بالمشافہ : نامور ادیبوں ، شاعروں اور فن کاروں کے یادگار انٹرویوز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2024-03-17

بالمشافہ : نامور ادیبوں ، شاعروں اور فن کاروں کے یادگار انٹرویوز

bilmushafa-masoom-muradabadi

معصوم مرادآبادی ایک معروف اور مقبول صحافی ہیں۔ صحافی ہیں اس لیے ان کا خاص موضوع صحافت ہی ہے۔ صحافت کے موضوع پر وہ کئی کتابیں لکھ بھی چکے ہیں۔ لیکن صحافت کے ساتھ ساتھ وہ مختلف ادبی اصناف میں بھی درک رکھتے ہیں ، مثلاً وہ ایک بہترین محقق ، تذکرہ نویس ، خاکہ نگار ، کالم نویس ، مترجم اور بہت اچھے انٹرویو نگار بھی ہیں۔
وہ انٹرویو لینے کے ہنر سے بھی خوب واقف ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ کسی وی وی آئی پی کا انٹرویو لیتے ہوئے اُسے کیسے باتوں کے جال میں باندھا جائے ، اور اُس کی زبان سے ایسی بات نکلوا لی جائے ، جو انٹرویو کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موضوعِ گفتگو بنا دے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے ؛ بالخصوص اس لیے کہ اہم شخصیات نہ آسانی کے ساتھ باتوں کے جال میں پھنستی ہیں ، اور نہ ہی آسانی کے ساتھ کھُلتی ہیں ، اُنہیں رام کرنے کے لیے ، یا اُن کی توجہ پانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اُن کے بارے میں ، مثبت یا منفی ، ہر طرح کی واقفیت پاس ہو ، اور ایک اچھے صحافی کی حیثیت سے معصوم کے ترکش میں سارے تیر ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو یقین نہیں آ رہا ہے تو ان کی کتاب ' بالمشافہ ' کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں ، جو ۲۲ نامور ادیبوں ، شاعروں اور فن کاروں کے انٹرویوز پر مشتمل ہے۔


لیکن پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ ایک صحافی کو ، جس نے بہت سارے سیاست دانوں کے انٹرویو لیے ہیں ، اچانک ادیبوں اور فن کاروں سے ملاقات اور گفتگو کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ اس تعلق سے کتاب کے ' پیش لفظ ' میں معصوم مرادآبادی لکھتے ہیں :
" اردو صحافت سے اپنی چالیس سالہ وابستگی کے دوران سینکڑوں شخصیات کے انٹرویو لیے ، جن میں زیادہ تر سیاسی لوگ تھے۔ اسی دوران مجھے یہ خیال ہوا کہ کیوں نہ اپنے عہد کے کچھ نامور شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں سے بھی مکالمہ کیا جائے۔ لہٰذا میں نے عام قاری کو ذہن میں رکھ کر شاعروں اور ادیبوں کے انٹرویو کا سلسلہ شروع کیا جسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا۔ "
معصوم مرادآبادی کی نظر میں۔۔۔
"انٹرویو نگاری صحافت کا سب سے مشکل کام ہے۔ انٹرویو نگار کا کام محض سوال قائم کرکے ان کے جوابات حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ وہ اس راہ میں طرح طرح کے تجربات سے گزرتا ہے۔ جب لوگ تنازعہ کھڑا ہو جانے کے بعد اپنی ہی باتوں سے مُکرتے ہیں تو ایک عجیب و غریب صورتِ حال جنم لیتی ہے۔ یہ مرحلہ انٹرویو نگار کے لیے سخت آزمائش کا ہوتا ہے۔ اس لیے انٹرویو نگار کے کندھوں پر ذمہ داری کا دوہرا بوجھ ہوتا ہے۔"
جب آپ ' بالمشافہ ' کے انٹرویوز پڑھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ انٹرویو نگار نے اس دوہری ذمے داری کو کس خوبی سے نبھایا ہے ! 'پیش لفظ' میں معصوم مرادآبادی نے کچھ اور اہم باتیں کہی ہیں جن سے واقفیت ان انٹرویوز کو پڑھنے سے پہلے ضروری ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ادبی شخصیات اور فن کاروں سے گفتگو کرتے ہوئے خود انہوں نے ان باتوں کا خیال رکھا ہے ، یا نہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
"میں نے سوالات کے دائرے کو محدود بھی رکھا ہے اور یہ کوشش بھی کی ہے کہ شاعروں یا ادیبوں سے ایسے سوالات کیے جائیں جو عام قاری کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ خشک سوالات اور مباحث سے پرہیز کیا گیا ہے "۔



کتاب میں پندرہ انٹرویو ادیبوں اور شاعروں سے ہیں ، جن میں ادبی صورتِ حال کے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی بات کی گئی ہے ، جبکہ سات انٹرویو ایسے ہیں جن میں ' فرقہ واریت ' کو موضوع بنایا گیا ہے ، اس موضوع پر گفتگو کرنے والی شخصیات میں بھی ادیب اور شاعر شامل ہیں۔
جن ادیبوں اور شاعروں سے بات کی گئی ہے ان کے نام ہیں اخترالایمان ، کیف بھوپالی ، حبیب جالب ، علی سردار جعفری ، جوگندر پال ، احمد فراز ، بیکل اتساہی ، افتخار عارف ، مظفر وارثی ، بشیر بدر ، ملک زادہ منظور احمد ، عطاءالحق قاسمی ، صلاح الدین پرویز ، بھگوان گڈوانی اور احمد مرزا جمیل۔ دو انٹرویوز پر خاص طور سے بات کرنا چاہوں گا ، ایک علی سردار جعفری کے انٹرویو پر اور دوسرے بشیر بدر کے انٹرویو پر۔
جعفری صاحب مرحوم نے سوالوں کے جواب دیتے ہوے کچھ ایسی باتیں بتائی ہیں جن کا آج کے ہندوستان میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ وہ بتاتے ہیں :
" لکھنئو کے شمال میں ایک تعلقہ داری تھی بلرامپور۔ وہاں کے تعلقہ دار کو مہاراجہ کا خطاب ملا ہوا تھا ، جو کہ مذہباً ہندو تھے۔ اس زمانے کی فضا بہت اچھی تھی۔ ہمارا خاندان بہت مذہبی تھا ، لیکن دیوالی کے موقع پر ہمارے یہاں بھی چراغ جلتے تھے۔ مہاراجہ بلرامپور کے یہاں سے دیئے اور تیل آتا تھا اور وہی لوگ اسے آکر سجاتے تھے۔ محرم کے موقع پر مہاراجہ کے یہاں تعزیہ رکھا جاتا تھا ، جِسے ہمارے خاندان کے لوگ جاکر اٹھاتے تھے"۔ وہ مزید بتاتے ہیں :
" دوسری طرف ہمارے زمانے میں نوٹنکی ہوتی تھی ، جِسے ہم بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔ ( نوٹنکیاں میں نے بھی خوب دیکھی ہیں ،اور شوق سے دیکھی ہیں ، اب نوٹنکیوں کی روایت خاتمے پر ہے۔ ش، ر۔ ) جس سے ہمیں رامائن وغیرہ کا علم ہوا اور اسی کے ساتھ اس زمانے میں مناظرے ہوتے تھے۔ جس میں آریہ سماجی عالم بھی آتے تھے اور مسلمان علماء بھی اور وہاں پر ہندو مسلمان سب بیٹھ کر چھ سات دن تک ان کے مناظرے سُنا کرتے تھے۔"
اب ایسے مناظرے ناممکن ہیں ، اگر کوئی اس کے کوشش کرے تو لینے کے دینے پڑ جائیں۔ انٹرویو میں جعفری صاحب نے اپنی گرفتاری کا ، اس جرم میں کہ انہوں نے دوسری جنگِ عظیم کے خلاف نظمیں لکھی تھیں ، ذکر کیا ہے ، یہ بھی بتایا ہے کہ کمیونسٹ رہنما پی سی جوشی نے انہیں ممبئی آکر اردو اخبار نکالنے کی دعوت دی تھی اور یہ کہ اخبار پہلے ' قومی جنگ ' کے نام سے پھر ' نیا زمانہ ' کے نام سے نکلا بعد میں اس کا نام ' حیات ' ہو گیا۔



بشیر بدر سے گفتگو دلچسپ ہے۔ وہ بتاتے ہیں :
" میرا خیال ہے کہ میں نے لکھنا پڑھنا بعد میں سیکھا ہے اور بغیر جانے بوجھے کہ یہ غزل ہے میں نے گنگنانا شروع کر دیا لیکن بیچ بیچ میں مجھے مختلف طرح کے دورے پڑتے رہے۔ میرا سب سے پہلا شوق غزل ہے یا کرکٹ دونوں میں کوئی ایک تھا۔"
وہ انکشاف کرتے ہیں کہ " پہلا شعر تو واقعی سات آٹھ سال کی عمر میں کہہ لیا تھا۔"
ایک اور دلچسپ بات سُنیے : " جب غزل دوبارہ شروع کی تو پھر یہ سوچا کہ اچھا اب میرا معاملہ میرؔ اور غالبؔ سے ہوگا۔"
کتاب میں اس انٹرویو پر مقبول و معروف کالم نویس خامہ بگوش ( مشفق خواجہ ) کا بہت دلچسپ اور گدگدانے والا تبصرہ بھی شامل ہے۔ خامہ بگوش کا ایک جملہ ملاحظہ کریں :
" انہوں نے ( بشیر بدر نے ) حق گوئی و بے باکی کا ایسا مظاہرہ کیا ہے ، جس کی کسی دوسرے سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ فرمایا ' میرا معاملہ میرؔ اور غالبؔ سے ہے ، وہی میرے حریف ہیں اور میں انہیں اپنا حریف سمجھتا ہوں۔' ہمارا خیال ہے کہ بشیر بدر نے انکسار سے کام لیا ہے ورنہ میرؔ و غالبؔ کی حیثیت ہے ، جو ان کے منہ آئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بشیربدر جس مقام پر ہیں وہاں کسی دوسرے شاعر کا پہنچنا تو کیا وہاں سے واپس آنا بھی ناممکن ہے۔"
خامہ بگوش کے تبصرے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ معصوم مرادآبادی کا یہ انٹرویو کس قدر موٖضوعِ گفتگو بنا تھا۔


کتاب میں مظفر وارثی کا انٹرویو تو شامل ہے ہی ان کا ایک ردعمل بھی جو معصوم مرادآبادی کی قتیل شیفائی سے کی گئی گفتگو پر ہے شامل ہے ، جس میں قتیل صاحب نے مظفر وارثی کے بارے میں کچھ متنازعہ باتیں کہی تھیں۔



دو اہم انٹرویو بھگوان گڈوانی اور احمد مرزا جمیل کے ہیں۔ بھگوان گڈوانی کے والد ' ہندو مہاسبھا ' کے عہدیدار تھے۔ گڈوانی ایک سرکاری ملازم تھے ، انہوں نے انگریزی میں ایک ناول لکھا تھا ' دی سورڈ آف ٹیپو سلطان ' جس پر سنجے خان نے ایک سیریل بنایا تھا ، اور اس پر ایک تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ گڈوانی بتاتے ہیں کہ انہیں ٹیپو سلطان پر ناول لکھنے کی تحریک ایک فرانسیسی نوجوان سے ملی جو میدانِ جنگ میں لڑتے ہوے مرنے والے بادشاہوں اور کنگ پر ریسرچ کر رہا تھا۔ بات کرتے ہوئے اس نے گڈوانی سے کہا:
' آپ کا ٹیپو سلطان واحد ایسا بادشاہ تھا جو میدانِ جنگ میں مرا تھا ، کتنا عظیم انسان تھا ، اس کی مثال نہیں ہے۔'
اس کے بعد گڈوانی نے ریسرچ کی ، انگریز مورخوں کے ذریعے ٹیپو سلطان کو ' ویلن ' بنا کر پیش کرنے کی تفصیلات حاصل کیں اور ناول مکمل کیا۔ یہ ایک اہم انٹرویو ہے اور آج کے ہندوستان میں ٹیپو سلطان کو انگریز مورخوں کی طرح ' ویلن ' بنا کر پیش کرنے کی ساری کوششوں کا ایک مدلل جواب بھی۔


احمد مرزا جمیل ' نوری نستعلیق ' ( کمپیوٹر سے کتابت ) کے موجد ہیں ، اس انٹرویو کے بعد ہی ہندوستان میں لوگوں کو پتا چلا کہ کمپیوٹر سے اردو کتابت ممکن ہے۔


دو باتوں کا مزید ذکر ؛ ایک تو ان سات انٹرویوز کا جن کا موضوع 'فرقہ واریت' ہے۔ معصوم مرادآبادی نے جن سات شخصیات سے اس موضوع پر گفتگو کی ہے ان کے نام ہیں بھیشم ساہنی ، حبیب تنویر ، جاوید اختر ، فہیم الدین ڈاگر ، سدھیر در ، سریندر شرما اور پرشوتم اگروال۔ یہ تمام انٹرویو لاجواب ہیں۔ میں صرف سدھیر در کے انٹرویو پر کچھ روشنی ڈالوں گا۔
در صاحب اپنے دور کے بہت مقبول و معروف کارٹونسٹ تھے۔ وہ فرقہ پرستی سے ممکنہ خطرات کا ذکر کرتے ہوے کہتے ہیں :
" ہندوستان ٹوٹ جائے گا۔ آپ اس کو کیسے بچائیں گے۔ آج ہم سب یہی سوچتے ہیں کہ اپنے بچوں کے لیے ہم کیسا ہندوستان چھوڑ کر جائیں گے۔ کیا یہ خون میں لپٹا ہوا ہندوستان ہوگا۔ میں تو ایسا نہیں ہونے دوں گا۔"
شاید آج کوئی در جیسا عزم کرنے والا نہیں ہے کہ ' میں تو ایسا نہیں ہونے دوں گا۔'


دوسری بات مرحوم شمیم حنفی کے ' دیباچہ ' پر ہے۔ شمیم صاحب لکھتے ہیں : " معصوم صاحب کا اپنا رویہ ایک مہذب انٹرویور کا ہے۔ وہ خود کم بولتے ہیں ، سامنے والے کو بولنے کا موقع زیادہ دیتے ہیں۔ اسی لیے ان کے انٹرویوز میں خود نمائی کا عنصر تقریباً مفقود ہے اور اس سے جواب دینے والے کی شخصیت زیادہ سے زیادہ واضح طور پر سامنے آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ساری شخصیتیں ایک جیسی نہیں ہیں۔ چنانچہ اس کتاب کے ذریعے ہم ایک ٹکٹ پر کئی تماشے دیکھ سکتے ہیں۔"


یہ کتاب ہر طرح کے قاری کے لیے دلچسپ ہوگی۔ کتاب کے آخر میں اس کتاب کے پہلے ایڈیشن پر کیے گیے تبصرے بھی شامل ہیں۔ کتاب کے ناشر ' نعمانی کیئر فاؤنڈیشن ، لکھنؤ ' (موبائل نمبر : 9810780563 ) ہیں۔ کتاب شائع بھی ' نعمانی پرنٹنگ پریس ، لکھنؤ ' سے ہوئی ہے ، اور طباعت شاندار ہے۔ صفحات 232 اور قیمت 400 روپیے ہے۔


Bil-Mushaafa, a book of literary sketches by Masoom Moradabadi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں