اردو کتابوں کی اشاعت اور نکاسی کے مسائل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2024-07-24

اردو کتابوں کی اشاعت اور نکاسی کے مسائل

urdu-books-publishing-distribution

کسی بھی سماج کی ترقی اور تنزلی کا انحصار اخلاقیات، اقتصادیات اور تعلیم پر ہوتا ہے۔ جس سماج میں دیانت داری اور قربانی کا جذبہ ہوتا ہے ، جس کی اقتصادی حالت مستحکم ہوتی ہے اور جو زیورِ تعلیم سے پوری طرح آراستہ ہوتا ہے وہ سماج اپنے مسائل کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کر کے یا اپنی عقل سے مسائل کا حل تلاش کر کے بڑی تیزی سے ترقی کرتا ہے۔ لیکن جو سماج ان تینوں شعبوں میں کمزور ہوتا ہے ، وہ تعطل و بے حسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ بے حیائی اور مردہ ضمیری اس کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور وہ مختلف مسائل سے گھر جاتا ہے۔


ہمارا اردو سماج آج انھی جذبات سے محروم ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس کے سامنے مختلف مسائل بھیانک روپ سے منھ پھاڑے کھڑے ہیں۔ ان مسائل میں مصنف کے مسائل، مدیر کے مسائل، ناشر کے مسائل، قاری کے مسائل، درسی کتابوں کے مسائل، ترجمہ کے مسائل، کتابوں کی اشاعت، قاری کے مسائل، درسی کتابوں کے مسائل، ترجمہ کے مسائل، کتابوں کی اشاعت اور نکاسی کے مسائل آزادی وطن کے بعد ہمیشہ نمایاں رہے ہیں۔ ان کے متعلق ہمارے دانشوروں نے کئی بار سنجیدگی سے غور و فکر کر کے اظہار خیال کیا ہے۔ اس سلسلے میں وہ مفید تجاویز بھی پیش کر چکے ہیں لیکن اب تک کوئی تجویز کار گر ثابت نہیں ہو سکی ہے۔ ان مسائل کا آج بھی اردو معاشرہ اسی طرح شکار ہے جس طرح کل تھا۔ بلکہ اب تو حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ہمارا ادیب و شاعر اس الجھن میں بری طرح مبتلا ہے۔ اسی نے ان کو مایوسیوں (Frustration) کے حوالے کیا۔ آج کے اس سیمی نار میں میرا موضوع :اردو کتابوں کی اشاعت اور نکاسی کے مسائل انھی مایوسیوں کا ایک حصہ ہے۔


کتابیں وہی لکھتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے تخلیقی قوت سے سرفراز کیا ہے ، جس کو تنقیدی و تحقیقی صلاحیت عطا کی ہے۔ یہ سب کے بس کی بات نہیں ہے۔ لہٰذا جن کے پاس یہ صلاحیت و قوت ہے وہ کتابیں لکھنے پر مجبور ہیں۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر فنکار اپنے فن کی داد چاہتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے اس سے انکار کرنے کی کس میں جرأت ہے۔ چنانچہ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ جب کوئی قلم کار اپنی کسی علمی و ادبی تخلیق کو مسلسل محنت کے بعد صفحہ قرطاس پرلے آتا ہے تو وہ اسے اپنے دوستوں کو سنانے یا دکھانے کے لیے بے چین رہتا ہے۔ اسے جونہی موقع ہاتھ آتا ہے وہ انھیں دکھا کر یا سنا کر ہی دم لیتا ہے۔ داد ملتی ہے تو خوش ہوتا ہے۔ خاموشی دیکھتا ہے تو مایوس ہو جاتا ہے۔ بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے لیے کم اور معاشرے کے لیے زیادہ فکر مند ہوتے ہیں لہٰذا معاشرے کے مسائل اور اس کی خوبی و خرابی کو نگاہ میں رکھ کر انتہائی خلوص و دیانت داری سے نیک مقصد کے تحت تخلیقی عمل میں مصروف رہتے ہیں۔ تصنیف و تالیف کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ انھیں سود و زیاں سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اخلاص و قربانی کے جذبے کے سہارے اپنے مقصد کی تکمیل کرتے ہیں۔
انھی جذبات کے تحت کتابیں بھی وجود میں آتی ہیں لہٰذا اس کازیور طبع سے آراستہ ہو کر سماج کے لوگوں تک پہنچنا مصنف کے نزدیک لازمی ہے تا کہ اس کی روح کو تسکین مل سکے۔ وہ اپنی کاوشوں کی داد پائے یا اپنے مقصد کی تکمیل کر سکے۔


اگر مصنف کی اقتصادی حالت مستحکم ہے اور اس میں اخلاص و قربانی کا جذبہ ہے تو وہ اس مرحلے کو بڑی آسانی سے طے کرتا ہے۔ اگر اس کی اقتصادی حالت کمزور ہے تو اسے مختلف مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ مالیات کی فراہمی کے لیے اپنی انا اور خود داری کو کچل کر دوسروں کی خوشامد کرنا پڑتا ہے۔ یا اپنی ملکیت کو بگاڑ کر اپنی کتاب کو شائع کر کے منظر عام پر لانا پڑتا ہے۔ میرے علم میں ایسے کئی شاعر اور مصنف ہیں جنھوں نے اپنی کتاب کو شائع کرنے کے لیے اپنی بیوی کے زیورات اور اپنا مکان تک بیچ دیا۔
اردو کتابوں کے پبلشر ضرور ہیں لیکن چوں کہ اردو کتابی صنعت ان کے نزدیک نفع بخش نہیں ہے اس لیے وہ انھی کتابوں کو چھاپتے ہیں جو بے انتہا مقبول ہیں یا جو نصاب میں شامل ہیں۔ وہ مشہور و معروف کتابوں کے جعلی ایڈیشن شائع کر کے روپے کما رہے ہیں۔ وہ جو کتابیں اجاگری سے چھاپ رہے ہیں حد یہ ہے کہ وہ مصنف کو اور ان کے ورثا کو ان کی رائیلٹی تک نہیں دیتے۔ اگر دیتے بھی ہیں تو دال میں نمک کے برابر یہ کتنا بڑا فریب ہے۔ گویا پبلشر دیانت دار نہیں ہیں۔ انھیں صرف اپنی فکر ہے۔ وہ قانون سے بالاتر ہیں۔ یہ لاقانونیت ہمیشہ سے ہے اور شاید ہمیشہ رہے گی۔ یہاں یہ بات بتا دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آج جن مشہور پبلشروں کا نام کتابوں کے سرورق پر شائع ہو رہا ہے وہ صرف اپنا نام و پتہ دینے کے ذمے داری ہیں۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کی اشاعت کا سارا خرچ عموماً مصنفین ہی برداشت کر رہے ہیں۔ وہ اسی میں خوش ہیں۔ ان حقائق کو اردو ادب کے ایک معتبر نقاد ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے یوں پیش کیا ہے :
"اردو میں ادبی کتابوں کے ناشر گنتی کے ہیں۔ یوں کہنے کوتو ہمارے ناشروں کی تعداد سیکٹروں تک پہنچتی ہے لیکن یہ واقعہ ہے کہ اردو کی اشاعتی صنعت انتہائی کمزور اور غیر منظم ہے۔ سوائے ایک دو اشاعت گھروں کے سب کی مالی حالت اچھی نہیں۔ جو لوگ کتابوں کی اشاعت سے پیسہ کماتے ہیں وہ سستا تفریحی ادب یا عوامی ضرورت کا مذہبی ادب شائع کرتے ہیں۔ ادبی کتابیں شائع کرنے والے ہمیشہ حالات کا ماتم کرتے ہوئے اور اردو کتابوں کی کم فروختگی کا رونا روتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ سنجیدہ کتابوں کے مسودے یا تو برسوں ناشروں کے طاقِ نسیاں کی زینت بنے رہتے ہیں یا پھر بعض حالتوں میں خود مصنف کو پیسے دے کر ان کی اشاعت کرانی پڑتی ہے اور اگر خوش قسمتی سے کتاب چھپ جائے تو بالعموم ناشر کا رویہ یہ ہوتا ہے گویا اس نے مصنف کو قعر گمنامی سے نکال کر شہرت عام کے دربار میں جگہ دے دی ہے۔ ان حالات میں معاوضے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ " (آج کل، نئی دہلی، دسمبر 1977ء، ص:24)


اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی کونسل برائے فروغ اردو، نئی دہلی، ساہتیہ اکادیمی ، نئی دہلی،نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا، نئی دہلی اور مختلف ریاستوں کی اردو اکادیمیاں اردو کتابیں شائع کر رہی ہیں یا اردو کتابوں کی اشاعت کے لیے مالی تعاون دے رہی ہیں لیکن کیا سب کی رسائی ان اداروں تک ہے ؟۔ اس کے لیے بھی معیار، خوشامد اور سفارش ضروری ہے اور یہ کام سب کے بس کا نہیں ہے۔
اردو اکادیمیوں پر بیشتر اردو کے نام نہاد لکچرروں ، پروفیسروں ، مفاد پرست قلمکاروں اور موقع پرست سیاسی لوگوں کا قبضہ ہے۔ وہ پہلے اپنی جیب گرم کرتے ہیں۔ پھر اپنے حاشیہ برداروں اور خوشامد پرستوں کو انعام سے نوازتے ہیں اور مسودوں کو منظور کرتے ہیں۔ میں نے اس منظر کو اپنی ریاست کی اکادیمی میں اس وقت دیکھا جب خود اس میں شامل تھا۔ اس کے خلاف مسودہ اور انعامی سب کمیٹی کی ایک میٹنگ میں آواز اٹھائی تو معتوب قرار پایا۔ اکادمی کی ایک سال بعد از سر نو تشکیل ہوئی تو علاحدہ کر دیا گیا۔ گزشتہ دنوں نئی وجود میں آنے والی ریاست چھتیس گڑھ کی اردو اکادمی کے سیمی نار میں شرکت کا موقع ملا۔ معلوم ہوا کہ مذکورہ اکادمی کوبی جے پی کی حکومت نے تین سال میں ساٹھ لاکھ روپئے دیے لیکن اس کے معزز ممبران نے اپنے جیب بے حیائی سے گرم کیا۔ بے دردی سے اس رقم کو برباد کیا۔ چند سال پہلے مہاراشٹر اردو اکادمی کے زیر اہتمام پانچ لاکھ روپیوں کا بجٹ بنا کر ناگپور میں جشن غالب کا انعقاد کیا گیا۔ جوں ہی یہ رقم خزانے سے باہر آئی۔ ڈیڑھ لاکھ روپیہ ایک وزیر کے گھر چلا گیا۔ دو لاکھ روپیہ اکادیمی کے دو ممبروں نے آپس میں تقسیم کر لیا۔ باقی رقم کھانے پینے اور مشاعرے اور سیمی نار کے دیگر لوازمات میں بے رحمی سے اڑائی گئی۔ شعر اور سیمی نار کے شرکا کورے واؤچر پر دستخط کر کے خوش ہوتے رہے اور اردو زندہ باد کا نعرہ لگاتے رہے۔ یہ ہے اس اردو معاشرے کا حال جواس کی ترقی و بقا کا ہمیشہ سوال اٹھاتا ہے۔ اردو کتابوں کی اشاعت کے مسائل کے متعلق سوچتا رہتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک ہمارا باطن پاک نہیں ہو گا، یہ مسائل اپنی جگہ اٹل رہیں گے۔ عیار و مکار لکچرر، پروفیسر، دانشور اور سیاسی و سماجی کارکن اردو کے نام پر فائدہ اٹھاتے رہیں گے اور غریب و بے سہارا مصنفین اپنی تخلیقات کو دیکھ دیکھ کر کڑھتے رہیں گے۔


آج اگر مصنف کی جیب میں روپئے ہیں تو کتاب کی اشاعت بہت آسان ہے۔ اب کاتب کی جگہ کمپیوٹر اور لیتھو پریس کی جگہ آفسٹ مشین نے لے لی ہے۔ جلدسازی کا کام مشینوں کے ذریعہ تیزی سے ہو رہا ہے۔ خوبصورت سے خوبصورت ٹائیٹل چند دنوں میں شائع ہو رہا ہے۔ ڈیڑھ دو مہینے میں تین چار سو صفحات کی کتاب چھپ کر ہاتھ میں آ رہی ہے۔ اب نہ تو کاتب کے گھرکے چکر کاٹنے پڑتے ہیں ، نہ ہی ان کی ناز برداری کرنی پڑتی ہے اور نہ ہی مستر و پلیٹ کے ضائع ہونے کا صدمہ مصنف کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پہلے ان مسائل میں الجھ کر ایک مصنف کو چوٹی کا پسینہ ایڑی تک لانا پڑتا تھا۔ وہ ان میں الجھ کر جھلاہٹ اور بیزاری کا شکار ہو جایا کرتا تھا۔ لیکن جدید طرز اشاعت نے مصنف کو ان مسائل سے آزاد کر دیا ہے۔ اب جو مسئلہ سامنے ہے وہ مالیات کا ہے۔ اگر یہ حل ہو گیا تو۔ اردو کتابوں کی اشاعت کا کوئی مسئلہ باقی نہیں رہتا۔
لیکن اگر کتاب چھپ بھی جائے تو اسے خریدے گا کون؟۔ اس کی نکاسی کیسے ہو؟یہ بھی تو ایک زبردست مسئلہ ہے۔ آج اردو معاشرے کا یہ حال ہے کہ اس کے بی اے اور ایم اے کے طالب علم اپنی نصاب کی کتابیں خریدنے سے دامن بچاتے ہیں۔ وہ کتابیں مانگتے پھرتے ہیں۔ اردو کے وہ مدرس، لکچرر اور پروفیسر جن کی ہزاروں روپئے تنخواہ ہیں اردو کی کتابیں نہیں خریدتے۔ اگر کوئی مصنف انھیں دانشور اور اہل علم سمجھ کر اپنی کتاب تحفے میں دیتا ہے تو اس کو کھول کر دیکھتے تک نہیں اور ردی میں بیچ دیتے ہیں۔ ایسی کئی کتابیں مجھ کو ردی بازار سے حاصل ہو چکی ہیں۔ شاعری کے شائقین مشاعروں میں شعرا کو دلچسپی سے سنتے ضرور ہیں اور خوب زور زور سے ان کے شعروں پر داد بھی دیتے ہیں لیکن ان کی شاعری کا مجموعہ نہیں خریدتے۔ اس صورت حال کے پیش نظر بقول ظ انصاری:
"اردو کا مصنف کس کے در پر دہائی دے۔ شاعر کے مخاطب شعر سنتے ہیں ، شاعر کو نوازتے ہیں ، اس کا مجموعۂ کلام نہیں خریدتے۔ ڈرامہ نگار کونہ اسٹیج میسر ہے نہ کتاب گھر، افسانوی ادب بک جاتا ہے۔۔۔ تاریخ، تنقید اور فلسفے کے پڑھنے والے چالیس برس کے اوپر کے لوگ ہیں جن کے بجٹ میں کتابوں کی خریداری کی گنجائش بہت کم ہے۔ فنی مضامین کسی یونیورسٹی میں اردو میں پڑھائے نہیں جاتے ، پڑھنے والوں میں تشنگی ہے لیکن ان کے مصنف کی نہ مانگ ہے ، نہ اسے لگن۔ سائنسی تصانیف پرکل تک خاک اڑ رہی تھی۔ اب سرکاری سرپرستی نے کچھ سہولت فراہم کی ہے۔ " (مصنف کے مسائل از ظ انصاری، آج کل، نئی دہلی، اکتوبر 1973ء، ص:7)


ڈاکٹر ظ انصاری نے ان خیالات کا اظہار آج سے تقریباً چوتیس برس پہلے کیا تھا۔ اب تو حالت اور زیادہ خراب ہو چکی ہے۔ اتنی خراب کہ اردو کی علمی و ادبی کتابوں کے قارئین کا حلقہ بالکل سکڑ کر رہ گیا ہے۔ اردو و ادب کا دم بھرنے والوں میں نہ مطالعہ کا شوق ہے اور نہ ہی کتابوں کی خریداری کا مخلصانہ جذبہ۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے سے بڑے مصنف کی کتاب پانچ سو سے زائد نہیں چھپتی۔ گنتی کی کتابیں بکتی ہیں اور باقی سب تقسیم ہوتی ہیں یا گھر میں رکھے رکھے دیمک کی نذر ہو جاتی ہیں۔
کتابوں کی نکاسی کا ایک اہم ذریعہ کتب خانے یا تجارتی ادارے ہیں۔ افسوس کہ یہ بھی معیاری یا قابل اعتماد نہیں ہیں۔ ان کا حال یہ ہے کہ اگر انھیں فروخت کرنے کے لیے کتابیں دی جائیں تو پھر رقم کو حاصل کرنا مصنف کے لیے جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اس کو سوائے مایوسی کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
یہ صورت حال اردو کی علمی و ادبی کتابوں کی ہے۔ ان کے مقابلے میں اردو کی مذہبی کتابیں خوب فروخت ہو رہی ہیں اور ان کا مصنف و پبلشر بھی کامیاب ہے۔ بقول ظ انصاری:
"مسلمانوں کی سماجی پستی کے ساتھ (مذہبی کتابوں ) کے پڑھنے والے ، بیچنے والے اور کتب خانے اور بڑھ گئے ہیں۔ دنیا تو سدھرتی نہیں ، آخرت ہی سدھار لیں۔ خواندگی عام ہونے سے اردو میں مذہبی تصانیف اور رسائل کی خواندگی بڑھی ہے۔ اللہ بس، باقی ہوس۔ "(آج کل، نئی دہلی، اکتوبر 1973ء، ص:7)


میں ذاتی تجربے ،مشاہدے اور مطالعہ کی بنیاد پر اس حقیقت کو پیش کرنا چاہتا ہوں کہ مذہبی تصانیف اور رسائل کی خواندگی اور ان کتابوں کی زبردست فروخت کا سبب وہ بے شمار دینی مدارس ہیں جو بر صغیر کے ہر علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان مدارس میں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ دار المطالعہ یا لائبریری کا اہتمام بھی ہے جن کے لیے مدارس کے سالانہ بجٹ میں کتابوں کی خریداری کے لیے رقم مختص کی جاتی ہے۔ ان سے طلبہ استفادہ کرتے ہیں جن کی وجہ سے ان کے ذوق مطالعہ کو تقویت ملتی ہے۔ افسوس کہ ہمارے اردو مدارس اب لائبریری اور دار المطالعہ سے محروم ہو چکے ہیں حالانکہ کتابوں کی خریداری اور لائبریرین کی تنخواہ کے نام سے بھی حکومت انھیں گرانٹ دے رہی ہے مگر بے حسی کا یہ عالم ہے کہ منتظمین اس رقم کا نا جائز استعمال کر رہے ہیں۔ ا سکولوں سے لائبریری غائب ہے اور لائبریرین کہیں چوکیدار اور کہیں کلرک کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ اگر ہماری اردو ا سکولوں کے منتظمین اس سلسلے میں دیانت دار ہو جائیں تو اردو کی ادبی و علمی کتابوں کی فروخت کا مسئلہ کا آسانی سے حل ہو سکتا ہے۔ اس سے طلبہ میں مطالعہ کا شوق بھی پیدا ہو گا اور ان میں آگے چل کر کتابوں کی خریداری کا جذبہ بھی پیدا ہوگا۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ تقسیم وطن کے بعد سیاست دانوں نے اردو تہذیب و ثقافت پر جو بلڈوزر چلایا اس کے باعث اتر پردیش، بہار اور مدھیہ پردیش میں اردو اسکولوں کا خاتمہ ہو گیا لیکن ریاست مہاراشٹر میں تو یہ صورت حال نہیں ہے۔ یہاں کے لوگوں نے تو اس زبان کو اپنی مادری اور درسی زبان بنائے رکھنے کے لیے بڑی بڑی سماجی اور معاشی قربانیاں دی ہیں۔ یہ اسی کا ثمر ہے کہ پوری ریاست میں 2002ء۔ 2001ء کی سرکاری رپورٹ کے مطابق اردو ذریعہ تعلیم کے 2634 پرائمری ا سکول جن میں 792250 طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ انھیں 18108 اساتذہ تعلیم دے رہے ہیں۔ اسی طرح 809 ثانوی مدارس میں 377606 طلبہ و طالبات کو 10207 اساتذہ زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ اردو کے تقریباً سو جونیئر کالج اور 42 ڈی ایڈ کالج ہے۔ جہاں اردو کی حالت اس قدر مستحکم و مضبوط ہو وہاں اردو کتابوں کی نکاسی کا مسئلہ مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔ اردو کے تقریباً ان بیس ہزار اساتذہ میں جن کو اردو فکر معیشت سے آزاد کر چکی ہے کیا ایسے پانچ سو مخلص اساتذہ بھی نہیں جنہیں اس کی ادبی و علمی کتابیں سے دلچسپی ہو۔ یہ ایک زبردست المیہ ہے۔ اگر انھیں اساتذہ کا ضمیر جاگ جائے تو اس ریاست کے اہل قلم کی کتابوں کی نکاسی کا مسئلہ آسانی سے حل ہو سکتا ہے اور ہمیں دوسروں کا احسان بھی نہ اٹھانا پڑے۔


ان حقائق کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہم میں دیانت داری، خلوص اور جذبۂ قربانی کی بے انتہا کمی ہے۔ جس دن یہ کمی دور ہو گی اردو کتابوں کی اشاعت اور ان کی نکاسی کے مسائل خودبخود حل ہو جائیں گے۔


Problems of publishing and distribution of Urdu books. Essay by: Dr. Mohd Sharfuddin Sahil

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں