40 ہزار ٹن سے زیادہ بم برسانے کے بعد آخر کار اسرائیل چار روزہ جنگ بندی پر راضی ہوگیا۔ اسرائیل سے آنے والے سرکاری بیانات کے لہجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر وہ اپنے یرغمال شہریوں کی رہائی کو یقینی بنانے کیلئے اس عارضی جنگ بندی پر راضی ہوا ہے اور فلسطین کے بے قصور شہریوں کی اسے اب بھی کوئی پروا نہیں ہے۔ جنگ بندی کے عملی نفاذمیں ایک دن کی تاخیر بھی ہوئی اور اس دوران اسرائیل کے درندہ صفت فوجیوں نے مزید شدت کے ساتھ معصوم بچوں اور عورتوں پر بم بھی برسائے۔
اس موضوع سے متعلق مختلف رپورٹوں اور تجزیوں کا سرسری جائزہ بتاتا ہے کہ اسرائیل کو جنگ بندی پر 'مجبور' کرنے کے اور بھی کئی اسباب وعوامل ہیں۔ان میں حماس کے ذریعہ برسائے جانے والے راکٹوں کی غیر معمولی تعداد اور خود اسرائیل کی اقتصادیات کو پہنچنے والے غیر معمولی نقصان کو دو سب سے بڑے اسباب قرار دیا گیاہے۔
جنیوا میں قائم حقوق انسانی پر نظر رکھنے والی تنظیم (یورو-میڈمانیٹر) نے دعوی کیا ہے کہ خود اسرائیل کے اعترافی بیان کے مطابق وہ دو نومبر تک غزہ میں 12 ہزار بم برساچکا تھا۔ اس بمباری کی زد میں آنے والے فلسطینیوں کی تعداد کی رو سے یہ حساب بھی لگایا گیا ہے کہ اسرائیل نے فی کس فلسطینی کے سر پر دس کلو گرام سے زیادہ بارود برسایا ہے۔
اگست 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر امریکہ نے جاپان کے شہر' ہیروشیما اور ناگاساکی' پر جو بارود برسایا تھا اس کا وزن 15ہزار کلو گرام کے قریب تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں تین ہیروشیما اور ناگاساکی کے برابر تباہی مچائی ہے۔ بمباری کے وقت ہیروشیما اور ناگاساکی کا رقبہ 900 مربع کلومیٹر تھا جبکہ غزہ محض 360 مربع کلو میٹر رقبہ پر مشتمل ہے۔ یہ فرق بھی ملحوظ رہے کہ اب سے 77-78سال پہلے وہ عسکری ٹکنالوجی نہیں تھی جو آج ہے۔ لہذا تباہی وبربادی کی جوشدت ہیروشیما اور ناگاساکی میں ریکارڈ کی گئی تھی' غزہ میں اس سے کئی گنا واقع ہوئی ہوگی۔ابھی اس کا تجزیہ کیا جانا باقی ہے کہ غزہ میں اس تباہی کے کیا دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
رپورٹس کے مطابق اسرائیل بھاری تباہی مچانے والے بم استعمال کرتا ہے۔اس کے پاس 150کلو سے لے کر ایک ہزار کلو تک کے بم ہیں۔ اسرائیل کے وزیر دفاع (جنگ) یووا گالانت نے بتایا ہے کہ اسرائیل نے دس ہزار بم تو صرف غزہ شہر پر ہی برسائے ہیں۔ حقوق انسانی پر نظر رکھنے والی مذکورہ تنظیم نے اور بھی کئی خوفناک حقائق کو دستاویزی شکل دی ہے۔مثال کے طور پر اس نے بتایا ہے کہ اسرائیل نے عالمی سطح پر ممنوع ہتھیار بھی اہل غزہ پر استعمال کئے ہیں۔ان میں کلسٹر بم اور فاسفورس بم شامل ہیں۔ان سے جو آکسیجن پیدا ہوتی ہے وہ تین گنا جلن کا احساس کراتی ہے۔
رپورٹ کی جزئیات بہت بھیانک ہیں۔ اسرائیل ایک طرف جہاں بڑی تعداد میں اہل غزہ کو مارنا چاہتا ہے وہیں وہ غزہ کی فضا میں ایسے زہریلے کیمکل گھولنا چاہتا ہے کہ زندہ رہ جانے والے فلسطینی موت کی خواہش کریں۔ زیر بحث 48 روزہ جنگ میں اس نے یہی سب کیا ہے۔اس کے باوجود وہ نہ صرف حماس کے بلکہ عام فلسطینیوں کے حوصلے توڑنے میں ناکام رہا۔جنگ بندی کے بعد اسرائیل کی قید سے چھوٹ کر 39 فلسطینیوں کا جو پہلا گروپ آیا اس کے استقبال کیلئے پورا غزہ سڑکوں پر نکل آیا۔جس غزہ میں 13ہزار سے زیادہ شہداء کے کفن کا خون ابھی اجتماعی قبروں کی مٹی میں خشک بھی نہیں ہوا' وہاں39 فلسطینیوں کی رہائی پر ایسا جشن اس امر کا غماز ہے کہ وحشی درندہ کا 40 ہزار ٹن بارود اہل فلسطین کوان کے اصل مقصد سے نہیں بھٹکا سکا ہے۔۔۔
اسرائیل اپنی زندگی کے بدترین دور میں ہے۔اس جنگ نے اسے عدیم المثال اور غیر معمولی نفسیاتی'ذہنی' مالی' عسکری' اقتصادی' سیاسی اور سفارتی نقصان پہنچایا ہے۔ 40 ہزار ٹن بارود ہوا میں تیار نہیں ہوجاتا۔ اسرائیل نے اس بارود کو زیادہ سے زیادہ خطرناک اور مضرت رساں بنانے کیلئے اپنے دفاعی بجٹ کا کتنا حصہ خرچ کیا ہوگا اس کا اندازہ اسرائیل کے ریزروبنک کی تشویشات سے لگایا جاسکتا ہے۔رپورٹس کے مطابق اسرائیل کا عوامی فلاحی بجٹ افراتفری کا شکار ہو گیا ہے' اس کی گھریلو شرح نمو گرگئی ہے اوراس کی کرنسی 'شیکل' کی قیمت بہت نیچے آگئی ہے۔
ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ جنگ کا ماحول ختم ہوتے ہی اقتصادی احوال میں بہتری شروع ہوجائے گی لیکن عسکری امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ2007 کے بعد اسرائیل کوحماس کے ساتھ چار جنگوں کے مقابلہ میں اس بار زیادہ بڑی جنگ کا سامنا ہے۔غزہ اور اسرائیل میں عارضی جنگ بندی کے بعد کے عوامی مناظر بتاتے ہیں کہ یہ جنگ برابری کی سطح پر بھلے ہی نہ لڑی گئی ہو لیکن جنگ کا خاتمہ جب بھی ہوگا نہ صرف برابری کی سطح پر ہوگا بلکہ بعض امور میں اسرائیل کو زیادہ بڑی ہزیمت اٹھانی پڑے گی۔
ستمبر 2023 میں نتن یاہونے کہا تھا کہ مشرق وسطی میں اب ایک نئے' پُر امن اور ترقی و خوشحالی کے دور کا آغاز ہونے والا ہے کیونکہ اب خطہ کے ممالک میں اس کی 'قبولیت' بڑھتی جارہی ہے۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے۔ ایک طرف جہاں متحدہ عرب امارات جیسے ملک نے اسرائیل سے مراسم قائم کرلئے ہیں وہیں حکومت سعودی عرب نے بھی یہ انکشاف کیا تھا کہ دونوں ممالک ہر دن ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان نے واضح طور پر کہا تھا کہ مسئلہ فلسطین کا حل' اسرائیل سے تعلقات کی استواری کا محور ہوگا۔ لیکن دوسرے ملکوں نے مسئلہ فلسطین کاذکر ہی چھوڑ دیا تھا۔ اسرائیل نے بھی کبھی ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ اب جبکہ عرب دنیا میں اس کی 'قبولیت' میں اضافہ ہورہا ہے تو وہ فلسطین کے مسئلہ کو اولیت کے ساتھ حل کرنے کی نیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اہل فلسطین کو محسوس ہوا کہ ہرچند کہ عرب چاہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین حل ہو لیکن اسرائیل ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ 7 اکتوبر کو حماس کے غیر متوقع حملہ نے پوری بساط ہی الٹ دی اور جواسرائیل' خطہ میں اپنی روز افزوں قبولیت کے سہارے پورے خطہ کی غیر معمولی ترقی کی ضمانت لے رہا تھا آج وہ خود اپنی اقتصادی بدحالی کے بھنور میں ہے۔۔۔
یہودی قلم کار 'امی ٹائی بیل' نے لکھا ہے کہ حماس کے ساتھ جنگ کے چارہفتوں میں ہی اسرائیل کے خواب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے ہیں۔ 3 لاکھ 60 ہزار ریزرو فوجیوں کو محاذ جنگ پر بلانے اور خطرہ کے پیش نظر ڈھائی لاکھ شہریوں سے ان کے مکانات خالی کرانے کے سبب بڑے پیمانے پر کاروبار بند ہوگئے ہیں' مال اور اسٹور خالی پڑے ہیں' بہت سی ایئر لائنز نے اسرائیل کو آنے والی سینکڑوں پروازیں منسوخ کردی ہیں' ہزاروں سیاحوں نے اسرائیل آنے کا منصوبہ ترک کردیا ہے' قدرتی گیس کا کلیدی 'فیلڈ' بند کردیا گیا ہے' زرعی مزدوروں کی عدم دستیابی کے سبب بڑے پیمانے پر فصلوں کو ضائع کردیا گیا ہے اور صنعت کاروں نے دسیوں ہزار نوکروں کوعارضی چھٹی پربھیج دیا ہے۔۔۔
اسرائیل کو جنگ کے بعد سنبھلنے میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔ 300 بڑے صنعت کاروں نے نتن یاہو اور وزیر خزانہ کوہوش میں آنے کیلئے للکاراہے۔ وزارت خزانہ نے پریشان حال صنعتکاروں کو ایک بلین ڈالر کی مدد کا پروپوزل پیش کیاہے۔ناقدین نے بہت سے گھریلو پروجیکٹس کو منسوخ کرکے اس کا پیسہ اقتصادیات کو پٹری پر واپس لانے کیلئے مختص کرنے کو کہا ہے۔ان پروجیکٹس میں نوآباد کاری کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ اسرائیل کے نزدیک نوآبادکاری کاشرارت آمیز منصوبہ بہت اہم ہے۔غزہ اور مغربی کنارہ سے متصل نوتعمیر بستیوں میں ایسے شرانگیز یہودیوں کو بسایا جاتا ہے جو فلسطینیوں کے ساتھ مسلسل چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے ہیں۔
اسرائیل میں'تمار نیوچرل گیس فیلڈ' کا کام بھی روک دیا گیاہے۔ اینرجی ایکسپرٹ امت مور نے کہا ہے کہ اس فیلڈ کا کام روک دئے جانے سے ہر مہینہ 200 ملین ڈالر کا نقصان ہوگا۔ گھریلو انڈسٹری یا اسٹارٹ اپ میں 2021 میں27 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔ 2022 میں وہ تقریباً نصف رہ گئی۔اس سال کے نصف اول میں سرمایہ کاری 68 فیصد گرگئی ہے۔عدلیہ کے پر کترنے کی نتن یاہو کی کوششوں کی بھی صنعتکاروں نے زبردست مخالفت کی ہے۔ نتن یاہو کی حکومت کہتی ہے کہ غیر منتخب عدلیہ کے پاس بہت زیادہ طاقت ہے۔لیکن عدلیہ کی آزادی کے حامی عدلیہ کی طاقت کو حکومت کو قابو رکھنے کیلئے ضروری قرار دیتے ہیں۔۔۔
اس جنگ کیلئے حماس ہی نہیں بلکہ بیشتر ممالک بھی امریکہ کو ہی ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ بیشترعرب ممالک میں اسی کے خلاف عوامی غصہ پھیلا ہوا ہے۔ صدر بائیڈن نے جس طرح نتن یاہو کو بمباری پر اکسایا اور جس طرح اس کی مادی اور عسکری مدد کی اسے مظلوم فلسطینی فراموش نہیں کرپائیں گے۔ امریکہ' اسرائیل کو ہر سال 3.8 بلین ڈالر دفاعی بجٹ میں مدد کیلئے دیتا ہے۔اس جنگ کیلئے بھی اس نے خطیر رقم کی مدد منظور کی ہے۔لیکن اس سب کے باوجود حماس نے جس پیمانے کا مقابلہ کیا ہے' اس نے اسرائیل کے ہوش اڑادئے ہیں۔۔۔
مختلف رپورٹوں کے مطابق اس وقت حماس کے پاس 30 تا 40 ہزار تربیت یافتہ اور 'مقصد کے تئیں مکمل طور پر وقف' جنگجو ہیں۔ اس جنگ کا حساب کتاب رکھنے والے ماہرین نے بتایا ہے کہ حماس نے ابھی تک اسرائیل پرسات ہزار راکٹ برسائے ہیں۔ان میں بہت سے راکٹ نشانوں پر گرے ہیں اور اندرون اسرائیل' یہاں تک کہ راجدھانی تل ابیب میں بھی ان راکٹوں نے بے نظیر نقصان پہنچایا ہے۔ان میں سے اکثر راکٹوں کو اسرائیل کے دفاعی سسٹم 'آئرن ڈوم' نے فضا میں ہی مار گرایا۔ایک راکٹ کو مار گرانے پر 60 ہزار ڈالر کا خرچ آتا ہے۔اسرائیل کب تک اتنی مہنگی جنگ لڑسکتا ہے؟ اس سوال پر خود اندرون اسرائیل' سیاسی جماعتوں اور عوامی حلقوں کے درمیان بڑی بے چینی ہے۔
ایک بڑا سوال اسرائیل اور اس کے حامیوں کے سامنے یہ ہے کہ حماس کو اس جنگ میں کتناجانی نقصان پہنچا؟ ان کیلئے اس کا جواب انتہائی مایوس کن ہے۔ابھی تک حماس کے کسی قابل ذکر لیڈر تک اسرائیل کی فورسز نہیں پہنچ سکی ہیں۔ کسی قابل ذکر لیڈر کے مارے جانے کی بھی کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے۔ اس کے برخلاف بڑی تعداد میں اسرائیل کے فوجی مارے جاچکے ہیں' سو سے زائد قیمتی ٹینک اڑادئے گئے ہیں۔ ایک 'میرکافا' ٹینک کی قیمت 35 لاکھ ڈالر ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غزہ کے میدان جنگ میں ہی حماس نے اسرائیل کو کتنا مالی نقصان پہنچادیا ہے۔
کرنل (ریٹائرڈ) راجیو اگروال نے لکھا ہے کہ حماس سے اسرائیل کی طاقت کا کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود اگر حماس نے اسرائیل کو نفسیاتی' اقتصادی' سلامتی اور انٹلی جنس کے محاذ پر اتنی بڑی شکست دی ہے تو اسرائیل کے مستقبل کی صورت گری کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔۔۔۔
یہ مرحلہ عرب دنیا کیلئے بھی آسان نہیں ہے۔ عرب حکمرانوں نے پوری دنیا کے انصاف پسندوں کو مایوس کیا ہے۔وہ 57 ہوکر محض ایک کے سامنے کمزور اور بے بس ثابت ہوئے ہیں۔اگر یہ مرحلہ ان کیلئے ایک امتحان تھا تو اس امتحان میں بھی وہ ناکام ہوگئے ہیں۔
(بشکریہ: کالم ردعمل / روزنامہ انقلاب / 26 نومبر 2023ء)
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں