امور میں مداخلت سے اجتناب کی تاکید کی۔ 1659 کے ایک فرمان کے مطابق گوہاٹی کے اُمانند مندر کو تفویض اراضی کی توثیق کی۔ 1680 میں رام جیون گوسائیں کو بنارس گھاٹوں کے قریب اراضی عطا کی کہ برہمنوں اور سنیاسیوں کی رہائش کا انتظام کیا جائے۔ 1691 میں چترکوٹ بالا جی مندر کی امداد کی خاطر آٹھ گاؤں اور محصول معاف زمینیں عطا کیں۔ اسی طرح کے عطیات کی فہرست طویل ہے۔ شیو بھکت جنگم ہندوؤں کی چھینی ہوئی زمینوں کی بحالی کے فرمان جاری کئے۔ 1672 میں ایک جگہ پر مقامی مسلمان کی شر پسندی سے جنگموں کو نجات دلانے اور لئے گئے غیر قانونی کرائے کی واپسی کی کاروائی ہوئی۔ جین رعایا کے مقدس مقامات شتر رنجئے ، گرنار اور کوہِ ابو پر زمین کے عطیات کے شواہد ملتے ہیں۔ اس دور کے جین مخطوطات میں اورنگزیب کی تعریف ملتی ہے۔ عالمگیر کی وفات کے وقت بھی بیشمار ہندو اور جین منادر موجود تھے۔
حکومت عالمگیری میں ہندو امراء اور افسران کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا۔ 21 فی صد سے بڑھکر یہ تعداد 36 فی صد ہو گئی۔ اعلیٰ افسران کا تناسب تو کل مغل انتظامیہ کے پچاس فیصد تک پہنچا۔ رگھوناتھ ، شہنشاہ کا پسندیدہ افسر تھا جو پرلوک سدھارا۔ عالمگیر مرتے دم تک اُسکا ذ کر بڑے احترام کے ساتھ کیا کرتا تھا۔


عالمگیر کی موجودہ شبیہ حقیقت سے زیادہ فسانوں پر مبنی ہے۔ آڈری کہتی ہیں کہ تفصیلی تحقیق کی بنیاد پر، ہم اورنگزیب کی شخصیت ایک ایسے شہزادے کے طور پر دیکھ سکتے ہیں جو شاہی خاندان کی اُن حرکیات کے جال میں جکڑا ہوا تھا جنھوں نے اُس کی عمر کے ابتدائی سالوں کی صورتگری کی۔ اور پھر ایک گرسنگِ ارض، طاقت کے متلاشی اولوالعزم بادشاہ کے طور پر جس نے اپنے مخصوص نظریۂ عدل و انصاف کو ہمیشہ سینے سے لگائے رکھا۔
آڈری کی اس تحریر کا مقصد، عالمگیر کی شخصیت پر صدیوں سے چلی آ رہی پرتعصب خیال آرائیوں کی تردید اور اس کی حقیقی شبیہ کی تعمیر نو ہے۔ اُس کے مزاج میں مذہبی احکام پر عمل کے معاملے میں گہرا شوق موجود تھا۔ ذاتی زندگی پرہیز گاری سے عبارت تھی۔ لیکن اکثر حکومت کے معاملات میں وہ اسلامی احکامات سے صرفِ نظر کر جاتا تھا۔ اُس کی جنگیں مذہبی بالکل نہ تھیں۔ مختلف افراد و گروہوں کے خلاف اُس کی کارروائیوں کی وجوہات بھی سیاسی تھیں جنہیں مذہبی منافرت کے رنگ میں پیش کیا گیا۔ یہ باتیں عوام کے ذہنوں پر ایک مسلمہ صداقت کی طرح چھا گئیں۔


علامہ اقبال نے عالمگیر کو 'براہیم اندروں بت خانہ' کہا۔ ابنِ انشا نے طنز و مزاح کے تیر چھوڑے کہ اُس نے ایک نماز قضا نہ کی اور ایک بھائی کو زندہ نہ چھوڑا۔ خیر یہ تو شعرا اور ادباء کی باتیں تھیں۔ نامور مورخ جادو ناتھ سرکار نے اورنگزیب کو متعصب شخص بتایا۔ پنڈت نہرو نے بھی اُسے ، وقت کی گھڑی کو اُلٹا چلانے کی کوشش میں مغل سلطنت کے زوال کا سبب بننے والا، خشک مزاج دیندار بتایا۔
راقم اگر سوال کرے کہ اورنگزیب پر تفتیش و تجزیے کیلئے، ایک اسکیل پر ، کونسا نظریہ مناسب رہے گا؟ مذاہب سے یکساں دوری رکھنے والا سیکولرازم، مذہب مخالف سیکولرازم، سادہ خداترس مذہبیت یا پھر متعصب مذہبی انتہا پسندی؟

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
اورنگ زیب - متعصب تھے یا متقی؟
شہنشاہ اورنگ زیب پر مندر شکنی کے الزام کی حقیقت
اورنگ زیب عالمگیر - شخصیت اور طرز حکمرانی

آڈری کا جواب ہوگا کہ اورنگزیب کو آج کے تمدنی معیارات کے پیمانوں پر مت ناپو۔ اسی دور کے آئیڈیل اصولوں، حالات اور معاصرین کے تقابل میں دیکھو۔ وہ صرف ایک بادشاہ ہی نہیں اپنی خوبیوں اور کمزوریوں کے ساتھ ایک انسان بھی تھا۔ تقریباً نصف صدی تک ہندوستان کے وسیع ترین رقبے کے شہنشاہ، اورنگزیب کی زندگی کا بیشتر حصہ دکن میں گزرا۔ دکن کے سنگلاخ نشیب و فراز کی مانند شہنشاہ کی زندگی بھی کسی رولر کوسٹر کی سواری جیسی رہی۔ شہزادہ اورنگزیب اور اُس کے بھائیوں دارا شکوہ، شجاع اور مراد کے درمیان اقتدار کے لئے کشمکش۔ شاہجہاں کو نظر بند کر کے خود کے اعلانِ شہنشاہی پر شریف مکہ کی خفگی۔ مراٹھوں ، مارواڑی اور میواڑی راجپوتوں کے ساتھ تعلقات کی سردی گرمی۔ جزیہ کے نفاذ ، ہولی، دیوالی اور عیدین کی تقریبات کو محدود کرنے کیلئے شہنشاہ کے فرمان۔ خود اپنے بیٹوں کی گوشمالی اور عمر کے آخر میں شہنشاہ کی مایوسی ، جیسی کتنی ہی باریکیاں کتاب میں درج ہیں۔
اس کے علاوہ عالمگیر کی ناکامیوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ شہنشاہ کے سخت احکامت کے برخلاف چند مغلیہ افسروں کی رشوت خوری جاری تھی۔ شاہراہوں پر مسافروں کو لوٹنے ڈاکو سرگرم عمل ہوئے، جس پر عالمگیر شدید برہم ہوا تھا۔ دکن میں مسلسل مہم جوئی کے معاشی اثرات نے خزانے پر زبر دست بوجھ ڈالا اور بالآخر بیٹوں میں اتحاد کی کوششیں ناکام ہوئیں۔
کتاب ، حیاتِ عالمگیر کے کچھ دلچسپ گوشوں کی معلومات بھی فراہم کرتی ہے۔ نوجوان اورنگزیب کا ایک مدمست ہاتھی کو بھالے سے زخمی کر کے اپنی جان بچانا۔ ہیر ابائی نامی ایک رقاصہ پر اورنگ زیب کی فریفتگی اور معاشقہ۔ تاجپوشی کی دونوں تقریبات کی دھوم دھام، شان و شوکت اور رونقیں۔ شاہ کے ایک مُصاحب، کامگار خاں نے شکایت کی کہ فلاں شاعر مجھے طنزیہ شاعری کا ہدف کرتا ہے۔ بزم شاہنشاہ میں اشعار کے دفتر کھولنے والے اُس سخنور کے انداز بیاں سے اور نگ زیب خوب واقف تھا۔ کہا کہ وہ تو مابدولت کو بھی نہیں بخشا، نظر انداز کرو۔


اتنی مختصر کتاب کے ذریعہ آڈری، ذہنوں سے گرد و غبار کو بآسانی صاف کر دیتی ہے۔ اُن کا اسلوب اورنگزیب کے مزاج جیسا خشک نہیں لیکن تیور بالکل غیر معذرت خواہانہ ہیں۔ نسبتاً کم تجربہ کاری کے باوجود پروفیسر آڈری ٹرشکے مطالعۂ تاریخ کے پیچیدہ اصولوں کو عام فہم انداز میں پیش کرتی ہیں۔ اس ہنر پر یقیناً اکابر اساتذہ بھی محو حیرت ہونگے۔ ملک کے معروف مورخ ہربنس مکھیا مصنفہ کی ایک دیگر کتاب کے متعلق کہتے ہیں کہ گہری تحقیق پر مبنی دلائل کے سبب وہ صاف طور پر تاریخ عہد وسطی کے ایک پیشہ ور ماہر کے بطور معروف رہیں۔ جبکہ یہ کتاب اسکالروں کے ساتھ یکساں طور پر عام قاری کے لئے بھی ہے۔ کتاب کا اردو ترجمہ اقبال حسین اور فہد ہاشمی نے کیا اور ایجو کیشنل بک ہاوس، دہلی نے شائع کیا۔ راقم نے البتہ اصل انگریزی سے کا لطف اٹھایا اور اپنے علم میں اضافہ کیا۔


***
غلام عارف ممبئی میں مقیم عوامی مقرر اور سماجی، اقتصادی وسیاسی مسائل کے تبصرہ نگار اور کمیونٹی ٹاکنگ پلیٹ فارم کے کنوینز ہیں۔
موبائل: 8422971000
ای-میل : arif055@gmail.com
(ماخوذ و بشکریہ: روزنامہ 'انقلاب' ممبیئ، اتوار ایڈیشن، 4/اگست 2024ء)


A review of the book: Aurangzeb, the man and the myth by Audrey Truschke. Reviewer: Ghulam Arif

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں