شہنشاہ اورنگ زیب پر مندر شکنی کے الزام کی حقیقت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-01-03

شہنشاہ اورنگ زیب پر مندر شکنی کے الزام کی حقیقت

aurangzeb-alimgir

عام طور پر انگریزی دور میں تاریخ کی جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں یہ غلط فہمی پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اورنگ زیب نے مندروں کو توڑ کر ان کی جگہ مسجدیں بنوائیں اور سب سے زیادہ ستم ظریفی کی بات تو یہ ہے کہ یوپی حکومت کے محکمہ سیاحت نے باہر سے آنے والے سیاحوں کے لئے جو کتابچہ شائع کیا ہے اس میں بھی یہی بات لکھی ہے۔ جب کہ یہ بات قطعی غلط اور بے بنیاد ہے ، اور اس کا کوئی ثبوت قیامت تک نہیں مل سکتا۔ کیونکہ یہ بات اسلام کی تعلیم کے بھی خلاف ہے۔ اسلام نے کسی عبادت گاہ کو ویران کرنے کی نہ تعلیم دی اور نہ ایسی جگہوں پر مسجد بنانے کی اجازت دی۔ اگر بالفرض ایسا کربھی لیا گیا تو شرعاً نہ تو وہ مسجد ہوگی اور نہ ہی ایسی مسجد میں نماز ادا کرنا جائز ہوگا۔


ملک ہندوستان کی تاریخ میں ایک طویل زمانے تک برہمن ازم اور بدھ ازم میں ٹکراؤ جاری رہا اور باہمی کشت و خون کے ساتھ ہزاروں مندر مسمار ہوگئے ، لیکن آج تمام دانشوروں کی زبانیں بند ہیں اور اہل صحافت بھی خاموش ہیں۔ جبکہ یہ واقعہ ہندو ازم کے نزدیک ایک سنگین جرم تھا۔ اس کے بر خلاف ایک غلط اور بے بنیاد الزام لگا کر مسلم بادشاہوں کو مطعون کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، جو تاریخی حقائق کے قطعی خلاف اور ہندوستان کے ان مسلم فرماںرواؤں کا دامن اس الزام سے قطعی پاک ہے جنہوں نے قومی ایکتا، امن و انصاف اور رعایا پروری کی ایسی مثالیں قائم کی ہیں جو رہتی دنیا تک زندہ رہیں گی۔ اگر تعصب کی نگاہ سے نہ دیکھاجائے تو یہ فیصلہ ان فرامین اور جاگیروں کو پڑھ کر آسانی سے کیاجاسکتا ہے جو مندروں کے لئے ان فرمانرواؤں نے جاری کئے ہیں۔ اس امن اور اتحاد کو غارت کرنے کی تمام تر ذمہ داری ان مصنفین اور تاریخ نویسوں پر ہوتی ہے جنہوں نے تاریخ کو بالکل توڑ مروڑ کر غلط طریقے سے پیش کیا ہے۔ ورنہ اکبر کے ساتھ مان سنگھ اور ٹوڈرمل جیسے لوگ ہر وقت جان ہتھیلی پر لئے رہتے تھے۔ اورنگ زیب کا سپہ سالار ہندو تھا۔ سکھوں کی فوج میں پٹھان خاصی تعداد میں تھے۔ مغل بادشاہوں کی محل سرا میں ہندو رانیاں زینت بنیں، اکبر نے فتح پور سیکری کے قلعہ میں جودھا بائی کے نام سے مندر تعمیر کرایا، جو آج بھی موجود ہے۔
شیواجی (1) کی فوج میں مسلمانوں کی تعداد اچھی خاصی موجود تھی۔ راجا جے چند نے اپنی مدد کے لئے شہاب الدین کو بلایا۔ (2)


(1) یہ ریاست مہاراشٹر کے ضلع پونے میں 19/فروری 1630ء کو پیدا ہوئے۔ پورا نام شیواجی بھوسلے تھا، 6/جون 1674ء کو تاج پوشی ہوئی اور مراٹھا سلطنت کی بنیاد رکھی۔ یہ مراٹھا سلطنت بر صغیر میں ایک سامراجی طاقت تھی جو 1674ء سے 1818ء تک موجود رہی۔ اپنے دور عروج میں یہ سلطنت بڑے حصہ پر حکمراں رہی۔ مراٹھا سلطنت کے عروج کو بھی ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کی ایک وجہ بتلائی جاتی ہے۔ ع ب نعمانی (بحوالہ وکی پیڈیا)


(2) مزید: شہنشاہ اورنگ زیب کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ غیر مسلموں کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ حالانکہ اس کی تردید ٹھوس دلائل اور واقعات کی روشنی میں اوپر کے صفحات میں کردی گئی تاہم اس سلسلے میں مزید کچھ ضروری معلومات ملاحظہ فرمائیں:


نامور ہندو مورخ ڈاکٹر ایشوری پرشاد اپنی کتاب 'تاریخ ہند' میں شہنشاہ اورنگ زیب کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
"اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اورنگ زیب ایک کٹر مسلمان تھا ،وہ اکبر اور جہانگیر کی طرح غیر اسلامی مراسم میں بذات خود کوئی حصہ نہیں لیتا تھا، لیکن اس کے ساتھ ہی چونکہ اسلامی تعلیم کے مطابق دوسروں کے مذہب میں مداخلت بدترین گناہ ہے اس لئے وہ کسی بھی غیر مسلم کے عقیدے کے بارے میں تعرض نہیں کرتا تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ غیر مسلموں کو اس کے عہد حکومت میں پوری مذہبی اور شہری آزادی حاصل تھی ، نیز ان کے لئے ترقی کی راہیں کھلی ہوئی تھیں۔"


شہنشاہ اورنگ زیب کی وسیع النظری کا اندازہ اس سے بھی کیاجاسکتا ہے کہ اس کے دربار میں جہاں مسلم علماء اور شعراء کی قدر کی جاتی تھی وہاں ہندو شعرا اور فضلاء کو بھی دل کھول کر نوازا جاتا تھا۔ کون نہیں جانتا کہ ہندی زبان کے نامور شاعر چنتا منی کو عالمگیر کے دربار میں کس قدر عظمت حاصل ہوئی تھی۔ اسے درباری شعراء میں خاص امتیاز حاصل تھا۔ چنتا منی کے علاوہ اس کا بھائی بھوشن کوی بھی درباری شعراء میں خاص امتیاز رکھتا تھا۔ ہندی زبان کے یہ دونوں شعراء امراء کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کو بہت بڑی بڑی جاگیریں عطا کی گئی تھیں۔ ساتھ ہی مغل دربار سے گرانقدر وظائف بھی جاری تھے۔


'ہسٹری آف ہندی لٹریچر' میں مصنف شری کئی نے بھی اورنگ زیب کی وسیع النظری کی بہت تعریف کی ہے۔ چنانچہ وہ عالمگیر کے بارے میں اپنی تاریخ میں لکھتا ہے کہ:
"اورنگ زیب علوم و فنون کا بے حد دلدادہ تھا ، اسی لئے ہندو شعراء بھی درباری عنایات سے محروم نہیں رہے اور بہت سے ہندو شاعر اورنگ زیب اور اس کے بیٹے بہادر شاہ سے وابستہ تھے۔"


ہندی زبان کے ہندو شعرا ء کے علاوہ شہنشاہ اورنگ زیب کے دربار میں فارسی زبان کے ہندو شعراء کی بھی جی کھول کر قدردانی کی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر وامق کھتری کو اورنگ زیب کے دربار میں غیر معمولی رسوخ حاصل تھا۔ اسے امرائے عالمگیری میں شمار کیاجاتا تھا۔ اس کی فارسی نظم و نثر کو اورنگ زیب بے حد پسند کرتا تھا۔
رائے بندر ابن کو بھی عہد عالمگیری میں بڑا عروج حاصل ہوا جو داراشکوہ کے دیوان رائے بہار امل کا بیٹا تھا۔ اورنگ زیب ہی کی نگرانی میں اس کی تربیت ہوئی تھی۔ رائے کا خطاب اسے اورنگ زیب ہی نے عطا کیا تھا۔ بندرابن چونکہ بہادر شاہ کی شہزادگی کے زمانے ہی سے اس کی ملازمت میں رہا تھا ، اس لئے اس کا نام بندراابن بہادر شاہی' پڑ گیا تھا۔ اس نے 'لب التواریخ" کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی ، جس میں شہاب الدین غوری سے لے کر 1101ھ تک کے واقعات درج ہیں۔ اس تاریخ میں عربی آمیز فارسی اس خوبی سے لکھی گئی ہے کہ بعض اوقات مصنف کے ایرانی ہونے کا شبہ ہونے لگتا ہے۔ اورنگ زیب نے اس کتاب کی خوب قدر کی اور مصنف کو مال مال کردیا۔


اسی طرح اورنگ زیب نے ایک دوسرے ہندو اہل قلم ایشورداس کو بھی خوب نوازا۔ یہ قوم کا ناگر اور پٹن کا باشندہ تھا۔ تیس سال کی عمر تک قاضی شیخ الاسلام ابن عبدالوہاب سے تحصیل علم کرتا رہا ، اس کے بعد شاہی ملازمین میں شامل ہوکر جودھ پور کا امین مقرر ہوا۔ اس نے میدان جنگ میں بھی نہایت اہم خدمات انجام دی تھیں اس لئے اورنگ زیب نے اس کی ان خدمات سے خوش ہوکر اسے پنج صدی افسر مقرر کردیا تھا۔ فتوحات عالمگیری اس کی ایک غیر قانونی یادگار ہے جس میں کہ 1657ء سے 1695ء تک کے واقعات درج ہیں۔
بھیم سین کا ئیستھ کو بھی دربار اورنگ زیب میں ایک امتیازی مقام حاصل تھا۔ اس کا شمار بھی عہد عالمگیر کے نامور مورخوں میں کیاجاتا ہے۔ یہ شاہی ملازمین میں بندیلہ کے حاکم کے ساتھ منسلک تھا، دکن کی لڑائیوں میں چونکہ اس نے اہم کارنامے انجام دیے تھے اس لئے شہنشاہ اورنگ زیب نے اسے 'راؤ' کے خطاب کے ساتھ تین ہزار فوج کا افسر مقرر کردیا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد بھیم سین کو قلعہ نالڈاک کا قلعہ دار بنایا گیا تھا۔ اس نے 'دلکشا' کے نام سے عہد عالمگیری کی تاریخ بھی لکھی ہے جو بہت اہم تسلیم کی جاتی ہے۔


سجان رائے کھتری ، جو پٹیالہ کا رہنے والا تھا، اسے بھی دربار عالمگیری میں بہت بڑا اعزاز حاصل تھا۔ اورنگ زیب اس کی تحریروں کو بہت پسند کرتا تھا۔ خلاصۃ التواریخ' کے نام سے اس نے ایک طویل تاریخ بھی لکھی ہے جو ابتدائے اسلام سے شروع ہوکر شہنشاہ اورنگ زیب کے حالات پر ختم ہوجاتی ہے۔ سجان نے اس تاریخ کو اورنگ زیب کے نام سے معنون کیا تھا، جس کی قدردانی کرتے ہوئے اورنگ زیب نے اسے بڑی جاگیر عطا کی تھی جو صدیوں تک اس کی اولاد کے قبضے میں رہی۔
اورنگ زیب نہ صرف یہ کہ ہندو شعراء ادباء سے ہی محبت و عقیدت رکھتا تھا، بلکہ ان کی تصنیفات کا بھی بڑا مداح تھا۔ یوں تو اس کے عہد میں بہت سارے ہندوؤں نے کئی کتابیں لکھیں، لیکن 'ست اچھر' اور'ردالفکر' نامی یہ دو کتابیں جو ہندووں کے رسوم و عقائد سے تعلق رکھتی ہیں، خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔'ست اچھر' کا مصنف لعل بہاری لد کاہید سنگھ ، ساکن قنوج ہے۔لعل بہادر نے اس کتاب کے دیباچہ میں اورنگ زیب کو جن الفاظ اور عقیدت کے ساتھ یاد کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے کے ہندو اہل قلم اس مغل بادشاہ کے کتنے مداح اور دلدادہ تھے۔
ان تاریخی حقائق اور واقعات سے یہ بات واضح ہے کہ اورنگ زیب نے کیسی فراخ دلی کے ساتھ نہ صرف ہندو اہل قلم حضرات کی سرپرستی کی، بلکہ ان کے علوم و فنون کو خاطر خواہ ترقی دے کر کیسی وسیع النظری کا ثبوت دیا۔


ایک اور ہندو مورخ سجان رائے عہدعالمگیر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
"شہنشاہ اورنگ زیب چونکہ خود بہت بڑا عالم و فاضل تھا ، اس لئے اس نے علوم و فنون کو ترقی دینے میں بہت بڑا حصہ لیا ہے۔ اس کے زمانے میں پورے ملک میں مدارس کا جال پھیلا ہوا تھا ، ان مدارس میں تعلیم پانے والے طلبہ کو بلا امتیاز مذہب ملت مفت تعلیم دی جاتی تھی، اور وظائف بھی دئے جاتے تھے۔ ملک میں جا بجا ہندو مدرسے بھی قائم تھے۔"

***
ماخوذ از کتاب: تاریخ آثارِ بنارس۔ مرتب: مولانا مفتی عبدالسلام نعمانی مجددی
ناشر: پرنٹیا پبلی کیشن، وارانسی (سن اشاعت: طبع پنجم 2015ء)

The truth behind the charge of temple destruction against Emperor Aurangzeb.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں