دنیا جہان کے موضوعات سمیٹ کر انسان کو فرحت و انبساط کا سامان مہیا کرنے کی جو کوشش ادب میں جاری ہے اس میں فکشن نگاری کا عمل دخل دیگر اصناف سخن سے کہیں زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فکشن میں یکے بعد دیگرے نئے نئے تجربات ہوتے رہے ہیں۔ کبھی کرداروں کے بغیر کہانیاں لکھی گئیں تو کبھی تجریدی اور تمثیلی پیرائے بیانیہ کا استمعال ہو ہوا، تو کبھی تخلیقی بیانیے کے اظہار پر زور دیا گیا ۔ فکشن کی اس صدی میں یعنی اکیسویں صدی میں آج جو لکھا جا رہا ہے اس میں ' وجودیت' پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے ، انسان اجتماعی معاملات سے نکل کر اب انفرادی سطح پر اپنی درونی کشمکش پر بات کرنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی ذات کی تمام جکڑ بندیوں سے آزادی کا متلاشی ہے ۔ ادب کے اس حالیہ بدلتے ہوئے منظر نامے پر فکشن نے جو کروٹ بدلی ہے اور اس کا اثر جن چند فکشن نگاروں کے یہاں نظر آیا ان میں مکرم نیاز کا نام بھی شامل ہے۔ مکرم نیاز کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے، وہ سالہا سال سے اردو ادب کی جس خاموشی سے خدمت کر رہے ہیں وہ نہ صرف لائق تحسین ہے بلکہ قابل صد افتخار بھی ہے۔
خاموش راستوں کے اس مسافر کا افسانوی مجموعہ " راستے خاموش ہیں" 2022ء میں تعمیر پبلیکیشنز حیدرآباد ( ناشر : فرح سعدیہ) سے شائع ہوکر منظر عام پر آیا جس نے ادبی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل کی۔ کتاب کا سرورق انتہائی دیدہ زیب ہے ، جسے دیکھ کر ہی گمان گزرتا ہے کہ ہم فکشن کی دنیا میں قدم رکھنے والے ہیں ۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ سرورق کی ڈیزائن خود مکرم نیاز صاحب نے کی، ایک ایسا فکشن نگار جسے لفظوں کے سحر سے قاری کو باندھے رکھنا آتا ہو وہ سرورق کی فکشنی ڈیزائن سے ہی قاری کو اپنے سحر میں لے لے ایسا کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
مجموعے کی فہرست میں مکرم نیاز کے پیش لفظ ' جو کہا نہیں وہ سنا کرو' کے ساتھ علامہ اعجاز فرخ، محمد حمید شاہد ، نعیم بیگ، عشرت معین سیما، ڈاکٹر ارشد عبدالحمید کے افسانوی مجموعے پہ مشتمل تاثرات، قارئین کے تبصرے اور تیرہ افسانے شامل ہیں ۔ جو کچھ اس طرح ہیں " تیری تلاش میں، آگہی، خلیج، راستے خاموش ہیں، سوکھی باؤلی، شکست ناتمام، زمین، گلاب کانٹے اور کونپل، اداس رات کا چاند، بے حس، کرن، درد لادوا، ایک وائلن محبت کنارے "۔
ان تمام افسانوں میں دنیا کی بے ثباتیوں ، انسانی قدریں کھوتے ہوئے رشتوں، جذبات انسانی کو برانگیختہ کر دینے والی حقیقتوں ، تغیر پذیر زمانے میں نسل نو کی پرورش کی نازک صورتحال ، روایات سے امکانات کی طرف رجوع جیسے موضوعات کو مکرم نیاز نے اپنے مخصوص انداز میں نہ صرف برتا ہے بلکہ یہ تمام موضوعات ان کے افسانوں میں اس طرح سمائے ہوئے ہیں کہ افسانےاختتام پر پہنچتے پہنچتے قاری کے ذہن و دل پر گہری ضرب چھوڑ جاتے ہیں۔ ایک ایسی ضرب جو رہ رہ کر کچوکے لگاتی ہے کہ آیا راوی ہی قاری ہے؟ یا قاری ہی راوی کے کردار میں اتر آیا ہے؟
یوں تو مجموعے کے کئی افسانے ہی اس کی بہترین مثال ہیں لیکن افسانہ ' تیری تلاش میں' قاری اور راوی کے درمیان کا یہ فرق ختم کرتا ہوا ایک بہترین افسانہ ہے۔ افسانے میں دنیا کی بے ثباتیوں کا ذکر راوی کی زبانی بیان ہوتا ہے جہاں ہر انسانی رشتہ محض دکھاوے کا ہے یہاں تک کہ انسان کا خود سے رشتہ بھی دکھاوا ہی ہے، انسان ہمیشہ خود غرضی میں مبتلا رہتا ہے۔ وہ ہمیشہ دوسروں سے خالص اور بے غرض محبت کا متلاشی ہے لیکن خود اس کا کتنا پابند ہے یہ افسانے کے اختتام پر معلوم ہوتا ہے جب وہ خالص محبت کی تلاش اپنے تمام خونی رشتوں میں کرتا ہے اور اسے وہ خالص محبت کہیں نہیں ملتی۔ لیکن جب اسے اپنے چھوٹے سے بچے کی آنکھوں میں وہ خالص اور بے غرض محبت کی چمک محسوس ہوتی ہے تو اگلے ہی پل اسے اپنا عکس بھی اس کی آنکھوں میں نظر آتا ہے جو اپنی تربیت اور چاہت کا اجر اس سے وصولنے کا تمنائی ہے۔ اور یہ انسانی فطرت کا وہ وصف ہے جو ہر انسان میں بدرجہ اتم موجود ہے۔
مکرم نیاز نے اپنے پیش لفظ میں فکشن کو مقصدیت کا حامل قرار دیتے ہوئے بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ ' افسانہ نام ہی با مقصد تخلیق کا ہے'، اور اچھی بات یہ ہے کہ مکرم نیاز کے اس افسانوی مجموعے میں شامل تمام افسانے ان کے اس قول کی وضاحت بھی کر رہے ہیں۔ افسانہ زمین بھی ایک ایسی ہی با مقصد تخلیق ہے جس میں افسانہ نگار نے واردات قلبی اور ذہنی افکار کے ساتھ عام قاری کے فہم و ادراک کو سامنے رکھ کر انسانی رشتوں کی زمینی حقیقت سے روبرو کروایا ہے۔انسان جب بے روزگار ہو، اس کی تعلیمی صلاحیتوں کی کوئی قیمت نہ ہو ، ڈگریاں محض چند سکوں کے عوض حاصل ہونے لگیں اور ہر طرف سے ٹھوکریں کھا کھا کر مایوسی کے غار میں پناہ گزیں ہو جائے تو اس کے مزاج میں کٹھور پن آ جاتا ہے ۔ اس کی سوچ ملحدانہ ہو جاتی ہے، خدا اور خدا کے کارناموں سے بھروسہ اٹھ جاتا ہے اپنے پرائے سب زہر لگنے لگتے ہیں اور وہ سب سے دور بھاگنے کی کوشش کرنے لگتا ہے، پیسے کمانے اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے لئے اپنا ملک اپنی زمین اپنے ماں باپ چھوڑ دینے میں بھی عار محسوس نہیں کرتا۔ لیکن پھر ایک وقت آتا ہے جب اس کے اپنے بچے بڑے ہوکر اسی طرح کی باغیانہ سرگرمیاں دکھاتے ہیں تب وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ، " ماں کی کوکھ میں نو ماہ نمو پا لینے کے بعد ایک علیحدہ وجود بن کر جب ہم الگ ہوتے ہیں تو بعد میں ہم کیوں یہ امر فراموش کر دیتے ہیں کہ ہمارا وجود خود ایک دوسرے وجود کی دین ہے۔ زمین اپنا حق طلب کرے یا نہ کرے لیکن اس کی ادائیگی تو بہرحال ہمارا فرض بنتا ہے۔" ( افسانہ ' زمین ' )
مکرم نیاز کی تخلیقی استعداد کی داد دینی پڑتی ہے جب افسانوں میں کئی جگہ اسی طرح کے جملے آتے ہیں۔ جو بالواسطہ یا بلاواسطہ افطرت انسانی کی اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں جسے اکثر اوقات انسان فراموشی کی دبیز چادروں تلے دفن کر دیتا ہے۔
" اور شہر ذات کے آئینے میں جھانکنے کی کوئی ہمت نہیں کرتا کہ کہیں خود بھی۔۔۔۔" ( افسانہ 'آگہی' )
" آدمی کا المیہ ہے کہ وہ اپنے باپ کا خود انتخاب نہیں کر سکتا۔ ورنہ میں ۔۔۔۔"( افسانہ ' خلیج' )
انسان کہاں ہے ؟ کہیں بھی تو نہیں ۔۔۔۔!( افسانہ ' زمین' )
یوں تو ادھورے چھوڑے گئے جملے اکثر اوقات ذہن کو کھٹکتے رہتے ہیں لیکن ان افسانوں میں مکرم نیاز کے ادھورے چھوڑے گئے جملے پورا افسانہ بنتے نظر آتے ہیں اور افسانہ نگار کی معراج اسی بات پر ہے کہ اس کے ادھورے چھوڑے گئے جملے قاری کے ذہن پر پوری طرح واضح ہوں یا نہ ہوں کم از کم قاری ان جملوں کو اپنی قوت استعداد کو بروئے کار لاکر ایک حد تک سمجھ سکے اور پورا کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہے۔
عورت کے بغیر کوئی کہانی مکمل نہیں ہوتی اور مکرم نیاز صاحب نے تو انتساب ہی ان تین خواتین کے نام کر رکھا ہے جن سے زندگی کے مختلف ادوار میں فیض حاصل کیا ، والدہ مرحومہ سیدہ عارفہ بیگم ، بڑی پھوپھو مرحومہ سیدہ حمیرا بانو اور رفیقہ حیات سیدہ فرح سعدیہ ۔ مکرم نیاز کے افسانوں کی عورتیں بے نام ہوکر بھی ہمیں یاد رہ جاتی ہیں ۔ چاہے وہ افسانہ خلیج کی طوائف لڑکی ہو یا سوکھی باؤلی کی دادی جان یا شکست ناتمام کی رجو یا افسانہ زمین کی 'ماں'، یا پھر اداس رات کا چاند کی لڑکی، یہ تمام عورتیں کسی نہ کسی روپ میں نہ صرف افسانوں میں موجود ہیں بلکہ ان کے بغیر یہ افسانے ادھورے ہیں۔
عورت ذات کی تکمیل سے لے کر اس کی تقدیر تک زمانے کی دقیانوسی سوچ کس طرح ان پر حاوی رہتی ہے یا پھر ماں کے روپ میں عورت کی قربانیاں جنہیں اکثر ہم فراموش کر دیتے ہیں مکرم نیاز کے اسلوبِ نگارش سے مزین ہوکر جب ہمارے ذہن کے پردوں سے ٹکراتی ہیں تو ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ عورت کو اس طرح بھی مثبت انداز میں افسانوں کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔
مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ " راستے خاموش ہیں" کے افسانے صرف افسانے ہی نہیں بلکہ زمانے کی حقیقتوں کی جیتی جاگتی تصاویریں ہیں جو ایک ایک کر آنکھوں کے سامنے ریل بن کر چلتی رہتی ہیں اور قاری ان میں اپنی زندگی کے نشیب و فراز دیکھتا رہتا ہے۔
زیبا خان (گوپامؤ ہردوئی، اترپردیش)
ای-میل: kzeba1674[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں