امراؤ جان : مظفر علی کی تاریخی رومانوی نغماتی فلم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2024-06-22

امراؤ جان : مظفر علی کی تاریخی رومانوی نغماتی فلم

bollywood-1981-epic-urdu-movie-umrao-jaan-rekha-story

فلم کا نام: امراؤ جان - [Umrao Jaan]
ریلیز تاریخ: 2/جنوری 1981ء
فلم کی نوعیت: تاریخی نغماتی ڈراما (مرزا ہادی رسوا کے ناول 'امراؤ جان ادا' پر مبنی)
ڈائریکٹر: مظفر علی [Muzaffar Ali]
مرکزی اداکار: ریکھا، فاروق شیخ، نصیرالدین شاہ، راج ببر، شوکت کیفی
فلم کی ریٹنگ: 7.7 IMDB


انیسوس صدی کے بیچ کا وقت ہے، فیض آباد کے داروغا کا ایک دشمن اس کی کم سن بچی امیرن کو اغوا کر کے لکھنؤ لے گیا اور مشہور طوائف خانم جان (شوکت کیفی ) کے ہاتھوں بیچ دیا۔ وہاں امیرن کا نام اُمراؤ جان رکھ دیا گیا۔ خانم کے کو ٹھے پر امراؤ کو سنگیت، ناچ اور گانا سکھایا گیا۔ اُمراؤ (ریکھا) نے شعر و شاعری بھی شروع کر دی۔ جلد ہی اس کے حسن اور شاعری نے لکھنؤ میں دھوم مچا دی۔
اُمراؤ کو اکیلا پن کاٹنے لگتا ہے۔ گوہر مرزا (نصیر الدین شاہ) موقع کا فائدہ اٹھا کر امراؤ کو اپنا بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ خانم کو پتہ چلتا ہے تو وہ گوہر کو کوٹھے سے نکال دیتی ہے۔ وہ امراؤ کا رشتہ ایک بوڑھے تو اب اکھن کے ساتھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ گوہر مرزا کوٹھے پر آنے کے لیے نواب اکھن کے ہی بیٹے نواب سلطان (فاروق شیخ) کو امراؤ کے کوٹھے پر لے آتا ہے جو اُمراؤ کے قدموں میں دولت ہی نہیں اپنا دل بھی رکھ دیتا ہے۔
أمراؤ بھی سلطان کو چاہتی ہے ، اور دونوں ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں۔ خانم کی بیٹی بسم اللہ (پریما نرائن) کا کسی نے اغوا کر لیا تو امراؤ کا کوٹھے سے باہر آنا جانا بند کر دیا گیا۔
نواب سلطان کی ماں کو جب پتہ چلا کہ ان کے بیٹے نے کوٹھے پر جانا شروع کر دیا ہے تو انہوں نے سلطان کی شادی ایک ایسی لڑکی سے کر دی جسے برسوں پہلے انہوں نے خریدا تھا اور پال پوس کر بڑا کیا تھا۔ امراؤ کے لئے یہ صدمہ ناقابل برداشت تھا۔ سلطان سے ملنا جلنا بند ہو گیا۔
کوٹھا بھی اُمراؤ کے دل کی طرح سونا سونا رہنے لگا تھا کہ ایک روز ایک گنوار قسم کا آدمی فیض علی (راج ببر) کوٹھے پر آتا ہے اور پیسے کے بل پر امراؤ سے رشتہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ جانم تیار ہو جاتی ہے۔ ایک روز وہ اُمراؤ سے اپنے ساتھ اپنے گاؤں لے جانے کی بات کہتا ہے۔ اُسی وقت نواب سلطان وہاں آتا ہے اور امراؤ سے کہتا ہے کہ اگلے دن اس کی شادی ہے اور وہ اُسے مجرے کی دعوت دینے آیا ہے۔ امراؤ کا خون کھول اٹھتا ہے اور وہ آگے بڑھ کر سلطان کا مانجے (شادی سے پہلے پہنے جانے والا لباس) کا جوڑا پھاڑ دیتی ہے۔ فیض علی امراؤ کو سمجھاتا ہے کہ یہ سب نواب بزدل ہوتے ہیں اور ان کی بزدلی اور عیاشی کی وجہ سے کچھ ہی دنوں میں انگریز لکھنؤ میں گھس آئیں گے۔
رات کے اندھیرے میں دونوں لکھنؤ سے نکل جاتے ہیں۔ راستے میں ایک جنگل میں وہ اپنا گھوڑا روکتا ہے اور امراؤ کو اتار کر آرام کرنے کے لئے کہنا ہے اور خود اس کے لئے پانی لینے چلا جاتا ہے۔ راستے میں سپاہی اسے مار دیتے ہیں، اور اس کی لاش گھوڑے پر بڑی اُمراؤ کے پاس آکر اس کے پیروں میں گر جاتی ہے۔ سپاہی امراؤ کو راجہ کے پڑاؤ پر لے جاتے ہیں۔ وہاں اُسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آدمی جو اُسے لکھنؤ سے لایا تھا مشہور ڈاکو تھا۔ اتنے میں بسم اللہ آ جاتی ہے اور اسے گلے لگا لیتی ہے اور وہ بتاتی ہے کہ بدمعاشوں سے راجہ نے ہی اسے بچایا اور اب وہ ان کے ساتھ ہی رہ رہی ہے اور اپنی ماں کے کوٹھے پر واپس نہیں جانا چاہتی۔
اُمراؤ وہاں سے کان پور چلی جاتی ہے اور محرے شروع کر دیتی ہے۔ جس کی شہرت گلی گلی پہنچ جاتی ہے۔ ایک روز اس کے پاس ایک بوڑھی نوکرانی آ کر کہتی ہے کہ اس کی بیگم صاحبہ نے لڑکے کی سال گرہ پر اس کا مجرا رکھا ہے۔ اُمراؤ مجرے کے لئے جاتی ہے۔ بیگم صاحبہ اور امراؤ ایک دوسرے کی شکل تاکتے رہ جاتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو جانے پہچانے لگتے ہیں۔ بیگم صاحبہ یکایک کہتی ہیں کہ تم امیرن تو نہیں ہو؟
تب امراؤ کو خیال آتا ہے بیگم صاحبہ وہی لڑکی ہیں جو اس کے ساتھ لکھنؤ کی ایک کوٹھری میں بند تھیں۔ جب دلاور خاں اسے وہاں بیچنے لایا تھا۔ اس لڑکی کو ایک بیگم صاحبہ نے خریدا تھا اور امراؤ کو خانم نے۔ دونوں ایک دوسرے کو اپنا اپنا حال سناتی ہیں۔
بیگم صاحبہ بتاتی ہیں کہ ان کے نواب صاحب کلکتہ گئے ہوئے ہیں اور آتے ہی ہوں گے۔ اتنے میں نواب صاحب آ ہی جاتے ہیں اور وہ نواب سلطان نکلتے ہیں۔ امراؤ کو اپنی تقدیر پر افسوس ہوتا ہے اور اداس اپنے مکان پر لوٹتی ہے۔ خانم کو امراؤ کا پتہ لگا تو اس نے گوہر مرزا کو بھیج کر زبردستی بلوا لیا۔ خانم امراؤ پر قبضہ کرنے کے لئے چال چلتی ہے اور گوہر مرزا سے امراؤ پر مقدمہ کروا دیتی ہے کہ امراؤ اس کی بیوی ہے اور کسی دوسرے کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔
اُسی وقت غدر شروع ہو جاتا ہے۔ انگریز لکھنؤ میں گھس جاتے ہیں۔ خانم ، امراؤ سب کو کوٹھا چھوڑ کر بھاگنا پڑتا ہے۔ وہ بنارس کے قافلے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ایک رات امراؤ سب کو سوتا چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ وہ فیض آباد میں رہنے لگتی ہے۔
ایک محلے میں اس کا مجرا ہوتا ہے۔ اُسے ایسا لگا جیسے وہ اپنے ہی گھر کے سامنے ناچ رہی ہے۔ ناچتے ناچتے وہ رک جاتی ہے اور اپنے گھر کی طرف جانے لگتی ہے۔ وہاں اس کی بوڑھی ماں ملتی ہے۔ دونوں ماں بیٹی روتی ہیں۔ سینے سے لگا لیتی ہیں۔ اتنے میں امراؤ کا بھائی آ جاتا ہے۔ وہ اُسے پیار کرنے دوڑتی ہے تو وہ اُسے روکتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کی وجہ سے گھر والوں کی بہت بدنامی ہوئی۔ وہ اُمراؤ کو گھر سے نکال دیا ہے۔ آخر جب اس کے پاس کوئی دوسرا ٹھکانا نہیں ہوتا ہے تو وہ واپس لکھنؤ کے کوٹھے پر آتی ہے۔ وہاں چاروں طرف تباہی مچی ہے اور اسی تباہی اور اکیلے پن کے بیچ وہ پھر اپنی زندگی کو بسانے کی کوشش کرتی ہے۔


Movie story of 1981's Bollywood epic movie "Umrao Jaan" (Rekha).

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں