جمیل شیدائی کی علمی و ادبی خدمات : کتاب تعارف - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2024-01-09

جمیل شیدائی کی علمی و ادبی خدمات : کتاب تعارف

jameel-shaidai-book

کتاب: جمیل شیدائی کی علمی و ادبی خدمات
مصنف: ڈاکٹر محمد شفیع الدین ظفر (نظام آباد، تلنگانہ)
صفحات: 322
ناشر: تعمیر پبلی کیشنز (حیدرآباد، تلنگانہ)

آن لائن خریداری
Amazon
Barnes & Noble
Walmart

جمیل شیدائی (مرحوم) نہ صرف اردو دنیا کی بلکہ فیس بک کے ایک اردو ادبی گروپ "ادبی محاذ" (ایڈمن: پروفیسر سید فضل اللہ مکرم، صدر شعبۂ اردو، یونیورسٹی آف حیدرآباد) کی ایک مہذب و محترم علمی و ادبی شخصیت رہی ہے۔ کسی زمانے میں جب یہ ادبی، لسانی و سماجی گروپ بہت فعال و متحرک ہوا کرتا تھا تب اس کی علمیت، فعالیت و شگفتہ آمیزی میں ایک بڑا حصہ جمیل شیدائی کا ہوا کرتا تھا۔ تقریباً اراکین ان کے تبصروں سے اس طرح محظوظ ہوتے اور جڑتے تھے گویا خاص انہی کے لیے کمنٹ کیا گیا ہو۔ ایسی دلچسپ علمی و ادبی شخصیت جب ایک دن (6/ اگست 2015ء) اچانک دنیائے فانی سے وداع ہو گئی تب کئی دنوں تک دل و دماغ اس سانحے کا یقین کرنے سے قاصر رہا۔ اللہ کریم ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں اعلیٰ درجات سے نوازے۔
ذاتی طور پر خود میں (مکرم نیاز) نے بھی جمیل شیدائی کی علمی و ادبی گفتگو سے خاصا فیض اٹھایا ہے۔ 2012ء کے اواخر میں جب راقم کے ویب پورٹل "تعمیرنیوز" کا آغاز ہوا تھا، انہوں نے ہی پورٹل کا انگریزی تعارف تحریر کرکے دیا تھا جو آج بھی ویب سائٹ کے (About Us) صفحہ پر جوں کا توں موجود ہے۔
نظام آباد (تلنگانہ) سے تعلق رکھنے والے قلمکار و استاد ڈاکٹر شفیع الدین ظفر قابل تحسین و ستائش ہیں کہ انہوں نے ایک اہم کام کا بیڑا اٹھایا اور جمیل شیدائی کے فن و شخصیت پر ایک مبسوط تحقیقی کتاب تصنیف کی۔ مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ ان کی یہ کتاب اپنے اشاعتی ادارے "تعمیر پبلی کیشنز" کے توسط سے قومی و بین الاقوامی سطح پر کتابی شکل میں شائع کی ہے۔ امیزون اور دیگر معروف آن لائن عالمی بک اسٹورس پر آج یہ کتاب وارد ہو گئی ہے۔ اور ہندوستانی قارئین کے لیے مناسب قیمت پر جلد ہی یہ مصنف اور ڈاکٹر اسلم فاروقی کے ذریعے دستیاب ہو جائے گی۔ کتاب کا سرورق مجھ ناچیز نے ڈیزائن کیا ہے۔


مصنف اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔

جمیل شیدائی کی اسکولی تعلیم حیدرآباد میں ہوئی۔ ان کے والد نے انہیں انگریزی و فارسی سے روشناس کرایا تھا لہذا جمیل شیدائی نے طالب علمی کے زمانے میں اردو کو بطور زبان اول اختیار کیا اور انٹرمیڈیٹ میں اردو مضمون میں پوری ریاست آندھرا پردیش میں سرِفہرست رہے تھے۔ بعد میں انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی، انڈسٹریل کیمسٹری میں ڈپلوما کیا اور حیدرآباد (بالانگر) کی ایک مشہور کمیکل فرم میں کوالٹی کنٹرول کیمسٹ کی حیثیت سے وابستہ ہو گئے تھے۔
جمیل شیدائی کا پسندیدہ مشغلہ مطالعہ تھا اور ہمیشہ اردو اور انگریزی کتابوں کے مطالعے میں منہمک رہا کرتے تھے۔ اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے ساتھ دامن ادب کو وسیع کرنے کا فریضہ بھی انہوں نے نبھایا اور اہل اردو کو متعدد کتابیں اور بیش قیمت مضامین دئیے۔ انگریزی نظموں کا سلیس اور جامع ترجمہ انہیں ایک بہترین مترجم ٹھہراتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کو چاہنے والے باپ تھے چنانچہ انہیں اچھی تعلیم اور اچھا ماحول عطا کرنے کی خاطر یاقوت پورہ کے امام باڑے کو خیرباد کہہ کر تارناکہ جیسے پوش مقام پر، جہاں جدید طرز تعلیم کے انگریزی میڈیم مدارس تھے، کرایہ کے گھر میں رہنا گوارا کیا۔ جمیل شیدائی کی اہلیہ ایک تعلیم یافتہ خاتون اور کالج لیکچرار رہی ہیں۔ ان کی چار لڑکیاں ہیں مگر جمیل شیدائی نے اولاد نرینہ سے محرومی کا شکوہ کبھی نہیں کیا۔ ان کی ایک دختر انجم اسپتال منیجمنٹ کی تعلیم کے بعد کناڈا میں مقیم ہیں، دوسری دختر منیزہ نے ایم۔کام کیا اور وہ بھی کناڈا میں قیام پذیر ہیں، تیسری دختر سیما بی۔فارما اور ایم۔ایس کے بعد ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں، چوتھی دختر نازیہ حیدرآباد کی گوگل برانچ میں ملازم ہیں۔
ملازمت سے سبکدوشی کے بعد جمیل شیدائی فیس بک کے مذکورہ گروپ "ادبی محاذ" میں شامل تو ہوئے مگر جب ان کی صحت کے مسائل پیدا ہوئے تو انہوں نے گروپ ایڈمن ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی آخری پوسٹ میں لکھا تھا:

"محترم ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم صاحب، السلام علیکم۔ میں آپ کا ممنون ہوں کہ فیس بک سے آپ ہی نے مجھے متعارف کرایا تھا جس کی وجہ سے کئی مکرم و محترم شخصیتوں سے نیاز کا شرف حاصل رہا اور اس باہمی ربط سے مجھے اپنی معلومات میں اضافے کا زریں موقع بھی ملا۔ اللہ کا بڑا کرم ہے کہ 'ادبی محاذ' اور 'میری بیاض' کے سارے ہی اراکین مہذب، شائستہ، قابل اور خوش مزاج ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں مصروفیت کی بنا پر اپنی حاضری سے معذور ہوں، اس لیے مجھے ان دونوں گروپس سے خارج سمجھا جائے۔"

جمیل شیدائی کا ایک شعر ہے:
ایک ہی بار سہی بات کا پہلو نکلے
اجنبی تجھ سے ملاقات کا پہلو نکلے


اور ان کی ایک مشہور نظم "سنو" یوں ہے:

سنو!
لاشوں کا انبار لگائے
تم کیا ایسا سوچ رہے ہو
خونِ ناحق چھپ جائے گا
تم کو یہ معلوم نہیں ہے
لاشوں کے انبار تلے سے
خون ناحق بہہ نکلے گا
اور پھر ایک انبار لگے گا
جس میں تمہاری لاش بھی ہوگی!


متذکرہ کتاب کے پس ورق کا متن ۔۔۔۔۔۔

جمیل شیدائی (پیدائش: 1943ء ، وفات: 6/اگست 2015ء)
شہر حیدرآباد کی مادر علمیہ جامعہ عثمانیہ کے ایک ایسے فرزند رہے ہیں جو اپنی ذات میں ایک انجمن ، ادیب، شاعر، ناقد، صحافی، مترجم، ڈراما نگار اور انشائیہ نگار تھے۔ بنیادی طور پر وہ سائنس کے گرائجویٹ تھے۔ چونکہ ان کے والد کے زیرسایہ ان کی ادبی تربیت ہوئی تھی لہذا ان کی ادبی زندگی کا آغاز ہرچند کہ شاعری سے ہوا لیکن مقبولیت انہیں اپنے ڈراموں سے حاصل ہوئی۔ ان کے ان گنت ڈرامے آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد سے نشر ہوئے اور پسند کیے گئے۔ "لبِ گفتار" اور "غالب خستہ کے بغیر" جمیل شیدائی کے ڈراموں کے مجموعے ہیں جنہیں اہل ادب نے سراہا ہے۔
جمیل شیدائی کو ترجمہ نگاری پر عبور تھا انہوں نے انگریزی ادب کے فن پاروں کو اردو میں اس انداز میں پیش کیا کہ ان کے تراجم تخلیق لگتے ہیں۔ جمیل شیدائی نے صحافتی خدمات بھی انجام دیں اور اپنے دوست پروفیسر رحمت یوسف زئی کے کہنے پر ڈاکٹر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی کے صحافتی ڈپلوما کورس کے لیے کتابیں ترتیب دیں۔ جمیل شیدائی کے فکر و فن پر ڈاکٹر مجید بیدار، ڈاکٹر قطب سرشار اور دیگر معاصرین نے مضامین لکھے ان کی یاد میں مجلہ 'عدسہ' کی جانب سے خاص نمبر شائع کیا گیا۔
نظام آباد (تلنگانہ) سے تعلق رکھنے والے قلمکار و استاد ڈاکٹر محمد شفیع الدین ظفر کی اس تحقیقی کتاب میں جمیل شیدائی کے حالاتِ زندگی اور ان کی علمی و ادبی خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے۔

***
سید مکرم نیاز
مدیر اعزازی ، "تعمیر نیوز" ، حیدرآباد۔
16-8-544, New Malakpet, Hyderabad-500024.
taemeernews[@]gmail.com

syed mukarram niyaz
Syed Mukarram Niyaz
سید مکرم نیاز
An introduction of book "Jameel Shaidai ki Elmi wo Adabi Khidmaat", a research work by Dr Mohammed Shafiuddin Zafar. Reviewer: Mukarram Niyaz

1 تبصرہ: