اپنے کامریڈ حبیب : خاکہ از جاوید صدیقی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2024-06-25

اپنے کامریڈ حبیب : خاکہ از جاوید صدیقی

habib-tanvir-and-jawed-siddiqi

جس دن سے بمبئی آیا اور ترقی پسند ادیبوں، شاعروں سے میل جول بڑھا تو ایک نام بار بار کانوں میں پڑتا رہا، وہ نام تھا حبیب تنویر کا۔ پہلی بار ان کو ایک ادبی نشست میں دیکھا۔ انھوں نے ایک غزل سنائی جس کا مطلع شاید کچھ اس قسم کا تھا:
اپنے ساتھیوں کا غم، اپنی زندگی کا غم، کیا یہ زندگانی ہے
انقلاب کی آمد، آمدِ بہاراں ہے، وجہِ شادمانی ہے


غزل نہ مجھے پسند آئی نہ دوسروں کو۔ بالفاظ دیگر ، یوں کہنا چاہیے کہ حبیب صاحب کا فرسٹ امپریشن کوئی ایسا خاص نہیں رہا اور میں نے اپنے دل میں سوچا، ان ترقی پسندوں کی تو عادت ہے، اپنے ساتھیوں کو جھنڈے پر چڑھا کے رکھتے ہیں۔ اب ان حبیب صاحب میں ایسی کون سی خاص بات ہے کہ جسے دیکھو وہ حبیب تنویر حبیب تنویر کرتا رہتا ہے۔
1968 میں اپٹا (IPTA) نے تیج پال ہال کرائے پر لے لیا تھا جس میں ہر جمعے کو اپٹا کا ایک ڈراما پیش کیا جاتا تھا۔ ایک تو بمبئی میں ویسے ہی ہندی اردو کا ڈراما د یکھنے والے بہت کم ہیں، اوپر سے اپٹا کا نام، زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ڈراما وراما تو خاک ہوگا، کمیونسٹ پارٹی کا پروپیگنڈا ہوگا، اس لیے لوگ بہت کم جاتے تھے اور ہر ہفتے نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔ اس زمانے میں کیفی صاحب کو ، جو اپٹا کے صدر تھے ، یہ ترکیب سوجھی کہ اگر دیکھنے والے خود نہیں آتے تو انھیں لایا جانا چاہیے۔ چنانچہ بمبئی سینٹرل کے بازاروں اور پتلی پتلی گلیوں نے ایک عجیب و غریب منظر دیکھنا شروع کیا کہ ایک لمبے چوڑے بڑے بڑے بالوں والے کیفی اعظمی اور ان کے ساتھ ایک نہایت دبلا پتلا چشمے والا لڑکا، یعنی میں، دکان دکان اور مکان مکان اپٹا کے ناٹکوں کے ٹکٹ بیچتے پھر رہے ہیں۔ لوگ کیفی صاحب کے احترام میں، اور کچھ اس خیال سے بھی کہ وہ خود آئے ہیں، ٹکٹ تو لے لیا کرتے تھے مگر آتے واتے نہیں تھے۔
اس دوران جب میں اور کیفی صاحب سڑکوں کی خاک چھانا کرتے تھے، ان سے باتیں کرنے اور بہت کچھ سیکھنے جاننے کا موقع ملا۔ کیفی صاحب کم بولتے تھے ،مگر جو بھی بولتے تھے وہ نپا تلا بھی ہوتا تھا اور وزنی بھی۔ ایک دن نہ جانے کیسے حبیب تنویر کا ذکر آ گیا۔ مجھے معلوم تھا کہ حبیب صاحب اور کیفی اعظمی نہ صرف یہ کہ ہم خیال اور ہم مشرب ہیں بلکہ اچھے دوست بھی ہیں۔ پھر بھی میں نے حبیب صاحب کے بارے میں کیفی صاحب کی رائے پوچھ ہی لی۔ کیفی صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا اور چپ چاپ چلتے رہے۔ میں نے عرض کیا : " حبیب صاحب کی شاعری کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ "
کیفی صاحب کچھ سوچتے رہے، پھر دھیرے سے بولے: برے اور بے معنی شعر نہیں کہتے ہیں لیکن حبیب کو جاننا ہے تو ان کی شاعری نہیں ، ان کے ناٹک دیکھیے۔ حبیب کی اصلی پہچان وہی ہیں۔"


اور پھر یوں ہوا کہ میں نے 'چرن داس چور' دیکھا۔ میری سمجھ میں آج تک نہیں آیا کہ اس ناٹک میں وہ کون سی چیز تھی جس نے میرے حواس پر جادو کر دیا تھا؟ کیا وہ اسکرپٹ تھا؟ کیا وہ چھتیس گڑھی ایکٹروں کا پرفارمنس تھا ؟ کیا وہ ڈائریکشن تھی؟ کیا وہ میوزک تھا ؟ پتا نہیں کیا تھا، مگر میں آج تک 'چرن داس چور' کے طلسم سے باہر نہیں آ سکا ہوں۔ اس دن میں نے حبیب صاحب کو ایک نئی روشنی میں دیکھا۔ ناٹک تو میں نے بہت سے دیکھے تھے، پڑھے بھی تھے، مگر تب تک یہ راز معلوم نہیں ہوا تھا کہ اچھا ناٹک صرف ایک ناٹک نہیں ہوتا ، وہ ایک احساس ہوتا ہے جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
اس کے بعد میں نے حبیب صاحب کے تقریباً تمام ہی نا ٹک دیکھے، سوائے 'پونگا پنڈت' اور 'شکنتلا' کے، جن کی حسرت رہ گئی۔


یہ تو سب جانتے ہیں کہ ناٹک کے عناصر اربعہ کیا ہیں : الفاظ ، اداکار، اسٹیج اور ناظرین مگر وہ روح جو کسی ناٹک کے اندر بیدار ہوتی ہے اس کے لیے ایک ایسے ہدایت کار کا ہونا بہت ضروری ہے جو ان تمام چیزوں کو اس طرح جمع کرے کہ وہ زندہ ہو جائیں۔ اور حبیب تنویر کی یہی صفت انھیں ایک ممتاز اور منفرد حیثیت دیتی ہے۔ انھوں نے ڈراما نگاری میں جو تجربے کیے سو تو کیے ہی ، ڈرامے کی پیشکش کو ہزاروں سال پرانے لگے بندھے اصولوں سے ہٹا کر نئے راستوں پر ڈالنے کی جو کوشش انھوں نے کی ، ان سے پہلے کبھی نہیں کی گئی۔
مثال کے طور پر 'آگرہ بازار' کو لے لیجیے، یہ ڈراما نکڑ ناٹک نہیں ہے لیکن یہ کسی اسٹیج کا محتاج بھی نہیں ہے۔ 'آگرہ بازار' ایک انوکھا تجربہ ہے۔ اس میں ناٹک کی تمام ضروریات اور روایات کا پورا خیال رکھا گیا ہے مگر اس کے باوجود یہ ایک روایتی ناٹک نہیں ہے۔ حبیب صاحب نے نظیر اکبر آبادی کی نظموں کو جوڑ کر ایک ایسا ماحول تخلیق کیا ہے جو نہ صرف اپنے زمانے کی عکاسی کرتا ہے بلکہ نظیر کی شخصیت بھی اپنی تمام خوبصورتی ، توانائی اور تاثر کے ساتھ پوری طرح ابھر کر آتی ہے، اور کمال یہ ہے کہ نظیر خود کبھی اسٹیج پر نمودار نہیں ہوتے۔ اچھے ناٹک کا ایک کمال یہ بھی ہوتا ہے کہ ہمیں وہ چیز بھی دکھائی دینے لگتی ہے جو موجود نہیں ہوتی۔


میں نے آگرہ بازار کے کئی شوز دیکھتے ہیں اور ہر مرتبہ کچھ تبدیلیاں، کچھ اضافے نظر آئے ہیں۔ حبیب صاحب کی عادت تھی کہ وہ اپنے ڈراموں کی نوک پلک سنوارتے ہی رہتے تھے اور ہمیشہ کوشش کرتے رہتے تھے کہ ہر پرفارمنس پچھلے پرفارمنس سے بہتر ہو۔ کبھی کبھی تو وہ چلتے شو میں رد و بدل کر دیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ تقریبا تین گھنٹے لمبا آگرہ بازار دیکھنے والوں کو ایک پل کے لیے بھی اپنی جادو نگری سے باہر نہیں آنے دیتا۔ ناظر اور منظر کا وہ رشتہ جس میں دونوں کی دوری ختم ہو جاتی ہے اور ناظر منظر کا ایک حصہ بن جاتا ہے، حبیب صاحب کے ناٹکوں کی ایک حیرت انگیز خصوصیت رہی ہے۔


بہت عرصے پہلے حبیب صاحب نے اپنا ہیڈ کوارٹر بھوپال کو بنا لیا تھا اور وہ اپنے کنبے کے ساتھ وہیں رہتے تھے لیکن بمبئی اور بمبئی والوں سے ان کی محبت کا رشتہ کبھی ختم نہیں ہوا۔ جب بھی موقع ملتا، وہ بمبئی آ جاتے ، اور پرتھوی فیسٹول میں تو ضرور ہی آتے تھے۔ شاید ہی کوئی فیسٹول ہوگا جس میں حبیب صاحب نہ آئے ہوں۔ کبھی کوئی ناٹک لے کر آ جاتے اور کبھی ناٹک دیکھنے چلے آتے۔ وہ جب بھی بمبئی میں ہوتے ، دوستوں، چاہنے والوں اور عقیدت مندوں سے گھرے رہتے۔ عام طور پر تو وہ سنتے ہی رہتے تھے لیکن اگر کوئی ایسی بات بول دی جائے جس کا تعلق ان کی ذات یا ان کے کام سے ہو تو پھر بولتے بھی تھے اور خوب بولتے تھے۔ ان کی کھرکھراتی ہوئی آواز ، بندیل کھنڈ کے پٹھانوں جیسا لہجہ اور دھار دار جملے سامنے والے کو دم لینے یا سنبھلنے کا موقع نہیں دیتے تھے ، اور بہت کم ایسا ہوتا کہ مقابل ہتھیار ڈالے بغیر اٹھ گیا ہو۔ ان کی باتوں میں نہ سیاسی دوغلا پن ہوتا تھا جسے ڈپلومیسی کہا جاتا ہے اور نہ وہ خیال خاطر احباب کے باعث اپنی رائے کو گھما پھرا کر اور قابل قبول بنا کر پیش کیا کرتے تھے۔ غصہ بھی جلدی سے آجاتا تھا اور کھری کھری سنانے سے کبھی نہیں ہچکچاتے تھے۔ میں چونکہ بھگت چکا ہوں، اس لیے مجھے معلوم ہے کہ حبیب صاحب کس طرح اچھے اچھوں کا پانی اتار دیا کرتے تھے۔


ایک دفعہ میں نے اپنے کام کے بارے میں ان کی رائے جاننا چاہی تھی۔ انھوں نے میرے تین ہی ناٹک دیکھے تھے اور میری خوش بختی کہ انھیں تینوں ہی اچھے لگے تھے۔ 'تمہاری امرتا' کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ اسے فوری طور پر شائع ہونا چاہیے اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانا چاہیے۔ مگر وہ 'بیگم جان' سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیگم جان کے کردار میں جو گہرائی، وقار اور کرب ہے وہ نکل کر نہیں آتا۔ میرا کہنا تھا کہ میں نے بیگم جان کے کردار میں کچھ دراڑیں چھوڑی ہیں جن میں سے بہت کچھ دکھائی دیتا ہے اور باقی تصور کے لیے چھوٹ جاتا ہے۔ مگر حبیب صاحب کی رائے تھی کہ دراڑیں اگر صرف دراڑیں رہتیں تو بہت خوبصورت لگتیں مگر کچھ دراڑیں کھڑکیاں اور دروازے بن گئیں۔ اصل میں میری کردار نگاری سے زیادہ انھیں نادرہ ظہیر ببر کی اداکاری پر اعتراض تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی اداکار کو یہ حق ہی نہیں ہے کہ وہ کردار کی حدوں سے باہر نکل جائے۔ ان کے خیال میں اچھا ایکٹر وہی ہوتا ہے جو کیریکٹر کے اندر اترنے کے بجاے کیریکٹر کو اپنے اندر اتار لیتا ہے۔


مجھے یاد ہے، ایک ملاقات میں میں نے ان سے تھیٹر کی زبان کے بارے میں پوچھا تھا اور حبیب صاحب نے کہا تھا: "تھیٹر کی زبان تھیٹر کی زبان ہوتی ہے۔ وہ ہندی ہوتی ہے نہ اردو۔ لکھنے والا چاہے اردو کا ادیب ہو یا ہندی کا لیکھک ، اسے وہی زبان لکھنی ہے جو اس کا کردار بولتا ہے، اور کردار لکھنے والے کی نہیں اپنی زبان بولتا ہے"۔
میں سمجھتا ہوں کہ جو بات حبیب صاحب نے کہی وہ ان تمام ڈراما نگاروں کے لیے جو اسٹیج پر آ چکے ہیں یا آنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایک نشان راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ڈرامے سے متعلق دوسرے مسائل پر بھی ان کی رائے صاف ستھری ہوتی تھی اور زیادہ تر ان کے اپنے تجربات کی بنیاد پر کھڑی ہوتی تھی۔ مثال کے طور پر وہ ہمیشہ اس بات کی وکالت کرتے تھے کہ اگر ہندوستان میں ناٹک کی اکھڑتی ہوئی جڑوں کو مضبوط کرنا ہے تو پروفیشنل تھیٹر کا قیام ناگزیر ہے۔ وہ کہتے تھے:
" کوئی بھی ایکٹر اس وقت تک اچھی ایکٹنگ نہیں کر سکتا جب تک اسے روٹی کپڑے کی فکر سے آزاد نہ کر دیا جائے"۔
ان کے "نیا تھیٹر" میں، اور اس سے پہلے 'ہندوستانی تھیٹر' میں جو انھوں نے بیگم قدسیہ یدی کے ساتھ مل کے بنایا تھا، زیادہ تر آرٹسٹ اور ٹیکنیشین تنخواہ دار ملازم تھے۔ 'نیا تھیٹر' میں تو سارے کے سارے ایکٹر نہ صرف یہ کہ نوکر تھے بلکہ ان کے بال بچوں کی کفالت بھی تھیٹر ہی کیا کرتا تھا۔ رائے پور و بلاس پور کے چھتیس گڑھی بولنے والے انگوٹھا چھاپ ناچا کلاکار جو ہل چلاتے چلاتے اور سائیکل کے پنکچر جوڑتے جوڑ تے حبیب صاحب کی بدولت بین الاقوامی اسٹیج تک پہنچے اور عظیم شہرت پائی ،صرف اس لیے کامیاب ہو سکے کہ انھیں ہل چلانے اور پیکچر جوڑنے کے لیے واپس نہیں جانا تھا۔


آج بمبئی شہر میں اردو، ہندی اور انگریزی کے ایک درجن سے زیادہ ڈراما گروپ ہیں جو سال بھر تک کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں مگر ان گروپس میں جو ایکٹر ہیں وہ سب شوقیہ ہیں۔ دن بھر کچھ اور کرتے ہیں اور شام کو ریہرسل یا شو کے ذریعے اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ تمام محنت کے باوجود ان میں وہ بات نہیں آ سکتی جو اس ایکٹر میں ہوتی ہے جسے دنیا کی کوئی فکر نہیں ہوتی سوائے اپنے کردار کے، اور اسی لیے حبیب صاحب آخری وقت تک اپنے کنبے کو سمیٹے بیٹھے رہے، جس میں ان کی بیٹی نگین، بیوی مونیکا کے علاوہ دیپک، پونم ، مالابائی ، رام چرن ، ملوا، گووند اور نہ جانے کون کون شامل تھے۔
حبیب صاحب مارکسزم میں نہ صرف یہ کہ یقین رکھتے تھے بلکہ اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ ان کی کہنی اور کرنی میں کبھی کوئی فرق نہیں ہوتا تھا۔ ہم سب نے دیکھا ہے کہ ان کی اکلوتی بیٹی نگین تھیر کے دوسرے آرٹسٹوں کے ساتھ سفر کرتی تھی اور انھیں کے ساتھ ٹھہرائی بھی جاتی تھی۔ پروڈیوسر ڈائریکٹر کی بیٹی ہونے کے باوجود اسے یہ حق نہیں تھا کہ وہ کسی بہتر سلوک کا مطالبہ کر سکے۔
حبیب صاحب کو ناٹک کی دنیا نے ہی نہیں نوازا، اس دنیا نے بھی سر آنکھوں پہ بٹھایا جو اسٹیج سے باہر ہوتی ہے۔ انھیں درجنوں اعزازات دیے گئے، بڑے اور ذمے دار عہدے تفویض کیے گئے ، پدم شری اور پدم بھوشن سے نوازے گئے مگر وہ وہی رہے جو تھے۔ میرا خیال ہے 2005 کے نومبر کی بات ہے کہ پرانے ترقی پسند ادیب عنایت اختر کا فون آیا۔ کہنے لگے: "ارے بھائی ، رات کو حبیب تنویر آرہے ہیں میرے گھر۔ آپ بھی آجائے۔"
میں نے پوچھا: "کیوں آ رہے ہیں حبیب صاحب؟ کیا آپ کی مزاج پرسی کے لیے؟" اختر صاحب بہت زور سے ہنسے۔ کہنے لگے: "مزاج پرسی تو بہانہ ہے، اصل میں وہ پائے کھانے آ رہے ہیں۔ یہ ان کا چالیس برس پرانا سلسلہ ہے۔ جب کبھی بمبئی آتے ہیں اور موقع مل جاتا ہے تو میری بیوی کے ہاتھ کے پائے کھائے بغیر نہیں جاتے۔"
میں نے کہا، "زہے نصیب ! حاضر ہو جاؤں گا۔"
اختر صاحب کہنے لگے : " بھئی میرے پاس پیسے نہیں ہیں ، شراب آپ کو لانی پڑے گی"۔
میں نے وعدہ کر لیا اور رات کو اختر صاحب کے گھر پہنچ گیا۔ جے جے اسپتال کی ایک پتلی سی گلی میں ایک دو منزلہ عمارت ہے جس کا نام ہے صفیہ منزل۔ جس میں ابھی تک لکڑی کی سیڑھیاں ہیں جن پر دن میں بھی اندھیرا رہتا ہے۔ دوسری منزل پر عنایت اختر کا گھر ہے۔ اسے گھر کہنا تو بڑی زیادتی ہے کیونکہ ایک آٹھ فٹ بائی آٹھ فٹ کا کمرہ ہے جس میں ایک پرانی مسہری، ایک الماری، کونے میں ایک نل، اس کے برابر دو فٹ کا باورچی خانہ، زمین پر بچھا ہوا لینولیم اور دیواروں پر چنی ہوئی سیکڑوں کتابیں۔ یہ کل کائنات ہے اس آدمی کی جس نے اپنی زندگی کے ساٹھ سال ادب، صحافت اور فلم کی خدمت میں لگا دیے۔
ہم چھ سات آدمی لینولیم کے فرش پر جم گئے ، حبیب صاحب نے کمر مسہری کے پائے سے ٹکائی اور پائپ کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔ میں نے اپنے بریف کیس میں سے بوتل نکالی اور دھک سے رہ گیا۔ غلطی سے وہسکی آ گئی تھی اور مجھے معلوم تھا کہ حبیب صاحب رَم پیتے ہیں۔ کچھ عجیب سی شرمندگی محسوس ہو رہی تھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بوتل بڑھاؤں یا واپس بریف کیس میں رکھ دوں۔ حبیب صاحب شاید تاڑ گئے کہ کچھ گڑبڑ ہے۔
" کیا ہے، کیا ہے؟ دکھائیے۔" یہ کہہ کر انھوں نے ہاتھ بڑھایا۔ میں نے بوتل ان کے ہاتھ میں دے دی اور دھیرے سے کہا:
" سوری سر غلطی ہو گئی۔ نوکر سے رَم رکھنے کے لیے کہا تھا، اس نے یہ رکھ دی۔ میں ابھی کسی کو بھیجتا ہوں، شاید کوئی دکان کھلی ہو۔"
حبیب صاحب نے وہسکی کا لیبل دیکھا اور خوش ہو کر بولے: "بلیک اینڈ وہائٹ ! ارے واہ واہ ! آج تو یہی پئیں گے۔ اس کے ساتھ ہماری بڑی یادیں وابستہ ہیں۔ ہم اور بنے بھائی یہی پیا کرتے تھے۔ رَم کی عادت تو اس لیے لگ گئی کہ وہ ذرا سستی پڑتی تھی"۔
ایک قہقہہ پڑا اور ماحول بالکل بدل گیا۔ کسی کو خیال ہی نہیں رہا کہ ہمارے درمیان پدم بھوشن حبیب تنویر بیٹھے ہیں یا اپنا پرانا کامریڈ جو بمبئی میں اپنے قیام اور اِپٹا کی پرانی سرگرمیوں کی کہانی سنا رہا ہے۔ میں نشے میں نہیں تھا مگر مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ آٹھ فٹ بائی آٹھ فٹ کا کمرہ بڑا ہوتا جارہا ہے، اس کی دیواریں اونچی ہوتی جا رہی ہیں اور ایک عجیب سی روشنی پھیل رہی ہے جس سے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی لکڑی کی سیڑھیاں تک منور ہو چکی ہیں۔ آہ ا کیا یادگار رات تھی۔


میرا خیال ہے حبیب صاحب کی شخصیت کا آئینہ دار ان کا وہ بیگ تھا جو ہر وقت ان کے ساتھ رہتا تھا۔۔۔ یہ بیگ ویسا ہی تھا جیسے میڈیکل کمپنیوں کے ایجنٹ لے کر گھومتے ہیں۔ اس کے اندر پانچ خانے ہوتے تھے۔ پہلے خانے میں حبیب صاحب کے اسکرپٹ، ان کی نوٹ بک اور کچھ قلم ہوا کرتے تھے۔ دوسرے خانے میں ایک رجسٹر ہوتا تھا جس میں 'نیا تھیٹر' میں کام کرنے والے تمام لوگوں کو دی گئی یا دی جانے والی رقموں کا اندراج ہوتا تھا اور اخراجات کی دیگر تفصیل لکھی ہوتی تھی۔ تیسرے خانے میں ان کی دوائیں ہوتی تھیں اور اسی میں رَم کی ایک بوتل منھ چھپائے بیٹھی ہوتی تھی۔ چوتھا حصہ حبیب صاحب کے شہرہ آفاق پائپ اور اس کے لوازمات کے لیے مخصوص تھا جن میں تمباکو کا ڈبا ، پائپ صاف کرنے کے آلات اور دیگر ضروریات ہوتی ہیں۔ اور آخری حصے میں ایک آل انڈیا ریلوے ٹائم ٹیبل اور شوز کی تفصیلات ہوا کرتی تھیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس بیگ میں جھانک کر دیکھ لینے کے بعد حبیب تنویر کو جاننے کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں پڑتی۔
صاف گوئی حبیب تنویر کی طاقت بھی تھی اور سب سے بڑی کمزوری بھی۔ وہ کبھی بھی سیاست کے ناز بردار نہیں رہے، نہ ہی ہر پانچ سال بعد بدل جانے والے حاکموں کے استقبال میں اپنی ٹوپی بدلی، اس لیے انھیں وہ درجہ کبھی نہیں مل سکا جس کے وہ مستحق تھے۔ بہت سے صاحب اقتدار ان کی صاف گوئی سے اتناڈرتے تھے کہ انھیں کسی اہم اور ذمے دار جگہ پر پہنچنے سے روکنے کے لیے پورا زور لگا دیتے تھے۔ کچھ لوگوں نے تو حبیب صاحب کو مالی اور ذہنی نقصان پہنچانے کی ہی نہیں بلکہ جسمانی تکلیف پہنچانے کی بھی کوشش کی انہیں ان کے کرائے کے گھر بے گھر کیا گیا، اور غنڈوں کے ذریعے ڈراموں کے شوز رکوائے گئے مگر حبیب تنویر نے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے۔ نہ شہر چھوڑ کر بھاگے، نہ اپنے کام کی رفتار کو مدھم کیا۔ وہ تیکھا پن جو ان کے کردار کا ایک حصہ تھا، آخر وقت تک قائم رہا۔ وہ اپنے چھوٹے سے لشکر کے سپہ سالار تھے، اور سالار کی شان یہی ہوتی ہے کہ خود گر جاتا ہے مگر پرچم کو نہیں گرنے دیتا۔


حبیب صاحب ڈراما نگار تھے، ڈائریکٹر تھے، ایکٹر تھے، میوزک ڈائریکٹر تھے ، گیت کار اور شاعر تھے ، ڈیزائنر، پروڈیوسر اور مینیجر بھی تھے۔ اب اس طلسم ہفت پیکر کے سارے دروازے کھولنا ممکن نہیں ہے، اور اگر کوشش کی بھی جائے تو ایک آدمی کا کام نہیں ہے، کیونکہ حبیب صاحب کی شخصیت کا ہر ایک پہلو کم سے کم ایک بسیط مقالے کا تقاضا کرتا ہے۔ میں تو بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ وہ اسٹیج کی ایک مکمل شخصیت تھے ، ایک ایسی شخصیت جو صدیوں میں کبھی کبھی پیدا ہوتی ہے۔


***
ماخوذ از رسالہ: "آج" ادبی کتابی سلسلہ (شمارہ:71 ، ستمبر 2011ء)
مرتب: اجمل کمال

The Comrade Habib Tanvir, a literary sketch by: Jawed Siddiqi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں