سبرینہ صدیقی نے اپنے ایک سوال سے ، پی ایم نریندر مودی کے دورۂ امریکہ کی ساری 'کامیابیوں' پر پانی پھیر دیا ہے !
اور پانی کچھ ایسا پھیرا ہے کہ ، پی ایم مودی کے دورۂ امریکہ کے مکمل ہو نے کے بعد ، اُن کی کامیابیوں پر ، سوائے گودی میڈیا اور اندھ بھکتوں کے ، کہیں اور تالیاں نہیں پیٹی جا رہی ہیں ، بلکہ سارا امریکہ وہی سوال دوہرا رہا ہے ، جو سبرینہ صدیقی نے پی ایم مودی سے دریافت کیا ہے۔ بلکہ دیکھیں تو یہ وہ سوال ہے ، یا یوں کہہ لیں کہ اس سوال میں وہ سارے ہی سوالات شامل ہیں ، جو پی ایم مودی کے دورۂ امریکہ سے قبل اور دورے کے دوران پوچھے جا رہے تھے ، اور جنہیں پوچھنے کے لیے ، امریکی صدر جو بیڈن سے ، ان کی ہی سیاسی جماعت ' ڈیموکریٹک پارٹی ' کے 75 قانون سازوں نے درخواست کی تھی ، اور جنہیں لے کر امریکی پارلیمنٹ کے کئی ممبران نے ، جن میں الہان عمر پیش پیش تھیں ، پی ایم مودی کے پارلیمنٹ کے خطاب کا بائیکاٹ کیا تھا ، اور نیویارک شہر کی اسمبلی اور کونسل کے ممبران نے ان سوالوں کو اٹھاتے ہوئے ، مودی کی نیویارک آمد پر ، مذمت کی تھی ، اور انہیں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کا ملزم قرار دیا تھا۔
کیا تھا سبرینہ صدیقی کا سوال ؟ اور یہ پی ایم مودی کیسے کسی صحافی کے سوال کا جواب دے رہے تھے ؟ پہلے یہ بتا دیں کہ سبرینہ صدیقی امریکہ کے مشہور اخبار ' دی وال اسٹریٹ ' کی صحافی ہیں اور وائٹ ہاؤس کی کوریج کرتی ہیں ، بالخصوص جو بیڈن انتظامیہ کی۔ چونکہ یہ سچائی سب ہی کو پتہ ہے کہ پی ایم مودی کسی پریس کانفرنس میں شرکت نہیں کرتے ، اس لیے لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہو رہی ہے کہ پی ایم نے ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیئے !
اب تک کے اپنے نو سالہ دورِ اقتدار میں نریندر مودی نے کبھی کسی پریس کانفرنس کا اہتمام نہیں کیا ، بس ایک بار وہ ایک پریس کانفرنس میں شریک ہوئے تھے ، اپنے دستِ راست امیت شاہ کے ساتھ ، لیکن اُس پریس کانفرنس میں بھی انہوں نے کسی ایک سوال کا جواب نہیں دیا تھا ، اس موقعے پر اُن سےجب کوئی سوال پوچھا گیا ، انھوں نے جواب دینے کے لیے امیت شاہ کی جانب اشارہ کر دیا تھا !
ایسا کیوں ہے کہ وہ کسی پریس کانفرنس کے قائل نہیں ہیں ؟ اس سوال کا جواب ، انہیں جاننے والوں کے نزدیک یہ ہے کہ ، مودی یہ برداشت نہیں کرتے کہ اُن سے کوئی کسی طرح کا سوال دریافت کرے ، وہ سوالوں سے بچتے ہیں ، اور صرف اپنی پسند کے سوال ہی کے جواب دیتے ہیں ، سوال ناپسند آنے پر اٹھ کر چلے جاتے ہیں ، لوگوں کو خوب یاد ہوگا کہ جب صحافی کرن تھاپر نے ، اپنے ایک شو میں ، پی ایم مودی سے گجرات فسادات پر سوال دریافت کیا تھا ، تب وہ شو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
ہاں ! انھیں یہ پسند ہے کہ کوئی ان سے پوچھے کہ آپ آم چھیل کر کھاتے ہیں یا چوس کر ! خیر ، امریکہ میں انہیں اس بار ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالوں کا سامنا کرنا پڑا ، بلکہ سچ یہ ہے کہ وہ اس کے لیے مجبور تھے۔ مودی اور اُن کی ٹیم یہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی پریس کانفرنس ہو ، لیکن وائٹ ہاؤس نے ، مطلب صدرِ امریکہ کے دفتر نے ، یہ واضح کر دیا کہ امریکہ اب تک جو بھی ' سرکاری مہمان ' آئے ہیں ، ان کی پریس کانفرنس ہوئی ہے ، اور اس بار پریس کانفرنس کا نہ ہونا غیرمناسب ہوگا ، لہذا مودی کو پریس کانفرنس کے لیے مجبور ہونا پڑا ، لیکن یہ طے ہوا کہ وہ بس دو ہی سوالوں کے جواب دیں گے۔ اُن سے ایک سوال ' ماحولیات ' کے موضوع پر کیا گیا ، انھوں نے اس سوال کا بہت تشفی بخش جواب بھی دیا ، لیکن سبرینہ صدیقی کے سوال نے انہیں پانی پینے پر مجبور کر دیا۔ سوال کو سُنتے ہوئے مودی کے چہرے کے اُتار چڑھاؤ کو جنہوں نے دیکھا ہوگا اُنھیں یہ خوب اندازہ ہوا ہوگا کہ ، سبرینہ صدیقی نے ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے ، اور جن سوالوں سے وہ دورۂ امریکہ میں بچنے کی کوشش کر رہے تھے ، وہی سوال ان کے سامنے آ کھڑا ہوا ہے ، بلکہ ان ہی سے دریافت کر لیا گیا ہے۔
کیا تھا سبرینہ صدیقی کا سوال ؟ سوال کے دو حصے تھے ، تمہید اور بنیادی سوال۔ آئیں سوال کے دونوں حصوں پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں:
" وزیراعظم ، بھارت طویل عرصہ سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے پر فخر کرتا رہا ہے۔ لیکن کئی معنوں میں حقوقِ انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ آپ کی حکومت نے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیاز برتا ہے ، تنقید کرنے والوں کو خاموش کرایا گیا ہے۔ آپ یہاں وائٹ ہاؤس میں ہیں جہاں دنیا بھر کے لیڈران نے اپنے اپنے ملک میں جمہوریت کے تحفظ کا عہد کیا ہے۔ آپ اور آپ کی حکومت مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کو بہتر بنانے اور اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ کے لیے کیا قدم اٹھانے جا رہی ہے ؟ "
مذکورہ سوال دو حصوں میں ہے ، پہلے حصے میں سبرینہ صدیقی نے واضح لفظوں میں اس حقیقت کو اجاگر کر دیا ہے کہ ، یہ بات ، کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے ، لمبے عرصے سے کہی جا رہی ہے ، اور یہ کہہ کر اس پر فخر بھی کیا جا رہا ہے ؛ کیا سبرینہ صدیقی نے کچھ غلط کہا ؟
نہیں ، یہی بات پی ایم مودی نے اپنے جواب میں بھی کہی ہے ، اور یہی وہ بات ہے جو ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی کہی تھی ، اور ان کے بعد جو وزرائے اعظم امریکہ یا کسی اور ملک گئے انہوں نے بھی کہی ہے۔ اس کے بعد سبرینہ صدیقی نے حقوقِ انسانی کی تنظیموں کے الزامات دوہرائے ہیں کہ ، بھارت میں مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتیں تعصب کی شکار ہیں نیز جو بھی حکومت پر نکتہ چینی کرتا یا تنقید کرتا ہے اُسے خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ اور پھر آگے سوال کیا ہے کہ کیا پی ایم مودی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے ، اور اظہار رائے کے تحفظ کے لیے کوئی قدم اٹھائیں گے ؟ یہ بنیادی سوال تھا ، لیکن مودی نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا ، یہ سوال آج بھی جواب چاہتا ہے ، لیکن شاید اسے کبھی جواب نہ ملے۔
لیکن یہ سوال اب ہر ایک کی زبان پر ہے۔ مودی کا جواب سن لیں ؛
" مجھے حیرت ہے کہ آپ ہندوستاان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتیں ، ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں بلکہ جمہوریت ہماری رگوں میں ہے۔ ہم جمہوریت کو ہر روز جیتے ہیں۔ یہ ہمارے ڈی این اے میں ہے۔ ہمارے یہاں ذات پات ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیای سلوک کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہماری حکومت سب کا ساتھ ، سب کا وکاس ، سب کا وشواس اور سب کا پریاس کے اصول پر چلتی ہے ، اسی لیے ہندوستان کے جمہوری اقدار میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔ ہمارے آبا و اجداد نے بہت ہی بہترین اور مضبوط آئین دیا ہے ، اسے لفظوں میں ڈھالنے کا کام بھی کیا ہے۔ جب ہم جمہوریت میں رہتے ہیں تو پھر کسی کے ساتھ بھی امتیازی سلوک کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حکومت کی اسکیمیں سب کے لیے ہیں اور ذات پات ، مذہب و فرقہ وغیرہ کے حوالے سے کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا ہے۔۔"
کیا پی ایم مودی کا یہ جواب ، سبرینہ صدیقی کے پوچھے گئے سوال کا ہے ؟ اس سوال میں تو مودی جی یہ بتا رہے ہیں کہ بھارت میں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ، قدم اٹھانے کی بات تو چھوڑ ہی دیں ! کیا یہ واقعی سچ ہے کہ ، مودی کی اس حکومت کی رگوں میں جمہوریت دوڑ رہی ہے ، اور مودی جی جو یہ ' ہم ' کہہ کر سارے ہندوستان کے لیے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ' ہمارے ڈی این اے میں جمہوریت ہے ' واقعی سچ ہے ؟؟
- اگر یہ واقعی سچ ہے تو اس سوال کا جواب دیں کہ کیوں کسی مسلم اقلیت کے مارے جانے پر آپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ کتّے کا پلّا کسی گاڑی کے ٹائر کے نیچے آ گیا ہے ؟
- کیوں آپ کپڑوں سے لوگوں کو شناخت کرنے کا فارمولہ بتانے لگتے ہیں ؟
- کیوں آپ اپنے ایک وزیر مملکت کو ' گولی مارو سالوں کو ' کا نعرہ بلند کرنے پر کابینی وزیر کا درجہ دے دیتے ہیں ؟
- کیوں آپ کو اپنے دستِ راست امیت شاہ کا یہ بیان کہ ' ووٹ مشین کا بٹن یہاں اتنے زور سے دباؤ کہ کرنٹ شاہین باغ تک پہنچے ' زہریلا نہیں لگتا ہے ؟
- کیوں یوگی آدتیہ ناتھ کے قبرستان اور شمشان کے بیان پر آپ کو اعتراض نہیں ہوتا ؟
- کیوں آپ کو ، نپور شرما کا عدالت کے سامنے کھڑا ہونا نامنظور ہے ؟
متعدد سوالات ہیں جو آپ کی جمہوریت کو مشتبہ بناتے ہیں۔ یہ بار بار کی لنچنگ اور لنچنگ کے ملزمین کی گل پوشی ، یہ مالیگاؤں بم بلاسٹ کی ملزمہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو ایم پی بنوانا ، یہ مسلم مخالف شہریت قانون بنانا ، یہ بلقیس بانو کے مجرموں کو جیل سے رہا کروانا ، یہ بجرنگ بلی کے نام پر ووٹ مانگ کر بجرنگ دل جیسی فرقہ پرست تنظیم کو جائز حیثیت دینا ، یہ اپنے وزراء کی زبانوں سے بار بار لوگوں کو پاکستان چلے جانے کا مشورہ سننا اور چپی سادھے رہنا ، یہ وندے ماترم ، بھگود گیتا ، سوریہ نمسکار اور یوگا کے نام پر مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں پر برہمنیت کو تھوپنا ، خواتین کی ترقی کا نعرہ لگا کر اپنی عزت و عصمت کے تحفظ کے لیے لڑنے والی پہلوان بیٹیوں کے ملزم کو بچانا ، نہ جانے ایسی ہی کتنی باتیں ہیں جو یہ ثابت کرنے کے کافی ہیں کہ ملک میں جمہوریت کانام صرف فخر کے لیے لیا جاتا ہے ، ورنہ جمہوریت کو تو یہاں گہن لگ چکا ہے۔
دو تازہ واقعے جان لیں ؛ جب پی ایم مودی ہندوستانی جمہوریت کے گُن گان کر رہے تھے تب اسی کے آس پاس مدھیہ پردیش کے شیوپوری ٹول پلازہ پر ، مہاراشٹر کا ایک مسلم خاندان ، جو کشمیر سے واپس آ رہا تھا ، ٹول اہلکاروں کے ذریعے پیٹا جا رہا تھا۔ اس خاندان کا قصور صرف یہ تھا کہ انھوں نے یہ سوال کر دیا تھا کہ ' فاسٹ ٹیگ ' کے تحت ان کا ٹول ٹیکس کٹ جانا چاہیے کیونکہ ان کے کھاتے میں 766 روپیے موجود ہیں۔ لیکن ٹول پلازہ کے اہلکاروں نے یہ کہتے ہوئے کہ ان کا ' فاسٹ ٹیگ ' کا بیلنس ختم ہو چکا ہے ، ان سے دوگنا ٹیکس مانگا ، نقد ، اور جب اس پر تکرار ہوئی تو ان اپلکاروں نے مسلم خاندان کی پٹائی شروع کر دی ، ؑعورت پر بھی ہاتھ اٹھایا۔
یہ ممکن صرف اس لیے ہوسکا کہ شیوراج سنگھ چوہان کی حکومت میں مسلمانوں کو پیٹنے کی آزادی ہے۔
دوسرا واقعہ آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسواسرما کا ہے ، جو سارے آسام میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن کیے ہوئے ہیں ، وہ امریکہ کے سابق صدر بارک حسین اوبامہ کے اس بیان سے کہ جو بیڈن کو مودی سے ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات پر بات کرنی چاہیے اور یہ کہ اگر مودی نے مسلمانوں کے حقوق کی فکر نہیں کی ، تو بھارت کے تقسیم ہونے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا ، ناراض تھے۔
انہوں نے ایک ٹوئٹ کرکے دھمکی دی کہ آسام کی پولیس یہاں کے تمام بارک حسین اوبامہ جو ہیں ، اُن سے نمٹ لے گی۔ یہ سیدھے سیدھے ملک کے مسلمانوں کو دھمکانا ہے۔
یہ دونوں ہی واقعات بتاتے ہیں کہ مودی جی کے جمہوریت کے دعوے کس قدر بےدَم ہیں۔ بھلا ایک ایسے ملک میں جہاں ' بل ڈوزر ' کو مسلمانوں کے گھر گرانے کی علامت بنا لیا گیا ہو کیسے جمہوریت محفوظ کہی جا سکتی ہے۔ امریکہ بھر میں مودی کی آمد پر اسی لیے ان کے خلاف مظاہرے ہوئے ، اسیروں کا ذکر کیا گیا ، منی پور کے حالات پر سوال کھڑے کیے گئے اور گجرات فسادات کی بی بی سی کی ڈاکیومینٹری دکھائی گئی۔ مودی کو ' کرائم منسٹر ' کہا گیا !
سچ یہ ہے کہ ہندوستان کو مودی جی کے دورۂ امریکہ سے صرف یہ فائدہ ہوا کہ اسے چند آلات مل گئے ، وہ بھی پُرانے ، لیکن اس کی جمہوریت کی پول کھل گئی اور مودی کے بیانات کا سچ بھی سامنے آ گیا۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ہندوستان کی مسلم اور دیگر اقلیتوں کے حالات اور ان سے روا رکھے جانے والا سلوک ساری دنیا پر عیاں ہو گیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں