حیات نصرت ظہیر کے کچھ گمنام پہلو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-06-05

حیات نصرت ظہیر کے کچھ گمنام پہلو

Nusrat Zaheer

نصرت ظہیر 19 مارچ 1951ء کو ضلع بلند شہر (اتر پردیش) کی تحصیل، سکندر آباد کے محلہ بھاٹیہ واڑہ میں ایک غریب، لیکن دینی و مذہبی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کی پرورش و پرداخت شہر سہارن پور عمل میں آئی۔ انہوں نے محمد علی جوہر لائبریری، مسجد خانی باغ نخاسہ، میونسپل اسکول محلہ انصاریان، محلہ شاہ بہول اور مدرسہ مخزن العلوم کے لائق ترین مولوی صاحبان اور اساتذہ کرام سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے اسلامیہ انٹر کالج، جین کالج سہارن پور اور گریجویشن کے لیے میرٹھ یونیورسٹی کا رخ کیا۔


نصرت ظہیر ایک اچھے طنز و مزاح نگار تھے۔ انہوں نے شاعری، خراب الیکٹرانک ساز وسامان کو درست کرنے، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور صحافت جیسے میدانوں میں قسمت آزمائی کرکے ان میں نام پیدا کیا۔ نصرت ظہیر کی تین کتابیں
(1) My Days in Prison (2005)
(1) "تہاڑ میں میرے شب و روز" افتخار گیلانی کی کتاب کا ترجمہ ہے۔ جس پر انہیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ برائے ترجمہ ملا۔
(2) "ہم امیر لوگ" Rich Like Us کا اردو ترجمہ ہے، یہ نین تارا سہگل کا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ( 1984ء) یافتہ ناول ہے۔
(3) "غالب ارتھ وکتا رچناتمکتا یوں شونیتا"(2020ء) یہ نارنگ صاحب کی کتاب "غالب معنیٰ آفرینی جدلیاتی وضع شونیتا اور شعریات" (2013ء) کا ہندی ترجمہ ہے۔


ان میں سے پہلی کتاب کو پنگوئن، بکس انڈیا نے جبکہ بالترتیب دوسری اور تیسری کو ساہتیہ اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔ مذکورہ بالا تین کتابوں کے علاوہ نصرت ظہیر کا ایک شعری مجموعہ "دریں اثنا"(2019ء) ہے اور پانچ کتابیں طنز و مزاح پر مشتمل ہیں۔


(1) "تحت اللفظ" (1992ء) دنیا پبلی کیشنز، 309 بی، دلشاد گارڈن، 110095، دہلی
(2) "بقلم خود" (1996ء) اسکائی گروپ، 167/7، جولینا کمر شیل، کمپلیکس، 110025، نئی دہلی
(3) "خرّاٹوں کا مشاعرہ" (2002ء) مکتبہ پیام تعلیم، جامعہ نگر، 110025، نئی دہلی
(4) "نمی دانم" (2008ء) پینگوئن بکس،انڈیا
(5) "ہزار باتیں" (2019ء) عرشیہ پبلیکیشن، دہلی
ان کتابوں کے علاوہ انہوں نے "نقوش" کے طرز پر "ادب ساز" جیسا ایک ضخیم رسالہ بھی نکالا تھا۔ جس کے کئی شمارے آج مختلف لائبریریوں سمیت ریختہ پر بھی موجود ہیں۔ لیکن آج میری گفتگو کا موضوع ان کی خدمات کا احاطہ کرنا نہیں بلکہ نصرت ظہیر کی زندگی کے کچھ گمنام اور ان کہے پہلوؤں پر روشنی ڈالنا ہے، یعنی یہ مضمون نصرت ظہیر کے خاص شخصی گوشوں کو اجاگر کرتا ہے۔


نصرت ظہیر بھی ن م راشد (1910ء- 1975ء) ہی کی طرح الیکٹرانک مشینوں سے حد درجہ شغف رکھتے تھے۔ یہ اپنے آپ میں گم بالکل قلندر صفت انسان تھے، دنیا اور علائق دنیا سے خود کو بہت دور رکھنے والے اور صرف اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ یہ صحافت کو اپنا پیشہ نہیں بلکہ اپنا مشن اور مشغلہ سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں چار بیٹیوں سے نوازا تھا، لیکن یہ اس بات سے اہل خانہ کے بقول ذرا بھی مغموم نہیں تھے، بلکہ یہ اپنی بیٹیوں کو ہی بیٹا تسلیم کرتے تھے اور ان کی ضروریات پوری کرنے میں کسی بھی قسم کی کوئی کمی یا کوتاہی بالکل بھی نہیں کرتے تھے۔ بچیوں کی تربیت کرتے ہوئے، انہوں نے چارلی چیپلن(1889ء-1977ء) اور عمر شریف(1955ء-2021ء) کی ویڈیوز بھی شوق سے دکھائی تھیں۔ یہ اپنے کمرہ میں کتاب، کاغذ، قلم، کمپیوٹر لیپ ٹاپ، پانی اور پڑھنے لکھنے کی دوسری سبھی لوازمات کو اپنے پاس لے کر یکسوئیت کے ساتھ بیٹھ جاتے تھے۔ کمپیوٹر آجانے کے بعد یہ تنہائی اور کمپیوٹر کو اپنا دوست سمجھتے تھے۔ کسی سے بہت زیادہ گھلنے ملنے والے نہیں تھے، لیکن گھل مل جانے کے بعد دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے بھی دوست تھے۔ پڑھنے لکھنے میں بہت زیادہ دلچسپی لیتے تھے؛ شاعر، الیکٹریشین، صحافی، کارٹون ساز، مترجم، ناول نگار، طنز و مزاح نگار، انشائیہ نگار، خاکہ نگار، مدیر، مبصر، مصنف، ادیب (ملٹی اسٹار) کے علاوہ بھی اور بھی بہت کچھ تھے، جس کی وجہ سے انہیں ہمہ جہت صلاحیت کا مالک کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے جو کچھ بھی حاصل کیا وہ اپنی محنت اور لگن سے ہی کیا۔ پروفیسر محمد ظفر الدین(1965ء-2021ء) کے بقول عام طور پر لوگ انہیں (Self-maid) سیلف میڈ یا خود ساز شخصیت تسلیم کرتے تھے۔ نصرت ظہیر دلیپ کمار، محمد یوسف خان (1922ء-2021ء) اور ساحر لدھیانوی (1921ء- 1980ء) سے بہت ہی زیادہ متاثر تھے، انہوں نے اپنی خواب گاہ میں ساحر کی تصویر آویزاں کر رکھی تھی، جو آج بھی موجود ہے۔ شاعری میں ساحر لدھیانوی اور اداکاری میں دلیپ کمار کے دلدادہ تھے۔ ساحر کو اپنا آئیڈیل تسلیم کرتے تھے۔ یہ دنیا بھر کی عجیب و غریب الیکٹرانک اور نادر و نایاب چیزیں جمع کر کے رکھنے اور موسیقی سننے کے بہت شوقین تھے۔ آج بھی ان کے گھر میں طرح طرح کے ریکارڈز، گزٹ، گراموفون، کیسٹس وغیرہ کا انبار لگا ہوا ہے۔ گھر والوں کی طرف سے ان چیزوں کے بارے میں سوال کرنے پر یہ کہتے تھے کہ "یہ ساری چیزیں میری موت کے بعد تمہیں میری یاد دلاتی رہیں گی اور تم لوگ میری ان سبھی چیزوں کو میرے مرنے کے بعد ایک میوزیم بنا کے اسی میں قرینے سے سجا سنوار کر رکھ دینا، میری جمع کردہ تمام نادر و نایاب چیزیں ایک پل بھی تمہیں میری یاد سے غافل نہیں ہونے دیں گی۔" یہ چیزیں نصرت ظہیر کی دفتری ذمہ داریوں سے بہت مختلف ہیں۔ ان کے ساتھ کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ "یہ عجیب و غریب شخصیت کے مالک تھے، جب اخبار یا میگزین کا آخری مرحلہ ہوتا تو یہ غصہ سے لال پیلے ہو جایا کرتے تھے، کسی بھی طرح کی کاغذی کاروائی سے بہت محتاط رہتے تھے۔ اپنے کام کے سلسلے میں بہت ہی پر عزم (Committed) رہا کرتے تھے؛ کبھی بھی کوئی بھی مسئلہ در پیش ہو، لیکن یہ اپنا ہر کالم اپنے وقت پر مکمل کر لیتے تھے، باہر کے کاموں (آل انڈیا ریڈیو اور ڈی ڈی اردو) میں یہ بالکل کو تاہی نہیں کرتے تھے۔ دفتر میں یہ زیادہ وقت تک کسی سے ناراضگی نہیں رہتے تھے، معاصرانہ چپقلش کو کبھی بھی ذاتی دشمنی میں تبدیل نہیں کرتے تھے، منافقت سے کوسوں دور تھے، اسی لیے حقانی القاسمی نے انہیں ”ایک چہرے والا آدمی" کہا ہے۔ جانے انجانے میں غلطی ہو جانے پر معافی مانگنے میں پہل کرتے تھے جیسا کہ شمس الرحمن فاروقی (1935ء- 2020ء) کی شان میں اُردودنیا میں نازیبا کلمات لکھ دینے پر اپنے رسالہ ادب ساز (شمارہ نمبر 16،17،18، 15، اپریل 2010ء مارچ 2011، جلد نمبر 5، صفحہ نمبر 290) میں ایک پورا صفحہ "محترم شمس الرحمن فاروقی سے معذرت" کے عنوان سے معافی نامہ لکھا۔ اس کا صرف ایک اقتباس بہ غور پڑھیں:


"ٹیلی فون پر میں نے فاروقی صاحب سے معافی کی بات کہی تو وہ خوش ہوئے اور انہوں نے فراخ دلی سے معاملے کو در گزر کرنے کے لیے کہا۔ بلکہ جب میں نے وعدہ کیا کہ میں تحریری طور پر بھی رسالے میں یہ معذرت چھاپوں گا تو انہوں نے کہا کہ اس کے قطعی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم جب تک میں یہ وعدہ پورا نہ کر لوں میرا ضمیر مطمئن نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ جس قلم سے یہ گستاخی ہوئی تھی آج اسی قلم سے میں اپنی پشیمانی کا بھی اظہار کر رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو میرا یہ رویہ عجیب لگے، لیکن میرے لیے اس میں حیرت یا پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ اگر میں خود کو مارکسسٹ مانتا ہوں تو سچے مارکسسٹ کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کا محاسبہ کرنے سے پہلے خود اپنا محاسبہ کرے، خود کو خود تنقیدی Self-criticism کے عمل سے گزارے اور اس معاملے میں جھوٹی انا False ego کا شکار ہوئے بغیر اپنی اصلاح کرے، کیونکہ غلطیاں باعمل اور باضمیر انسانوں سے ہوتی ہیں بے دل اور بے دماغ فرشتوں سے نہیں۔"


نصرت ظہیر کی تمام مطبوعہ کتابوں اور تحریروں میں مجھے مزید کئی جگہوں پر شمس الرحمن فاروقی کے بارے میں ان کی رائے ملی۔ لیکن طوالت بچتے ہوئے میں یہاں ان کی صرف ایک رائے پیش کر رہا ہوں۔ ڈاکٹر حسن مثنی کی مرتب کردہ کتاب ” شارب ردولوی ادبی سفر کے پچاس سال“ (2012ء میں صفحہ نمبر 311 پر پروفیسر شارب ردولوی کا ایک خاکہ نصرت ظہیر نے بھی لکھا ہے، اس خاکہ میں شمس الرحمن فاروقی کے بارے میں نصرت ظہیر نے جو کچھ لکھا ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:


"جہاں تک ایمان لانے میں غلطی کا سوال ہے تو یہ اب تک صرف ایک شخص کے معاملے میں ہوتی ہے، جس کی اتنی ساری کتابیں ہیں، جسے اس کی علمیت کی بنا پر اردو والوں نے اتنی ساری عزت دی کہ اس کی اول جلول شاعری اور خود اپنے وضع کردہ تنقیدی بیانوں کے خلاف جاکر فکشن تخلیق بلکہ وضع کرنے کی بے ایمانی تک کو برداشت کر لیا ... جسے دل نے سمجھا تھا کہ دیگر معاملوں کا صاف ہوگا، مگر پتہ چلا کہ وہ تو آستین میں مذہبی تعصب اور نفرت کے بت چھپائے ہوئے تھا۔ بعد میں خیال آیا کہ شاید اپنی قسمت میں ایک ہی فاروقی کا ایمان لکھا تھا، جو اللہ میاں کو پیارا ہو چکا۔ دل نے سمجھایا: میاں تمہارے تعلق داروں میں لے دے کر بس اب ایک ہی کام کا فاروقی بچا ہے۔ اطہر فاروقی۔" مذکورہ بالا اقتباس میں تین تین فاروقیوں کا تذکرہ ہے۔ پہلے فاروقی سے مراد شمس الرحمن فاروقی، دوسرے سے پروفیسر نثار احمد فاروقی (واضح رہے کہ 2004ء میں ان کا انتقال ہو گیا تھا اور یہ کتاب 2012ء میں شائع ہوئی) اور تیسرے سے ڈاکٹر اطہر فاروقی مراد ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں ”ادب ساز کا شمارہ نمبر 06،07، جنوری۔ مارچ، اپریل۔ جون 2008، جلد نمبر 3، صفحہ نمبر 296 پر شمس الرحمن فاروقی کے دستخط : عبد الوہاب انصاری“ کے عنوان سے شائع شدہ خط اور ادب ساز کا شمارہ نمبر 08.09، جولائی۔ ستمبر، اکتوبر دسمبر 2008، جلد نمبر 3، صفحہ نمبر 346-345 ساتھ ہی ادب ساز “ ہی کا ایک دوسرا شمارہ، شمارہ نمبر 10،11، جنوری مارچ، اپریل۔ جون 2009، جلد نمبر 4، صفحہ نمبر 389 وغیره


حقیقی زندگی میں ایسا بہت ہی کم دیکھنے کو ملتا ہے کہ انسان جن نظریات کا حامل ہو اور جن افکار و عقائد سے متاثر ہو، انہیں کے خلاف اپنی تحریر و تقریر میں محاذ قائم کر سکے، یہ ایک حقیقت ہے کہ نصرت ظہیر کمیونسٹ خیالات سے اتفاق رکھتے تھے، لیکن انہوں نے اپنے ہی نظریات کے خلاف لکھا ہے:
"اس ملک میں کمیونسٹ پارٹیوں کے موجود رہتے ہوئے انقلاب آنے کا کوئی خطرہ نہیں۔ ہماری بھی کمیونسٹ پارٹیاں ماشاء اللہ ساٹھ سال سے اس عظیم جدوجہد میں لگی ہوئی ہیں کہ ملک میں اللہ نہ کرے انقلاب نہ آ جائے۔ اسی طرح ملک کی آزادی اور جھماجھم کرتی جمہوریت واپس انگریزوں کو سونپنے یا غلامی کا زریں دور واپس لانے کی ضرورت بھی باقی نہیں رہ گئی ہے۔ کیونکہ انگریزوں کی تو صرف ایک ہی ایسٹ انڈیا کمپنی تھی جس نے ہمیں غلام بنارکھا تھا۔ جبکہ آج کی تاریخ میں ہم نے اس سے بڑی نہ جانے کتنی ملٹی نیشنل ایسٹ انڈیا کمپنیوں کو غلامی میں لے کر اپنا آقا تسلیم کر لیا ہے کہ آؤ دونوں ہاتھوں سے ہمیں لوٹو گھسوٹو، ہماری ہڈیوں کا گودا تک چبا کھاؤ اور جتنے داموں پر چاہو ہم ایک سو پچیس کروڑ ہندستانیوں کو بیچ کر مزے اڑاؤ۔“
(ماہنامہ، شگوفہ، نصرت ظہیر نمبر، صفحہ نمبر 38-39، اپریل 2013ء)


ازدواجی زندگی میں بھی یہ اپنی بیوی، بچیوں سے ناراض ہونے پر خود ہی انہیں منالیا کرتے تھے، گاندھیائی فلسفے کو ماننے کے باوجود گھریلو ناراضگی پر کھانا پینا چھوڑ دینے اور انشن یا بھوک ہڑتال پر بیٹھ جانے کے سخت خلاف تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اپنے سے کم آمدنی والے شخص کو دیکھ کر منظم کی۔ گھر کے ماحول کو ایک روایتی اور مشرقی مرد کی طرح اپنی شرط اور پسند کے مطابق ڈھال رکھا تھا، گھر میں یہ کسی بھی کام میں مشغول ہوں، لیکن پس منظر میں میوزک چلتا رہتا تھا، مشرقی اور مغربی دونوں ہی طرح کی میوزک ان کی کمزوری تھی۔ مائیکل جیکسن (2009ء-1958ء) کو بھی شوق سے سنتے تھے۔ کھانے پینے میں وہ صرف اپنے یہاں کے سہارن پوری منتخب پکوانوں ہی کو ترجیح دیتے تھے، ہر دن کے ناشتے اور کھانے پینے کے اوقات میں سے ایک وقت انہیں گوشت ضرور چاہیئے ہوتا تھا۔ گوشت سے تیار شدہ کھانوں میں سادہ کباب، شامی کباب، حلیم بریانی، نہاری اور سہارن پور کے اخنی پلاؤ کو بڑے شوق سے کھاتے تھے۔ حلیم بریانی، نہاری اور اخنی پلاؤ تو ان کے پسندیدہ ترین کھانے تھے۔ اپنی زندگی کے آخری وقت میں بھی انہوں نے اس کی فرمائش کی تھی۔ چائنیز کھانوں کو بہت ہی زیادہ پسند کرتے تھے، بلکہ گھر والوں سے بار بار یہی کہتے تھے کہ میں تمہارے لیے ساری چیزیں لا کر دے دوں گا تم لوگ چائنیز کھانا پکانا سیکھ لو۔ 2017ء میں ہارٹ بائی پاس سرجری کی وجہ سے گھر والے انہیں چٹ پٹی چیزیں نہیں دیتے تھے، جس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ جز بز بھی ہو کر بارہا کہا کرتے، "تم لوگ سب کے سب ڈاکٹر ہو۔“ ہر طرح کی سبزیوں، ترکاریوں کو نہیں کھاتے تھے۔ ٹنڈے کو تو انہوں نے جابجا خوب طنز و مزاح کا نشانہ بنایا ہے۔ انہیں علم نجوم اور علم ہیئت و فلکیات وغیرہ میں بھی دلچسپی تھی۔ اردو ادب کے ساتھ ساتھ عالمی ادب پر بھی نگاہ رکھتے تھے۔ آن لائن شاپنگ کے بھی شوقین تھے۔ 2010ء کے بعد سے وہ ہمیشہ سفر و حضر میں اپنا لیپ ٹاپ اور پین ڈرائیو اپنے ساتھ ہی رکھتے تھے۔ اپنے کام کو وقت پر پورا کرنے کے لیے وہ بہت بے چین رہا کرتے تھے۔ پہننے میں پینٹ شرٹ کا استعمال کرتے تھے، کبھی کبھی تو چار چار، چھ چھ سال تک کپڑے ہی نہیں خریدتے تھے، جھوٹ کے سخت خلاف تھے، گاندھی جی کو بہت پڑھتے تھے، یہاں تک اپنے آخری دنوں میں بالکل گاندھیائی فلسفے میں رچ بس گئے تھے۔ بہت اصولی آدمی تھے؛ خود بھی نہ کچھ غلط کرتے تھے اور نہ ہی کسی کو غلط کرتے ہوئے دیکھ کر خاموش رہتے تھے، اپنے رسالہ ادب ساز میں انجمن ترقی اردو (ہند) شمارہ نمبر 11،10 جلد نمبر 3، (2009) اور اردو اکیڈمی، (دہلی) کا محاسبہ اور محاکمہ شمارہ نمبر 15-18، جلد نمبر 5 میں چھاپ کر اسے فعال اور کرپشن سے پاک ادارے کی شکل عطا کرنا چاہتے تھے۔ یہ ایک جنونی انسان تھے۔ کبھی کبھی پوری پوری رات ان کے کمرے کی لائٹ جلتی رہتی تھی۔ پرانی فلموں اور نغموں کے بہت شوقین تھے. انہوں نے ہندوستانی سنیما کی مشہور ترین فلم صرف "مغل اعظم“ دیکھنے کے لیے پروجیکٹر خریدا اور پہلی فلم یہی دیکھی۔ اردو دنیا میں انہوں نے "فلمی دنیا" پر ایک مستقل کالم بھی شروع کیا تھا۔


شہر میں رہنے والے لوگوں کو گیس، شوگر، بلڈ پریشر جیسی کئی عام بیماریاں ہوتی ہیں۔ اسی طرح نصرت ظہیر کو بھی کچھ بیماریاں لاحق ہو گئی تھیں۔ طبیعت بگڑنے کے بعد ابتداء میں انہیں اوکھلا کے الشفاء میں داخل کیا گیا تھا۔ یہاں یہ تقریباً ایک مہینے تک ایڈمٹ رہے، لیکن کچھ خاص افاقہ نہیں ہوا بلکہ ان کی طبیعت مزید بگڑتی گئی۔ بعد ازاں فورٹیز اسپتال اور اسکاٹ میں بھی زیر علاج رہے۔ پھر مئی کے آخر میں جب تمام رپورٹس آگئیں تو یہ معلوم ہوا کہ پھیپھڑوں کا کینسر آخری سطح پر ہے۔ ان کے پاس ڈیڑھ سے دو مہینے کی زندگی باقی بچی ہے بس۔ چنانچہ نصرت ظہیر کے اہل خانہ انہیں 5/جون کو دہلی سے واپس سہارن پور لے کر چلے گئے تھے۔ انہیں Dementia نام کی بھی ایک بیماری تھی، جسے اردو میں "عتاہٹ" یا "ذہنی جبلتوں کا انحطاط" کہا جاتا ہے اور یہ بیماری نصرت ظہیر کو نہیں بتائی گئی تھی، تاکہ وہ گھبراہٹ کے شکار نہ ہو جائیں۔ اس مرض میں مریض کے سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے۔ اپنی بیماری کے تعلق سے نصرت ظہیر کو صرف اتنا ہی معلوم تھا کہ دہلی کے کثیف اور گھٹن زدہ ماحول سے ان کی طبیعت خراب رہ رہی ہے، اگر وہ گاؤں دیہات کی تازہ ہوا میں چہل قدمی کریں گے تو ان کی طبیعت ٹھیک ہو جائی گی۔ نصرت ظہیر کو ان کی بیماری کے بارے میں نہ بتانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی بڑی بیٹی روشن آراء دہلی کے اسکارٹ اسپتال میں ہیڈ نرس ہیں، شاید انہوں نے ہی ڈاکٹروں کو اپنے والد کی بیماری کے بارے میں بتانے سے منع کر دیا ہو ؟ (اپنے آخری دنوں میں یہ "روزنامہ انقلاب" میں کالم بھیجنے کے لیے بہت بے چین تھے۔) نقاہت اور کمزوری کی وجہ سے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھ کر لکھنے کی حالت میں نہیں تھے۔ اس لیے بار بار کاغذ اور قلم منگواتے، لیکن کچھ بھی لکھ نہیں پاتے تھے۔ ایک مرتبہ سہارن پور میں اپنی چھوٹی بیٹی ترنم پروین کو ایک مضمون املا کرانے کے لیے اپنے پاس بٹھایا بھی تھا ، لیکن ذہنی انتشار و خلفشار اور اپنے کرب وبے چینی کی وجہ سے کچھ بھی نہیں لکھوا سکے۔ سہارن پور میں انہوں نے 22 /جولائی 2020ء کو اپنی آخری سانس لی۔ انا للہ وانا اليه راجعون، اللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنہ۔


نصرت ظہیر کی خواہش اور وصیت کے مطابق انہیں ان کے آبائی و دینی قبرستان سہارن پور میں والدہ کے پہلو میں پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ علاقے کے ایس ڈی ایم صدر انل کمار کی موجودگی میں سپرد خاک کیا گیا۔ واضح رہے کہ نصرت ظہیر کی نماز جنازہ 23/ جولائی کو صبح نو بجے محلہ کھجور تلہ میں حافظ انور نے پڑھائی، جس میں رئیس احمد، جاوید احمد، عبد الکلام، دامادوں میں سے محمد فیضان اور رضوان عالم کے علاوہ رشتہ داروں میں سے نثار احمد احمد جمال، ہوش مشرف، خطیب جلال عمر، سہارن پور کمشنری کے معروف شاعر خالد زاہد، صحافی شاہ نواز بدر قاسمی، مولانا فتح محمد ندوی، خاکہ نگار مولانا نسیم اختر شاہ قیصر اور ڈاکٹر جمیل مانوی وغیرہ بھی شریک ہوئے۔


نصرت ظہیر کی تیسری بیٹی شبنم پروین نے بتایا کہ ان کی آخری خواہش تھی کہ یہ ایک ٹیلی اسکوپ خریدیں اور آسمان کو دیکھنے کا اپنا شوق پورا کریں ساتھ ہی Astronomy (علم ہیئت) کی باریکیوں پر بھی غور کریں، لیکن اپنی بیماری اور مالی تنگ دستی کی وجہ سے نہیں خرید سکے۔


(نوٹ : اگلے مہینے 22/ جولائی کو ان کے انتقال کو پورے تین سال ہوجائیں گے۔)


حوالہ جات :

1۔ خراٹوں کا مشاعرہ: نصرت ظہیر، ص: 80، مکتبہ پیام تعلیم، نئی دہلی 2002ء
2۔ ماہنامہ، شگوفہ، نصرت ظہیر نمبر، ص: 25، اپریل 2013ء حیدر آباد، ایڈیٹر، سید مصطفی کمال، مہمان مدیر، پروفیسر محمد ظفر الدین
3۔ ماہنامہ، ایوان اردو، اکتوبر، 2020ء مضمون نگار، ڈاکٹر عبد الحئی، ص: 33، شائع کردہ، اردو اکیڈمی، دہلی
4۔ سہ ماہی، ادب ساز، 11-2010ء، ص: 290
5۔ شارب ردولوی ادبی سفر کے پچاس سال: ڈاکٹر حسن مثنی، ص: 311، حسامی بک ڈپو، مچھلی کمان، حیدر آباد (2012)
6۔ ماہنامہ، شگوفہ، نصرت ظہیر نمبر، ص: 39-38، اپریل 2013ء حیدر آباد، ایڈیٹر، سید مصطفی کمال، مہمان مدیر، پروفیسر محمد ظفر الدین
7۔ نصرت ظہیر کے سہ ماہی، رسالہ ادب ساز“ کے ریختہ پر موجود سبھی شمارے۔ شمارہ نمبر 02، 04،03،04،05،18-15،14-13،11-10،09-08-07-06-05، اور جلد نمبر 06 وغیرہ
8- ایسے تھے نصرت ظہیر : محمد اکرام، مشمولہ مضمون، اردو دنیا، ص 47 تا 51، جولائی 2022ء، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی


***
محمد اشرف یاسین (دہلی)

Email: mdashrafyaseen[@]gmail.com


Some anonymous aspects of Nusrat Zaheer's literary life

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں