"آشفتہ بیانی میری" رشید احمد صدیقی کی خود نوشت ہے۔ وہ یوپی کے ایک ضلع جونپور کے مڑیا گاؤں میں 1894ء میں پیدا ہوئے،میٹرک تک جونپور میں رہے، پھر اعلی تعلیم کی خاطر علی گڑھ آگئے، 1912ء میں کالج بنا تو آپ بحیثیت پروفیسر بحال ہوئے، جب یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا، اس میں اردو ادبیات کا بھی شعبہ قائم ہوا تو آپ کو صدر شعبہ بنایا گیا، 1977ء میں آپ کا انتقال ہوا، آپ کو ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ اور پدم شری اعزاز برائے ادب و تعلیم سے بھی نوازا گیا۔آپ کی معروف تصانیف میں "خنداں" "گنج ہائے گرانمایہ" اور " طنزیات ومضحکات" ہیں۔
رشید احمد صدیقی کی خود نوشت "آشفتہ بیانی میری" دراصل آپ کی علی گڑھ یونیورسٹی( ایم- اے- او- کالج )کی ترجمان ہے، اس میں آپ نے اپنی زندگی کے مختلف شعبوں کو بھی بیان کیا ہے، تاہم علی گڑھ کی محبت اور اس کا ذکر دراز ان کی بقیہ حیات کو قاری کی نظر میں اس طرح سے نہیں چمکنے دیتااور محسوس ہوتا ہے کہ یہ خود نوشت جیسے علی گڑھ کے لیے ہی وقف ہے۔
اس آپ بیتی کی ایک خاص بات یہ ہے کہ رشید احمد صدیقی نے اس میں مختلف شخصیات کا بھی تذکرہ کیا ہے،قاری اس آپ بیتی کو پڑھتے وقت تاریخ کی سیر، الفاظ و جمل کی شگفتگی،زبان کی شایستگی اشعار کے برجستہ استعمال کا ہنر اور کئی اچھی چیزوں کی وادی میں بیک وقت چلا جاتا ہے۔اس سے رشید صاحب کی علمی زندگی کے بو قلموں گوشوں کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔
رشید صاحب نے کتاب کے شروع میں "شکریہ" کے تحت ایک عنوان قائم کیا ہے اور شکریہ ادا کرنے کا کتنا ادیبانہ انداز اپنایا ہے،آپ بھی ملاحظہ کریں۔ "اس کتاب کو ان بزرگوں،دوستوں اور عزیزوں نے پسند فرمایا جو علی گڑھ سے براہ راست وابستہ تھے اور ان اصحاب نے بھی جو اس طرح تعلق نہیں رکھتے تھے۔ اول الذکر نے اس لیے کہ جو باتیں بیان کی گئی تھیں وہ غلط نہ تھیں۔ دوسروں نے شاید اس لیے کہ باتیں صحیح ہوں یا غلط افسانہ برا نہیں! میں دونوں کا شکر گزار ہوں۔موخرالذکر کا خاص طور پر۔"( آشفتہ بیانی میری ص 7)۔
رشید احمد صدیقی کے بارے میں یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ ان کی تحریروں میں علی گڑھ کا عکس کچھ زیادہ ہی دکھتا ہے، یہ اعتراض حقیقت سے بہت دور بھی نہیں ہے، لیکن سچ یہی ہے کہ جو جس ماحول میں رہتا ہے اس پر اس کا عکس چھا جاتا ہے۔
آپ نے اس آپ بیتی میں اس اعتراض کا جواب بھی دینے کی کوشش کی ہے۔رشید صاحب اس کی شروعات اس شاندار شعر سے کرتے ہیں۔
جہاں جائیں وہاں تیرا فسانہ چھیڑ دیتے ہیں
کوئی محفل ہو تیرا رنگ محفل یاد آتا ہے
صفحہ نمبر 9 سے لے کر آگے کئی صفحات تک علی گڑھ کی محبت میں دل نکال کر رکھ دیا ہے۔ آپ بھی دیکھیں۔
" علی گڑھ کی یہ خدمت بھی ہمیشہ فخر سے یاد رکھی جائے گی کہ اس نے اردو شعرو ادب کو بہت سی نامناسب پابندیوں سے نجات دلا کر زندگی اور زمانے کے نئے تقاضوں سے آشنامربوط و مستحکم کیا"۔(آشفتہ بیانی میری ص10)
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کو حساب (ریاضی) سے دلچسپی نہیں تھی بلکہ ان کے تمام دوست کے نمبر ملا کر بھی Pass Mark تک نہ پہنچ پاتے تھے، صفحہ نمبر 17 ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ رشید صاحب نے اس کا کیا پرلطف انداز میں ذکر کیاہے۔
تاہم انہیں ترقی دیگر مضامین میں بہت اچھے ہونے کی وجہ سے دے دی جاتی تھی،یہاں چند باتیں سمجھنے کی ہیں، ہر طالب علم ضروری نہیں کہ ہر سبجیکٹ میں اچھا ہو، والدین اور ادارے کو چاہیے کہ اس حقیقت کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔
صفحہ نمبر 22 پہ اپنے من پسند مشغلہ کا ذکر ان خوبصورت الفاظ میں کرتے ہیں۔" طالب علمی کے زمانے میں میرا دل پسند مشغلہ بالخصوص برسات کے موسم میں جب میدان میں کوئی کھیل نہ کھیلا جاسکتا،اس کتب خانے میں جو دوسری منزل پر واقع تھا، کھڑکی سے متصل آرام کرسی پر دراز ہوکر اردو انگریزی افسانوں اور ناولوں کا مطالعہ تھا۔یہاں سے دریا کی طغیانی نظر آتی تھی۔"
کتاب کی ورق گردانی میں جیسے جیسے آپ آگے بڑھیں گے ویسے ویسے آپ جونپور شہر کی تاریخ، وہاں کے لوگوں کی شعر و ادب سے دلچسپی، جونپور کی جامع مسجد اور لائبریری وغیرہ کے بارے میں آپ کی معلومات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ آپ 1915ء میں علی گڑھ آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے، آپ نے یہاں کی علمی فضا، قابل اساتذہ اور روحانی ماحول سے استفادہ کر کے اپنے اندر بے پناہ صلاحیتیں پیدا کرلیں، بانئی درسگاہ سرسید کی تعظیم آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جس کا برملا اعتراف بھی کیا، ایک جگہ آپ لکھتے ہیں۔
"وہ بڑے مخلص،ہمدرد،ذہین،دلیر،عالی حوصلہ، دور اندیش ،ان تھک اور نا قابل تسخیر تھے۔ ان میں جہاں داری اور جہاں بینی دونوں کی جھلک ملتی ہے جو کبھی ہمارے اسلاف کی صفات تھیں!"( آشفتہ بیانی میری ص 39)
میری نظر کتاب کے ان سطور پر جم کر رہ گئی۔ آپ بھی غور کی نظر ڈالیں۔
"میرا خیال ہے کہ کلاس کے نیک نہاد اور ذی استعداد طلبہ کا اثر اپنے ساتھیوں پر کلاس ٹیچر ( class teacher) سے زیاد ہ ہوتا ہے۔ ہر جماعت میں شریر اور بے راہ طالب علم بھی ہوتے ہیں جن پر مدرس کا پورا قابو نہیں ہوتا لیکن یہی طالب علم کلاس کے متذکرہ صدر صفات کے طالب علم کا احترام کرتے ہیں۔ وقت آنے پر پڑھائی میں ان سے مدد لیں گے اور کیسے ہی بیزار اور برافروختہ کیوں نہ ہوں ان کا کہنا مان لیں گے۔ اس بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ تعلیم و تربیت کے معاملے میں ماہرین تعلیم کو چاہیے کہ کسی نہ کسی حد تک ہر کلاس کے اچھے طلبہ سے مدد لینے پر زور دیں۔ طالب علم پر بھروسہ کرنا قرین فطرت ہے۔"
(آشفتہ بیانی میری ص 29)
علم صرف کتابوں میں نہیں ہوتا ، راہ چلتے روڈ پر گرے کاغذ میں بھی بعض دفعہ بڑی قیمتی باتیں مل جاتی ہیں۔ رشید احمد صدیقی کی عادت تھی کہ وہ جہاں کوئی ورقہ زمین پہ دیکھتے اسے اٹھا کر دامن علم میں اضافہ کرتے۔ ایسا ہوبھی کیوں نہ آپ خود کہتے ہیں کہ وہ اس زمانے میں تھے جہاں کوئی ایسا گھر نہیں تھا جس میں پچاس،سو کتابیں نہ ہوں، اب تو کتابوں کا رواج اٹھ سا گیا ہے، نیز سوشل میڈیا کے دور میں روڈ پہ گرے کاغذ اور دیواروں پہ لکھے فقرے کی اہمیت لوگوں کی نگاہوں سے جیسے اوجھل ہی ہوگئی ہے۔ "آشفتہ بیانی میری" صرف ایک شخص کی آپ بیتی نہیں بلکہ تاریخ و واقعات بیان کرتی ہوئی ایک مکمل کتاب ہے۔
علی گڑھ کے بارے میں لکھتے ہیں 1875 میں کالج کی بنیاد پڑی اور 1885ء میں کانگرس کی ابتدا ہوئی، 1906ء میں مسلم لیگ وجود میں آئی، 1914ء میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی، 1915ء میں محمد علی اور شوکت علی کی نظربندی عمل میں آئی.
(آشفتہ بیانی میری صفحہ 34)
اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس طرح کی کئی تاریخوں پر دوران مطالعہ آپ کی نگاہ جائے گی۔
علامہ اقبال سے ملاقات اور ان کے اردو لہجہ کے بارے میں لکھتے ہیں۔
"علی گڑھ میں ہندوستان کے دور دراز گوشوں سے آئے ہوئے ساتھیوں کی اردو سننے میں آئی تو کچھ ایسا محسوس ہوا جیسے اپنے دیار کے اشخاص کے علاوہ دوسرے لوگ غیر متمدن سے تھے۔ ظاہر ہے یہ تاثرات کلیتا احمقانہ تھے، لیکن بہت دنوں بعد جب میں خاصا کم احمق رہ گیا تھا ، سر اقبال مرحوم سے پہلے پہل شرف نیاز حاصل کرنے لاہور گیا ، تو مرحوم کا اردو کا لہجہ اور تلفظ سن کر ایک لمحے کے لیے دم بخود ہوگیا۔ تلفظ کے ناہموار ہونے سے زبان کتنی غیر معتبر معلوم ہونے لگتی ہے".
( آشفتہ بیانی میری ،ص 53-54)
جب آپ دین اور سیاست کی بات کرتے ہیں تو کیا کمال کی بات لکھتے ہیں.
" اقبال کا مشہور مصرع مجھے اکثر یاد آتا ہے
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی!
سوچتا ہوں کہ دین اور سیاست کو ایک دوسرے سے جدا رکھنے پر جس چنگیزی کا سامنا ہوگا وہ قابل قبول ہے یا دین کو سیاست سے جوڑنے میں جس چنگیزی کا سابقہ ہوگا وہ قابل ترجیح ہے!"
( آشفتہ بیانی میری ص 60)
نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچنے اور ان میں خود اعتمادی کیسے پیدا کی جائے، اس بارے میں کتنی مفکرانہ بات کہی ہے۔
"گزشتہ زمانے میں نوجوانوں کو ریاضت کرنے اور نتیجے کا انتظار کرنے کی تلقین کی جاتی تھی اور اس پر عمل کیا جاتا تھا۔اس سے ان میں بے صبری اور بے اعتمادی یا غیر ذمے داری کے جذبات پیدا نہیں ہو پاتے تھے۔ نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچنے کا سب سے آسان اور زود اثر نسخہ یہ ہے کہ ان کو جارحانہ بلکہ مجرمانہ اقدام کی دعوت دی جائے۔ گزشتہ بیس پچیس سال سے ان کو یہی راستہ دکھایا گیا ہے۔اس میں اشتراکیت، مذہبیت،قومیت سب نے حسب توفیق حصہ لیا ہے۔ظاہر ہے جہاں انقلاب کو دعوت دینے اور بغاوت کرنے کا اذن عام ہو وہاں ریاضت اور انتظار کو کون قابل التفات سمجھے گا جہاں محاسبہ ختم ہوا مجادلہ شروع ہو جائے گا!"
(آشفتہ بیانی میری ص 75)
مشاعروں کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں۔
"مشاعروں کی روایت عرب سے ایران ہوتی ہوئی ہندوستان پہنچی۔ اس کو جتنی ترقی اور شہرت یہاں نصیب ہوئی شاید خود عرب و ایران میں نہ ہوئی ہو۔آج کل مشاعروں کا جو رنگ عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے اس سے اکثر یہ بات دل میں آتی ہے کہ جس طرح شعر گوئی اور شعر خوانی عرب کے میلے اور بازاروں سے شروع ہو کر ایران اور ہندوستان کے سلاطین اور امرا کے درباروں تک پہنچی اس طرح وہ اب درباروں سے نکل کر بازاروں میں پہنچ گئی ہے۔"
( آشفتہ بیانی میری ص 96)
یہ اس زمانے کی بات ہے جب جعلی شاعرات اور گویا شاعروں کا مشاعروں پر قبضہ نہ تھا، سوچتا ہوں رشید صاحب آج ہوتے تو مشاعرے کو کیا نام دیتے جہاں ادب کے نام پہ ادب کی محفل میں ہر طرح کی بے ادبی کی جاتی ہے۔
رشید صاحب کے یہاں مزاح کا عنصر مضبوط ہے ، اس سے کتاب میں دلچسپی بھی باقی رہتی ہے اور انسان زیر لب مسکراتا ہوا فرحت و مسرت سے بھی شادکام ہوتا ہے۔
"ایک صاحب نے بتایا کہ "ان کی تحقیقات کی رو سے کالج کا کوئی طالب علم نہ تو شرعی گواہ ہو سکتا ہے نہ کسی الیکشن میں ووٹر (voter)اس لیے کہ جب تک کالج کی تعلیم حاصل کرتا ہے اور ڈائننگ ہال کا کھانا کھاتا رہے گا نا عاقل ہو سکتا ہے نہ بالغ۔"
ایک صاحب دائمی قبض میں مبتلا تھے۔ان کے بارے میں تشخیص یہ ہوئی کہ "جب تک ڈائننگ ہال کا کھانا نہ چھوڑیں گے۔قبض ان کو نہ چھوڑے گا۔اس لیے کہ ان کا ہاضمہ اتنا قوی اور ڈائننگ ہال کا کھانا اتنا ضعیف ہوتا ہے کہ کھانے کا فضلہ بھی ان کا جزو بدن ہو جاتا ہے".
( آشفتہ بیانی میری ص 104- 105)
یہ سطریں پڑھتے ہوئے یکلخت مدرسہ کا مطعم یاد آجاتا ہے، ابھی اکثر مدرسوں کے ڈائننگ ہال کی حالت یہی ہے۔ مدرسہ کا کوئی طالب گواہ بن سکتا ہے یا نہیں یہ فیصلہ ہم اہل نظر پر چھوڑتے ہیں !!!
اپنے ممدوح ڈاکٹر ذاکر حسین کے بارے میں لکھتے ہیں۔
"علی گڑھ کے وائس چانسلر کی حیثیت سے ذاکر صاحب نے جو خدمات انجام دیں ان کا اندازہ کرنے کے لیے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے انہوں نے ایک درسگاہ کو نہیں بلکہ ایک تہذیب کو تباہ ہونے اور ایک روایت کو رسوا ہونے سے بچا لیا"
( آشفتہ بیانی میری ص 45) مزید آگے ص 48 پہ لکھتے ہیں"میں ذاکر صاحب کو نہ کوئی ولی سمجھتا ہوں، نہ فرشتہ، نہ امام شریعت،نہ پیر طریقت لیکن اتنا ضرور محسوس کرتا ہوں کہ بحیثیت مجموعی وہ فرزندان علی گڑھ میں بہت اونچے درجے پر فائز ہیں،بہت اونچے درجے پر!"
اس کتاب کے مطالعے سے جہاں ہمیں جونپور کی مختلف تاریخیں ملتی ہیں،وہیں علی گڑھ کی روایت، وہاں کے طلبہ کا لباس،وضع قطع، وقت کی پابندی،تہذیب اور سینیئر جونیئر کے احترام کی حسین روایت سے بھی آگاہی ہوجاتی ہے۔
صدیقی صاحب نے لگ بھگ سر سید سے لے کر ذاکر حسین تک ان تمام لوگوں کا بھی تذکرہ کیا ہے جن کو علی گڑھ نے یا جنہوں نے علی گڑھ کو کچھ دیا ہے۔
کتاب کے خاتمہ سے قبل حالی،شبلی اور نذیر احمد کا مختصر مگر جامع ذکر خاتمہ بالخیر کو درشاتا ہے۔
رشید احمد صدیقی صاحب کی یہ آپ بیتی تعلیم وتعلم سے منسلک لوگوں کو ضرور پڑھنا چاہیے ، اس میں ان کے لیے سیکھنے کی بہت سی چيزيں ہیں۔ زبان و بیان اوربات کہنے کا اسلوب اس پر مستزاد۔
شاہنواز صادق تیمی (جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ)
ای-میل: shahnawasadique[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں