جدید اور روایتی قرآنی تفسیر کا ایک تقابلی مطالعہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-06-28

جدید اور روایتی قرآنی تفسیر کا ایک تقابلی مطالعہ

modern-and-traditional-quranic-tafsir-comparative-study

موجودہ دور میں قرآنی تفسیر میں غیر معمولی علمی تعاون کا مشاہدہ کیا گیا ہے جن میں حسن حنفی، نصر ابو زید، عبد الکریم سروش، امینہ ودود، خالد ابو الفضل جیسے اہم لوگوں کے کام ہیں۔ علمی تعاون میں اس طرح کے اضافوں کے گوناگوں فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ یہ تعاون نظریات اور مناہج کی پیچیدگیوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ میری پی ایچ ڈی کے مقالے میں جو 2010 میں مکمل ہوا اور 2011 میں طبع ہوا، میں نے ان پچیدگیوں اور ان کے مضمرات کا روایتی اور جدید قرآنی علمی تعاون کے تحت ایک تقابلی موازنہ پیش کیا اور ان کے علمی ( معرفتی) اور طریقہ کار کے رجحانات کی وضاحت کی جو روایتی اور جدید نقطہ نظر کی سات کلیدی حوالوں سے تفریق کرتے ہیں۔


(1) زبان اور وحی کی ماہیت

قرآن کی تفسیر کے لئے روایتی نقطہ نظر بہت لسانیاتی ہے، اور تفسیر اکثر قرآن کے متن کے قابل ذکر لسانی خصوصیات تک محدود ہیں۔ اس طریقہ کار کے مطابق، قارئین عربی صرف و نحو اور شکلیات کے تجزیہ کے ذریعے متن کا معنی تک پہونچتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں، قرآن کا متن خدا کے لفظ کے طور پر انسانی زبان سے بنیادی طور پر مختلف سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، اس کا مطلب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نفسیاتی اور ان کے نبوی تجربے سے مکمل طور سے مختلف ہے۔ اس طرح، قرآن کی زبان تاریخ کے باہر کام کر رہی ہے اور ایک مقررہ معنی کے ساتھ ہے جو، اصولا، انسانی نقطہ نظر اور تجزئیے پر منحصر نہیں ہے۔
جدید نقطہ نظریہ مانتا ہے کہ قرآن کی زبان، کم از کم تفسیری مقاصد کے لئے، سماجی اور ثقافتی اعتبار سے عارضی ہے، اور اس کا معنی ضروری طور پر انسانی شناخت اور تجزیہ کے سانچے کے اندر کام کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، وحی کی ماہیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذہن اور واقعات کے تجربے کے ساتھ بہت قریب سے منسلک ہے۔تفسیری مضمرات یہ ہیں کہ قرآن کا متن ایک تاریخی طول و عرض رکھتا ہے اور اس کا معنی ایسے ثقافتی سیاق کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے جس میں اسکا ظہور ہوا اور جس سیاق میں اسے پڑھا جاتا ہے۔


(2) مقام اور معنی کی وسعت:

ایک متن کی تفسیر کرتے وقت، کسی کو اس بات کا اظہار کیا جا سکتا ہے کہ متن کا معنی بنیادی طور پر مصنف کے ارادے، متن کے طور پر، یا قارئین کے ادراک کی بیناد پرمقرر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ کہا جا سکتا ہے کہ قارئین یا تو مصنف کے مراد کو مکمل طور پر دوبارہ حاصل کرنے کے قابل ہیں، یا صرف اس کی مرادکے معنی کے تقریبا، قریب پہنچ سکتے ہیں۔
زیادہ تر روایتی نقطہ نظر یہ سمجھتے ہیں کہ قارئین مصنف کے ارادے کا ادراک کرسکتے ہیں اور متن کے کچھ معروضی معنی تک بھی پہنچ سکتے ہیں کیونکہ متن کا معنی مقرر ہے، جبکہ پڑھنے والے کا کردار معنی کا تعین کرنے یا اثر اندازکرنے میں کم سے کم تر ہے۔ مصنف کے ذہن میں معنی کی معروضی موجودگی پہ یقین سے ،جو معروضیت کے ساتھ پڑھنے والے کے لئے بآسانی دستیاب ہے، اس خیال میں مدد ملتی ہے کہ متن کی صرف ایک صحیح تفسیرہے۔
جدید تفسیری نقطہ نظر کے مطابق، قارئین ایک مکمل طور پر معروضی طریقے سے مصنف کے ارادے کو نہیں پہونچ سکتے۔ اس کے برعکس، قارئین اپنے معاشرتی، ثقافتی پس منظر، تعلیم، اخلاقی رجحان، وغیرہ کے ساتھ فعال طور پر متن کے معنی (معانی) پیدا کرنے میں حصہ لیتے ہیں، جو صرف مصنف کے مقاصد کو قریب کر سکتے ہیں لیکن کبھی بھی مکمل طور پر اور متبادل طور پر اس کو من و عن بیان نہیں کرسکتے۔ اگرچہ متن اس کی شکل میں مقرر کیا جاتا ہے، اس کا معنی مصنف کی طرف سے نہیں کیا جاتا، حتی کہ اگر متن کا معنی مجہول اور یک گرفتی سمجھا جاتا ہے تو اس کے معنی کی اہمیت سیاق کی محتاج ہوتی ہے اور تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس طرح، متن بہت سی تفسیرات کو قبول کر سکتاہے۔ تاہم، غیر منطقی یا غیر مقبول تفسیروں پر قد غن لگانے کے لئے، کچھ تفسیر کے ماہرین " تفسیر کے طبقات" جیسےتصور پر توجہ مرکوز کرتے رہےہیں جو کہ قارئین کاایک طبقہ جو ثقافتی نقطہ نظر، اقدار، اور اصولوں کو آپس میں شئیر کرتے ہیں وہ گفتگو جاری رکھ سکیں،لہذا، تفاسیر کی درستگی نسبتا ہےتو محدود بھی ہے، ان اقدار کے ذریعے سے جو اس طرح کے طبقوں کی وضاحت کرتے ہیں۔


(3) سیاق اور متن کے درمیان کا تعلق

روایتی لسانی (لغوی) تفسیر اُس تاریخی سیاق کو جسمیں قرآن مجید نازل ہوا، خارج کرتی ہے۔ گرچہ تاریخی کردار میں قرآن کے ارتقاء، اسباب نزول اور نسخ کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ ان پہلووں کو ہر اعتبار سے شامل کرنے اور استعمال میں لانے کے لئے کوئی واضح تفسیری ماڈل نہیں۔ جہاں تک تاریخی سیاق کا سوال ہے تو روایتی لغویین (مفسرین) نے منظم طور سے نص کے معنی کی تاریخی اور غیر تاریخی عناصر میں فرق نہیں کیا۔
اس کے برعکس، جدید مفسرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تاریخی سیاق جس میں قرآن ظاہرہوا،متن کی ساخت اورمفہوم پر خاصہ اثر ڈالا اور کیسے تاریخی اور ثقافتی اقدار کے پس منظر نے نص کے اولین مخاطب کو قرآنی معنی اور مفہوم کی ماہیت کی تفہیم کے بارے میں باخبر کیا۔


(4) نص کی مطابقت

قرآنی نص لسانیاتی اعتبار سے تقريبا دو دہائیوں میں ظاہر ہوا اور اس کی تنظیم و ترتیب میں دو دہائی سے زیادہ خرچ ہوئے۔ قرآن پاک کے سورتوں کی کینیاتی ترتیب نہ ہی واقعاتی لگتی ہی اور نہ ہی موضوعاتی جیسا کہ اس کے موضوعات پورے قرآن میں بکھرے پڑے ہیں، وحی کی بنیادی طورسے زبانی اور تبلیغی ماہیت اور بالخصوص لفظ بلفظ قطعاتی یا کینیاتی متن کا تسلسلی تجزیہ کر کے روایتی مفسرین نے وحی کی زبانی یا تبلیغی ماہیت کو کسی قدر ہلکا بھی کیا ہے۔


بہت سے جدید سے جدید مفسرین قرآن کے تصورات اور موضوعات کے درمیان رابطے کو تسلیم کرتے ہیں اور قرآن کی تفسیر کرنے کے لئے ایک جامع توثیقی۔استدلالی نقطہ نظر پر عمل کرتے ہیں، نہ صرف نظریات اور متن کے روایتی علمی اصولوں اور توثیقی استقرائی مطابقت پر مبنی ہوتے ہیں بلکہ متن سے مطابقت، تسلسل اور تدارج کے لئے جدید لسانیاتی نقطہ نظر پر بھی مبنی ہوتے ہیں۔ قرآن کے ایک تصور کو سمجھنے کے لئے متعلقہ حصوں کا پورے متن سے تجزیہ کرنا پڑتا ہے اور ان کو ایک وسیع موضوعاتی فریم ورک میں جمع کرنا ضروری ہے۔ تفسير کا عمل ایک " انتھک فہم" چاہتا ہے۔


(5) قرآن کی اخلاقی وشرعی تفاسیر میں عقل کا کردار

روایتی مفسرين عقل کے کردار کو اس کے منطقی ساخت تک محدود کرتے ہیں، لہذا تمام اخلاقی و شرعی تفہیموں کو متنی ثبوت سے منسلک کیا جا سکے۔ اگر کوئی براہ راست متعلقہ متن نہیں ہے تو، تو ایک مشترکہ بنیادی اصول کے ساتھ غیر متعلقہ مضمون کی شناخت کرنے اور نئے معاملے کی اہمیت کی روشنی میں اس کی تفسیر کرنے کے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بنیادی ضوابط یہ ہیں کہ اخلاقی و شرعی علم ہمیشہ وحی سے نکلنا چاہئے اور انسان محض عقل سے یہ نہیں جان سکتا کہ اخلاقی یا شرعی طور پر کیا درست ہے۔ اس نقطہ نظر سے، بہت سے مفسرین تمام قرآن کے لئے ایک شرعی ضخامت کا نتیجہ بناتے ہیں، تاکہ وہ قرآن کی پند و نصائح کو جو وسیع پیمانے پر اخلاقی یا ناصحانہ ہو انہیں شرعی احکام کی طرح سمجھا جائے۔
جدید مفسرین، دوسری طرف، قرآن کی تفسیر میں عقل کی اہمیت پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور قرآن کو عقل کی تشکیل میں اہم عنصر کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ انسانی عقل مستقل طور پر اخلاقی فیصلے کر سکتا ہے، نص کا کام لوگوں کو ان کی اخلاقی ذمہ داریوں کو یاد دلانا ہے، بس۔ روایتی شرعی نقطہ نظر کے برعکس، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن بنیادی طور پر اپنے تئیں اخلاقی اور مذہبی ہے، اور اس کے شرعی پہلو اس کی وسیع اخلاقی بصارت کے دور کے ہیں اورمعاشرتی حالات میں تبدیلی کے تحت بدلے بھی جا سکتے ہیں۔ لہذا قرآن کی شرعی تفسیر کو عقل کے ذریعہ ابھرتے ہوئے اخلاقی اقدار کے ساتھ آگے بڑھناچاہئے۔ تاہم، یاد رکھیں کہ اسلامی اخلاقیات قرآن کی دینی آفاقیت میں سختی سے کار بند ہے۔


(6) قرآن کے ہمہ گیر اصولوں کی تفسیر

جب بنیادی اخلاقی اقدار کی بات آتی ہے جیسے کہ انصاف اور مساوات، اور اس کے بنیادی مقاصد، مفاد عامہ کے بارے میں کتر بیونت اور مفاد عامہ کا فروغ تو روایتی تفسیرکے اوپر ذکر کئے گیے تمام پہلو
قرآن کی ایک محدود تفہیم کرنے لگتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف جدید تفسیر کے تمام پہلو اس طرح کے اصولوں اور مقاصد تک پہونچنے کے لئے ایک وسیع ترجمانی فکر کو اختیار کرنے پر زور دیتے ہیں۔


(7) نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی سنت کا تصور

اسلام میں یہ خیال رائج ہے کہ نبوی سنت مطلق عقلی مناہج کی تفسیر پر فوقیت رکھتی ہے، مزید یہ کہ سنت کلیتا مستند حدیث کے نصوص میں پائی جاتی ہے۔لہذا، روایتی مفسرین کے لئے سنت کی حمایت بطور ایک تفسیری آلہ کے بنیادی طور سے حدیث کے متن کا مرکب ہونے کے ساتھ ساتھ اسی کے ذریعے سے محدود بھی ہوتا ہے۔ سنت کی اس متنی تصور کی توضیح کا ایک قابل ذکر ضمنی مفہوم یہ بھی ہے کہ تشریحی استدلال حدیث کی تمام سندون کے جانچنے اور پرکھنے میں گرچہ اہم ہے مگر خود سنت کے تصور کو ایک تفسیری آلہ نہیں بناتا۔
اس کے برعکس، جدید مفسرين سنت نبوی کا ایک میٹا-ٹیکسچوئل (مہا متنی) تصور رکھتے ہیں جو کہ ابتدائی اسلامی دور میں سنت کو کس طرح سمجھا گیا اس سے مطابقت رکھتا ہے اور تصور سنت کو تصور حدیث کے متن سے خلط ملط نہیں کرتا۔اسی طرح حدیث کے روایتی علوم کے علاوہ، جدید مفسرین بہت سے اضافی منہجی طریقہ کار کو سنت نبوی میں فرق کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں جن کی مکمل تفیصیلات یہاں نہیں بیان کی جاسکتی۔


امید ہے کہ یہ تحریر قرآنی تفسیر (ہرمینیوٹکس) (hermeneutics) کی پیچیدگی کو واضح کرنے میں مدد بہم پہنچائے گی۔ اور علماء اور قرآن کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف تفسیری نقطہ نظر اور ان کے اہم اثرات سے آگاہی کی خاطر اور کسی بھی شرعی، سیاسی یا اخلاقی مسئلہ کے فیصلہ کرنے میں قرآن کی معیاری پوزیشن کو سمجھنے کے لئے بھی یہ تحریر مدد گار ثابت ہوگی۔

***
انگریزی مقالہ: پروفیسر عدیس ددریجا۔ گرفتھ یونیورسٹی، آسٹریلیا
اردو ترجمہ: ڈاکٹر سعد احمد، جامعہ ملیہ اسلامیہ۔
اسسٹنٹ پروفیسر، نیلسن منڈیلا مرکز برائے امن، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
ای-میل: saadfarouqee[@]gmail.com

A Comparative Study of Modern and Traditional Qur'anic Tafsir

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں