تعدادِ الفاظ کی قید والی کہانیاں - از مکرم نیاز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-09-18

تعدادِ الفاظ کی قید والی کہانیاں - از مکرم نیاز

short-story-specific-number-of-words

دستیاب معلومات کے مطابق پہلی مرتبہ انگریزی فکشن میں تعدادِ الفاظ کی قید والی مخصوص صنف کا آغاز بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی (سنہ 1980ء) میں اس وقت ہوا جب برمنگھم یونیورسٹی کی سائنس فکشن سوسائٹی نے سو (100) الفاظ پر مبنی کہانی کو ڈریبل (Drabble) کا نام دیا۔ اسی طرح 1987ء میں مشہور اخبار نیویارک ٹائمز نے دنیا بھر کے ادیبوں کو 55 الفاظ پر مشتمل کہانیاں لکھنے کی دعوت دی، یہ سلسلہ بعد میں "پچپن (55) فکشن" کے نام سے مشہور ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے مبشر علی زیدی نے اس صنف میں (سنہ 2013ء میں) طبع آزمائی کی، اس لحاظ سے تعدادِ الفاظ کی قید والی اردو کہانیوں کا انہیں موجد قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس صنف سے متعلق دیگر دلچسپ تفصیلات مبشر زیدی کی کتاب "سو لفظوں کی کہانی" کے علاوہ ریحان کوثر کی کتاب "سو لفظوں کی سو کہانیاں" کے مقدمے میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ مبشر زیدی نے ایک اہم بات یہ کہی ہے کہ ڈریبل یعنی سو لفظوں کی کہانیاں لکھنے والے کے لیے سب سے بڑی پابندی لفظوں کی حد ہوتی ہے۔ مغرب کا کہانی کار یہ طے کر کے لکھتا ہے کہ اسے پوری کہانی کتنے الفاظ میں مکمل کرنی ہے۔ اگر خود سے پچپن لفظوں کا وعدہ کیا ہے تو یہ وعدہ پورا کیا جاتا ہے، یہ نہیں کہ الفاظ کچھ بڑھ گئے تو اسے کھینچ تان کے ڈریبل بنا دیا۔


کیا فکشن میں اس طرح کی روایت، یعنی الفاظ مقرر کر کے کہانی لکھنا درست یا اہم ہے؟ تخلیق کے فطری پن پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ اس موضوع پر گفتگو آگے ہوگی۔ اس صنف "تعدادِ لفظی کہانی" کی اساسیات کے حوالے سے فیس بک پر مکالمہ کرتے ہوئے ایک جگہ یہ سوال اٹھا کہ:
سو/پچاس لفظی کہانی کے کون کون سے قواعد، اصول و ضوابط مقرر کئے گئے ہیں؟ تعدادِ لفظی کہانیوں میں کیا ایک ایک لفظ شمار ہوگا؟ چاہے فعل ہو یا معاون فعل یا صفت۔ کیونکہ فعل کو لفظ کی ہی قسم مانا جاتا ہے، لہذا "کہہ رہا تھا" ایک فعل ہے، تو کیا اسے "ایک لفظ" مانا جائے گا یا "تین الفاظ" ؟؟


تعدادِ الفاظ کی قید والی اردو کہانیوں کے بانی مبشر علی زیدی سے بذریعہ فیس بک رابطہ، کوئی جواب نہیں مل پایا۔ لہذا اس میدان کے دیگر ماہرین سے گفتگو کے ذریعے متذکرہ سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان دس معتبر مصنفین اور ممتاز ادبی شخصیات میں شامل ہیں: ابن آس (کراچی)، سلیم فاروقی (کراچی)، پرویز بلگرامی (کراچی)، اقبال خورشید (کراچی)، ارشد عبدالحمید (راجستھان)، جاوید نہال حشمی (کولکاتا)، ریحان کوثر (ممبئی)، محمود شاہد (آندھرا پردیش)، ڈاکٹر ریاض توحیدی (کشمیر) اور نادر خان سرگروہ (مکہ/ممبئی)۔ ایک بات واضح رہے کہ سوائے ڈاکٹر ارشد عبدالحمید اور نادر خان سرگروہ کے، باقی تمام اس صنف میں اپنی تخلیقات کے حوالے سے خاصے مشہور بھی ہیں۔ بالخصوص ممبئی کے ریحان کوثر کی ایک تصنیف تو ان کی 100 عدد "سو لفظی" کہانیوں پر مبنی ہے۔ اسی طرح محمود شاہد نے ابھی حال میں صرف افسانچوں پر مختص سہ ماہی رسالہ "افسانہ نما" کا اجرا کیا ہے۔ نادر خان سرگروہ، سوشل میڈیا پر اردو ذخیرۂ الفاظ کی ترویج و توسیع میں جس تندہی سے مصروف بہ کار ہیں وہ کسی بھی اردوداں سے پوشیدہ نہیں۔ اور فیس بک پر ہی لسانیات سے متعلق جب کوئی مکالمہ یا مباحثہ ہو تو ڈاکٹر ارشد عبدالحمید اور سلیم فاروقی کے علم و فن سے استفادہ کرنا، ادب کے ہر طالب علم و قاری کے لیے باعثِ فخر ہے۔


(1) ڈاکٹر ارشد عبدالحمید کہتے ہیں:

"کہہ رہا تھا" تین الفاظ ہی شمار ہوں گے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ فعل مصدر سے بنتا ہے۔ مثلأ جانا سے گیا، اگر یہ کہا جائے کہ "وہ اسکول گیا ہے"، تو گیا فعل ہے اور "ہے" معاون فعل یعنی helping verb ، اگر یہ فعل میں شامل ہوتا تو اس کا نام الگ نہیں ہوتا۔ فعل میں معاون فعل ملانے سے فعل نہیں ، زمانہ طے ہوتا ہے۔ لہذا میری ناقص رائے میں فعل اور معاون فعل الگ الگ الفاظ ہیں۔


(2) سلیم فاروقی وضاحت کرتے ہیں کہ:

سو یا پچاس لفظی کہانی میں ہر مفرد و مرکب لفظ شمار ہوتا ہے اس سے قطع نظر کہ وہ اسم، ضمیر، صفت، فعل غرض کسی بھی نوع سے تعلق رکھتا ہو۔ مختصراً یوں کہہ لیں ہر وہ لفظ جو لغت میں بطور لفظ موجود ہے وہ شمار ہوگا۔ ہاں البتہ علامات و اوقاف وغیرہ شمار نہیں ہوں گے۔ یقیناً یہ فقرہ "کہہ رہا تھا" تین الفاظ پر مبنی ہے۔


(3) جاوید نہال حشمی لکھتے ہیں:

ہر لفظ ہمیشہ ہر جگہ کاؤنٹ ہوتا ہے! "کہہ رہا تھا" صریحاً تین لفظ ہیں۔ انگریزی کے اس جملے کو دیکھیں:
He is saying. (وہ کہہ رہا تھا)
انگریزی میں یہ تین لفظی جملہ ہے جس میں He فاعل (Subject) ہے اور جملے کا باقی حصہ Predicate کہلاتا ہے جو دو افعال (verbs) پر مشتمل ہے، ایک معاون فعل 'اِز' (is) ہے جبکہ دوسرا 'سےاِنگ' (saying) مین ورب (main verb) ہے۔ دوسری طرف Predicates ایک لفظی بھی ہو سکتے ہیں اور کئی لفظی بھی، جیسے، یہ دو جملے دیکھیں:

1) He plays.
2) He has been playing cricket in the ground with his friends in the evening.

دونوں ہی جملوں میں ایک subject اور ایک predicate ہیں۔ مگر پہلے جملے کا پریڈیکیٹ صرف ایک لفظ (صرف فعل) plays پر مشتمل ہے جب کہ دوسرے جملے کا پریڈیکیٹ طویل ہے اور 13 الفاظ پر مشتمل ہے۔


(4) ابن آس نے لکھا ہے کہ:

"کہہ رہا تھا" تین لفظ ہیں۔ لفظ شمار کرنے والی کہانیوں کا اصول یہ ہے کہ ہر لفظ الگ شمار کیا جائے گا۔ اور جو لفظ ملا کر لکھے جانے کی روش عام ہو گئی ہے وہ بھی دو شمار ہوں گے۔ جیسے دلچسپ ، دلگی ، دلدار ، دلنواز ، حیرت، چونکہ ،چنانچہ ، انگیز ۔۔۔ یعنی تراکیب اور مرکب کے بھی الگ الگ لفظ شمار ہوں گے۔


(5) پرویز بلگرامی لکھتے ہیں:

ابن آس کا موقف درست ہے۔ سو لفظی کہانی میں الفاظ گنے جاتے ہیں۔ کیونکہ سو لفظی کہانی انگریزی سے آئی ہے اس لیے ہنڈریڈ ورڈز کے قواعد لاگو ہوتے ہیں۔ البتہ افسانچہ میں الفاظ کو شمار نہیں کیا جاتا، بس کم سے کم الفاظ میں کہانی مکمل ہو مگر اختتام چونکانے والا ہو۔ گو کہ ہندوستانی افسانچہ نگاروں میں سے ایک بڑی تعداد بغیر کہانی کے افسانچہ لکھ رہی ہے۔ جب کہ ہمارا خیال ہے کہ افسانچہ میں کہانیت بھی ہو اور پنچ لائین بھی۔ کیونکہ افسانچہ کا کینوس وہی ہے جو شیخ سعدی کی گلستان بوستان میں ہے، جاتک کتھا میں ہے۔


(6) اقبال خورشید اپنے آڈیو پیغام میں کہتے ہیں:

پاکستان میں مبشر علی زیدی نے اس صنف کا آغاز کیا اس لیے ظاہر سی بات ہے کہ ان کے اصولوں کی تقلید کی گئی۔ پھر انہوں نے اس صنف میں اپنی پہلی کتاب جب شائع کی تو ان کے بیان کردہ اصول سوشل میڈیا سے اوپر اٹھ کر ایک معنوں میں شرائط بھی بن گئے۔ بعد ازاں مبشر زیدی کی اس صنف کو بہت سے قلمکاروں نے فالو کیا۔ کسی نے سو (100) لفظی تو کسی نے تیس لفظ کی اور کسی نے بیس لفظوں کی کہانی لکھی۔ اس صنف کا بنیادی اصول یہ ہے کہ کہانی کا عنوان، اس کی ٹیگ لائن اور مصنف کا نام ہٹا کر جو متن لکھا جائے گا وہ شروع لفظ سے آخر لفظ تک شمار ہوگا۔ لفظوں کی کاؤنٹنگ کا طریقہ یہ ہے کہ جو تعداد ہم کو ان پیج یا ورڈ کی فائل بتائے گی اسی پر لفظوں کا تعین ہوگا۔ اس طرح لفظوں کو گنا نہیں جاتا بلکہ ورڈ یا ان-پیج سافٹ وئر خودکار طور پر گن دیتے ہیں۔ تو یوں لفظوں کو شمار کرنے کا یہ بنیادی طریقہ ہے۔ یہ کہنا کہ: فعل تو لفظ کی ہی قسم ہے لہذا "کہہ رہا تھا" ایک فعل یعنی ایک لفظ ہے ۔۔۔ غیر منطقی بات ہے۔


(7) محمود شاہد بتاتے ہیں کہ:

متذکرہ جملہ " کہہ رہا تھا " تین الفاظ پر مشتمل ہے۔ کہہ ۔۔۔ ایک لفظ، رہا ۔۔۔ ایک لفظ، تھا ۔۔۔ ایک لفظ۔۔۔ یہ ہوئے جملہ تین الفاظ۔ الفاظ گننے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ان-پیج سافٹ وئر میں ایک آپشن ہے utilities کا۔ اس میں الفاظ شماری (Words Count) کی سہولت موجود ہے۔ الفاظ کو منتخب (select) کر کے ان کی تعداد معلوم کی جا سکتی ہے۔ یہ بات ہر کسی کو پتا ہے۔


(8) ریحان کوثر کہتے ہیں:

میرے نزدیک "کہہ رہا تھا" تین الفاظ گنے جائیں گے کیونکہ میں ہر لفظ کو ایک ہی شمار کرتا ہوں۔ ہر لفظ خواہ وہ کوئی بھی ہو، میں، جاوید نہال حشمی اور دیگر قلمکار اسے ایک ہی گنتے ہیں۔


(9) نادر خان سرگروہ واضح طور پر کہتے ہیں کہ:

یہ فقرہ "کہہ رہا تھا" تین لفظوں پر مبنی ہے۔


(10) ڈاکٹر ریاض توحیدی بھی اقرار کرتے ہیں کہ:

فقرہ "کہہ رہا تھا" میں تین لفظ شامل ہیں۔


تو اس طرح ماہرینِ فن کے بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں یہ بات جب ثابت ہو جاتی ہے کہ تعدادِ الفاظ کی قید کے ساتھ لکھی جانے والی کہانی میں ہر لفظ اپنی جگہ علیحدہ شمار ہوگا تو اس حقیقت کو کھلے دل سے قبول کیا جانا چاہیے۔ بصورت دیگر علمی و ادبی تحقیقی دنیا میں ضد یا ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں ہے۔
اب آئیے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہیں کہ ۔۔۔ الفاظ مقرر کر کے کہانی لکھنا کتنا درست یا اہم ہے؟ چونکہ مغرب میں یہ صنف قبولیت عامہ کا درجہ حاصل کرتے ہوئے اپنا ایک منفرد مقام بنا چکی ہے لہذا اسے سرے سے رد کرنا کچھ مناسب نہیں لگتا۔ البتہ اس صنف پر جو تحفظات ظاہر کیے جاتے رہے ہیں انہیں سامنے لانا ضروری ہے۔ مثلاً ڈاکٹر ارشد عبدالحمید کہتے ہیں:
یہ بات عجیب لگتی ہے کہ الفاظ مقرر کر کے افسانہ لکھا جائے۔ شاعری میں خاص طور پر غزل میں بحر مقرر ہوتی ہے تو الفاظ کی تعداد اپنے آپ محدود ہو جاتی ہے چنانچہ وہاں رمز و ایما کی فطری ضرورت ہوتی ہے لیکن نثر میں پہلے سے تعداد مقرر کرنے کے معنی ہیں کہ لکھنے والا زبردستی الفاظ کو یا تو گھٹائے گے یا بڑھائے گا جب کہ ہونا یہ چاہیے کہ بیانیہ کی فطری طور پر جتنی ڈیمانڈ ہو ، اتنے ہی الفاظ کا استعمال کیا جائے۔
اسی ضمن میں ڈاکٹر ریاض توحیدی کا یہ کہنا بھی عین بجا ہے کہ : یک سطری، بیس لفظی، دس لفظی سطور میں محض ایک خیال پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں فکشن بھلا کہاں ہوتا ہے؟
مدیر سہ ماہی "اثبات" اشعر نجمی کے بقول وہ لفظوں کو گننے سے زیادہ تولنے پر یقین رکھتے ہیں اور ان کا شکوہ ہے کہ وہ آج تک دس لفظی، بیس لفظی، پچاس لفظی کہانیوں کا مطلب ہی نہیں سمجھ پائے۔ وہ کہتے ہیں کہ: دراصل سوشل میڈیا کے شاعر نما کہانی کاروں کی اس میں بہت دلچسپی ہے چونکہ شعر کی طرح اس میں امیڈیٹ رسپانس مل جاتا ہے۔ آپ اپنا ایک طویل افسانہ لیں اور اس کی دو دو فکر انگیز سطروں کو پچاس لفظی، بیس لفظی وغیرہ کے ٹکڑوں میں بانٹ دیں۔ آپ کے پاس ہزاروں ایسے تراشے ہو جائیں گے۔


بدقسمتی سے راقم الحروف بھی اس نظریے کا قائل ہے کہ الفاظ کی قید کے ساتھ کہانی کے بیانیہ کے فطری بہاؤ پر عمل نہایت مشکل کام ہے۔ یہ ہر قلمکار کے بس کی بات نہیں۔ یہی سبب ہے کہ پچھلے دنوں راقم نے ایک افسانچہ بعنوان "آخری فکشن" تحریر کیا تو بین السطور میں طنز کیا تھا کہ: تخلیق کوئی ترکاری بھاجی گوشت تھوڑی ہے کہ مطلوبہ مقدار سے کم زیادہ نہ خریدی جائے۔ مگر اس "طنز" کی تہ تک بہت ہی کم قاری پہنچ پائے یا پھر بقول جاوید نہال حشمی: مزاح میں لپٹا طنز بہتوں کو سمجھ میں نہیں آتا۔ اشعر نجمی کا کہنا صحیح ہے کہ کسی افسانے کے کسی پیراگراف کو تعدادِ لفظی کہانی کے بطور پیش کیا جا سکتا ہے۔ ویسے فیس بک نے ایک سہولت یہ بھی دے رکھی ہے کہ اپنی تحریر کو رنگین پس منظر کے ساتھ 130 حروف کی قید کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے۔ جس کا میں نے بارہا استعمال کیا ہے۔ اردو میں 130 حروف کے کم و بیش 20 یا 25 لفظ بنتے ہیں ۔۔۔ تو یوں اگر کلر بیک گراؤنڈ والی اپنی پوسٹوں کو بیس/پچیس لفظی کہانی کا کوئی چونکانے والا عنوان دے کر پیش کروں تو فیس بک پر ڈھیروں داد، لائکس اور کمنٹس بٹور سکتا ہوں مگر مجھے معلوم ہے کہ اس طرح علمی و ادبی دنیا میں میرے قلم کی شناخت بری طرح مجروح ہوگی۔
یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ جب کسی صنف پر ایسے تحفظات لاحق ہیں تو علمی دلائل کے ساتھ اس کا رد کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس کا آسان سا جواب بس اتنا ہے کہ فیصلہ افراد نہیں کرتے بلکہ وقت فیصلہ کر دیتا ہے۔۔۔ ع
جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا !


تقریباً نصف صدی سے اردو پڑھتے/لکھتے آنے کے باوجود ہم آج بھی خود کو طالب علم سمجھتے ہیں اور ادب و لسانیات کے اساتذہ کی تعظیم و تکریم کرنے اور ان کی علمیت سے استفادہ کو لازمی گردانتے ہیں۔ لیکن کیا یہ حقیقت آج کی نوجوان نسل سمجھتی ہے؟ شاید اسی لیے اشعر نجمی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ:
"جس جنریشن سے میرا اور آپ کا واسطہ پڑا ہے، وہ اسمارٹ فون، چیٹ روم، فیس بک، ٹوئٹر اور اسی طرح کی دوسری سرگرمیوں میں ملوث ہے جہاں انھیں امیڈیٹ ریسپونس ملتا ہے، غور و فکر کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی لمحہ محفوظ نہیں اور نہ ہی انھیں اس کی ضرورت ہے۔ میں اس جنریشن پر کوئی الزام نہیں لگا رہا ہوں بلکہ میں تو اسے ایسی مظلوم نسل سے تعبیر کرتا ہوں جس کا ٹکنالوجی نے چوہے دان میں اپنی نت نئی پیشکش کو پنیر کے ٹکڑے کی طرح استعمال کر کے شکار کیا ہے"۔
ہم اس نسل کو بس یہی بتا سکتے ہیں کہ ۔۔۔ اپنی کسی تحریر کے ذریعے سوشل میڈیا پر داد سمیٹنا کوئی غیرمعمولی بات نہیں، بلکہ اہم بات یہ جاننا ہے کہ مشرقی تہذیب میں ماہرین فن کے آگے عجز و انکساری سے زانوئے تلمذ تہ کرکے اکتسابِ علم کیا جاتا ہے نہ کہ ان کی عمر، مطالعے و تجربے کو نظرانداز کر کے برابری کی سطح پر ان سے تیز و تند لہجے کا مکالمہ کیا جائے!!

***
سید مکرم نیاز
مدیر اعزازی ، "تعمیر نیوز" ، حیدرآباد۔
16-8-544, New Malakpet, Hyderabad-500024.
taemeernews[@]gmail.com

syed mukarram niyaz
Syed Mukarram Niyaz
سید مکرم نیاز

The rules of short stories limited to specific number of words, Essay: Mukarram Niyaz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں