مولانا وصی حسن خان : فیض آباد کے خطیب احسن - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-06-05

مولانا وصی حسن خان : فیض آباد کے خطیب احسن

منبروں سے کی جانے والی مذہبی خطابت نے ہمیشہ سےدین اسلام کی تبلیغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مذہبی تعلیمات کو فروغ دینےاور مسلم معاشرے میں اتحاد کے احساس کو زندہ رکھنے کے لیے خطابت ہمیشہ سے ایک طاقتور ذریعہ کے طور پراستعمال ہوتی رہی ہے۔ ہندوستانی سرزمیں پر بھی بہت سے مسلم خطیب ایک بااثر شخصیت کے طور پر ابھرے ہیں، کہ جنہوں نے اپنی زبردست بصری پیشکشوں سے سامعین کو مسحور کیا اور اپنے سننے والوں پر دیرپا اثر چھوڑا ہے۔ بلا شبہ، عوام الناس کے درمیان خطاب کرتے ہوئے اپنے الفاظ اور اشاروں کے ذریعے سامعین کو مسحور کرنے کی طاقت ایک ہنر ہے، جو چند منتخب افراد کے پاس ہی ہوتا ہے۔ ان قابل ذکر خطبا میں سے، بعض خطیب دلکش بصری پیشکشوں کے ساتھ ادا کردہ الفاظ کو جوڑنے کی اپنی صلاحیت کے لیے نمایاں ہیں۔


ایسی ہی ایک قابل ذکر شخصیت سرزمین اعظم گڑہ کے ایک چھوٹے سے گاوں سے تعلق رکھنے والے مولانا وصی حسن خان ہیں، جو ایک مشہور اسلامی اسکالر، مبلغ، اور خطیب ہیں۔ مولانا وصی حسن کی بصری خطابت نے نہ صرف مسلم معاشرے کے اندر بلکہ مختلف فرق و مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی توجہات کو اپنی طرفمبذول کیا ہے ۔ مولانا وصی حسن کی پیچیدہ موضوعات کو فصاحت کے ساتھ بیان کرنے کی منفرد صلاحیت نے انہیں دور حاضر کے مسلمخطبا میں ایک سر کردہ آواز کے طور پر قائم کیا ہے۔ آپاپنی گہری فکری بصیرت سے بالاتر، اپنی بصری خطابتکے ذریعے منبر سے دیے جانے والے پیغام کے اثرات کو اور زیادہ بڑھا جاتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ کی طولانی ترین مجلسوں میں بھی سامعین کے ساتھآپ کیمضبوط ہم آہنگی قائم رہتی ہے۔


مولانا وصی حسن خان کا تعارف

مولانا وصی حسن کی پیدائش 1 جون 1969 عیسوی کو ھندوستان کے شہر آعظمگڑہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ہوئی ۔ آپ کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے۔ آپ کے داداعالم دین اور مولوی تھے جنہیں اردو عربی اور فارسی پر عبور حاصل تھا۔ آپ کے والد پیشہ سے کسان تھے۔ بچپن ہی سے دادا کی صحبت میں رہنے کے نتیجے میں آپ کو اردو فارسی سے جلد آشنائی حاصل ہوئی، یہاں تک کہ 10 سال کی عمر میں ہی گلستان و بوستان سعدی کی کئی حکایات آپ کو زبانی یاد تھیں۔ آپ کی والدہ مرحومہ بھی عالمہ، ذاکرہ اور معلمہ قرآن و حدیث تھیں، علاقہ میں علمی مکاتب کے فقدان کی وجہ سے قرب و جوار کی تمام تر بچیاں علم قرآن سے محروم تھیں، درس قرآن کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئےآپ کی والدہ نے گھر پر ہی درس قرآن کے سلسلے کی بنیاد رکھی۔مولانا وصی حسن کی تریبت ایسے ماحول میں ہوئی جہاں علم کو دیگر تمام چیزوں پر فوقیت حاصل تھی۔ گھر سے ہی ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد آپ کے مرحوم والد نے اعلی دینی تعلیمات کے حصول کے لئے آپ کا داخلہ جامعہ نظامیہ لکھنؤ میں کرایا جہاں پر آپ نے بزرگعلمائے کرام سے کسب علم و فیض کیا۔ جامعہ نظامیہ میںعلمی نصاب کو بنحو احسن مکمل کرنے کے بعد آپ ایران پہنچے جہاں آپ نے اس دور کے جید علما کے حضور علم دین حاصل کیا۔ 1996 میں ملک واپسی کے بعد ہی سے آپ شہر فیض آباد کے وثیقہ عربی کالج میں بطور استاد طلبا کی تدریس و تربیت میں مصروف ہیں۔


مولانا وصی حسن خان کی خطابت اور اس کی خصوصیات

طالب علمی کے دور سے ہی آپ اپنے گاوں اور قرب و جوار کے علاقوں میں تبلیغ کے لئے منبر پر جایا کرتے تھے،آپ کو خطاب کرتے ہوئےکچھ ہی دیر نہ گزرتی کہ مجمع آپ کے لب و لحجہ کا گرویدہ ہو جایا کرتا تھا۔ کچھ ہی عرصے میں آپ اپنے بصری طرز خطابت کے لئے منفرد ہو گئے اور ملک و بیرون ملک میں آپ کو سننے والوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ آپ منبر سے خطاب کرتے وقت پیچیدہ ترین موضوعات کو ایسے مؤثر طریقے سے اپنے سامعین کے سامنے پیش کرتے ہیں جو سننے والوں کے لئے ایک یادگار اور اثر انگیز تجربہ ہوا کرتا ہے۔ مولانا وصی حسن اپنی تقریروں میں حکایات اور کہانیوں کو مہارت کے ساتھ یکجا کرتے ہیں اور اپنے سامعین کے تخیل میں اتر کر جذباتی طور پر اُن میں شامل ہوجاتے ہیں۔ پیچیدہ دینی مضامین کو مزید قابل رسائی اور متعلقہ بنانے کے لیے مولانا وصی حسن کی طرف سے استعارے اور تشبیہات کا بھی کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ تجریدی خیالات اور مضبوط تجربات کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے، آپ پیچیدہ مذہبی اور فلسفیانہ تصورات کو آسان بنا دیتے ہیں کہ جس سے آپ کی بات سامعین کی روزمرہ کی زندگیوں سے زیادہ متعلقہ بن جایا کرتی ہے۔آپ اپنی تقریروں میں کسی واقعہ کو نقل کرتے ہوئے اکثر یہ جملہ کہا کرتے ہیں کہ “ہر بات کتاب میں نہیں لکھی ہوتی”۔آپ کا یہ بصری انداز روایت اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ آپ کا پیغام مجمع کے ہر ہر فرد تک پہنچے اور آپ کی تقریر ختم ہونے کے بعد بھی سامعین کے ساتھ رہے۔ اس کے علاوہ، آپ کلیدی نکات کو تقویت بخشنے اور مرکزی موضوعات پر زور دینے کے لیے تکرار کا مؤثر استعمال کرتے ہیں۔ اپنی پوری تقریر میں بعض جملے یا خیالات کو دہرانے سے، آپ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ آپ کا پیغام سامعین پر گہرا اثر چھوڑجائے۔


مولانا وصی حسن اکثر اپنی بصری تقریر میں قائل کرنے والی زبان کو شامل کرتے ہیں۔ گاوں سے تعلق رکھنے کی وجہ سے آپ کی تقریری صلاحیتوں کو علاقائی ثقافت و رسوم و رواج سے آشنائی کی بھی مدد حاصل ہے۔ آپ احتیاط سے ایسے الفاظ اور فقروں کا انتخاب کرتے ہیں جن سے سامعین کے جذبات پر اثر پڑتا ہے اور پھر وہ آسانی کے ساتھ عمل کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ جا بجا اپنی آسان اورعلاقائی زبان اور لحجہ کا استعمال کر کے آپ اپنے سامعین سے گہرا تعلق قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ آپ اپنے منفرد طرز استدلال کی مدد سے بلا جھجکلوگوں کو سماج پر حاکم غلط اصولوں پر سوال کرنے اور متبادل نقطہ نظر پر غور کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔ مولانا وصی حسن خان اکثر اپنے سامعین کو مشغول کرنے اور ان کے افکار کے تحرک کے لئے تشبیھی سوالات کا بھی استعمال کیا کرتے ہیں۔ یہ تشبیھی سوالات فکری تجسس کو جنم دیتے ہیں اور ایک ایسا مکالمہ پیدا کرتے ہیں جو سامعین میں مسلسل غور و فکر اور خود عکاسی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔قصہ و حکایات، استعارے، تکرار، علاقائی زبان، اور تشبیھی سوالات کے ماہرانہ استعمال کے ذریعے، مولانا وصی حسن اپنی بصری تقریر کو تاثیر کے اعلیٰ درجے تک پہنچاتے ہیں۔ خطابت کی ان باریکیوں کابخوبی خیال کرتے ہوئےآپ سامعین کو مشغول کرتے ہیں اور ان کے ذہن میں پیچیدہ خیالات کی گتھی کو با آسانی سلجھا جاتے ہیں۔


دور حاضر کے مسلم خطبا میں، مولانا وصی حسن کی بصری انداز خطابت اسلامی تعلیمات کو پہنچانے اور دینی اخلاقیات کو فروغ دینے میں موثر ثابت ہوئی ہے۔ خطابت کی این باریک تکنیکوں کے شعوری استعمال کے ذریعے، مولانا وصی حسن اپنے سامعین کو متعدد سطحوں پر منسلک کر کے ان پردیرپا اثر چھوڑتے ہیں جو آپ کی تقریروں کے دورانیے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔


مولانا وصی حسن ایک زر خیز فکری روایت کا ثمر ہیں۔خطابت کی یہ روایت صدیوں سے پروان چڑھتی رہی ہے، علما اور مبلغین، اسلامی تعلیمات کو پہنچانے اور عصری مشکلات سے سامنا کرنے کے لیے عوام کے درمیان خطاب کرتے آئے ہیں۔ مولانا وصی حسن کی تعلیم و تربیت بھی انہیں علما کے درمیان ہوئی جو علم کو پھیلانے اور اسلام کی گہری تفہیم کو فروغ دینے میں خطابت کی طاقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ غلط معلومات اور دقیانوسی تصورات کے حامل دور میں، مولانا وصی حسن کی خطابت اسلامی تعلیمات کی درست اور آگاہانہ تشریح کرنے والے علما کے ساتھ گونجتی ہے۔ مولانا وصی حسن خان کا ایک خطیب کے طور پر شاندار سفر چار دہائیوں پر محیط ہے، جس کے دوران آپ نے نہ صرف اپنی صلاحیتوں کو نکھارا بلکہ نوجوان طلاب و مبلغین کی تقریری صلاحیتوں کو بھی پروان چڑھانے کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ آپ کے وسیع تجربے اور علم سے فیضیاب ہو کر آپ کے سیکڑوں شاگرد آج ملک کے مختلف علاقوں میں دین کی خدمت میں مصروف ہیں۔


***
شبیہ عباس خان۔ سافٹوئر انجینئر (بی۔ٹیک، انٹگرل یونیورسٹی، لکھنؤ)۔
shabihabbaskhan[@]gmail.com

Maulana Wasi Hasan Khan, Khateeb-e-Faizabad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں