حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن : ماضی کی ایک درخشاں شخصیت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-06-04

حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن : ماضی کی ایک درخشاں شخصیت

shaikhul-hind-mahmood-hasan

زندہ اور باحوصلہ قوموں کی ایک نمایاں شناخت یہ ہوتی ہے کہ ان کا رشتہ اپنے ماضی کی روشن تاریخ، ماضی کے اہل عزیمت اور آئیڈیل بزرگوں اور ماضی کے رہنماؤں سے بہت مضبوط ہوتا ہے، اسی رشتے کو مستحکم اور زندہ قوموں کی شناخت کو اجاگر کرنے کے لئے تعمیر نیوز نے ایک بہترین سلسلہ جاری کیا تھا جسکی آخری کڑی شخصیات پر ختم ہوتی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اپنے روشن ماضی سے وابستگی اپنے حال کو تابناک بنانے کا مستحکم ذریعہ ہوتا ہے پھر اسی سے درخشاں مستقبل کی راہیں بھی ہموار ہوتی ہیں۔


ہمارے ماضی کی بافیض، مثالی، قابل رشک شخصیات میں ایک بہت نمایاں نام شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن کا ہے۔ جن کے تذکرے کے بغیر عزیمت و استقامت کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی، کیونکہ ان کی ذات گرامی صرف ایک عالم ربانی، صرف ایک محدث جلیل، صرف ایک مفسر قرآن، صرف ایک صاحب نسبت شیخ کامل ہی کا مقام نہیں رکھتی بلکہ ان کی ذات علم و عمل، فراست و بصیرت، تدبر و حکمت، جہاد و عزیمت، اور اثبات و استقامت کے ایک روشن شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔
وہ بیک وقت راسخ العلم عالم ربانی بھی تھے، مجسم زہد و تقوی بھی تھے، سر بکف مجاہد بھی تھے، امت کے درد مند مصلح بھی تھے، سراپا عمل حرکت، پیکر صدق و صلاح،‌ علوم شریعت کے رمز شناس، اسلاف کے مکمل اور صحیح معنوں میں وارث، روشن دماغ، عالی حوصلہ بلند نگاہ، بقول شاعر :
نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میرے کارواں کے لیے
گویا اللہ نے ان کی ذات میں ایک عالم جمع کر دیا تھا۔


حضرت شیخ الہند کی ولادت 1268 میں بریلی میں ہوئی اور نشو نما دیوبند میں ہوئی، دیوبند کے معروف ولی حضرت میاں جی منگلوری رحمتہ اللہ سے 6 سال کی عمر میں قرآن پڑھا اردو فارسی کی ابتدائی کتابیں شیخ عبد اللطیف صاحب اور مولانا مہتاب علی صاحب سے پڑھیں۔
آپ کی عمر 15 سال ہوئی تو 15 محرم 1283 میں دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا، اکابر کی موجودگی میں دارالعلوم کے اولین استاد صاحب نسبت بزرگ ملا محمود دیوبندی کے سامنے مسجد چھتہ میں دارالعلوم کے پہلے طالب علم کے طور پر سب سے پہلے حضرت شیخ الہند نے زانوے تلمیذ تہہ کیا۔
حضرت نے مختلف علوم کی تحصیل کے لیے جن عقبری شخصیات سے استفادہ کیا ان ان میں حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی، جامع العلوم حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی، حضرت کے والد مولانا ذوالفقار علی دیوبندی اور حضرت مولانا سید احمد دہلوی سرفہرست ہیں۔
سن 1289 میں معاون مدرس کے طور پر دارالعلوم میں تدریسی خدمات شروع کر دی تھیں، 1992 میں آپ کو دار العلوم کا باضابطہ مدرس طے کیا گیا تھا۔
آپ کا درس بے حد مقبول منفرد ہوتا تھا، علوم و معارف کا فیضان تھا جو جاری رہتا تھا، بالخصوص درس حدیث میں آپ کی محدثانہ، متکلمانہ اور محققانہ شان بہت نمایاں رہتی تھی۔
آپ کے تلمیذ رشید حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی کا یہ پیراگراف نقل کئے بغیر نہیں رہا جا سکتا وہ لکھتے ہیں کہ:
"حقیقت یہ ہے کہ جس وقت صحیح بخاری کے تراجم ابواب کی بحث شیخ الہند کے حلقے میں چھڑ جاتی تھی تو حضرت والا پر بھی خاص حال طاری ہو جاتا تھا، اور سننے والے بھی محو حیرت بن جاتے تھے، وجد کی سی کیفیت معلوم ہوتا تھی کہ سارا مجمع ڈوب گیا ہے۔
(احاطہ دارلعلوم میں بیتے ہوئے دن، صفحہ 156) .


شیخ الہند کی تحریکی و جہادی خدمات:

حضرت شیخ الہند کی حیات عزیمت کا انتہائی روشن باب، تحریک آزادی اور جہاد حریت کے میدان میں ان کی بے مثال جدوجہد اور قائدانہ سرگرمی ہے، ملک کو انگریزوں کے استبداد سے نجات دلانے کے لیے اور امت کے وقار گزشتہ کی بحالی کے لیے آپ شب و روز فکرمند رہتے تھے۔ چنانچہ سب سے پہلے آپ نے اپنے استاد حضرت نانوتوی کی ایماء پر اپنے رفقاء کے ساتھ 1295 میں ایک تنظیم "انجمن ثمرة الترتیب" کے نام سے بنائی، یہ بظاہر دارالعلوم کے ابنائے قدیم کی ایک اجتماعی تنظیم تھی جو درحقیقت آزادی وطن اور جہاد حریت کا اصل مشن آگے بڑھانے کے مقصد سے وجود میں آئی تھی، اس تحریک کی اصل سرگرمی قبائلی علاقوں میں تھی، حضرت نے اپنے شاگرد مولانا سندھی کو سندھ کے اطرف میں آزادی ہند کے لیے مخفی اور منظم کوششوں پر مامور کر رکھا تھا۔ 1909 میں یہ تحریک "جمیعت الانصار" کے نئے نام سے سامنے آئی، اس کے ناظم مولانا سندھی تھے، اس تحریک سے عوام کو متعارف کرانے کے لیے دارالعلوم کے زیر اہتمام 1911 میں ایک عظیم الشان اجلاس دستاربندی منعقد ہوا، جس میں 30 ہزار افراد شریک ہوئے اور یہ تحریک سرگرم ہو گئی ، چنانچہ آگے چل کر یہی تحریک "نظارة المعارف القرانیہ" کے نئے نام سے سامنے آئی۔ 1914 میں جنگ شروع ہوئی جس میں دولت عثمانیہ کو زبردستی گھسیٹا گیا اور اس کے وجود کو خطرات لاحق ہونے لگے، اسی موقع پر حضرت شیخ الہند نے‌تحریک جہاد شروع کرنے کا فیصلہ فرما لیا اور یہی تحریک بعد میں "تحریک ریشمی رومال" کہلائی۔
تحریک ریشمی رومال سے امت کو جو پیغام ملتا ہے وہ عزیمت، ثابت قدمی، استقامت اور حق کے لئے سب کچھ قربان کر دینے کا جذبہ ہے۔


امت کو قرآن سے جوڑنے اور اتحاد کی فکر:

حضرت شیخ الہند کا دوسرا بہت فکر انگیز اور سبق آموز پہلو امت کو قرآن سے جوڑنے اور وحدت کی لڑی میں پرونے کا وہ مبارک جذبہ ہے جو ان کے سینے میں موجزن تھا، مالٹا سے رہائی کے بعد ایک رات دارالعلوم دیوبند میں بعد نماز عشاء علماء کے بڑے مجمع کے سامنے آپ نے اپنا یہی جذبہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ:
"ہم نے مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں، میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیاوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے، ایک ان کا قرآن چھوڑ دینا، دوسرے آپس کے اختلاف اور خانہ جنگی"
(از حضرت مولانا محمد تقی عثمانی) .


حضرت شیخ الہند کے تصنیفی و تالیفی کارنامے:

تعلیمی دعوتی تحریکی اور جہادی سرگرمیوں کے ساتھ اللہ نے حضرت شیخ الہند سے تصنیفی و تالیفی کام بھی لیا، اس سلسلے کا سب سے قابل قدر کام "ترجمہ قرآن" ہے، حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کے ترجمہ قرآن کو آپ نے آسان اردو میں منتقل فرمایا، یہ پہلا با محاورہ اردو ترجمہ قرآن تھا۔
دوسرا اہم کارنامہ جو اسارت مالٹا کے دور میں انجام پایا وہ بخاری شریف کے تراجم ابواب کی توضیح کے موضوع پر 52/ صفحات پر مشتمل رسالہ "الابواب والتراجم للبخاری" ہے، جو کتاب العلم تک کے ابواب کو محیط ہے، انکے علاوہ "حاشیہ مختصر المعانی" اور "تصحیح ابوداؤد شریف" ہے۔


حضرت شیخ الہند کے تلامذہ:

حضرت شیخ الہند کے علمی کمال، فضل و مقام کا اندازہ حضرت کے تلامذہ سے بھی کیا جا سکتا ہے، ایک سے بڑھ کر ایک آفتاب و ماہتاب، حضرت نے بے شمار افراد کو اپنی تربیت و تعلیم سے کندن بنایا تھا، آپ کے تلامذہ میں تمام علوم و فنون کے راسخ علماء شامل ہیں، علم حدیث میں امتیاز اور رسوخ رکھنے والے علماء کی ایک بڑی تعداد آپ سے تلمذ کا شرف حاصل کر چکی ہے، جس میں درج ذیل ممتاز اسمائے گرامی سرفہرست ہیں:

  • خاتم المحدثین امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری
  • حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی
  • شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی
  • شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی
  • شیخ الحدیث حضرت مولانا سید فخر الدین احمد مرادآبادی
  • مفتی اعظم حضرت مولانا کفایت اللہ دہلوی
  • علامہ محمد ابراہیم بلیاوی
  • شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی
  • حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی
وفات حسرت

حضرت شیخ الہند نے 30 نومبر 1920 بروز منگل صبح 9 بجے دہلی میں آخری سانس لی اور یہ آرزو لے کر رخصت ہو گئے کہ "افسوس میں بستر پر مر رہا ہوں، حسرت تو یہ تھی کہ میدان جہاد میں ہوتا اور اعلائے کلمۃ الحق کے جرم میں میرے ٹکڑے کر دیئے جاتے" اس شوق شہادت کے ساتھ آپ اپنے رب سے جا ملے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

***
امام علی مقصود فلاحی۔ شعبہ جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔

Email: imamalishaikh333[@]gmail.com


Shaikh-ul-Hind Mahmood Hasan, A brilliant personality of the past.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں