سچ آخر تک سچ رہتا ہے اور جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے۔ لہذا سچ کبھی مٹتا نہیں ،جھوٹ کبھی چلتا نہیں۔
اور انسان کی عظمت، عاجزی اور اپنی غلطی تسلیم کر لینے میں ہے۔ یوں تو جب آپ کسی شعبے سے وابستہ نہ ہوں تو آپ کو اس شعبے کی اونچ نیچ اور معلومات نہیں ہوتی ہیں۔ ترجمے کی ڈگری کے دوران ہمارے دو میجر مضامین ہوا کرتے تھے جنھیں Translation of Language of Press (صحافتی زبان کا ترجمہ) کہا جاتا تھا۔ یوں ہمیں روز ڈھیروں تازہ اخبارات کا مطالعہ کرنا پڑتا تھا کہ خبر کی نوعیت کیا ہے اس کی زبان وغیرہ کس قسم کی ہے اور اسے ترجمہ کس انداز سے کرنا ہے۔
پریس کی لینگویج یا صحافتی زبان سب سے زیادہ Updated زبان ہوتی ہے۔ اس لئے اخبارات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ خیر، چند ایسے میڈیا ہاؤسز ہیں جن کا تعصب اور نامہ نگاروں کی کم علمی خبر کی نوعیت کا حشر نشر کر دیتی ہے۔ اس ضمن میں چند میڈیا ہاوسز جو ترک دنیاکے بارے میں مثبت رپورٹنگ نہیں کرتے ان میں ڈی ڈبلیو اور انڈیپنڈنٹ اور وی او اے سر فہرست ہیں کیونکہ ان کی حکومتوں کی ترک حکومتوں سے بنتی نہیں۔ خاص کر جمہوریہ ترکیا سے۔ مگر چند دوست نما میڈیا ہاوسز ایسے بھی ہیں جو بظاہر دوست ہیں ہمدرد ہیں مگر ترکی کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے ان کی فاش اغلاط ان کی قلعی کھول دیتی ہے۔ طرہ یہ کہ وہ اپنی غلطی، نشاندہی کرنے پر بھی نہیں مانتے۔ جیسے رجب طیب اردوان اردو نام کا ایک ادارہ ، اس معاملے میں، مجھ سے گستاخی سے پیش آتا رہا ہے چاہے وہ اس بات کو کتنا ہی اگنور کرتا رہے۔ میں ایک ذمہ دار پوزیشن پر موجود خاتون ہوں اور خارجہ امور اور بین الاقوامی تعلقات عامہ ، ترکیہ کا سیاسی و سماجی، تاریخی، جغرافیائی، ادبی منظرنامہ جتنا میرے مشاہدے میں ہے اتنا کسی بھی مذکورہ ادارے کے منتظمین یا نامہ نگاروں یا صحافیوں کا نہیں ہے۔
خیر، نگورنو کاراباع جو آذربائیجان کا وہ پہاڑی علاقہ تھا جو آج سے تیس برس قبل سویت یونین کے خاتمے کے ساتھ آذربائیجان کے ہاتھ سے لے کر آرمینیا کو تھما دیا گیا تھا اور وہاں سے آذربائیجانی مسلمانوں کو قتل عام کرکے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ اور وہاں غیر قانونی ، ناجائز آرمینی آبادکاری کی گئی تھی۔ اس ضمن میں آذربائیجان اور آرمینیا کی کئی جھڑپیں ہوئیں کئی بار بات ایک فل اسکیل وار تک پہنچی مگر پھر روس یا کوئی اور ثالثی کرنے پہنچ جاتا تھا۔
آذربائیجان اپنا مقدمہ لے کر اقوام متحدہ کی عدالت میں گیا۔ اور وہاں پر آذربائیجان کا موقف اس علاقے کی ملکیت کے حوالے سے تسلیم کر لیا گیا۔ اس ضمن میں ترکیا اور پاکستان نے سفارتی محاذ پر کھل کر آذربائیجان کے ناگورنو کاراباع کے موقف کی حمایت کی۔ اور آرمینیا کو سفارتی سطح پر تسلیم نہ کرنے کا اعادہ کیا۔ جو اب تک قائم ہے۔ نتیجتاً نہ تو پاکستان کا آرمینیا میں کوئی سفارتخانہ یا سفارتی تعلقات ہیں نہ ہی جمہوریہ ترکیہ کے۔
کئی برس سے چلا آ رہا یہ تنازعہ تب عروج کو پہنچا جب جولائی 2020 میں آرمینیا نے آذربائیجان کے اہم کمانڈر جنرل، پولاد ہاشموف کو شہید کر دیا۔ عوامی غیض وغضب کا یہ عالم تھا کہ( اس وقت میں خود باکو میں موجودگی کے دوران ان سب واقعات کی چشم دید گواہ ہوں) لوگ باکو میں قومی اسمبلی کی عمارت کے سامنے کھڑے ہو کر حکومت سے مطالبہ کر رہے تھے کہ اگر اس بار آپ جنگ کا اعلان نہیں کریں گے تو ہم عوام خود اسلحہ لے کر آرمینیا کے خلاف اعلان جنگ کر دیں گے۔ صورتحال بے قابو ہوتے دیکھ کر آذربائیجان کے کمانڈر انچیف اور صدر الہام علیوف نے آرمینیا کے خلاف فل اسکیل وار کا اعلان کر دیا۔ اور جنرل موبلائزیشن بھی شروع ہوگئی۔ 44 روزہ اس جنگ میں آذربائیجان نے نگورنو کاراباع کے تقریبا تمام مقبوضہ علاقے واپس حاصل کر لئے جبکہ صرف خان کیندی جو ناگورنو کاراباع کا دارالحکومت تھا اس تک رسائی سے قبل روس کی ثالثی کے باعث جنگ بندی کر دی گئی۔
آذربائیجان نے اپنے واپس حاصل کردہ تمام علاقوں سے بارودی سرنگوں کی صفائی کا کام شروع کر دیا۔ مال غنیمت اٹھا کر باکو میں نمائش کے لئے پیش کر دیا اور ایک عظیم الشان فتح کا جشن منایا گیا جس کے مہمان خصوصی صدر اردوان تھے۔ میں خود اس جشن میں شریک تھی۔ اور میرے شوہر اس وقت ترک سفارتخانے کے قنصلیٹ کو ہیڈ کر رہے تھے۔ اس کے بعد ان مفتوحہ علاقوں میں تیز رفتار ترقیاتی کاموں کا آغاز ہوا۔ آذربائیجان کی وہ تاریخی مساجد جن میں آرمینیوں نے خنزیر باندھ رکھے تھے وہ پھر اذان کی صداؤں سے گونج اٹھے۔ اور ان میں تلاوت قرآن شروع ہوئی۔ فضولی میں ائیرپورٹ تعمیر ہوا۔ شوشہ میں ثقافتی رنگ واپس لوٹے، لاچن میں کاریڈور کی تعمیر شروع ہوئی۔ گنجہ، جبرئیل، قلبجار اور دیگر اہم علاقوں میں بھی تیز رفتار ترقی جاری رہی۔ اس دوران خان کیندی اور وہ علاقہ جہاں آذربائیجان نہیں پہنچ سکا تھا وہاں جنگ بندی معاہدے کے تحت peace keeping force روس کی جانب سے تعینات کر دی گئی۔ کیونکہ ثالثی کا فریق وہی تھا۔
پھر آرمینیا اس ہزیمت بھری شکست کا بدلہ لینے 2023 ستمبر میں دوبارہ آذربائیجان پر حملہ آور ہوا اور نخچیوان تا خان کیندی انھوں نے بلا اشتعال جھڑپوں کا آغاز کر دیا۔ خیر، اس بار پھر آذربائیجان کی بہادر سپاہ نے آرمینیا سے باقی ماندہ اپنا علاقہ بھی واپس حاصل کر لیا۔ اور یوں آزادی کا یہ تین دہائیوں پر مشتمل مشن مکمل تو ہوا۔ مگر اس کے پیچھے ہزاروں شہداء کا لہو اور ان کے گھر والوں کے آنسو اور بہادر فوج کی جستجو تھی۔
لیکن چند جاہل ایڈیٹرز اور صحافی اور دوسرے درجے کے ادیب دانشور جو اپنے خرچے پر ریل کے تیسرے درجے میں سفر کرنے کے لائق ہیں، وہ آذربائیجان کی جنگی قوت اور استعداد کا جتنا دل کرتا تھا روز ٹرول پوسٹس کے ذریعے مذاق اڑاتے تھے۔ چونکہ اس جنگ میں آرمینیا کو سارے مغربی ممالک اور امریکہ، روس کی حمایت حاصل تھی اس لئے ان نام نہاد دانشوروں نے بھی سوچا کہ پلڑا تو ان کا بھاری ہے اور جن کا بھاری ہو پلڑا یہ خود بھی سر کے بل اس میں گر جاتے ہیں۔ جبکہ آذربائیجان کی حمایت میں ترکیہ، پاکستان اور اسرائیل یہ سب کھڑے تھے۔
جمہوریہ ترکیہ نے آذربائیجان کو جدید ڈرون بایراقطار فراہم کئے جبکہ پاکستان اور اسرائیل نے سفارتی محاذ پر مدد فراہم کی۔
ان دانشوروں نے مجھے بھی برا بھلا کہا اور آذربائیجان کے شہداء کے لہو کا بھی باقاعدہ مذاق اڑایا۔ جس پر میں نے ان سے احتجاج کیا۔ تو انھوں نے مجھے بھی ٹرول کرنا شروع کر دیا حالانکہ اخلاقیات کے یہ بہت بڑے چیمپین وغیرہ بنتے ہیں بلکہ میری ذاتی زندگی اور کردار پر بھی کاری وار کئے۔
خیر، ان دانشوروں میں سے کوئی بھی کبھی آذربائیجان کے ان علاقوں سے نہ تو واقفیت رکھتا تھا نہ ہی کبھی گیا تھا۔ بس جہالت کے کرشمے دکھاتے لفظوں کے ہیر پھیر سے خود کو ٹرولنگ لیجنڈ ثابت کرنے والے ان ایڈیٹرز و صحافی و ادیب نما مخلوق کی صفوں کو آج خبر ہوگئی ہوگی کہ اپنی کم علمی اور کوتاہی اور غلطی پر اکڑ کر عزازیل کا خطاب پانے سے بہتر ہے کہ اس ایک خاتون صحافی سے سبق سیکھیں، جن کا نام ہے: مدثرہ منظر صاحبہ۔
جنھوں نے وائس آف امریکہ کے پیج پر آذربائیجان کی تازہ ترین صورتحال کی ایک خبر نشر کی۔ مجھے اس خبر کی کچھ سطروں پر اعتراض تھا۔ نشاندہی کرنے پر انھوں نے فراخدلی سے نا صرف وہ سطریں نکال دیں بلکہ درست سطور لکھ کر خبر کی صداقت اور قدر و قیمت میں اضافہ کیا بلکہ اپنا قامت بھی بلند کیا۔ اسے کہتے ہیں اعلی صحافتی اقدار۔ کہ کسی غلطی کی نشاندہی اور تصحیح کو انا کا مسئلہ نہیں بنا لیتے نہ ہی تصحیح و نشاندہی کرنے والے کو ذلیل کرتے ہیں۔ نا ہی خود کو عقل کل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ انسان خطا کا پتلا ہے کے تحت اپنی غلطی مان کر درست کرتے ہیں۔ میری نظر میں تو محترمہ مدثرہ منظرکی قامت بلند ہوئی سو ہوئی مگر یہ خبر میں آذربائیجانی پریس اور ان کی حکومت تک پہنچاؤں گی تو ان کی نظر میں بھی ان کا وقار بڑھے گا۔
متنازعہ سرخی:
آذربائیجان نے بدھ کے روز کہا ہے کہ ایک فوجی آپریشن کے نتیجے میں اس نے نگورنو کاراباخ پر قبضہ کر لیا ہے۔
تصحیح شدہ سرخی:
آذربائیجان نے بدھ کے روز کہا ہے کہ ایک فوجی آپریشن کے نتیجے میں اس نے نگورنو کاراباخ پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
خدا ہم سب کو جعلی دانشوروں اور ایڈیٹرز کے نرغے سے بچائے جو بنام صحافت اپنی انا بیچتے ہیں اور دوسروں کی کلاہ مٹی میں رولتے ہیں۔
بشکریہ و بہ اجازت: طاہرے گونیش فیس بک ٹائم لائن
طاہرے گونیش، اردو کی قلمکار ہونے کے ساتھ معروف ترک مصفنہ و مترجم ہیں اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں زیرتعلیم رہی ہیں۔ ان کے خاوند ایک ترک سفارت کار ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں