سخت ارزاں ہے گرانی میری : کالم از محمد ہاشم خان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-11-09

سخت ارزاں ہے گرانی میری : کالم از محمد ہاشم خان

palestine-israel-conflict-sub-continent-muslims-dilemma

گذشتہ کچھ ایام کوئی تبدیلی لائے بغیر بہت تیزی سے گزرے ہیں۔رات دن گردش میں رہے ضرور لیکن ہوا کچھ نہیں۔ معصوم فلسطینی بچوں کے قتل کا ابھی ٹھیک سے ماتم بھی نہیں کر پائے تھے، ملبوں سے لاشوں کو نکالنے کا سلسلہ ابھی بند نہیں ہوا تھا کہ شکیرا نے ہُمُک ہُمُک کر، تھرک تھرک کر، یوں کولہے مٹکائے کہ ہمارے، اخوانیوں، رافضیوں اور فلسطینیوں سب کے مسائل چشم زدن میں حل ہوگئے، ترسے ہوئے عابدوں کے ایمان تازہ ہوگئے، بادیہ نشینوں کے کمہلائے ہوئے زرد گھوڑے ہنہنانے لگے، مُردگانِ خاک غیرت سے جی اٹھے، آتش پرستوں کی بانچھیں کھل اٹھیں، مردِ بیمار کے بھوکے معتقدین کو نئی کمک مل گئی، جہانِ سراب میں سرگرداں ساربانوں کو سمت مل گئی، اب اُن کی ہفوات و مخافات کا محور اسرائیل کے بجائے عرب کے شتربان تھے۔ ایران، ترکی، مصر اور پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک کہاں اٹھ بیٹھ رہے ہیں، کہاں ہگ موت رہے ہیں، اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ آہوانِ حرم اپنے ختن میں چلے گئے سو ہم بھی وطن عزیر کی خاک آلود تعفن آمیز گلیوں میں لوٹ آئے جہاں ہر سو اور ہر قسم کی مفلسی پسری ہوئی ہے۔اب اگر فلسطینی مرتے ہیں تو مرنے دیں، کیا فرق پڑتا ہے، کوئی آج سے مر رہے ہیں؟ گزشتہ ستر سال سے مر رہے ہیں، کوئی ہم سے پوچھ کر مر رہے ہیں؟ اپنی مرضی سے مر رہے ہیں سو ہمیں ان کی مرضی کا احترام کرنا ہے۔ ہمارے اوپر ان کا ایسا کوئی احسان نہیں ہے کہ ان کے غم میں اپنے شب و روز تباہ کر لیں، ہمارے اپنے غم کون سے کم ہیں کہ ایک اور غم کو دل سے لگائے پھریں؟ ہمارے اپنے اندر بھی کئی فلسطین آباد ہیں، روز مرتے ہیں، روز جیتے ہیں، روز کچھ نہ کچھ مسمار ہوتا ہے، روز ایک آدھ خشت کم ہوتی ہے، ایک آدھ بالشت دیوار روز گرتی ہے، دھول اڑتی ہے، اڑ کر وہیں بیٹھ جاتی ہے، ہمسائے کو کچھ خبر نہیں، دوست احباب کو ضرورت نہیں۔ ہمارا فلسطین بھی مرتا ہے ایسے ہی جیسے فلسطینی مرتے ہیں۔ بس ایک فرق ہے۔ ہمارے مرنے کا کوئی غم نہیں ہوتا کیوں کہ ہم مرنے کی طرح نہیں مرتے، ہم گھٹ گھٹ کر مرتے ہیں، کُڑھ کُڑھ کر مرتے ہیں اور وہ یوں مرتے ہیں کہ سر زمین خلیل اللہ کو لالہ زار کردیتے ہیں سو ہمیں فلسطینیوں کے مرنے کا نہیں اپنے رائگاں جانے کا غم ہونا چاہئے اور ہمیں اپنے مرنے کا غم کبھی نہیں ہوگا کیونکہ ہم حقیقت سے پرے، سراب میں جینے والے وہ بے چہرہ ہجوم ہیں جو اپنی خیالی دنیا سے کبھی باہر نہیں نکلتا، اس بے وقعت ہجوم کے اندر اپنی ترجیحات متعین کرنے کا شعور نہیں ہے، خود کو طاقت میں تبدیل کرنے کی فراست نہیں ہے، ہر جگہ ناصیہ فرسا ہے، ہر سو ذلیل و خوار پھرتا ہے، ہجومی تشدد میں ایک آدمی مرتا ہے تو پتلون گیلی کر بیٹھتا ہے، اور بات کرتا ہے غیرت کی، حمیت کی، عزت و ناموس کی، احتجاج کرنے کی طاقت نہیں ہے لیکن فلسطین کو اسرائیل کے سوئے استبداد سے ضرور آزاد کرائے گا۔ اسے جذبۂ خیر نہیں ہذیانی جہالت کہتے ہیں۔ اور پھر ہجومی تشدد میں مرنے والے کی شان بھی ملاحظہ فرمائیں؛ دیکھیں کہ اس کی موت کس قدر قابل دید اور قابل عبرت و نصیحت ہوتی ہے۔ وہ گڑگڑاتا ہے، پاؤں پڑتا ہے اور بالآخر ایک ذلت بھری موت مر جاتا ہے، وہ پیرہنِ خاک ہوتا ہے، ہم انا للہ پڑھتے ہیں، المسلم اخوالمسلم کا حق ادا کرتے ہیں اور اپنی خساست و روباہی میں مگن ہو جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم اس قابل نفریں موت پر سو بار لعنت بھیجیں، یہ راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں کہ اسلام خطرے میں ہے، مسلمان خطرے میں ہے۔ اسلام نہ کبھی خطرے میں تھا اور نہ قیامت تک خطرے میں رہے گا، لیکن ہاں اس قسم کا مسلمان ہر پل خطرے میں رہے گا اور دوسروں کے لیے بوجھ بنا رہے گا۔ایک آزاد ملک میں بیس کروڑ مسلمان اگر خطرے میں ہے تو یہ50 لاکھ فلسطینیوں کی مدد کیسے کرے گا؟ یہ ہے وہ بنیادی حقیقت جسے ہندوستان کے جملہ مسلمانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور جس دن وہ اس حقیقت کو سمجھ جائے گا وہ عزت سے اپنے جینے کا سامان بھی فراہم کرلے گا اور دوسروں کے کام بھی آ جائے گا۔

فلسطین کے حوالے سے میرا موقف بہت واضح ہے اور وہ یہ کہ یہ مسئلہ طاقت نے پیدا کیا تھا اور طاقت ہی اسے حل کرے گی۔ باقی سارے فلسفے غیر مطمئن ضمیر کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ فی الحال اس مسئلے کے حل کا کوئی اور امکان موجود نہیں ہے۔ مغربی استعمار کے پاس طاقت تھی سو انہوں نے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل نام کی میخ ٹھونک دی اب اگر آپ کے اندر طاقت ہے تو آپ ایران توران کرنے کے بجائے اسے اکھاڑ پھینک دیں۔ اب آپ کہیں گے کہ دنیا کا موجودہ نظام جس جیو پولیٹکس کے تحت چل رہا ہے اس میں ہر ملک کی اپنی ایک سرحد متعین ہے، اس کی خلاف ورزی اس ملک پر حملہ متصور ہوگا تو اس کا بس ایک ہی جواب ہے کہ اگر آپ کے پاس طاقت ہے تو سارے اصول آپ کے ہیں اور اگر طاقت نہیں ہے تو پھر سارے اصول آپ کے لیے ہیں۔ ویت نام، افغانستان، عراق اور لیبیا وغیرہ پر امریکی حملے اس کی بین مثالیں ہیں۔ لہٰذا ہذیان

بکنے سے کہیں بہتر ہے کہ ساری توانائی خود کو ایک گرانقدر سرمائے میں تبدیل کرنے پر صرف کریں۔ جذباتی ہونا بذات خود ایک مسئلہ ہے اس وقت تک جب تک کہ آپ کے اندر اُسے بطور ہنر استعمال کرنے کا فن نہیں پیدا ہوتا اور یہ فن اتنی آسانی سے ہاتھ نہیں آتا۔ لہٰذا جذبات کو طاقت میں تجسیم کرنے کے مراحل کو سمجھنا ہوگا اور یہ بات پدرم سلطان بود کے سائے میں جنما ہوا مسلمان نہیں سمجھے گا۔ مسئلے کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ممبئی کے مضافات میں واقع ایک مسلم اکثریتی علاقہ ممبرا کو لے لیں اور اسے دنیا میں ہر اس جگہ پر منطبق کر دیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ 2012 میں ممبرا کی کل آبادی 9 لاکھ تھی، اب 2023 میں یہ آبادی کم از کم 16 لاکھ ہوگئی ہوگی۔ مسلمان اکثریت میں ہیں لیکن آج تک کوئی مسلم یہاں کا ایم ایل اے نہیں ہو سکا۔ جس دن آپ کو اس کی وجہ سمجھ میں آ جائے گی آپ یقیناً فلسطینیوں کی مدد کرنے کے قابل ہو جائیں گے؛ تب تک صرف 'لا مساس لا مساس' کہیں۔

***
محمد ہاشم خان، ممبئی

The Palestine Israel bloody conflict and the dilemma of sub-continent Muslims

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں