تہنیت النساء بیگم تہنیت - صاحبِ طرز شاعرہ اور ڈاکٹر زور کی رفیقہ حیات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2024-06-29

تہنیت النساء بیگم تہنیت - صاحبِ طرز شاعرہ اور ڈاکٹر زور کی رفیقہ حیات

dr-mohiuddin-qadri-zor

تہنیت النساء بیگم تہنیت 25 مئی 1915ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد نواب رفعت یار جنگ بہادر ایک روشن خیال ، مدبر ، رحم دل ، منصف مزاج ، مردم شناس، خوش اخلاق ، ہر دلعزیز اور غرباء پرور حاکم تھے۔ تہنیت النساء بیگم کی ابتدائی تعلیم محبوبیہ گرلز ہائی اسکول میں ہوئی اور سلسلہ تعلیم سینیئر کیمریج تک رہا۔ وہ بچپن سے ذہین تھیں اور علمی شوق اُن میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ ان کی شادی 15 نومبر 1932ء ک سید محی الدین قادری زور سے ہوئی۔
زور صاحب نے نہ صرف دکنیات پر ناقابل فراموش کام کیا بلکہ دکنی قلم کاروں کی حتی المقدور ہمت افزائی کی جس کی وجہ کئی ذرے ادبی دنیا کے آسمان پر تابندہ ستارے بن کر چمکے۔ ادارۂ ادبیات اردو کا قیام اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس ادارہ کے قیام میں تہنیت النساء بیگم کا در پردہ ہاتھ رہا۔ ادارۂ ادبیات اردو کی عمارت انہی کی عطا کردہ زمین پر تعمیر ہوئی۔ مصور فطرت خواجہ حسن نظامی جن کو خطابات عطا کرنے میں یدطولی حاصل تھا، انہوں نے راشد الخیری کو "مصورِ غم" اور حیدرآباد کی مایہ ناز شاعرہ بشیر النساء بیگم بشیر کو "چمن آرا" ، ضیا الدین احمد کو "برنی" اور تہنیت النساء بیگم کو "طوطی دکن" کا خطاب دیا۔


بیجا پور کے ممتاز مرثیہ گو شاعر مرزاؔ کو اس بات کا اعزاز حاصل تھا کہ اس نے حمد، نعت، منقبت اور مرثیہ لکھا اور کسی دیگر صنف سخن میں طبع آزمائی نہیں کی ، حد تو یہ ہے کہ بادشاہ وقت علی عادل شاہ شاہی کی فرمائش پر بھی اس نے قصیدہ لکھنے کے بجائے مرثیہ لکھا اور اس مرثیے کو بادشاہ کی نذر کر دیا۔ اسی طرح یہ سعادت تہنیت النساء بیگم تہنیت کو بھی حاصل ہے کہ انہوں نے سوائے حمد، نعت اور منقبتوں کے کسی اور صنف سخن میں طبع آزمائی نہیں کی۔


تہنیت النساء بیگم صاحب طرز شاعرہ تھیں۔ ان کی شاعری میں ساری فنی خوبیاں موجود ہیں۔ ان کے تین نعتیہ شعری مجموعے جو غزل کی ہئیت میں ہیں زیور طباعت سے آراستہ ہو چکے ہیں اور یہ تینوں مجموعے " ذکر و فکر "، " صبر و شکر اور "تسلیم و رضا" عوامی سند قبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ ان کے پہلے نعتیہ شعری مجموعہ ذکر و فکر پر امام رباعیات حضرت امجد حیدر آبادی رقم طراز ہیں:
"بیگم زور (یعنی اہلیہ جناب ڈاکٹر زور صاحب المتخلصہ تہنیتؔ) کا نعتیہ مجموعہ میں نے دیکھا، ضعف بصر کی وجہ سے بعض جگہ اچھی طرح نہ پڑھ سکا۔ جہاں تک دیکھا اور جہاں تک سمجھا مجھے محسوس ہوا کہ بیگم مذکور الصدر حب نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ ان کے اشعار سے ایک خاص قسم کی ربودگی اور فریفتگی محسوس ہوتی ہے اور شعر متاثر ہو کر کہے گئے ہیں۔ جن کا اثر پڑھنے والوں پر بھی ہوتا ہے۔ بعض اشعار سے میں بھی متاثر ہوا ہوں مثلاً:
وقت رخصت ہم پر جو گزری وہ اب تک یاد ہے
چھوڑتے ہی ان کا در ، تنہا نظر آنے لگے
امید کہ یہ نعتیہ مجموعہ محبان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آتش شوق کو اور بھڑکا دے گا اور عوام و خواص میں قبول ہوگا"


علامہ شبلی ، شاعری کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
'شاعری کی اصل حقیقت یہ ہے کہ شاعر کے دل میں کوئی جذبہ پیدا ہوا اور وہ اس جذبہ کو اسی جوش و خروش کے ساتھ ادا کر دے جس جوش و خروش سے وہ پیدا ہوا تھا'
جس طرح میکہ سے رخصتی کے وقت دوری کے ایک خاص احساس سے وہ گزری ہیں اس طرح وقتِ زیارت ان کا احساس ملاحظہ ہو:
ہم اور بارگاہ رسالت پناہ میں
مارے خوشی کے آنکھ سے آنسو نکل گئے
پہلا شعر جذبۂ غم اور دوسرا جذبۂ مسرت کا اظہار کرتا ہے لیکن شعر مبالغہ آمیزی سے مبرا ہے۔ عام طور سے شاعری میں مبالغہ ضرورت شعری رہتا ہے لیکن یہاں پر خلوص جذبات نے اس کمی کو پورا کر دیا ہے۔ اسی خلوص کے سبب ان کے اشعار اثر آفریں ہوتے ہیں۔
مقصود مرا لطف شہ ہر دوسرا ہے
محبوبؐ مرا اصل میں محبوب خدا ہے


اسلامی مساوات اور غریبوں کی ہمنوائی کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں:
اسلام سکھاتا ہے محبت کے قرینے
ایمان طلب گار رہ و رسم وفا ہے
سکندر اعظم نے موت سے پہلے وصیت کی تھی کہ اس کا جنازہ اس طرح لیجایا جائے کہ اس کے دونوں ہاتھ پھیلے ہوئے ہوں اسکا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ مرنے کے بعد انسان خالی ہاتھ رخصت ہوتا ہے۔ انکی چشم بصیرت میں دولت کی فراوانی کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ دیکھتے آئے ہیں باوصف زر و جاہ و جلال
ہاتھ خالی ہی چلے جاتے ہیں دولت والے


اسوۂ نبی کی کس عمدگی سے انہوں نے عکاسی کی ہے ملاحظہ ہو:
غریبوں بیکسوں کی آس کیوں ٹوٹے کبھی تجھ سے
ترا مسلک فقیرانہ تیرا دربار شاہانہ
اس شعر میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ ہادئ برحق نے جہاں نان و جویں تناول فرمایا وہیں اپنے درِ فقیرانہ میں مختلف ممالک کے سفراء سے صلح نامے بھی تحریر و تکمیل کروائے۔


تہنیت النساء بیگم کو حضور اقدس سے والہانہ محبت اور عقیدت تھی۔ ان کے کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ رسالت مآبؐ کا ادب اتنا ملحوظ رکھتی تھیں کہ اپنے اشعار میں انہوں نے ان کے اسم مبارک کے استعمال سے، ادب کو پیش نظر رکھتے ہوئے گریز کیا ہے۔ ان کے اشعار پڑھنے کے بعد سامع کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ نعتیہ اشعار سن رہا ہے لیکن شاعرہ نے ممدوح کا نام بتقاضۂ ادب لینے سے گریز کیا ہے۔ چند اشعار بطور ثبوت درج کئے جاتے ہیں۔
جو محروم ہو اُن کے چشم کرم سے
نہیں کوئی ایسا ہماری نظر میں


انسان کو جس نے واقف انسانیت کیا
احسان کر گیا ہے جو سارے جہاں پر


مزدور اور غریب کے ہر دم رہا قریب
رکھتا تھا جو کرم کی نظر ہر انساں پر
ہوتا ہے ذکر ، زحمت و شفقت کا جب کبھی
آتا ہے نام اُسی کا ہماری زباں پر


پیغمبر برحقؐ کے اظہار کے لئے انہوں نے حسب ضرورت ماہ مدینہ، آقا ، حضور ، رسالت پناہ، حبیب حق اور محبوب خدا لکھا ہے، ورنہ ضمائر ہی سے کام لیتی ہیں مثلاً:
آپ کے شوق میں ہر شوق کو ہم بھول گئے
حرم پاک میں کچھ اور ہی حالات رہے


وہ محبوب خدا یوں رہنمائے دین و دنیا ہیں
نظر ان کی بنا دیتی ہے دیوانے کو فرزانہ


حضور نامدار نے اذیتیں سہہ کر بھی اذیت دینے والوں کو دعا دیتے رہے۔ آپؐ فرماتے کہ وہ ظالم ان کو جانتے تو اس طرح نہ ستاتے۔ یہ کردار تاریخ عالم میں کسی اور شخصیت کا نظر نہیں آتا۔ ایک بار ایک ضعیفہ دربار نبوی میں حاضر ہوئی لیکن رُعب نبوت سے مرعوب ہو گئی۔ حضور نے رعب کا ازالہ اسی وقت کر دیا کہ: "میں بھی تم جیسی عورت کا بیٹا ہوں، میری ماں کو سوکھے گوشت کے کباب پسند تھے"
آپ اپنے اصحاب کے ساتھ اس طرح مل جل کر رہتے کہ نووارد کو پہچاننے میں تکلف ہوتا۔ آپ نے حقیقی مساوات کا نہ صرف درس دیا بلکہ عملاً کر دکھایا۔ وہ اس طرح کہ آپ نے ایک لشکر تیار کیا جس کی سرداری کے لئے حضرت زید کے بیٹے اسامہ کو امیر مقرر کیا جبکہ خلیفہ اول اور دوسرے اکابر صحابہ مامورین میں تھے۔ اور فتح مکہ کے وقت حضور کا مخالفین اسلام کے ساتھ فیاضانہ سلوک تاریخ اسلام کا ایک درخشاں باب ہے۔ آپؐ کے اس مثالی کردار کو تہنیت النساء بیگم یوں خراج عقیدت پیش کرتی ہیں:
جو یہ کہتے ہیں کہ ہم بھی بشر ہیں وہ بھی بشر
کیا وہ کر سکتے ہیں اُن کی ہمسری کردار میں


وہ اپنی شاعری کو عبادت تصور کرتی تھیں۔ اور راہ نجات بھی۔
نبیؐ کی مدح سرائی میں تہنیت کتنے
غلام داخل خلدِ بریں ہوئے ہونگے
رسالت مآبؐ سے ان کی بے پناہ عقیدت اور والہانہ محبت کا اندازہ ان کے درج ذیل اشعار سے ہوتا ہے۔
سر بہ سجدہ رہیں اٹھیں نہ کبھی
پھر جو پہنچیں درِ نبی کے قریب
تہنیت ہجر میں ملول نہ ہو دن ہے اب تیرے حاضری کے قریب


حرم میں جا بجا اس شوق میں کئے سجدے
حضور جلوہ فگن بس یہیں ہوئے ہوں گے


جب مدینے کی یاد آتی ہے
ہم کو اپنا پتہ نہیں چلتا


درج بالا شعر میں ان کی استغراقی کیفیت کا پتہ چلتا ہے، اس شعر کو پڑھنے کے بعد بے اختیار جناب میر کا شعر یاد آ جاتا ہے:
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا


تہنیت النساء بیگم کو اہلبیت کی مدح سرائی کا شرف بھی حاصل ہے۔ واقعہ کربلا سے کون ہے جس کا دل ملول نہیں۔ اس حزینہ کے تعلق سے وہ کہتی ہیں:
توشۂ صبر و رضا لائی ہے اولاد علی
صبح زندان کیلئے شام غریباں کیلئے
صیح زندان اور شام غریباں کا تصور کیجئے اور ان کا یہ شعر پڑھیے:
کاش یہ جانتے اعدائے حسین ابن علی
کس قدر چاہتے تھے سرورِ دیں ان پیاروں کو


محبت اہلبیت ان کے قلب میں جاگزیں ہے اور وہ کہتی ہیں کہ ہر وہ مسلمان جس کے دل میں آل نبی کی الفت ہے حضور اس کی شفاعت فرمائیں گے۔
حبیب حق ضامن شفاعت ہے دل میں آل نبی کی الفت ہے
یہ زاد رہ مل گیا ہے ہم کو رہ عدم کے سفر سے پہلے


وہ کہتی ہیں کہ وہ صحابہ جو صحبت حضور سے فیض یاب ہوئے بڑے خوش نصیب تھے:
وہ خوش نصیب تھے جو ہم نشیں ہوئے ہوں گے
فدائے گیسوِ روئے مبیں ہوئے ہوں گے
اور پھر ان کی تمنا جس میں تاسف بھی ہے، استعجاب بھی ہے اور ہلکی سی جھنجھلاہٹ بھی:
مجھے بھی کاش یہ نعمت نصیب ہو جاتی
یہ بخت کیوں مرے ایسے نہیں ہوئے ہوں گے
وہ اپنی خوش نصیبی پہ نازاں ہیں کہ وہ زیارت مرقد رسول سے مشرف ہوئیں لیکن ساتھ ساتھ ان کو یہ خیال بھی ہے کہ کہیں وہ دوبارہ حاضری سے محروم نہ رہ جائیں:
بخت رسا پہ ناز ہے لیکن یہ فکر ہے
ایسا نہ ہو کہ یاد دوبارہ نہ کیجئے


18 نومبر 1996ء کو بروز جمعہ تہنیت النساء بیگم تہنیت رحلت کر گئیں۔


***
ماخوذ از کتاب: "سخنورانِ حیدرآباد" (حیدرآباد میں اردو شاعری آزادی کے بعد)
تالیف: ڈاکٹر سید بشیر احمد۔ سنہ اشاعت: 2007ء

Tahniyat unnisa begum Tahniyat, a renown poetess from Hyderabad Deccan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں