اورنگ زیب عالمگیر - شخصیت اور طرز حکمرانی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-03-26

اورنگ زیب عالمگیر - شخصیت اور طرز حکمرانی

aurangzeb-alimgir
شاہ جہاں اور ممتاز محل کی ساتویں اولاد، حاکم کی شکل میں دس سال تک اور حکمراں کے طور پر پچاس سال تک حکومت کرنے والا ابوالمظفر محمد محی الدین اورنگ زیب بہادر عالمگیر بادشاہ غازی کی پیدائش گجرات کے شر دُہَد میں (بعض تاریخ کے مطابق اجین کے نزدیک دُہَد میں) 24/اکتوبر 1618ء مطابق 15/ذی قعدہ 1027ھ کو ہوئی تھی۔

اورنگ زیب کی تعلیم لائق اور قابل اساتذہ کی نگرانی میں ہوئی۔ جن استادوں نے اسے علم کے زیور سے آراستہ کیا ان میں مولانا عبداللطیف سلطان پوری، مولانا ہاشم گیلانی، علامہ سعداللہ، ملا موہن بہاری، مولانا سید محمد قنوجی، ملا شیخ احمد، شیخ عبدالقوی اور دانشمند خاں جیسے لوگ شامل تھے۔
ملا موہن کا اصلی نام محی الدین تھا، صوبہ بہار کے شہر بہار شریف کے رہنے والے تھے۔ شاہجہاں کے دربار سے منسلک ہوئے تو اورنگ زیب کی تعلیم کی خدمت ان کے سپرد کر دی گئی۔
اورنگ زیب حافظ قرآن بھی تھے۔ تیموری بادشاہوں میں یہ سعادت صرف انہی کو حاصل تھی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اورنگ زیب نے قرآن پاک چالیس سال کی عمر میں حفظ کیا۔ 1071ھ میں حفظ کرنا شروع کیا اور 1072ھ میں مکمل کر لیا۔ (بحوالہ: بزم تیموریہ ، ص:228)

اورنگ زیب فن خطاطی (Caliography) میں ماہر تھے۔ انہوں نے یہ فن سید علی خاں الحسینی اور عبدالباقی حداد (عبداللہ) سے سیکھا تھا، اس لیے انہیں خط نستعلیق لکھنے میں کامل مہارت تھی۔
اورنگ زیب نے خطاطی کا فن محض ذاتی پسند کے لیے نہیں سیکھا تھا بلکہ اس کے ذریعہ دین کی سعادت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کسب معاش دنیا بھی کیا کرتے تھے۔ وہ فرصت کے اوقات میں عام طور پر صبح کے وقت 5 بجے سے سات بجے تک اور دوپہر ڈھائی بجے سے ساڑھے پانچ بجے تک قرآن کریم کے نسخے اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔ یہ سلسلہ شہزادگی کے دور سے ان کی آخری عمر تک جاری رہا۔

اورنگ زیب ترکی، فارسی، عربی اور ہندوستانی زبان پر عبور رکھتا تھا۔ اس کے خاندان میں ہندی زبان کا استعمال ہوتا تھا۔ بہت سی ہندی کہاوتیں اورنگ زیب کو یاد تھیں اور بات چیت میں اکثر وہ ان کا استعمال بڑی خوبی سے کرتا تھا۔
چینی مٹی کے برتن، کروندہ اور سپاری (چھالیہ) اسے بہت پسند تھے۔ چودہ برس کی عمر میں اس نے ہاتھی کی لڑائی کے سلسلے میں اس وقت حملہ کر دیا جب سارے شہزادے خوفزدہ ہو کر جان بچا کر بھاگ گئے تھے۔ ہاتھی پر قابو پانے کے بعد جب وہ شاہجہاں کے پاس آیا تو پیار سے ڈانٹتے ہوئے والد شاہجہاں نے اسے تنبیہ کی۔ تب اورنگزیب نے بڑی سعادتمندی سے جواب دیا:
"جنگ میں فوت ہو جانا، ڈر سے بھاگ جانے سے تو بہتر ہی تھا"۔

تواریخ کی شاہراہ دور وسطی سے دور جدید کی طرف جہاں مڑتی ہے اسی موڑ پر اورنگ زیب کی عظیم شخصیت ہندوستان کے چاروں طرف دکھائی دیتی ہے۔ تاریخ ہند میں تین بادشاہ ایسے گزرے ہیں جن کی سلطنت وسیع تھی۔ سمراٹ اشوک، محمد بن تغلق اور مغل فرمانروا اورنگ زیب۔

13/دسمبر 1634ء کو دس ہزار گھوڑوں کا شاہی منصب دار اورنگ زیب کو بنایا گیا۔ دو سال گجرات کی صوبہ داری کرنے کے بعد اورنگ زیب 21/جنوری 1647ء کو بلخ اور بدخشاں کا صوبے دار اور سپہ سالار مقرر ہوا۔
اس صوبہ کا سلطان نذر محمد خان نالائق اور کمزور حکمراں تھا اور سپہ سالار کو ماتحتی قبول کرنے کے لیے شاہجہاں نے فوجی دستہ بھیجا لیکن مغل فوج ناکام رہی۔ تب اورنگ زیب کی قیادت میں مغل فوج ایک بار پھر چڑھائی پر گئی۔ اورنگ زیب اپنے طاقت ور دشمن کا صبر و تحمل، مضبوطی اور پورے نظم کے ساتھ کرتا رہا۔ جب نماز کا وقت آیا تو اپنے گھوڑے سے اتر کر میدان جنگ میں ہی چادر بچھائی اور نماز ادا کرنے لگا۔ اس منظر کو دیکھ کر بخارا کی فوج دنگ رہ گئی۔ وہاں کا طاقت ور بادشاہ عبدالعزیز چیخنے لگا:
"فوراً جنگ بند کر دو، ایسے انسان سے لڑنا اپنی تباہی کو دعوت دینا ہے"۔
بلخ کی اس جنگ کے بعد اورنگ زیب 1648ء تا 1652ء ملتان اور سندھ کا صوبے دار رہا۔

جانشینی کے موقع پر وہ دکن کا صوبہ دار تھا۔ اپنے تین بھائیوں داراشکوہ، شجاع اور مراد کو شکست دی اور اپنے والد کو محل میں ہی نظربند کر کے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ 15/جون 1659ء کو اورنگ زیب کی تاج پوشی ہوئی اور "ابوالمظفر محمد محی الدین اورنگ زیب بہادر عالمگیر بادشاہِ غازی" کے خطاب سے دہلی کے تخت پر بیٹھا۔

اورنگ زیب نے پایہ تخت کو مضبوط کر لیا تب اس نے میر جملہ کو بنگال کا صوبہ دار مقرر کیا اور اسے آسام پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا۔ 1661ء میں میرجملہ نے کوچ بہار کی راجدھانی کو فتح کر لیا۔ آسام کے وسطی اور مشرقی علاقہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ 1662ء میں گڑگاؤں کے راجہ کو شکست دے کر اس کی راجدھانی پر بھی قبضہ جما لیا۔ اس طرح مغلوں کی حکومت آسام پر بھی ہو گئی۔

جانشینی کی جنگ سے قبل شاہجہاں کے حکم سے اورنگ زیب نے بیجاپور کے فرمانروا علی عادل دوم سے صلح کی جس کے تحت علی عادل شاہ نے مغلوں کو ڈیڑھ کروڑ روپیہ ادا کیا۔ بعد میں اس صلاح نامہ کو بیجاپور نے نہ مانا جس کے نتیجے میں یکے بعد دیگرے بیجاپور پر مغلوں نے کئی بار یلغار کی لیکن ناکام رہے، آخرکار 1686ء میں اورنگ زیب خود بیجاپور کے محاصرے کی دیکھ بھال کے لیے پہنچا اور 22/ستمبر 1686ء کو بیجاپور نے مغلوں کے آگے ہتھیار ڈال دئے۔ بیجاپور کے سلطان سکندر شاہ نے بہ نفس نفیس اورنگ زیب سے ملاقات کی۔ اورنگ زیب نے اس کا استقبال کیا، "خان" کا خطاب دیا اور ایک لاکھ پنشن سالانہ مقرر کی گئی۔

گولکنڈہ کا بادشاہ ابوالحسن قطب شاہ تھا جو اکثر بیجاپور کے بادشاہ اور مراٹھوں کی مدد کرتا رہتا تھا۔ اورنگ زیب دکن کی ان ریاستوں کو اس لیے بھی ختم کرنا چاہتا تھا کیونکہ انہیں ختم کیے بغیر مراٹھوں کی طاقت کو کچلنا ممکن نہ تھا۔ اور سلطنت کی توسیع بھی ان کے خاتمے پر ہی منحصر تھی۔ 1687ء میں گولکنڈہ کے قلعہ پر مغلوں نے حملہ کیا۔ آٹھ ماہ تک قلعہ کا محاصرہ جاری رہا لیکن کامیابی نہ ملی۔ آخر میں اورنگ زیب نے ایک افغان سردار جس کا نام عبداللہ غنی تھا، کو لالچ دے کر اپنی طرف ملا لیا اور اسی سردار نے 2/اکتوبر 1687ء کی صبح قلعہ کا دروازہ کھول دیا۔ اور یوں مغل فوجیں قلعہ میں داخل ہو گئیں۔ اورنگ زیب نے ابوالحسن کو قید کر لیا اور پچاس ہزار روپیہ سالانہ پنشن مقرر کر دیا۔
گولکنڈہ اس طرح مغل سلطنت میں ضم کر لیا گیا۔ اس طرح اورنگ زیب نے بیجاپور اور گولکنڈہ کی ریاستوں پر کامیابی حاصل کی۔

اورنگ زیب کا دور اقتدار تقریباً پچاس سال رہا۔ 1707ء تا 1658ء۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہبی نقطہ نظر سے وہ ایک پکا مسلمان تھا، لیکن اس کے ساتھ وہ ایک حکمراں بھی تھا۔ وہ چونکہ ایک دوراندیش بادشاہ تھا، اچھی طرح سمجھتا تھا کہ ملک کا اکثریتی طبقہ اپنے مذہب کا سختی سے عامل ہے۔ تلوار کے زور سے ان کو اسلام کا پیروکار نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر وہ اکثریتی طبقہ کو نقصان پہنچاتا تو ایک وسیع سلطنت کا مالک نہ بنتا۔ تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ دہلی سلطنت سے لے کر مغل حکمرانوں تک میں اورنگ زیب واحد بادشاہ تھا جس کی سرحد برما سے لے کر بدخشاں تک اور کشمیر سے لے کر دکن کی آخری سرحد تک قائم تھی اور ایک مرکز کے تحت قائم تھی۔ اگر وہ سخت گیر بادشاہ ہوتا تو اتنی بڑی سلطنت بھلا کیسے قائم ہو پاتی؟

ہندوستانی زبان سیکھنے اور سکھانے میں اورنگ زیب کو اتنی دلچسپی تھی کہ اس نے ایک ڈکشنری تیار کرائی جس کے ذریعے فارسی جاننے والا آسانی سے ہندی سیکھ سکے۔ ہندی نظموں اور غزلوں سے متعلق قواعد و اصولوں کو رائج کرانے کے لیے اس نے ایک خاص کتاب ترتیب دی، جس کے مخطوطے خدابخش لائبریری پٹنہ میں محفوظ ہیں۔

اورنگ زیب نے بڑے پیمانے پر نئی مسجدوں کی تعمیر نہیں کرائی بلکہ قدیم مساجد کو رنگ و روغن کروا کر انہیں برقرار رکھا۔
اسی طرح اورنگ زیب نے اپنی حکومت سنبھالتے ہی اصول بنایا کہ کوئی قدیم مندر منہدم نہیں کیا جائے گا بلکہ انہیں مرمت کرانے کی اجازت دی گئی اور عطیہ بھی۔ معروف مورخ بی۔این۔پانڈے نے لکھا ہے کہ اورنگ زیب مندروں اور مٹھوں کو عطیہ دیا کرتا تھا۔ الہ آباد میں سومیشورناتھ مہادیو کا مندر، بنارس میں کاشی وشواناتھ کا مندر، چترکوٹ میں بالاجی کا مندر، گوہاٹی میں اورمانند کا مندر اور شمالی ہندوستان میں موجود بےشمار منادر اور گردواروں کو اورنگ زیب نے جاگیریں عطا کیں اور عطیات دئے۔
(بحوالہ: بی۔این۔پانڈے، خدابخش میموریل انویل لکچرس، پٹنہ 1986ء)۔

اورنگ زیب کی حکومت تقریباً پورے ہندوستان پر قائم تھی لیکن اس کے باوجود ہندو مذہب اپنے پورے وقار کے ساتھ قائم و دائم رہا۔ اورنگ زیب کو اتنا علم تو ضرور تھا کہ ہندو (سناتن) مذہب کے ماننے والوں کو ٹھیس پہنچا کر ہندوستان پر حکومت کرنا آسان نہ ہوگا لہذا زیادہ تر منادر کا تقدس محفوظ رہا۔

***
ماخوذ از کتاب: اورنگ زیب عالمگیر
تالیف: پرویز اشرفی (سن اشاعت: 2010ء)

Aurangzeb Alamgir and his governing style. Article by: Pervez Ashrafi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں