تاریخ میں اورنگ زیب اور ان کے دور حکومت کے بارے میں بہت سی بے بنیاد باتیں مقبول عوامی حافظوں میں جڑ جما چکی ہیں۔
مغلیہ سلطنت کی آخری حدود کو وسعت دینے والے اور ہندوستان پر 49 سال تک راج کرنے والے اورنگ زیب (متوفی: 1707) کیا متعصب، متشدد اور ہندومخالف تھے؟ کیا وہ ایک جابر اور غیر انسانی بربریت آمیز جرائم کے مرتکب تھے؟ کیا وہ کٹر مذہبی اور خطرناک رجعت پسند تھے؟ کیا انہوں نے لاکھوں ہندوؤں کو قتل اور ہزار ہا مندروں کو منہدم کروایا تھا؟
ایسے سوالات کبھی نہ کبھی آپ کے ذہن میں اٹھے ہوں گے۔
وجہ یہ ہے کہ تاریخ میں اورنگ زیب اور ان کے دور حکومت کے بارے میں بہت سی بے بنیاد باتیں مقبول عوامی حافظوں میں جڑ جما چکی ہیں۔ بہت سارے لوگوں کو لگتا ہے کہ اورنگ زیب نے تفرقہ انگیز پالیسی کو عوام پر تھوپا تھا۔ اس کے بر عکس کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو اورنگ زیب کو مسلم بالادستی کی علامت سمجھتے ہیں۔ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ ایک متقی مسلمان تھا۔
کئی بار اورنگ زیب کی تاریخ نویسی کے دوران قصیدہ خوانی ہونے لگتی ہے اور یہ تاثر پیش کیا جاتا ہے گویا اس نے زندگی میں کوئی غلطی کی ہی نہیں۔ ایسی تاریخ نویسی بھی سود مند نہیں ہے، کئی مرتبہ یہ فرقہ پرستوں کو تقویت فراہم کرتی ہے۔
یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اورنگ زیب ایک بادشاہ تھا۔ کوئی بھی بادشاہ محصولات حاصل کرنے کے لیے رعایا کا استحصال کرتا ہے۔ جب تک سماج میں طبقاتی نظام ہوگا تب تک ریاست اور بادشاہ ہوں گے۔ طبقاتی نظام کا دوسرا نام ہی غیر برابری ہے۔ ریاست کا وجود بغیر زور زبردستی اور طاقت کے قائم نہیں رہ سکتا ہے۔ تبھی تو اورنگ زیب نے شورش اور بغاوت کو دبانے کے نام پر اپنے مخالفین کو بغیر کسی رحم کے کچل ڈالا۔ اقتدارکی لڑائی میں اورنگ زیب نے اپنے والد شاہجہاں کو قید کیا اور اپنے بھائیوں کا قتل کیا۔ مگر یہ یادر ہے کہ ایسا کرنے والا وہ نہ تو تاریخ میں پہلا بادشاہ تھا اور نہ ہی آخری۔
اقتدار کی لڑائی میں اگر اس کا بھائی داراشکوہ فتحیاب ہوتا تو وہ بھی اورنگ زیب کے ساتھ وہی سلوک کرتا۔ اقتدار کے لیے اورنگ زیب نے دیگر غیر مسلم اور مسلم دونوں سے لڑائی کی۔ 1680ء کی دہائی میں بیجاپور اور گولکنڈہ کا محاصرہ کرنے سے بھی وہ پیچھے نہیں ہٹا۔ لہذا اورنگ زیب کو متعصب اور ہندو مخالف کہنا جائز نہیں ہے مگر ان کی قصیدہ خوانی کرنا بھی تاریخ نویسی نہیں ہے۔
شاہجہاں کے تیسرے فرزند اورنگ زیب کی شخصیت اور ان کے دور حکمرانی سے متعلق بہت سارے گرد و غبار اور کنفیوژن کو دور کرنے کی ایک علمی پہل امریکہ کی رٹگز یونیورسٹی [Rutgers University]، نیوجرسی میں جنوب ایشیائی تاریخ کی پروفیسر آڈری ٹروشکی [Audrey Truschke] نے کی ہے۔
ٹروشکی مغلیہ سلطنت کی تاریخ کی ایک بڑی جانکار اسکالر ہیں۔ اور اس سے قبل انہوں نے اورنگ زیب کے دربار میں سنسکرت زبان کے مقام سے متعلق تحقیقی کام کیا تھا۔ تین سال پہلے انہوں نے اورنگ زیب کی زندگی اور ان سے جڑے تنازعات کو ایک مخصوص کتاب بعنوان:
اورنگ زیب: دی مین اینڈ دی متھ
Aurangzeb: The Man and the Myth
لکھا ہے۔ اس اہم کتاب کو اردو قارئین تک پہنچانے کا بڑا کام جامعہ ملیہ اسلامیہ سے فارغ التحصیل اور معلم اقبال حسین اور دہلی یونیورسٹی میں علم عمرانیات میں پی ایچ ڈی کرنے والے ریسرچ اسکالر فہد ہاشمی نے کیا ہے۔
"اورنگ زیب: ایک شخص اور فرضی قصے" کے عنوان سے یہ کتاب بازار میں پہنچ گئی ہے۔ مترجمین نے کتاب کا شاندارتر جمہ کیا ہے۔ کتاب پڑھتے وقت ایسا محسوس ہی نہیں ہوتا ہے کہ یہ کتاب اصلاً انگریزی میں لکھی گئی ہے۔ انہوں نے انگریزی کے اصطلاحات کے لیے معقول اردو الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ اقبال اور فہد کا تعلق سوشل سائنس سے ہے، جو اردوکی خدمت کے لیے سامنے آئے ہیں۔
اردو دنیا کو بھی دوسرے ڈسپلن اور موضوع کے اسکالرز سے مکالمہ کرنا چاہیے اور ان کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانا چاہیے، کیونکہ کوئی بھی ڈسپلن اور موضوع خود میں مکمل نہیں ہے۔
خیال رہے کہ مطبوعہ کتاب اایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس (نئی دہلی) سے آئی ہے مگر آج بھی اردو زبان میں سوشل سائنس کی کتابیں شائع کرنے کی سمت میں بہت سارے ناشر تو جہ نہیں دیتے۔
یہ بات مایوس کن ہے کہ اردو پڑھنے اور جاننے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ پھر بھی اتنی بڑی آبادی کو سوشل سائنس کے حلقے سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ دوسری زبان جیسے بنگلہ میں ایسی حالت نہیں ہے، جہاں انگریزی کے تراجم بہت ہوتے ہیں۔
انگریزوں کے دور میں اورنگ زیب کی شبیہ خراب کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ انگریزی حکومت نے اپنا اقتدار مغلیہ سلطنت کی قبر پر ہی کھڑا کیا تھا۔ جب وہ یہاں پر حاکم بن گئے تو انہوں نے نہ صرف ہندوستانیوں کا استحصال کیا اور محصولات کی شکل میں غریبوں، کسانوں اور مزدوروں کا خون چوسا، بلکہ تاریخ نویسی کا کام شروع کر کے اپنی بالادستی محکوم ذہنوں پر تھوپی۔
اسکول، کالج، یونیورسٹی، کتاب، اخبار اور میڈیا کے ذریعہ انگریزی بالادستی رگوں میں دوڑائی گئی۔ نو آبادیاتی تاریخ نویسی میں ہندوستان کی شبیہ کو مسخ کرکے پیش کیا گیا اور ہندو اور اسلام کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا گیا۔
ہندوستانی تاریخ کو تین عہدوں میں کمیونل، بنیاد پر تقسیم کر دیا گیا اور عہد قدامت کو ہندو دور کہا گیا، جبکہ قرون وسطی کو مسلم دور۔ شروع کے دور میں چونکہ مسلم حکمراں سے انگریزوں کا تصادم براہ راست تھا۔ اس لیے انگریزوں نے مسلم بادشاہوں اور قائدین کی امیج کو کچھ زیادہ ہی خراب کیا اور انہیں متعصب، متشدد، کٹر، جابر، غیر روادار، شہوت پرست، جنونی مذہبی اور ہندو مخالف، بنا کر پیش کیا۔
اورنگ زیب مغلیہ سلطنت کے ایک بڑے کامیاب بادشاہ تھے اور ان کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت تیزی سے انتشار کا شکار ہوئی۔ بعد میں جو سیاسی خلا پیدا ہوا اس کو پورا کرنے میں انگریز کامیاب ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ اورنگ زیب کو نو آبادیاتی تاریخ نویسی نے سب سے زیادہ نشانہ بنایا ہے۔ جو ماحول اورنگ زیب کے خلاف بنایا گیا، اس کا فائدہ بہت سارے ہندو احیا پرست لیڈران اور قومی تحریک سے جڑے قائدین نے اٹھایا۔
مختصراً، جو سلسلہ نو آبادیاتی دور سے شروع ہوا وہ آج ہندو توا کے راج میں انتہا تک پہنچ گیا ہے۔ اورنگ زیب کے نام پر رکھی گئی ایک سڑک کو سال 2015 میں بدل دیا گیا اور اسے سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام سے منسوب کر دیا گیا۔ اگر کھلے دماغ سے مذکورہ کتاب کو پڑھا جائے تو اورنگ زیب کے بارے میں گشت کر رہی بہت ساری غلط فہمی، پرو پیگنڈا اور تعصب دور ہو جائے گا۔
اورنگ زیب کے منفی کردار سے متعلق ڈسکورس کی تنقید کرتے ہوئے مصنفہ آڈری ٹرشکی کہتی ہیں کہ مقبول عام تصور کے برعکس اورنگ زیب نے بڑے پیمانے پر تبدیلی مذہب کی ایسی کسی مہم کی کبھی تائید نہیں کی ، جس کے تحت غیر مسلموں کے پاس اسلام اور تلوار میں سے کسی ایک کا انتخاب لازمی ہو۔
اورنگ زیب نے ہزارہا ہندو مندروں کو منہدم نہیں کیا (بلکہ منہدم منادر کی تعداد زیادہ سے زیادہ کچھ ہی درجن تھی)۔ انہوں نے کسی ایسے جرم کا ارتکاب نہیں کیا تھا جسے ہندوؤں کے جینوسائڈ (نسل کشی) کے زمرے میں شامل کیا جا سکے۔
اورنگ زیب نے درحقیقت اپنی حکومت میں ہندوؤں کو اعلی عہدوں پر فائز کیا تھا۔ انہوں نے ہندو مذہبی گروہوں کے مفادات کی بھی حفاظت کی تھی۔ یہاں تک کہ اپنے ہم مذہب مسلمانوں کے ذریعے برہمنوں کو پریشان کرنے کے خلاف حکم بھی صادر کیا تھا۔
انہوں نے اپنی تمام رعایا کے لیے محفوظ سڑکیں اور بنیادی نظم و نسق دستیاب کروایا (ص۔ 13)۔
اورنگ زیب کی صحیح شخصیت کی بازیافت کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ سوال ہندومسلم ہم آہنگی سے بھی جڑا ہوا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اورنگ زیب کے بارے میں مورخین ایک حد تک یوروپی سیاحوں کے سفرنامے کو مآخذ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ان سیاحوں نے اورنگ زیب یا مغلیہ سلطنت کی حقیقت کو اپنے زاویے سے رقم کیا ہے جو تعصب سے پرے نہیں ہے۔
اطالوی سیاح جیمیلی کیریری [Gemelli Careri]، نکولی منوچی [Niccolao Manucci]، فرائنکو برنیر [Francois Bernier] اور دیگر کی تحریروں کا تنقیدی مطالعہ کرنے کے لئے (ماقبل) یوروپی زبانوں کا جاننا بے حد ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نو آبادیاتی دور میں فارسی مواد کا جو ترجمہ ہوا ہے، اس میں بھی بہت ساری افراط و تفریط ہے۔ مغلیہ دور کے درباری شاعر اور تاریخ نویس کی تحریروں میں مبالغہ آرائی اور بادشاہ کی قصیدہ خوانی کا بھی تنقیدی مطالعہ ہونا چاہیے۔ جدو ناتھ سرکار جیسے بڑےمورخ کی تحریر کے اندر پائے جانے والے فرقہ وارانہ مواد پر بھی مکمل تنقید کرنے کی ضرورت ہے۔ ان سب کے لیے صلاحیت اور وقت ہی نہیں بلکہ وسائل کی بھی ضرورت ہے۔
***
(مضمون نگار جے این یو سے پی ایچ ڈی ہیں)
ای-میل: debatingissues[@]gmail.com
(مضمون نگار جے این یو سے پی ایچ ڈی ہیں)
ای-میل: debatingissues[@]gmail.com
Aurangzeb - Was he a fanatic or a pious person? Article by: Abhay Kumar
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں