ہمارے شعراء کو مستقلاً یہ شکایت رہی ہے کہ زمانے نے ان کی قدر نہیں کی۔ ناقدریِ ابنائے وطن ہماری شاعری کا ایک مستقل موضوع ہے۔ ہمیں اس سے الٹ شکایت یہ ہے کہ ہم پہ لطف و عنایت کی اس قدر بارش رہی ہے، اپنے دوستوں کی طرف سے ، اپنے ملنے والوں کی طرف سے اور ان کی جانب سے بھی جن کو ہم جانتے بھی نہیں کہ اکثر ندامت ہوتی ہے کہ اتنی داد و دہش کا مستحق ہونے کے لئے جو تھوڑا بہت کام ہم نے کیا ہے اس سے بہت زیادہ ہمیں کرنا چاہیے تھا۔
یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے بچپن ہی سے اس قسم کا تاثر رہا ہے۔ جب ہم بہت چھوٹے تھے، اسکول میں پڑھتے تھے تو اسکول کے لڑکوں کے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کے تعلقات قائم ہو گئے تھے۔ خواہ مخواہ انہوں نے ہمیں اپنا لیڈر تسلیم کر لیا تھا حالاں کہ لیڈری کی صفات ہم میں نہیں تھیں، یا تو آدمی بہت لٹھ باز ہو کہ دوسرے اس کا رعب مانیں یا وہ سب سے بڑا فاضل ہو۔ ہم پڑھنے لکھنے میں ٹھیک تھے ، کھیل بھی لیتے تھے لیکن پڑھائی میں ہم نے کوئی ایسا کمال پیدا نہیں کیا تھا کہ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں۔
بچپن کا میں سوچتا ہوں تو ایک یہ بات خاص طور سے یاد آتی ہے کہ ہمارے گھر میں خواتین کا ایک ہجوم تھا۔ ہم تین بھائی تھے ان میں ہمارے چھوٹے بھائی (عنایت) اور بڑے بھائی (طفیل) خواتین سے باغی ہو کر کھیل کود میں مصروف رہتے تھے۔ ہم اکیلے ان خواتین کے ہاتھ آ گئے۔ اس کا کچھ نقصان بھی ہوا اور کچھ فائدہ بھی۔ فائدہ تو یہ ہوا کہ ان خواتین نے ہم کو انتہائی شریفانہ زندگی بسر کر نے پر مجبور کیا۔ جس کی وجہ سے کوئی غیر مہذب یا اُجڈ قسم کی بات اس زمانے میں ہمارے مونہہ سے نہیں نکلتی تھی۔ اب بھی نہیں نکلتی۔ نقصان یہ ہوا جس کا مجھے اکثر افسوس ہوتا ہے کہ بچپن میں کھلنڈرے پن یا ایک طرح کے لہو و لعب کی زندگی گزارنے سے ہم محروم رہے۔ مثلاً یہ کہ گلی میں کوئی تینگ اڑا رہا ہے ، کوئی گولیاں کھیل رہا ہے۔ کوئی لٹو چلا رہا ہے، ہم بس کھیل کود دیکھتے رہتے تھے، اکیلے بیٹھ کر "ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے" کے مصداق ہم ان تماشوں کے صرف تماشائی بنے رہتے اور ان میں شریک ہونے کی ہمت اس لئے نہیں ہوتی تھی کہ اسے شریفانہ شغل یا شریفانہ کام نہیں سمجھتے تھے۔
اساتذہ بھی ہم پر مہربان رہے۔ آج کل کی میں نہیں جاننا ، ہمارے زمانے میں تو اسکول میں سخت پٹائی ہوتی تھی۔ ہمارے عہد کے استاد تو نہایت ہی جلاد قسم کے لوگ تھے۔ صرف یہی نہیں کہ ان میں سے کسی نے ہم کو ہاتھ نہیں لگایا بلکہ ہر کلاس میں ہم کو مانیٹر بناتے تھے۔ یعنی فلاں کو چانٹا لگاؤ فلاں کو تھپڑ مارو۔ اس کام سے ہمیں بہت کوفت ہوتی تھی اور ہم کوشش کرتے تھے کہ جس قدر بھی ممکن ہو یوں سزا دیں کہ ہمارے شکار کو وہ سزا محسوس نہ ہو۔ طمانچے کی بجائے گال تھپتھپا دیا۔ کان آہستہ سے کھینچا وغیرہ۔ کبھی ہم پکڑے جاتے تو استاد کہتے یہ کیا کر رہے ہو؟ زور سے چانٹا مارو۔
دو تاثر بہت گہرے ہیں، ایک تو یہ کہ بچوں کی جو دلچسپیاں ہوتی ہیں ان سے محروم رہے۔ دوسرے یہ کہ اپنے دوستوں، ہم جماعتوں اور اپنے اساتذہ سے ہمیں بے پایاں شفقت اور خلوص ملا جو بعد کے زمانے کے دوستوں اور معاصرین سے ملا اور آج بھی مل رہا ہے۔
صبح ہم اپنے ابا کے ساتھ فجر کی نماز پڑھنے مسجد جایا کرتے تھے۔ معمول یہ تھا کہ اذان کے ساتھ ہم اٹھ بیٹھے، ابا کے ساتھ مسجد گئے نماز ادا کی اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی سے جو اپنے وقت کے بڑے فاضل تھے، درس قرآن سُنا، ابا کے ساتھ ڈیڑھ دو گھنٹے کی سیر کے لئے گئے، پھر اسکول، رات کو ابا بلا لیا کرتے تھے خط لکھنے کے لئے، اس زمانے میں انہیں خط لکھنے میں کچھ دقت ہوتی تھی۔ ہم ان کے سکریٹری کا کام انجام دیتے تھے۔ انہیں اخبار بھی پڑھ کر سناتے تھے۔ ان مصروفیات کی وجہ سے ہمیں بچپن میں بہت فائدہ ہوا۔ اردو انگریزی کے اخبارات پڑھنے اور خطوط لکھنے کی وجہ سے ہماری استعداد میں کافی اضافہ ہوا۔
ایک اور یاد تازہ ہوئی۔ ہمارے گھر سے ملی ہوئی ایک دکان تھی، جہاں کتابیں کرائے پر ملتی تھیں۔ ایک کتاب کا کرایہ دو پیسے ہوتا۔ وہاں ایک صاحب ہوا کرتے تھے جنہیں سب "بھائی صاحب" کہتے تھے۔ بھائی صاحب کی دکان میں اُردو ادب کا بہت بڑا ذخیرہ جمع تھا۔ ہماری چھٹی ساتویں جماعت کی طالب علمی میں جن کتابوں کا رواج تھا وہ آج کل قریب قریب مفقود ہو چکی ہیں جیسے طلسم ہوشربا، فسانہ آزاد ، عبدالحلیم شرر کے نادل وغیرہ۔ یہ سب کتابیں پڑھ ڈالیں۔ اس کے بعد شاعروں کا کلام پڑھنا شروع کیا۔ داغ کا کلام پڑھا۔ میر کا کلام، غالب تو اس وقت بہت زیادہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ دوسروں کا کلام بھی آدھا سمجھ میں آتا تھا اور آدھا نہیں آتا تھا لیکن ان کا دل پر اثر کچھ عجب قسم کا ہوتا تھا ، یوں شعر سے لگاؤ پیدا ہوا اور ادب میں دل چسپی ہونے لگی۔
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں - شکور پٹھان
فیض - مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ - انگریزی ترجمہ
فیض احمد اور سردار جعفری - ترقی پسند سکے کے دو رخ
ہمارے ابا کے منشی گھر کے ایک طرح کے منیجر بھی تھے۔ ہمارا ان سے کسی بات پر اختلاف ہو گیا تو انہوں نے کہا کہ اچھا آج ہم تمہاری شکایت کریں گے کہ تم ناول پڑھتے ہو۔ ہمیں اس سے بہت ہی ڈر لگا اور ہم نے ان کی بہت منت کی کہ شکایت نہ کریں گے مگر وہ نہ مانے اور ابا سے شکایت کر ہی دی۔ ابا نے ہمیں بلایا اور کہا میں نے سُنا ہے تم ناول پڑھتے ہو۔ میں نے کہا جی ہاں۔ کہنے لگے ناول ہی پڑھنا ہے تو انگریزی ناول پڑھو اُردو کے ناول اچھے نہیں ہوتے شہر کے قلعہ میں جو لائبریری ہے وہاں سے ناول لاکر پڑھا کرو۔
ہم نے انگریزی ناول پڑھنے شروع کئے۔ ڈکنس، ہارڈی اور نہ جانے کیا کیا پڑھ ڈالا وہ بھی آدھا سمجھ میں آتا تھا اور آدھا پلے نہ پڑتا تھا۔ اس مطالعہ کی وجہ سے ہماری انگریزی بہتر ہو گئی۔ دسویں جماعت میں پہنچنے تک محسوس ہوا کہ بعض اُستاد پڑھانے میں کچھ غلطیاں کر جاتے ہیں ہم ان کی انگریزی درست کرنے لگے۔ اس پر ہماری پٹائی تو نہ ہوتی البتہ وہ اُستاد کبھی خفا ہو جاتے اور کہتے اگر تمہیں ہم سے اچھی انگریزی آتی ہے تو پھر تم ہی پڑھایا کرو ہم سے کیوں پڑھتے ہو۔
اس زمانے کبھی کبھی مجھ پر ایک خاص قسم کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی، موسیقی سے لگاؤ تھا۔ شام کو خورشید انور کے والد خواجہ فیروز الدین مرحوم کی بیٹھک میں بڑے بڑے استادوں کا گانا سنتے۔ استاد توکل حسین خاں، استاد عبد الوحید خاں، استاد عاشق علی خاں اور چھوٹے غلام علی خاں وغیرہ۔ ان استادوں کے ہم عصر اور ہمارے دوست رفیق غزنوی مرحوم سے بھی صحبت ہوتی تھی۔ رفیق لا کالج میں پڑھتے تھے۔ پڑھتے تو خاک تھے بس رسمی طور پر کالج میں داخلہ لے رکھا تھا۔ کبھی خورشید انور کے کمرے میں اور کبھی رفیق کے کمرے میں بیٹھک ہو جاتی تھی۔ غرض اس طرح ہمیں اس فن لطیف سے حظ اندوز ہونے کا کافی موقع ملا۔
جب ہمارے والد فوت ہوئے تو پتہ چلا کہ گھر میں کھانے تک کو کچھ نہیں ہے۔ کئی سال تک دربدر پھرے اور فاقہ مستی کی۔ اس میں بھی لطف آیا اس لئے کہ اس کی وجہ سے تماشائے اہل کرم دیکھنے کا بہت موقع ملا۔ خاص طور سے اپنے دوستوں سے۔ کالج میں ایک چھوٹا سا حلقہ بن گیا تھا۔ کوئٹہ کے ہمارے دو دوست تھے احتشام الدین اور شیخ احمد حسین۔ ڈاکٹر حمید الدین بھی اس حلقے میں شامل تھے۔ ان کے ساتھ شام کو محفل رہا کرتی۔ جوانی کے دنوں میں جو دوسرے واقعات ہوتے ہیں وہ بھی ہوئے اور ہر کسی کے ساتھ ہوتے ہیں۔
گرمیوں میں تعطیلات ہوتیں تو ہم کبھی خورشید انور اور بھائی طفیل کے ساتھ سری نگر چلے جایا کرتے اور کبھی اپنی ہمشیرہ کے پاس لائل پور پہنچ جاتے۔ لائل پور مین باری علیگ اور ان کے گروہ کے دوسرے لوگوں سے ملاقات رہتی۔ کبھی اپنی سب سے بڑی ہمشیرہ کے ہاں دھرم سالہ چلے جاتے جہاں مناظر قدرت دیکھنے کا موقع ملتا اور دل پر ایک خاص قسم کا نقش ہوتا۔ ہمیں انسانوں سے جتنا لگاؤ رہا اتنا قدرت کے مناظر اور مطالعہ حسنِ فطرت سے نہیں رہا پھر بھی ان دنوں میں نے محسوس کیا کہ شہر کے جو گلی محلے ہیں ان میں بھی اپنا ایک حسن ہے جو دریا و صحرا، کوہسار یا سرور سمن سے کم نہیں البتہ اس کو دیکھنے کے لئے بالکل دوسری طرح کی نظر
چاہیے۔
مجھے یاد ہے ہم مستی دروازے کے اندر رہتے تھے۔ ہمارا گھر بالائی سطح پر تھا۔ نیچے بدرو بہتی تھی۔ چھوٹا سا ایک چمن بھی تھا، چار طرف باغات تھے۔ ایک رات چاند نکلا ہوا تھا۔ چاندنی بدرو اور ارد گرد کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پڑ رہی تھی۔ چاندنی اور سائے یہ سب مل کر کچھ عجیب پراسرار منظر بن گئے تھے۔ چاند کی عنایت سے منظر کی بدوضعی چھپ گئی تھی اور کچھ عجیب ہی قسم کا حسن پیدا ہو گیا تھا۔ جسے میں نے لکھنے کی کوشش بھی کی ہے، ایک آدھ نظم میں منظر کشی کی ہے جب شہر کی گلیوں محلوں اور کڑیوں میں کبھی دوپہر کے وقت، کبھی شام کے وقت کچھ اس قسم کا روپ آ جاتا ہے جیسے معلوم ہے کوئی پرستان ہے نیم شب ، چاند، خود فراموشی، بام و در خامشی کے بوجھ سے چور وغیرہ اسی زمانے سے متعلق ہیں۔
ایم۔ اے میں پہنچے تو کبھی کلاس میں جانے کی ضرورت ہوئی کبھی بالکل جی نہ چاہا۔ دوسری کتابیں جو نصاب میں نہیں تھیں پڑھتے رہے اس لئے امتحان میں کوئی خاص اعزاز حاصل نہیں کیا۔ لیکن مجھے معلوم تھا کہ جو لوگ اول دوم آتے ہیں ہم ان سے زیادہ جانتے ہیں خواہ ہمارے نمبر ان سے کم ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ بات ہمارے اساتذہ بھی جانتے تھے۔ جب کسی استاد کا جیسے پروفیسر ڈکنسن یا پروفیسر ہریش چندر کٹا پالیا تھے، لیکچر دینے کو جی نہ چاہتا تو ہم سے کہتے کہ ہمارے بجائے تم لیکچر دے دو، ایک ہی بات ہے۔
البتہ پروفیسر بخاری بڑے قاعدے کے پروفیسر تھے۔ وہ ایسا نہیں کرتے تھے۔ پروفیسر ڈکنس کے ذمے انیسویں صدی کا نثری ادب تھا مگر انہیں اس موضوع سے کوئی دل جیسی نہیں تھی اس لئے ہم سے کہا دو تین لیکچر تیار کر لو، دوسرے جو دو تین لائق لڑکے ہمارے ساتھ تھے ان سے بھی کہا دو تین لیکچر تم لوگ بھی تیار کر دو۔ کتابوں کے بارے میں کچھ پوچھنا ہو تو آ کے ہم سے پوچھ لینا چنانچہ نیم استاد ہم اسی زمانے میں ہو گئے تھے۔
ابتدائی شاعری کے دوران میں یا کالج کے زمانے میں ہمیں کوئی خیال ہی نہ گزرا کہ ہم شاعر بنیں گے۔ سیاست وغیرہ تو اس وقت ذہن میں بالکل ہی نہ تھی اگرچہ اس وقت کی تحریکوں ، مثلاً کانگریس تحریک خلافت تحریک یا بھگت سنگھ کی دہشت پسند تحریک کے اثرات تو ذہن میں تھے، مگر ہم خود ان میں سے کسی قصے میں شریک نہیں تھے۔
شروع میں خیال ہوا کہ ہم کوئی بڑے کرکٹر بن جائیں کیوں کہ لڑکپن سے کرکٹ کا شوق تھا اور بہت کھیل چکے تھے، پھر جی چاہا اُستاد بننا چاہیئے ریسرچ کرنے کا شوق تھا۔ ان میں سے کوئی بات بھی نہ بنی، ہم کرکٹر بن سکے نہ نقاد اور نہ ریسرچ کیا۔ البتہ استاد ہو کر امرتسر چلے گئے۔
ہماری زندگی کا شاید سب سے خوش گوار زمانہ امرتسر ہی کا تھا اور کئی اعتبار سے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ جب ہمیں پہلی دفعہ پڑھانے کا موقع ملا تو بہت لطف آیا اپنے طلبہ سے دوستی کا لطف۔ ان سے ملنے اور روز مرہ کی رسم و راہ کا لطف، ان سے کچھ سیکھنے اور انہیں پڑھانے کا لطف۔ ان لوگوں سے دوستی اب تک قائم ہے دوسرے یہ کہ اس زمانے میں کچھ سنجیدگی سے شعر لکھنا شروع کیا۔ تیسرے یہ کہ امرتسر ہی میں پہلی بار سیاست میں تھوڑی بہت بصیرت اپنے کچھ رفقاء کی وجہ سے پیدا ہوئی جن میں محمود الظفر تھے۔ ڈاکٹر رشید جہاں تھیں، بعد میں ڈاکٹر تاثیر آ گئے تھے۔ یہ ایک نئی دنیا ثابت ہوئی۔ مزدوروں میں کام شروع کیا۔ سول لبرٹیز کی ایک انجمن بنی تو اس میں کام کیا۔ ترقی پسند تحریک شروع ہوئی تو اس کی تنظیم میں کام کیا۔ ان سب سے ذہنی تسکین کا ایک بالکل نیا میدان ہاتھ آیا۔
ترقی پسند ادب کے بارے میں بحثیں شروع ہوئیں اور ان میں حصہ لیا۔ ادب لطیف کی ادارت کی پیشکش ہوئی تو دو تین برس اس کا کام کیا۔ اس زمانے میں لکھنے والوں کے دو بڑے گروہ تھے ایک 'ادب برائے ادب' والے، دوسرے ترقی پسند تھے۔ کئی برس تک ان دونوں کے درمیان بحثیں چلتی رہیں جس کی وجہ سے کافی مصروفیت رہی جو بجائے خود ایک بہت ہی دل چسپ اور تسکین دہ تجربہ تھا۔ برصغیر میں ریڈیو شروع ہوا۔ ریڈیو میں ہمارے دوست تھے۔ ایک سید رشید احمد تھے جو ریڈیو پاکستان کے ڈائرکٹر جنرل ہوئے۔ دوسرے سومناتھ چب تھے جو آج کل ہندوستان میں شعبۂ سیاحت کے سربراہ ہیں۔ دونوں باری باری سے لاہور کے اسٹیشن ڈائرکٹر مقرر ہوئے۔
ہم اور ہمارے ساتھ شہر کے دو چار اور ادیب ڈاکٹر تاثیر، حسرت، صوفی صاحب اور ہری چند اختر وغیرہ ریڈیو آنے جانے لگے۔ اس زمانے میں ریڈیو کا پروگرام ڈائرکٹر آف پروگرامز نہیں بناتا تھا بلکہ ہم لوگ مل کر بنایا کرتے تھے۔ نئی نئی باتیں سوچتے تھے اور ان سے پروگرام مرتب کرتے تھے۔ ان دنوں ہم نے ڈرامے لکھے، فیچر لکھے، دو چار کہانیاں لکھیں، یہ سب ایک مستقل مشغلہ تھا۔
رشید جب دلی چلے گئے تو ہم دہلی جانے لگے۔ وہاں نئے نئے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ دہلی اور لکھنو کے لکھنے والے گروہوں سے شناسائی ہوئی۔ مجار، سردار جعفری، جاں نثار اختر، جذبی اور مخدوم مرحوم سے ریڈیو کے توسط سے رابطہ پیدا ہوا جس سے دوستی کے علاوہ بصیرت اور سوجھ بوجھ میں طرح طرح کے اضافے ہوئے۔ وہ سارا زمانہ مصروفیت کا بھی تھا اور ایک طرح سے بے فکری کا بھی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں