کاشی کی خصوصیات زمانۂ قدیم میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2024-06-24

کاشی کی خصوصیات زمانۂ قدیم میں

زمانہ قدیم سے کاشی ہندوؤں کا ایک مقدس تیرتھ گاہ رہا ہے اور ہندوستان کے ہر گوشے سے یاترا کرنے والے عقیدت مند کاشی سے فیضیاب ہوتے رہے ہیں۔ علوم باطنی کے ساتھ ساتھ علوم ظاہری بھی حاصل کرنے کے لیے دور دور سے طلبہ آتے تھے جن کے سیکھنے کے لیے سنسکرت کے بڑے بڑے مدرسے تھے۔
افسوس ہے کہ اب ہندوؤں کے پاس سے ان کے اس طرح کے عملی اور تاریخی صحیفے ضائع ہو چکے ہیں، جبکہ ویدوں کے اصلی نسخے تو پہلے ہی ضائع ہو چکے تھے۔ اس سلسلے میں ہمیں کاشی کا زمانہ قدیم تاریخی اعتبار سے تاریک نظر آتا ہے۔
تقریباً ایک ہزار سال پہلے عہد اسلامی میں جب مشہور سیاح ابوریحان البیرونی (متوفی 1048ھ) نے ہندوستان میں قدم رکھا تو کاشی کی عظمت کے قصے سنے اور اس نے یہاں سالہا سال قیام کرنے کے بعد مختلف علوم اور سنسکرت کو سیکھا۔ چنانچہ اس نے اس وقت یہاں کی زبان کے متعلق بھی لکھا ہے کہ:
"ہندی مخط بائیں طرف سے چلتا ہے اور مشہور خط کا نام سدھ ماترک ہے جو کشمیر کی طرف منسوب ہے اور یہی بنارس میں بھی جاری ہے۔"
یہ تو ابوریحان البیرونی کی شہادت ہے جس سے معلوم ہوا کہ بنارس آکر اس نے سنسکرت کے متعلق بھی واقفیت حاصل کی۔اب ذرا بنارس کی مذہبی عظمت کے سلسلے میں البیرونی کا یہ بیان ملاحظہ ہو:


"ہندوؤں میں متعدد مقامات ہیں جو مذہبی حیثیت سے واجب التعظیم ہیں۔ جیسے شہر بنارس، ان کے درویش وہاں جاکر مستقل سکونت اختیار کر لیتے ہیں ، جس طرح کعبہ کے مجاورین مکہ میں۔ ان کی تمنا یہ ہوتی ہے کہ ان کی موت بنارس میں ہو ، تاکہ مرنے کے بعد ان کی عاقبت اچھی ہو، لوگ کہتے ہیں کہ خون کرنے والا ہر جگہ پکڑا جائے گا اور اپنے جرم کی سزا پائے گا۔ لیکن اگر بنارس میں داخل ہو جائے گا تو وہاں اس کا گناہ معاف ہو جائے گا اور بخش دیا جائے گا۔ اس کا سبب یہ بیان کرتے ہیں کہ برہما کی صورت چار سر کی تھی، برہما اور شیو شنکر یعنی مہادیو کے درمیان کچھ بگاڑ پیدا ہو گیا ، جس کی وجہ سے لڑائی ہو گئی جو اس قدر بڑھ گئی کہ برہما کا ایک سر اس سے اکھڑ کر جدا ہو گیا۔ اس وقت کا یہ دستور تھا کہ قاتل مقتول کے سر کو ہاتھ میں لے لیتا تھا اور اس کو مقتول کی رسوائی اور اپنی فتح کی علامت کے لیے پھراتا تھا، پس برہما کا سر مہادیو کے ہاتھ میں اس طرح آگیا گویا اسے لگام دے دی گئی ہے اور وہ مہادیو جس شہر میں جاتا وہ سر اس کے ساتھ رہتا تھا یہاں تک کہ وہ بنارس پہنچا اور سر اس سے جدا ہو کر غائب ہو گیا۔ (باب:66)


بنارس کے متعلق مولانا غلام علی آزاد بلگرامی (متوفی 1786ء) اپنی کتاب "سبحۃ المرجان فی آثار ھند" میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
"بنارس پورب کے شہروں میں سے ایک شہر اور وہ ہندوؤں کی عبادت گاہ ہے اور ان کے نزدیک مقدس مقامات میں شامل ہے، اس کی زیارت عمر میں ایک بار ان کے یہاں واجب ہے، اور ان کا یہ اعتقاد ہے کہ زمین کے جملہ دس حصے ہیں۔ جن میں سے ایک حصہ بنارس ہے اور علیحدہ یہ حصہ معنوی اعتبار سے باقی نو حصوں کے برابر ہے، اور خدا نے اس کو ایک نیزے کی نوک پر پھیلا دیا ہے، جس کی صلیب کی طرح تین شاخیں ہیں اور تینوں مہادیو جی کا حق ہیں۔"


اکبر بادشاہ (متوفی 1605ء) کے دربار کا مشہور عالم اور مصنف ابوالفیض فیضی (حوالہ:1) بھی بنارس آیا اور برہمن بچہ بن کر بنارس کے مشہور ودیالیہ [درسگاہ] میں داخل ہو گیا۔ اور چوں کہ حافظہ تیز تھا، ذہن صاف، فہم مناسب اور طبیعت درست تھی، اس لیے تھوڑے ہی عرصہ میں انتہائی تعلیم تک پہنچ گیا۔ تمام استاد اس کے عمدہ چال چلن اور اعلی قابلیت کی وجہ سے نہایت محبت کرتے تھے۔ جب اس نے وطن جانے کے لیے اپنے شفیق استاد سے اجازت چاہی تو اس نے ایک ہفتہ کے لیے مزید ٹھہرا لیا اور اپنے گھر میں مشورہ کر کے یہ ارادہ کر لیا کہ اپنی کنیا (لڑکی) سے شادی کر دے۔ جب فیضی سے کہا گیا تو اس نے صاف کہہ دیا کہ میں اس لڑکی کو ماں جائی بہن سمجھتا ہوں پھر یہ کہ میں خود مسلمان ہوں استاد یہ سن کر بت کی طرح کھڑا رہا، پھر ایک سرد آہ بھر کر کہا کہ تو نے تمام ہندو دھرم کے ساتھ جُل (دھوکا) کیا۔ مگر حق استادی کیا ہوگا؟
فیضی نے کہا کہ آپ کیا فرماتے ہیں؟ میں دل و جان سے آپ کی پدرانہ اور استاذانہ شفقت و عاطفت کا ممنون ہوں اور یہ میری استطاعت سے باہر ہے کہ میں آپ کے انعام و احسان کا حق ادا کر سکوں۔ استاد نے کہا: تاہم ایک عہد لینا چاہتا ہوں۔
فیضی نے کہا ارشاد فرمائیے۔ استاد نے کہا کہ: تو سنسکرت کی کتابوں کا ترجمہ کرے گا؟ کہا ہاں، استاد نے کہا کہ میں تم سے یہ عہد لینا چاہتا ہوں کہ 'گائیتری منتر' (حوالہ:2) کا ترجمہ نہ کرنا۔ فیضی نے اس کا عہد کر لیا اور اپنے اس عہد پر تاعمر قائم رہا۔ چنانچہ اس فاضل نے اس منتر کو اسی طرح لکھ کر ترجمہ نہ کرنے کی یہی وجہ تحریر کر دی۔

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
شہر بنارس کے مختلف نام

بحوالہ:1
یہ اپنے زمانے کے یکتائے روزگار جوانمرد عالم شیخ مبارک ناگوری (متوفی 1001ھ) کا بیٹا اور مختلف علوم و فنون کا ماہر تھا۔ شعر تفسیر، تاریخ، لغت، طب، خوشنویسی ، انشا پردازی میں اس کوئی ثانی نہیں تھا۔ ابتدا میں اپنا تخلص فیضی رکھا پھر بعد میں اسے بدل کر فیاض کر دیا۔ 974ھ میں اکبر بادشاہ کا درباری ہوکر 'ملک الشعراء' کا خطاب پایا۔ علم تفسیر میں 'سواطع الالہام' نامی مکمل قرآن کی تغیر لکھی جس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نقطہ والا کوئی حرف استعمال نہیں کیا ہے۔ اس کی قدردانی کے طور پر اکبر بادشاہ نے اس زمانے میں مبلغ دس ہزار روپے کا انعام دیا تھا۔ یہ کتاب آج بھی قدیم کتب خانوں میں موجود ہے۔ تصانیف میں فارسی زبان میں 'رامائن' کا منظوم ترجمہ بھی ہے۔ 10/ صفر 1004ھ کو انتقال ہوا اور اکبر آباد میں مدفون ہوا۔ (تذکرہ علمائے ہند۔ ص:4 ، ع ب نعمانی)
بحوالہ:2
رگ وید کا ایک منظوم منتر جو مصیبت یا خوشی کے موقع پر سوا لاکھ مرتبہ پڑھا جاتا ہے۔ (فرہنگ آصفیہ 4/12 ، ع ب نعمانی)


سید نظام الدین بلگرامی نے بھی علم سنسکرت حاصل کرنے کے لیے بنارس کا سفر کیا اور یہاں رہ کر اس علم کی تکمیل کی۔ اسی طرح چریا کوٹ کے ایک عالم قاضی غلام مخدوم چریا کوٹیؒ (متوفی 1205ھ) کے متعلق 'تذکرہ علمائے ہند' میں لکھا ہے کہ:
علوم مروجہ کی تکمیل کے بعد ان کے دل میں سنسکرت زبان سیکھنے کا خیال پیدا ہوا، یہاں تک کہ اس زبان کے حاصل کرنے میں ایک مکمل حصہ لیا اور بنارس جو مذکورہ زبان کا مرکز تھا، اس فن سنسکرت کے ماہرین کے درمیان کافی امتیاز پایا۔
(تذکرہ علمائے ہند فارسی، ص:157)


تاریخی کتابوں میں مشہور ہیئت داں ابو معشر فلکی کے بھی بنارس میں آنے کا ذکر ملتا ہے جو صاحب تصانیف اور اپنے وقت میں علم النجوم کا بھی امام تھا۔ بنارس میں دس سال قیام کر کے علم ہیئت کا مطالعہ کیا۔ 272ھ مطابق 886ء میں وفات پائی۔


***
ماخوذ از کتاب: تاریخ آثارِ بنارس
مرتب: مولانا مفتی عبدالسلام نعمانی مجددی
ناشر: پرنٹیا پبلی کیشن (طبع پنجم: 2015ء)

Kashi/Banaras/Varanasi city's main characteristics in ancient times.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں