خواتین کیرالا کی بحیثیت اساتذہ اردو میں اہم خدمات : تجزیہ و تذکرہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-10-15

خواتین کیرالا کی بحیثیت اساتذہ اردو میں اہم خدمات : تجزیہ و تذکرہ

women-teachers-kerala

سماج میں اساتذہ کا کردار ہمیشہ قابل تعریف اور اہم مانا جاتا ہے اس کے بغیر معاشرہ کی بہترین تشکیل ممکن نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ "ماں کا گہوارہ" بچہ کا پہلا مدرسہ یا اسکول ہوتا ہے جس سے اس کو سمجھنے اور سیکھنے کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ ماں جتنی عمدہ کردار کی ہوگی بچوں میں اسی طرح کا اثر وقوع پذیر ہوگا گویا یہ کہنا درست ہوگا کہ ایک بچے کو جتنا بہتر ایک عورت سمجھ اور سمجھا سکتی ہے اتنا دوسرا نہیں سمجھ سکتا ہے مگر چونکہ تعلیمی و تدریسی پیشہ عموما مرد ہی اختیار کرتے تھے لہذا عورتوں کا پیشہ وارنہ طور پر تدریسی خدمات سے جڑنا سماج میں عام نہیں تھا یعنی ایک زمانہ تک تعلیم و تدریسی خدمات مردوں تک محدود تھا یا محدود سمجھا جاتا تھا مگر وقت کے ساتھ لوگوں کی ان دقیانوسی فکروں میں تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ آج ہر میدان میں عورتیں مرد کے مساوی کھڑی ہیں خاص طور سے تعلیم کے میدان میں بہ حیثیت استاد مردوں کے بہ نسبت خواتین کی اچھی خاصی تعداد اس پیشہ جڑ چکی ہیں اور مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کو استاد کی حیثیت سے ترجیح بھی دی جا رہی ہے۔ جبکہ یہی چیزیں کچھ زمانہ قبل معیو ب سمجھی جاتی تھیں۔


چنانچہ جب 1970ء کے بعد کیرالا میں اردو کی تعلیم کے لیے سازگار ماحول تیار ہوا تو مردوں کے ساتھ عورتوں نے بھی اردو کی تعلیم و تدریس میں وافر حصہ لیا، چونکہ اردو کی تدریسی میدان میں خواتین کے لئے مستقبل میں بہترین امکانات روشن تھے اس لئے کیر ا لا کی بہت سی خواتین نے اولا اردو میں بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کی جس طرح دوسر ی عنوانات میں بی اے۔ پی چی۔ ایم فل۔ پی ایچ ڈی وغیرہ کے حصول کی سنجیدہ کوشش ہوئی اسی طرح اردو سبجیکٹ کو خواتین کیرالا نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو کی تعلیم یافتہ خواتین کی ایک جمعیت تیارہوگئی جس نے کیرالا کی اسکولوں کالجو ں اوریونیورسٹیوں میں بہ حیثیت ٹیچرس لکچررس اورپروفیسر س کے اپنی وجود کا لوہامنوایا اور آج جگہ بہ جگہ پرائمری سے ہائی ایجوکیشن تک عورتیں بہ حیثیت استاد موجود ہیں۔ خواتین میں سے چند مشہور و معروف کا تذکرہ درج ذیل ہے۔


ڈاکٹر صفیہ بی صاحبہ۔ خواتین کیرالا کی پہلی اعلی تعلیم یافتہ خاتون صفیہ بی ہیں انہوں نے کالی کٹ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور ڈاکٹر صفیہ بی بن گئیں۔ انہوں نے اپنی تدریسی خدمات کی ابتدا انجمن اردو کالج تلششیری سے کیا بعدازاں فاروق کالج کالی کٹ میں لکچرر کی حیثیت سے تقریبا 32 سال تک خدمات انجام دیں۔ پھر 1996ء میں شری شنکر آچاریہ سنسکرت یونیور سٹی کوئیلانڈ ی ریجنل سینٹر میں صدرشعبۂ اردو کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا اور 2010ءمیں وہ وظیفہ یاب ہوگئی۔ محترمہ صفیہ بی۔ کاشمار ایک عمدہ محققین میں ہوتا ہے جس وقت یہ شری شنکراچاریہ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کی صدر تھیں ان کے تحت کیرالا کے بہت سے اعلی تعلیم یافتہ شخصات نے پی ایچ ڈی اور ایم فل کی ڈگریاں مکمل کی ہیں۔
جیسے ڈاکٹر "کے پی شکیلہ"صدرشعبہ اردو، ملاپور م کالج۔ ڈاکٹر "ضیاء الرحمن مدنی" استاد شانتا پورم۔ ایم کے ڈاکٹرمحمدسلیم، ڈاکٹر قمرالنساء وغیرہ۔ آج بھی وہ اردو محققین کی گاہے بگاہے رہنمائی کرتی ہیں۔ ان کی رہنمائی میں ڈاکٹریٹ حاصل کرنے والے طلباء اردوکی تعلیم وتدریس میں اعلی مقام پر فائز ہوکر کیرالا کے مختلف مقا ما ت میں اردوکی ترقی وترویج کے لئے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ محترمہ صفیہ صاحبہ نے اردو کی بہت گراں قدر خدمات انجام دی ہیں وہ ایک اچھی شاعرہ ،ادیبہ ہونے کے ساتھ کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں ان کے علاوہ وقتا فوقتا سیمناروں اور رسالوں میں بھی ان کے مضامین شائع ہوتے اور عوام سے داد وتحسین بٹورتے رہتے ہیں۔


ڈاکٹر کے پی شکیلہ صاحبہ۔ اردو میں اعلی تعلیم یافتہ خواتین کیرالا میں ایک نام محترمہ شکیلہ کے ،پی، کا ہے جوگورنمنٹ کالج ملاپورم میں صدرشعبۂ اردو کی حیثیت سے اردوکی خدمات انجام دے رہی ہیں صدارت کے ساتھ اردو لائبریری کی ذمہ داری بھی سنبھالتی ہیں اور یقینا یہ دونوں ذمہ دار یاں محترمہ بہ حسن وخوبی سے نبھارہی ہیں حسب ضرورت بچوں کے لئے مواد تلاش کر انہیں امتحانات کے موقعہ پرمعاونت بھی کرتی ہیں جس سے بچوں میں ان کی ایک ممتاز حیثیت ہے۔ اب تک ان کے سینکڑوں شاگرد ہوچکے ہیں جو کیرالا کے مختلف مقامات پر اردو کی ترقی میں معاو ن ثابت ہورہے ہیں۔ موصوفہ شکیلہ صاحبہ نے ڈاکٹر صفیہ صاحبہ کی نگرانی میں شری شنکرآچاریہ یونیورسٹی سے کیرالا کی مشہورناول نگار زلیخا حسین کی ناول نگاری پر" پی ایچ ڈی" کی ہے اور یہ بھی ان کی خصوصیت ہے کہ زلیخاحسین کی تقریبا ساری ناولیں انہیں کے پاس موجود ہیں جس میں راقم کی ڈاکٹر شکیلہ صاحب نے بھرپور مدد کی ہے اور ہر طریقے سے انہوں نے کیرالا کے متعلق محررہ مختلف مقالات کو مہیاکرایا ہے میں ان کا تہہ دل سے ممنون مشکورہوں کہ انہوں نے کیرالا میں اردوکی تحقیق میں اخلاص وخندہ پیشانی سے معاونت کی۔ ان جیسی منکسر المزاج کم ہی لوگ ہوتے ہیں جو اعلی عہد ہ پر فائز ہونے کے بعد بھی ایک انجان آدمی کی مدد کے لئے ہمہ وقت تیارہوں۔


ڈاکٹر سبیدہ موژکل صاحبہ۔ خواتین کیرالا میں اردو کی ترقی میں اہم رول اداکرنے والیوں میں ایک نام سبیدہ موژکل صاحبہ کا ہے انہوں نے تقریبا ۹ / سال تک ہندی ٹیچرکی حیثیت سے ایرنا کولم ےیوپی اسکول (Upper Primary) میں خدمت انجام دی پھر 2013ءمیں گورنمنٹ کالج ملاپورم میں لکچرر کی حیثیت سے تقرری ہوئی اردوکی ترقی کے کاموں میں ان کی شرکت رہی ہے شعبہ اردو کی تمام تقریبات میں شریک ہوتی ہیں اور اپنی طرف سے اردو کی بھرپور ترقی میں معاونت کرتی ہیں ان کے علاوہ (SCERT)کی کتابوں کی تیاری میں بھی ان کی شرکت رہتی ہے۔ سبیدہ صاحبہ کالج کے women cellکی رکن بھی ہیں جو خاص طورسے لڑکیوں کی ترقی کے لئے خدمات انجام دیتی ہیں۔ نیز Program Aditional skill Acquicition (ASAP) کی ایک ممبر بھی ہیں۔


سی ایچ ممتاز صاحبہ۔ خواتین کیرالا میں ایک نام ممتاز سی ایچ کا ہے جو وینگراvengraایچ ایس ایس میں ٹیچر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتی تھی بعد ہ 2013ء میں گورنمنٹ کالج ملاپورم میں تقرری ہوئی اوریہاں اردوکی تر قی کے لئے سرگرداں ہیں۔


سمینہ صاحبہ۔ سمینا بی صاحبہ کا نام بھی اردوکی خدمات میں اہم ہے یہ تلشیری برنن کالج کے صدر شعبہ اردوکی حیثیت سے یہاں اردوکی تعلیمی و تدریسی کاموں مصروف ہیں جمیلہ صاحبہ۔


جمیلہ صاحبہ۔ یہ بھی اردوکی خدمات میں پیش پیش رہتی ہیں GHS EDAKKARA میں ٹیچر کی حیثیت سے تدریسی کام کی ابتدا کی پھر رفتہ رفتہ اردو کی ترقی سے وابستہ ہوگئیں 2006ءHSS میں کام کرتے وقت Punarppa UP School کے طلباء کے لئے جھلک نامی رسالہ میں بچوں کے لئے چھوٹی چھوٹی کہانیاں شائع کیں ان اسکولوں کے ماتحت ہر سال اردو کلب کی ماتحت میں پروگرام منعقد ہوتے ہیں جس میں SSLC PLUS 2کے طلباء میں اردو سے دل چسپی پیداکرنے کے لئے "غزل پروگرام" میگز ین ورکشاپ وغیرہ کا انقعاد کرایاجاتاہے جس میں جمیلہ صاحبہ کی معیت میں UP HSSکی ٹیچر س کی خدمات بھی قابل تعریف ہے۔


جولی سوفیاصاحبہ۔ جولی سوفیا ضلع ترشور میں ٹیچرکی حیثیت سے خدمات انجام دیتی ہیں۔ 1990ء میں ارپورہائی اسکول میں ٹیچرکی حیثیت سے کام کرتی تھی اور گھر پر "ادیب فاضل" کی سلبس کے تحت اردو کلاس بھی لیتی تھی SRG DRGکی حیثیت سے ITکے طلباکو بھی پڑھا تی ہیں وہیں ساتھ ہی اردوکی ترقی کے لئے بھی اپنی خدمات انجام دیتی ہیں۔


حسینہ صاحبہ۔ خواتین کیرالا میں ایک خاتون حسینہ صاحبہ ہیں جو 1998ء میں کاسرکوڈ کےUPاسکول میں بحیثیت ٹیچر خدمات انجام دیتی تھی بعد ازاں 1999ء میں HSA میں تبادلہ ہوا انہوں نے مختلف شعبہ میں کام کرتے ہوئے SRG DRGکے لحاظ سے اردوکے لئے بھی کوشش کی ہے 2010ء میں گورنمنٹ برنن کالج میں اردوداں حضرات کے لئے آئی ٹی اور نفسیات میں بھی کلاس لیتی تھیں۔


انہی جیسی کاسرکوڈ میں اردوٹیچر کے طور پر کام کرنیوالی "سجادہ صا حبہ"۔ ضلع کنورسے" حفصہ لتا صاحبہ"ضلع کالی کٹ سے زلیخا صاحبہ، شکیلت بی بی، مکم کے" سروجنی" تانور سے کے بی بی، ماہی سے کے سفرت، وڈولی کی رقیہ، اشا، پانکاڈ کے" سمگلا دیوی، وغیرہ کیرالا وہ خواتین ہیں جو اردو کی ترقی میں کچھ نہ کچھ خدمات انجام دیتی رہتی ہیں اور اردو کی ترقی کے لئے ذاتی طور سے تھوڑی بہت کوشش کرتی رہتی ہیں۔


اردوکے امتحانی بیاضات کی چیکنگ paper valuation میں 22 اساتذہ شامل ہوئے جن میں 8 خواتین تھیں۔
نفیسہ صاحبہ۔ کا تعلق ترشورسے ہے یہ بھی اردو ٹیچرکے طور خدمات انجام دیتی ہیں SCERTکے ورک شاب میں بھی شامل رہتی ہیں آبشار نامی رسالہ میں طلباکے فنی قسموں کو شائع کیا تھا ترشور میں ان کے کافی شاگرد ہیں۔ کیرالا کی خواتین کا اردوکی ترقی میں مختلف طریقے سے معاونت رہتی ہے بہت سی عورتیں باقاعدہ اسکولوں کالجوں میں اردو زبان کی تعلیم دیتی ہیں اور بہت سی خواتین اردو سے متعلق ورکشاب میں حصہ لیتی ہیں وہیں بہت سی خواتین اردو میں منعقد پروگرام کی حصہ رہتی ہیں بعض اسکولوں کالجوں میں اردو کے متعلمین کچھ میگزین رسالہ تیارکرتے ہیں ان میں خواتین بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔


بہر صور ت اردوکی ترقی میں خواتین کیرالا کہیں سیدھے طور سے اور کہیں کسی وسائل سے شامل رہتی ہیں۔ ان میں بہت سے خواتین ایسی ہیں جن کا کہیں کوئی اردو کا اعلی تعلیم یافتہ شاگر د تذکرہ کردیتا ہے اور کہیں کوئی چھوڑ دیتا ہے البتہ جو کسی بڑے عہد ے پر اردو کی خدمات میں پہنچ جاتی ہیں ان کا ذکر تو عام ہوجاتا ہے اور جو اعلی عہد ے پر نہیں پہنچ پاتی ہیں وہ ذاتی طو ر پراردوکی ترقی میں کافی کوشاں ہوتی ہیں پر ان کانام عوام میں مشہور نہیں ہوپاتاہے۔


ان حالات میں جب ہم کیرالا کے مختلف ضلعوں کا اردوکی ترقی میں خواتین کیرالا کی حصہ داری کا مطالعہ کرتے ہیں توہم پاتے ہیں جہاں جہاں اردو کا چلن ہے وہاں وہاں بلا تفریق مذہب وملت عورت ومرد دونوں حضرات کا اردوکی ترویج وترقی میں اہم رول رہاہے بس کوئی شہرت کی اچائی کو پالیتاہے اور کوئی بھول بھولیاکی نذر ہوجاتاہے۔ مختصر طور سے ان میں سے کچھ کا نام پیش کیا جارہا ہے۔ UP اسکولی سطح پر، سودہ ،، پالاکاڈ، رمابائی ، زینب ، آمنہ ،تانور۔ مریم ،پروینا۔ پیرندل منا۔ سودہ ،ملاپورم۔ جمیلہ منجیری۔ آمنہ ،کنور۔ نفیسہ ترشور۔ جولی کٹی تومس،جولی سوفیا، ترشور۔ حسینہ، سجادہ، کاسرکوڈ۔ قمرالنساء کالی کٹ۔ اعلی تعلیم یافتہ خواتین جنہوں نے مختلف عنوانا ت پر اردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ شانو پروین (راجیندرسنگھ بیدی کے افسانوں میں عورت کاتصور ) قمرالنساء (کرشن چند ر کے افسانو ں میں سماجی مسائل )مبینہ بی ،(پت جھڑ کی آواز )شکیلہ کے پی۔ (زلیخاحسین کی ناول روح کے بندھن کا تجزیاتی مطالعہ )ودیاپی ، (جوگیندرپال کے افسانوی مجموعے کھودو بابا کا مقبرہ: ایک تجزیاتی مطالعہ) شمیہ بانو، (مشتاق احمدیوسفی بہ حیثیت مزاح نگار) سمیہ،او، (مولانا ابوالکلا م آزاد حیات اور خد ما ت ) وغیرہ نے سری شنکراچاریہ یونیورسٹی سے ایم فل وغیرہ کی ڈگری پانے والی خواتین ہیں۔

***
محمد مستقیم احمد اشرفی
Darul Huda Islamic university, Malappuram, Kerala
ای-میل: Faizyma[@]gmail.com

Women teachers in Urdu teaching in Kerala. By: Mohd Mustaqeem Ahmad Ashrafi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں