وحید عرشی کی یکتا عبقری شخصیت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-06-04

وحید عرشی کی یکتا عبقری شخصیت

waheed-arshi

شہر نشاط کلکتہ سے تقریباً 36 کلومیٹر کی دوری پر نواحی علاقہ کانکی نارہ ہے۔ دریائے ہگلی کے دونوں کناروں پر متعدد جوٹ ملوں کے قیام کے بعد یہاں کی بستیاں دھڑلے سے آباد ہوئیں۔لگ بھگ47.57 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہواکانکی نارہ بھی ان ہی بستیوں میں سے ایک ہے۔ تقریباََ 35266 افراد پر مشتمل یہ گنجان آبادی والا علاقہ ہے۔ یہ بھاٹ پاڑہ اسمبلی حلقہ کے ماتحت آتا ہے۔ اس سے متصل نئی ہٹی اسمبلی حلقہ ہے، جہاں آنجہانی شاعر و ادیب رشی بنکم چندر چٹرجی نے جنم لیا تھا اور وطن عزیز بھارت کو قومی گیت "وندے ماترم" سا تحفہ دیا۔
کانکی نارہ علم و ادب کی رو سے بھی ایک زرخیز علاقہ رہا ہے۔ اس سر زمیں کو پروفیسر خواجہ مجیب الحق، عبدالوہاب محسنی ، مسعود انصاری، ایوب انصاری اور حشم الرمضان جیسی قدآور علمی و ادبی شخصیات نے اپنا مسکن بنایا۔ مغربی بنگال کے ضلع شمالی چوبیس پرگنہ میں اسی کانکی نارہ- نارائن پور کی سر زمیں پر خواجہ خانوادے میں ایک ہونہار بچے نے 27/ستمبر 1943 کو غلام ہندوستان میں جنم لیا۔ مگر ذہنی غلام نہیں رہا۔ قلم کی طاقت پر اپنے قلمی نام وحید عرشی سے اپنی منفرد شناخت بنائی جب کہ کانکی نارہ نیابازار کو اپنا مسکن بنانے والے ان کے والدین مولوی محمد حنیف و زبیدہ خاتون نے ان کا اصل نام خواجہ وحید الحق رکھا تھا۔
یاد رہے کہ ان کی وفات 3/ فروری 1986 کو ہوئی۔ موت کی وجہ جرسام (پھیپھڑے میں پانی کا آ جانا) نامی بیماری ٹھہری۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ موصوف بے ثبات زندگی کی صرف 43 بہاریں و خزائیں ہی دیکھ پائے ہوں گے۔ واضح ہو کہ دنیا کی ادبی تاریخ میں ایسے کئی ادیب اور شاعر گزرے ہیں، جنھوں نے کم عمری میں نام کمایا لیکن جلد ہی دارِ فانی سے حیاتِ جاودانی کی جانب کُوچ کر گئے۔ انگریزی ادب کے بعض بڑے نام مثلاً جان کیِٹس، شیلے، ایملی برونٹے اور لارڈ بائرن ایسے فن کاروں میں شامل ہیں جنھوں نے نوجوانی ہی میں اپنا لوہا منوا لیا تھا۔ مگر زندگی نے انھیں زیادہ مہلت نہیں دی۔
جان کیٹس جیسا بے مثل رومانی شاعر پچیس سال کی عمر میں ٹی بی کا شکار ہوکر دنیا سے چلا گیا۔ شیلے جیسا مفکر شاعر انتیس برس میں اس وقت ڈوب کر موت کی وادی میں اتر گیا جب اٹلی میں اس کی کشتی طوفان میں پھنس گئی تھی۔ ٹھیک اسی طرح خواجہ وحید الحق کو بھلے ہی زندگانی نے طویل مہلت نہیں دی مگر انھوں نے اسی قلیل مدت میں اپنی علمی و ادبی خدمات سے بہت کچھ ثابت کیا۔ مثال کے طور پر صاحب کتاب شاعر و ادیب زماں قاسمی(سابق بینک افسر) اپنے مضمون بہ عنوان ''وحید عرشی: بحیثیت نثر نگار'' میں یوں رقم طراز ہیں:
" تاریخی مجلہ 'آکاش پتر' کے ذریعے انھوں (وحید عرشی) نے کانکی نارہ اور بھاٹ پاڑہ کی پرانی تاریخ اور اس زمانے کی ادبی، سماجی اور سیاسی سرگرمیوں سے روشناس کرایا۔ جو یقیناً ایک کارنامہ ہے۔"
(وحید شناسی، مرتب طیب نعمانی،ص:31)


راقم الحروف نے اسی تعلیمی گہوارہ کانکی نارہ حمایت الغرباء ہائی اسکول سے سکنڈری و ہائر سکنڈری کی تعلیم حاصل کی ہے جہاں سے وحید عرشی بھی فارغ ہوئے تھے۔ نیز انھوں نے اسی اسکول میں تقریباََ اٹھارہ 18 سالوں تک پڑھایا بھی۔ ایک زمانہ بعد خاکسار نے بھی اسی اسکول میں آٹھ سال آٹھ ماہ تدریسی خدمات انجام دی۔ اس لیے خاکسار کا مرحوم کے ساتھ ے ایک جذباتی رشتہ ہے۔ خواجہ وحید الحق 1959 ء میں میٹرک کے امتحان میں کامیاب ہوئے۔ 1962 ء میں آئی اے اور بی اے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد 1968ء میں کلکتہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کرتے ہوئے گولڈ میڈل کے حقدار بنے۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق کلکتہ کے اطراف کے اضلاع کا پہلا (اردو میڈیم میں) گولڈ میڈلسٹ خواجہ وحید الحق ٹھہرائے گئے۔ واضح ہو کہ موصوف جس وقت کلکتہ یونیورسٹی سے اردو میں پوسٹ گریجویشن کر رہے تھے۔ اس وقت کلکتہ یونیورسٹی میں صدر شعبہ ٔ اردو محترم پرویز شاہدی تھے۔ اس لحاظ سے وہ پرویز شاہدی کے بھی شاگرد ٹھہرے۔


وحید عرشی پیدائشی ذہین تھے۔ ان کی ذہانت کی بین دلیل کے لیے معروف شاعر و ادیب زماں قاسمی (وحید عرشی کے برادر کبیر پروفیسر مجیب الحق کے معتقد) کے مضمون بہ عنوان ''وحید عرشی: بحیثیت نثر نگار'' کا ماخوذ بہ حوالہ پیش ِ نظر ہے:
" 1958 میں قوم لائبریری کانکی نارہ، جو اس وقت ضلع شمالی 24 پرگنہ کی سب سے بڑی لائبریری مانی جاتی تھی، نے اردو ہائی اسکولوں کے طالب علموں کے درمیان ایک فی البدیہہ مباحثے کا اعلان کیا۔ لائبریری کے صحن میں بحث و مباحثے کا پروگرام رکھا گیا تھا۔ کئی اسکولوں کے طالب علم اس پروگرام میں شامل ہوئے تھے۔ ڈیبیٹ کمیٹی کے جج حضرات میں مسعود انصاری، محسنی صاحب اور ایوب انصاری شامل تھے۔ موضوعِ مباحثہ اسی وقت چنا گیا۔ مقابلۂ بحث شروع ہوا۔ جب نتیجے کا اعلان آیا تو خواجہ وحید الحق (جو اس وقت، وحید عرشی نہیں بنے تھے) اول انعام کا حقدار بنے۔ اس وقت وحید الحق درجہ دہمx کے طالب تھے"
(وحید شناسی، مرتب طیب نعمانی، ص:30-31)


خواجہ وحید الحق (وحید عرشی) سال 1966 ء میں کانکی نارہ حمایت الغرباء ہائی اسکول میں طلبہ کے معلم و دمساز ہوئے۔ لگ بھگ اٹھارہ سال تک تشنگانِ علم کو سیراب کراتے رہے۔ نتیجتاً ایک لائق و فائق مدرس کے لقب سے سرفراز ہوئے۔ کل وقتی طور پر مذکورہ اسکول میں تدریسی فرائض کی ذمہ داری نباہ ہی رہے تھے مگر اپنے بڑے بھائی پروفیسر خواجہ مجیب الحق (پروفیسر مولانا آزاد کالج، کلکتہ) کے نقش قدم پر چلنے کی سعی میں مصروف ِ عمل ہوئے۔ لہٰذا 1975 ء میں گھر سے چالیس 40 کلومیٹر دور بھوانی پور ایجوکیشنل سوسائٹی (کالج)، کلکتہ میں اردو شعبہ کی بنیاد رکھنے والوں کے ساتھ ہو کر تگ و دو کرنے والوں میں شریک ِ عمل ہوئے۔نیز فروغِ اردو کے لیے شمع ِ اردو جلانے کی غرض سے متذکرہ کالج میں اردو شعبہ کے قیام کے لیے ہائر سکنڈری اسکول کی اپنی کُل وقتی ملازمت کی قربانی دے کر بھوانی پور کالج میں جز وقتی لیکچرار کے عہدے کو گلے لگایا۔ دلیل کے طور پر مقبول زمانہ شاعر اور صاحب ِ طرز نثر نگار منور رانا(مشاعروں کے حوالے وحید عرشی کے رفیق کار اور ان کے عقیدت مند) اپنے مضمون ''زنجیر کھینچ کر وہ مسافر اتر گیا'' میں یوں کہتے ہیں:
"وہ تو اردو کے خاموش خدمات گار تھے، اردو ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ یہ اردو کی محبت ہی تو تھی کہ وہ حمایت الغرباء ہائر سکنڈری اسکول کی پندرہ سو روپے کی نوکری کرنے کے بجائے بھوانی پور کالج میں 600 روپیہ کی غلامی کر رہے تھے۔" (بغیر نقشے کا مکان، ص:71)
تنگ نظر نیز وسیع نظر لوگ انھیں کسی بھی آنکھ سے دیکھیں اور کسی زاوئے سے پیش کریں مگر مستقل ملازمت کو چھوڑ کر عارضی کو اپنانا نیز آدھی سے بھی کم تنخواہ پر گھرسے چار قدم کی روزی کو چھوڑ کر روزانہ چالیس کلومیٹر دور کی مسافت کو گلے لگا لینا ایک قابل غور اور لائق ِ تحسین اقدام کو ظاہر کرتا ہے۔ اس قدر ایثار کا جذبہ معدودے چند اشخاص میں ہی ہوتا ہے۔ ایسے ہی لوگ کچھ الگ کر دکھاتے ہیں۔ مگر ان کے حصے میں جو مصائب کا پہاڑ وارد ہوتا ہے، ماضی کی فراوانی کے فوراً بعد حال میں جو قلت ہوتی ہے، اس کا قیاس لگانا قطعی آسان نہیں ہے۔ حال کے متاعِ غم کے سبب جب ماضی کی خوشگوار یادیں پکارتی ہیں تو کیسا کرب جسد ِ خاکی کے دل و جاں پر گزرتا ہے، اندازہ کریں۔ اوپر بیان کی گئی باتوں کے منظر اور پس منظر میں اپنے تخیلات کو وحید عرشی جیسا حساس شاعر شعری لبادے میں یوں کہتا ہے:
راہ ِ منزل چھوڑ دیتا ہوں ہمیشہ اس لیے
مل گئی منزل تو جہد ِ زندگی مر جائے گی


لٹ گیا اب تو متاعِ غمِ تنہائی بھی
کس ادا سے تری یادوں نے پکارا اے دوست


کیسے سناؤں غم کی کہانی سانسوں پر ہے بار بہت
ماضی کہتا ہے ، کہہ جاؤ ، حال کو ہے انکار بہت


وحید عرشی کثیر الجہات شخص تھے۔ وہ بیک وقت ایک کامیاب شاعر، افسانہ نگار، نثر نگار اور معلم ہو نے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین مصور بھی تھے۔ لکڑی پر بنائی گئی غالب و ٹیگور کی تصویریں، لکڑی پر کندہ کرکے ریڈیو کا نقشہ، اپنے دستخط کا ابھارا ہوا نقشہ اور پتھر کو تراش کر بنائی گئی تصویریں بین ثبوت ہیں۔وحید عرشی کے اندر ایک ساتھ کئی فنکار سانس لے رہے تھے۔مزے کی بات اور عش عش کا مقام ہے کہ موصوف نے اپنے اندر کے اُن سارے فن کاروں کو مساوی اختیار دے رکھا تھا۔ معلمی سے ذرا سی فراغت ملنے پر برش اٹھا لیتے اور قرطاس ِ ابیض پر اپنے خیالات کو رنگین نقوش کے ساتھ ابھار دیتے۔ جب چاہتے مٹی کو اظہار کا ذریعہ بنا ڈالتے۔ مزید برآں تجسّس ، جنون اور اپنی لگن کو لکڑی، مٹی اور پتھروں کی زبان بنا لیتے۔ بے کار پڑے پلاسٹک کو اٹھا کر دیدہ زیب بٹن بنا دیتے۔ صرف اسی پر اکتفاء نہیں تھا۔ جس طرح جگدیش چندر بوس پودوں سے باتیں کرتے اسی طرح وحید عرشی بھی رات گئے جب کبھی نیل گگن پر تاروں کی بارات نکلتی تو اپنی فکر، آہنگ اور آسماں خیال سے ان کے ساتھ بھی محو گفتگو ہوجاتے ،نیز احساسات کو قرطاس پر بکھیرنے کے لیے پھر برش رکھ کر اپنا قلم اٹھا لیتے۔
خیال رہے کہ موصوف نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا۔ کم عمری میں وفات کے باعث ان کی شاعری کے خزینہ میں شعری افراطِ زر نہیں ہے تاہم جتنا کچھ ہے وہ قیمتی سرمایے سے کم بھی نہیں ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں کی تعداد کم ہونے کے باوجود اپنے اندر گہری معنویت رکھتی ہیں۔ وحید عرشی کی شاعری سے افہام و تفہیم، مضبوط ربط ، شگفتگی اور سلیقگی کا بھر پور عکس عیاں ہوتاہے۔ اس کے علاوہ ان کے اشعار میں منفرد آہنگ، اسلوب، انوکھا خیال ا ور حسن ِبیان ملتا ہے ۔ساتھ ہی ساتھ خوب سلاست کا بھی احساس ہوتا ہے۔ دلیل کے طور پر وحید عرشی کے اشعار سے محظوظ ہوں ؂
کس کو کہیے گا خرد اور کس کو کہیے گا جنوں
اِک خودی نا آشنا ، اِک بے خودی میں مبتلا


عقل اور دل میں ترے حسن پہ اک بات چلی
کل بہت رات، بہت رات گئے، رات ڈھلی


دل کا سارا درد سمٹ آیا ہے میری پلکوں میں
کتنے تاج محل ڈوبیں گے پانی کی ان بوندوں میں


جدید شاعر اور نثر نگار پروفیسر حیدر صفت (اردو شعبہ، کلکتہ یونیورسٹی) اپنے مضمون "وحید عرشی کی شاعری--ایک سرسری جائزہ " میں یوں لکھتے ہیں:
'' جب ترقی پسند تحریک تنظیمی سطح پر ٹوٹ پھوٹ کر تخلیقی سطح پر اپنی آخری ہچکی لے رہی تھی، نئی نسل اسلوب کے ساتھ ساتھ موضوعات میں بھی تبدیلی کی خواہاں تھی۔ اس نئی نسل میں کچھ لوگ ترقی پسند خیالات کو نئے ڈکشن کے ساتھ اپنا رہے تھے۔ بہت ہی خلوص اور سچائی کے ساتھ وحید عرشی کا شمار ہم ایسے ہی نوجوان شاعروں میں کر سکتے ہیں۔ انہوں نے بغیر کوئی لیبل چپکائے اور بغیر شرمائے ہوئے اپنے محسوسات کے اظہار ہی کو شاعری سمجھا تھا۔''(وحید شناسی، مرتب طیب نعمانی، ص:27) اس تناظر میں Genius شاعر وحید عرشی کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
بحر غم دوراں میں اک اک چیز تمہاری پھینک دی میں نے
یاد مگر بن بیٹھی ساحل ، ڈوب سکی نہ موجوں میں


تم کو پایا، تم کو کھویا، بات انوکھی اس میں کیا ہے
پر وہ خوشبو چبھ جاتی ہے، بس جو گئی ہے بانہوں میں


ٹوٹا ماضی کا آئینہ ، بکھری یادوں کی کرچیں
زخمی ہیں احساس کے تلوے، چلنے سے بیزار بہت


بے اختیار آج بھی آنسو نکل پڑے
کیسے تجھے بھلانے کی کوشش کرے کوئی


وحید عرشی کی شاعری کے تعلق سے مظہرامام(ریڈیو اور دور درشن سے منسلک) اس طرح عرض کرتے ہیں:
"وحید عرشی ایک جواں مرگ شاعر کا نام ہے جو تمام عمر صلیب پر لٹکا رہا کیونکہ غم حیات کی کیلیں اس کے دست وپا میں جڑی ہوئی تھیں۔وہ یادو کے زنداں سے نکل بھاگنے کے ارادے کرتا رہا لیکن اس کے گرد ایک اونچی دیوار ایستادہ کھڑی تھی اور وہاں سے باہر آنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔"
(یادوں کا زنداں- وحید عرشی، مرتب:کمال جعفری، فلیپ کے پشت پر)


"یادوں کا زنداں" وحید عرشی کا اولین شعری مجموعہ ہے، جس کو موصوف کی موت کے بعد دہلی کے ذاکر نگر میں مقیم معروف شاعر و ادیب کمال جعفری(آل انڈیا ریڈیو دہلی میں پروگرام ایگزیکٹیو) نے سال 1991 میں مرتب کیا تھا۔ اس کتاب میں غزلیں، قطعات، متفرق اشعار کے علاوہ نظمیں بھی ہیں۔مطالعے کی میز پر کتاب رکھنے کے بعد معلوم پڑتا ہے۔ 88 اٹھاسی صفحات پر مبنی اس شعری آئینے میں ہم ایک ایسے شاعر کی تصویر دیکھتے ہیں جس کے سینے میں ایک حساس دل تھا۔ موصوف کی شاعری میں زندگی کے نشیب و فراز کی کہانیوں کے علاوہ روز مرہ میں واقع ہونے والے ان تمام واقعات کی روداد ملتی ہے جو ایک فنکار کے فن کو اجاگر کرسکے۔


دراصل کلاسیکی شاعری میں درد سے مراد دل کا درد ہے جو عشق میں حاصل ہوتاہے اور یہی عاشق کا سرمایہ مانا جاتا ہے۔ عمر بھر سوز ِ دل کی حفاظت ہی اس کا مقدر ہوتا ہے۔ وہ اسے آب پاشی کی مانند سسکیوں اور آنسوؤں سے سینچتا رہتا ہے۔ درد کا یہ پُراثر بیانیہ شاعری میں دور تک پھیلا ہوا ہے۔ جدید شاعری میں درد کے اوربھی بہت سے محرکات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ وحید عرشی کی شاعری میں اس کے گہرے نقوش ملتے ہیں۔اس پیرائے میں چند اشعار ملاحظہ کریں ؂
جہاں سے عشق کو سودائے غرض ہو اے وحید
وہی مقام ہے، الفت میں خودکشی کے لئے


ترک تعلق سے اک میرا دل ہی نہیں ہے کچھ زخمی
تیر ہوئے ہی ہوں گے تیرے سینے کے بھی پار بہت


بھاگ چلوں یادوں کے زنداں سے اکثر سوچا لیکن
جب بھی قصد کیا تو دیکھا ،اونچی ہے دیوار بہت


میں تو خاموش تھا چپ رہ نہ سکے زخم کے لب
میں نے سمجھا ہے سدا تجھ کو مسیحا اے دوست


ایسے ہر فن مولا شخص کی شاعری کا اختصاس وانفراد اس کا اپنا اسلوب ہے۔ وحید عرشی نے خوش آہنگ لب و لہجے میں مصائب ِ ہستی کو ویسے ہی پیش کردی جیسی وہ تھیں۔ موصوف نے شاعری میں پیشکش سے زیادہ خیال کو ترجیح دی۔ لہذا ! باآسانی کہا جا سکتا ہے کہ جیسی وحید عرشی کی شخصیت منفرد تھی ویسی ہی ان کی شاعری بھی۔ ان کی شاعری ذاتی تجربے کی بنیاد پر ہے۔ موصوف کی شاعری میں رشتوں کے انتشار کا کرب بھی ہے اور امید کے روشن چراغ کی لوَ بھی۔ان کی غزلوں کے موضوعات میں‘یاد’ کو مرکزیت حاصل ہے۔ ایک حساس دل لاکھ کوشش کرلے ان یادوں کے زنداں سے چنداں نہیں نکل سکتا۔‘ یادیں’ وہ اثاثہ ہے جس سے سکون بھی ملتا ہے اور بے سکونی بھی۔ اور یہ دونوں حالتیں حساس دلوں پر خوب گزرتی ہیں۔ الگ ڈکشن مزید ندرت خیال و الے وحید عرشی کے زیر ِ نظر اشعار کے ساتھ اس سلسلے کو یہی اختصار دے دیتا ہوں:
کس کے جنونِ عشق کا چرچا ابھی سے ہے
سمٹی ہوئی جو وسعت صحرا ابھی سے ہے


آسودگئ دل کی تمنا جو کہ وحید
ہر سو غم جہاں کا بلاوا ابھی سے ہے


بہرِ تسکین، خاطرِ ناشاد
تم تصور ہی میں چلے آو


ڈوب جائے گی کائنات کی نبض
تم خدارا نہ بے حجاب آؤ


ارماں کے تابوت میں جب میں وقت کی کیلیں گاڑ چکوں گا
پھر جب بھی تم یاد آؤ گے بہہ جاؤ گے اشکوں میں


وحید عرشی اپنی تمام تر ہمہ گیریت کے ساتھ ایک اچھے نثار بھی تھے۔ ان کے نثری مضامین کی تعداد بھلے ہی کم ہے لیکن جتنا بھی ہے، اس سے ان کی نمکین نثری وجدان کا عکس بھر پور نظر آتا ہے۔ان کے مضامین میں بھرپور روانی، برجستگی، شگفتگی اور انوکھاپن کے ساتھ غنائیت بھی ہے۔ کم عمری میں وفات پانے والے معروف و مقبول شاعر وکیل اختر پر ان کی خامہ فرسائی بہ عنوان "بجھے لمحوں کی یاد" پڑھنے سے بہت کچھ ظاہر ہوتا ہے۔ موسیقی سے بھی انھیں خاصہ شغف تھا۔ ایک جانب وحید عرشی کامرس کے طالب علموں کی خاطر کمرشیل الفاظ کی ڈائریکٹری تیار کر رہے تھے تو دوسری جانب "ترجمہ اور اس کا فن" نامی کتاب کی تصنیف میں ہمہ تن مصروف تھے۔ گردشِ زمانہ کب کس کا ہوا ہے۔ وقت نے حیات کا دامن کسا اور مالی تنگیوں نے شکنجہ۔ لہذا سب دھرا کا دھرا رہ گیا۔ موصوف شاعری، افسانہ نگاری اور مضمون نگاری میں ایک فلسفی سا تھے ہی۔ وہ معاشرے میں بلا امتیاز سبھوں کے ساتھ میل ملاپ رکھتے۔ دکھوں میں لوگوں کے ساتھ رہتے۔لہذا معاشرے میں وحید عرشی ایک اچھے فنکار ہی نہیں بلکہ ایک اچھے انسان بھی تھے۔ کتاب " یادوں کی زنداں" میں صفحہ نمبر 59پر موجود یہی خصائص فطری طور پر بھی وحید عرشی کی نظم "فساد" میں صاف سمجھ میں یوں آتا ہے:
فساد
___
آؤ ساتھی!
تم مسجد سے لاؤ مصلیٰ
ہم مندر سے مورت لائیں
دونوں مل کر
جنم جنم کے ان جھگڑوں کو ختم کریں۔

***
شاہد علی (کانکی نارہ، مغربی بنگال)
ای-میل: shahidali17799[@]gmail.com

Waheed Arshi, a unique and genius laureate

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں