ممبئی قومی اردو کتاب میلہ : ایک جائزہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2024-01-17

ممبئی قومی اردو کتاب میلہ : ایک جائزہ

mumbai-urdu-book-fair

ممبئی قومی اردو کتاب میلہ : نئی نسل کو اردو زبان سے قریب کرنے کا موثر ذریعہ
میلہ کامیاب یا ناکام : آنکھوں دیکھا حال


قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (این سی پی یو ایل) نئی دہلی اور تقریبا دیڑھ سو سالہ قدیم تعلیمی ادارہ انجمن اسلام، ممبئی کے اشتراک سے باندرہ کرلا کامپلیکس، آر۲ گراؤنڈ بالمقابل کینرا بینک، کرلا ممبئی میں ۶ جنوری تا ۱۴ جنوری ۲۰۲۴ یعنی نو روزہ ۲۶ واں قومی اردو کتاب میلہ کا شاندرا پیمانے پر انعقاد عمل میں آیا۔ یہ اب تک کی تاریخ کا سب سے بڑا اردو کتاب میلہ تھا، جس میں ۱۸۰سے زائد کتب فروش، ناشرین اور مکتبے موجود تھے۔ ممبئی قومی اردو کتاب میلے میں مختلف موضوعات (فکشن و نان فکشن) پر ساڑھے تین لاکھ سے زائد کتابیں براہ فروخت دستیاب تھیں۔ ان نو دنوں میں کتابوں کی فروخت کے علاوہ مختلف ثقافتی، علمی اور تفریحی پروگرام بھی منعقد کیے گئے۔ جس میں ورکنگ سائنس ماڈل مقابلہ، شام شعر و نغمہ۔ طلعت عزیز، سیمینار: آن لائن ٹیچنگ اور اردو ذریعہ تعلیم، علما کا اردو ادب، ممبئی اردو تھیٹر کالج (ڈرامہ نائٹ)، حب الوطنی گیت مقابلہ، ذرائع ابلاغ کے بدلتے وسائل اور اردو صحافت، سول سروسز اور دیگر مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کیسے کریں؟، اردو انفارمیشن ٹکنالوجی۔ جائزہ اور امکانات، اردو کی ادبی تحریکیں اور ممبئی، مقامی شاعروں کا مشاعرہ، غیر اردو داں حضرات میں اردو کی ترغیب، اردو افسانہ نئی صدی میں، مقابلہ بیت بازی، ٹیلنٹ ڈیبیٹ مقابلہ، اردو فارسی اور عربی تدریس کی صورتحال، غزل خوانی (انٹر کالیجیٹ)، اردو کا تانیثی ادب، شام نسواں، ممبئی کی اردو میونسپل اسکول کے بچوں کا مقابلہ مونو اداکاری، اردو ذریعہ تعلیم کا فروغ ایک اہم فریضہ، اردو اسٹینڈاپ کامیڈین، پینل ڈسکشن: ہندی فلموں کا اردو ادب اور مشاعرہ شامل ہے۔ جیسے ہی میں بی کے سی پہنچا دور سے ہی ایک بڑا ہورڈنگ بورڈ نظر آیا، جس سے پتہ چلا کہ میلہ اسی گراونڈ میں ہورہا ہے۔
میلے میں شریک ایم آر پبلی کیشنز (دہلی) کے مالک عبدالصمد دہلوی نے گفتگو کے دوران بتایا کہ این سی پل یو ایل سن دو ہزار سے کتابی میلہ منعقد کررہا ہے۔ یہ ۶۲ واں میلہ ہے۔ جس سے اردو کو فروغ حاصل ہوا اور لوگوں تک کتابیں پہنچی ہیں۔ میلے کا اصل مقصد عوام تک پہنچنا ہے۔ میلہ کی اچھی بات یہ ہے کہ لوگ ہم سے رابطہ کرتے ہیں۔ ہمیں شائقین تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔ ممبئی کے اس میلے میں بچوں کی بڑی تعداد ہے، ظاہر سی بات ہے کہ اسکولی طلبہ کم قیمت والی کتابیں خریدتے ہیں۔ وہ اپنے جیب خرچ سے کتابیں خرید رہے ہیں، اردو کے جو بڑے ناشرین ہیں، ان کی ادبی و علمی کتابیں بچوں کے جیب خرچ سے باہر ہیں، جو دوچار ناشرین کم قیمت میں کتابیں شائع کرتے ہیں، ان کی کتابیں فروخت ہوئیں۔ اردو کے عام قاری میلے میں نہیں پہنچ پائے۔ جس کی اہم وجہ مقام کا تعین ہے، جو کہ آبادی سے دور ہے۔ اس پر کئی لوگوں کو شکایت رہی۔

mumbai-urdu-book-fair-2
کتاب کی مانگ میں اضافہ ہوا

الکٹرانک میڈیا، آڈیو کتابیں اور پی ڈی ایف کے دور میں کتابوں کا مطالعہ اور مانگ کے بارے میں عبدالصمد دہلوی نے کہا کہ جیسا جیسا الکٹرانک میڈیا نے اپنا شکنجا بڑھایا ہے، اس کے نتیجہ میں مطبوعہ کتابوں کو فائدہ ہی ہوا ہے۔ پی ڈی ایف ہونے کے باوجود لوگ مطبوعہ کتاب کی مانگ کرتے ہیں، کیونکہ وہ پی ڈی ایف تھوڑے دن پڑھ کر اکتا جاتے ہیں۔ پی ڈی ایف کی شکل میں مکمل کتاب پڑھی نہیں جاتی۔ پی ڈی ایف کتاب آئی فرینڈلی (پڑھنے میں آسانی) نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر لوگ کتاب کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ آج بھی کتابوں کی مانگ گھٹی نہیں بلکہ بڑھی ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ زبان یا کتاب گھٹ رہی ہے، وہ نکتہ نظر سے پورا انصاف نہیں کررہے ہیں۔
ممبئی کے قدیم اور معروف کتب فروش مولانا عبدالسلام خاں قاسمی نے بات چیت کے دوران بتایا کہ این سی پی یو ایل نے میلے کو سجانے، سہولیات کی فراہمی، منڈپ اور دیگر کاموں کو بہت اچھی طریقہ سے انجام دیا ہے۔ لیکن جگہ کا انتخاب آبادی سے ذرہ فاصلے پر ہے۔ یہی میلہ آبادی کے اندر ہوتا تو صورتحال کچھ اور ہوتی۔ لیکن ان کی مجبوری تھی کہ ممبئی میں آبادی کے اندر اتنی بڑی جگہ دستیاب نہیں۔ اس کے باوجود بھی لوگوں نے دور دراز سے آکر کتابیں خریدی۔ مولانا عبدالسلام خاں قاسمی کا دعویٰ ہے کہ جس کتاب کو لوگ ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک جاتے ہیں وہ کتاب دیر سوار ہی سہی ان کے یہاں سے فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

mumbai-urdu-book-fair-3
کس طرح کی کتابیں فروخت ہوئیں؟

ہدیٰ پبلی کیشنز، حیدرآباد کے مینیجنگ ڈائریکٹر عبدالباسط شکیل نے کہا کہ صبح کے اوقات میں بچوں کی کافی گہما گہمی رہی۔ بچوں کا ادب، رسائل اور عام معلوماتی کتابوں کی کافی مانگ رہی، ان کتابوں کو بچوں نے شوق سے خریدا۔ دینی موضوعات پر لکھی گئی کتابیں بھی اچھی خاصی تعداد میں فروخت ہوئیں۔ عام قاری یا بڑی عمر کی لوگ اپنی نجی مصروفیات کی وجہ سے سہ پہر چار تا رات ساڑھے نو بجے تک میلے میں شریک رہے۔ اردو کے عام قارئین نے شاعروں کے کلیات، شعرا و ادبا کی سوانح عمری، آب بیتیاں اورمعلوماتی ادب اور مجموعہ مضامین پر مبنی کتابیں خریدیں۔


اسکولی طلبہ کا ذوق و شوق

کل ہند اردو کتاب میلہ، ممبئی کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ روزانہ کئی اسکول انتظامیہ نے حمل و نقل کے انتظامات کرکے طلبہ و طالبات کی میلے میں شرکت کو یقینی بنایا۔ جس کی وجہ سے پورے میلے میں طلبہ و طالبات کی زبردست چہل پہل رہی، تقریباً ہر اسٹال میں طلبہ بڑی تعداد میں نظر آئے۔ ان بچوں نے میلے میں شریک ہو کر کتابوں کے ساتھ تصاویر لیں، ایک دوسرے سے کتابوں کے بارے میں باتیں کیں۔ بچے کہہ رہے تھے کہ "دادا اس اسٹال پر سستی کتابیں مل رہی ہیں"۔ اس اسٹال پر قصہ کہانیوں کی کتابیں زیادہ ہیں۔ وہاں کارٹونس اور ڈرائنگ کی کتابیں مل رہیں ہیں۔ فلاں جگہ مہندی ڈیزائن اور کھانوں کی اقسام یعنی پکوان کی کتابیں دستیاب ہیں۔ بچے کہہ رہے تھے کہ علامہ اقبال، احمد فراز، فیض احمد فیض، حسرت موہانی، اکبر الہ آبادی، پروین شاکر وغیرہ کی شاعری اور مولانا آزاد کی کتابیں تو وہاں دستیاب ہیں۔ اس طرح بچوں کی سرگوشیاں سننے لائق تھی۔ شاید ان بچوں میں کتابیں خریدنے کی سکت نہ ہو، لیکن ان کی کتاب میلے میں شرکت علم سے محبت اور کتابوں کے مطالعے کا شوق پیدا کرنے کا موثر ذریعہ ثابت ہوگی۔ کل جب وہ زندگی کے مختلف میدانوں میں کامیابیاں حاصل کریں گے تو اس کتاب میلے میں شرکت کو یاد کریں گے۔
بچوں کے ادیب اور ماہنامہ گل بوٹے کے مدیر فاروق سید نے بتایا کہ این سی پی یو ایل اور انجمن اسلام نے گل بوٹے کو ذمہ داری دی کہ وہ تمام اسکولوں سے رابطہ کریں اور انھیں میلے میں مدعو کریں۔ جس دن میلہ کا افتتاح تھا، اس دن دس ہزار بچوں کو مدعو کیا گیا، افتتاحی پروگرام شاندار پیمانے پر منعقد ہوا اور روزانہ پندرہ سے بیس اسکولوں کے طلبہ میلے میں شریک رہے۔ جن بچوں نے میلے میں شرکت کی، ان میں زیادہ تر بچوں نے بچوں کے ادب، سائنس اور کہانیوں سے متعلق کتابیں خریدی۔ اسکول انتظامیہ نے بچوں کو انفرادی طور پر ٹارگٹ دے رکھا تھاکہ ہر طالب علم تین سو سے پانچ سو روپیے کی کتابیں خریدیں۔ بچوں نے نہایت ہی خوش دلی سے میلے میں شرکت کی اور کتابیں خریدیں۔ اساتذہ کو بھی ٹارگیٹ دیا گیا ہے کہ وہ کم از کم دو ہزار کی کتابیں خریدیں اور اسکولوں کی لائبریری کے لیے دس ہزار کی کتابوں کی خریداری کا ٹارگیٹ دیا گیا۔ فاروق سید نے بچوں کے ادب پر توجہ دلاتے ہوئے بتایا کہ بچوں کا ادب لکھا تو جارہا ہے لیکن وہ قارئین کی بڑی تعداد تک نہیں پہنچ پا رہا ہے۔ہمارے ملک میں بچوں کے ادیب اور شاعر ایسے ہیں، جن کی بچوں کے ادب پر کم از ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔
فاروق سید نے میلے کے مقام کے انعقاد کے بارے میں بتایا کہ شہر کے قلب میں اتنی بڑی جگہ میسر نہیں تھی کہ اتنے بڑے میلے کا انعقاد عمل میں لایا جاسکے، اسی لیے اس میلے کو بی کے سی گراونڈ میں منعقد کیا گیا۔ این سی پی یو ایل نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سو اسی کتب فروشوں نے میلے میں شرکت کی یقینی دہانی کراچکے تھے، اسی لیے مذکورہ مقام کا انتخاب عمل میں آیا۔

mumbai-urdu-book-fair-4
کتاب میلہ : کامیاب یا ناکام؟

بیشتر ناشرین کا یہ کہنا تھا کہ میلہ تو شاندار پیمانے پر منعقد ہوا، لیکن جس طرح کتابوں کی فروخت اورعام شائقین کی آمد کی توقعات کی جارہی تھیں؛ وہ پوری نہیں ہوئیں۔معروف صحافی سعید حمید نے روزنامہ انقلاب ممبئی ایڈیشن میں ۱۶جنوری ۲۰۲۴کی شائع شدہ خبر کے حوالے سے لکھا کہ " میلے میں ایک لاکھ کتابیں فروخت ہویں، جن کی مجموعی مالیت ۷۵لاکھ ہے۔ مطلب میلے میں اوسطا فی کتاب ۷۵روپیے کی خریداری پر خرچ کیا گیا۔ جب کہ غیر اردو داں ریاست تامل ناڈو میں گزشتہ سال اردو میلہ میں۵۲ لاکھ کی کتا بیں فروخت ہو گیں"۔ میلے میں ناشرین کے ناموں سے متعلق جو بڑا بورڈ لگا ہوا تھا، اس میں کونسا اسٹال کس نمبر پر ہے؛ اس کا ذکرہی نہیں تھا، جس کو شائقین کو اپنے پسند کے ناشرین تک پہنچنے میں مشکل پیش آئی۔
بھیونڈی کے یاسر انصاری نے بتایا کہ اگر یہی میلہ اردو آبادی کے درمیا ن ہوتا تو میلہ بڑے پیمانے پر منعقد ہوتا۔ آبادی سے دور ہونے کی وجہ سے ایک تو ٹرانسپورٹ کا خرچ لگے گااور دوسرا وقت بھی ضائع ہوگا۔اردو آبادی کے درمیان میلہ ہوتا تو ان ہی پیسوں سے ایک دو کتابیں خریدی جاسکتی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ شائقین کو کتابوں کی خریدی کیلئے ناشرین کی جانب سے ڈسکاؤٹ کے باوجود این سی پی یو این کی جانب سے تمام ناشرین کی کتابوں پر دس یا پندرہ فیصد قیمت کی ادائیگی کی جائے تو کتابوں کی خریداری میں آسانی ہوگی۔ ایک اور بات جس کا میلے کے دوران مشاہدہ کیا گیا کہ میلے میں ثقافتی پروگراموں کی کثرت تھی۔ میلہ کا اصل مقصد کتابوں کی فروخت ہوتا ہے، جس پر شائد کم توجہ دی گئی ۔ بہرحال میلہ مجموعی طور پر اس اعتبار سے اہم رہا کہ بچوں نے بڑھ چڑھ کر کتابوں کاخریدی کی اور یہ میلہ نوجوان نسل کا اردو زبان سے قریب ہونے کا ایک موثر ترین ذریعہ ثابت ہوگا۔ جس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔



***
AbdurRahman Pasha, Musheerabad, Hyderabad.
mrpasha1994[@]gmail.com
موبائل : 09014430815
محمد رحمٰن پاشا

The 26th National Urdu Book Fair at BKC Bandra in Mumbai. Story: AbdurRahman Pasha

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں