ہندوؤں کی ضمانت پر - کالم از ودود ساجد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-06-25

ہندوؤں کی ضمانت پر - کالم از ودود ساجد

bail-by-hindus

مہاراشٹر کے شہر آکولہ میں مبینہ طور پر فساد کے ایک واقعہ میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار 150 سے زائد مسلمانوں کو مجسٹریٹ کی عدالت سے ضمانت ملنے کے باوجود پولیس نے ان سے فرداً فرداً مطالبہ کیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے 'ضمانتی' کے طور پر کسی ہندو کو پیش کرے۔۔۔


ہر روز اپنے منہ سے آگ اگلنے والے شرپسند چینلوں کے اینکروں نے اس خبر پر بحث ومباحثہ نہیں کیا۔ اس پر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ چینلوں پر جانے کے 'ذوقین' ہمارے نام نہاد اسکالروں کو اس خبر کا علم تک نہیں ہوا۔ اگر ضمانت دینے اور ضمانتی کا انتظام کرنے کا یہ طریقہ مستقل کردیا جائے تو میرا خیال ہے کہ یہ ایک عمدہ طریقہ ہوگا۔ یہ ایک 'آئیڈیل' صورت ہوگی کہ مبینہ طور پر فساد میں ملوث کسی مسلمان کی ضمانت کوئی ہندو یہ کہہ کردے کہ آئندہ یہ شخص ایسا نہیں کرے گا۔ لیکن یہاں معاملہ فقط اتنا ہی نہیں ہے۔


آکولہ کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سندیپ گھوگے ہرچند کہ اس خبر کی تردید کرتے ہیں تاہم 'دی وائر' کیلئے خاتون صحافی 'سکھنیا شانتھا' نے گزشتہ 20 جون کو جو اسٹوری فائل کی تھی اس میں انہوں نے چند متاثرین اور ان کے وکلاء کے بیانات کا حوالہ بھی دیا ہے۔ ماخوذ مسلمان زیادہ تر مزدور طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔


ان متاثرین اور ان کے وکلاء نے الزام عاید کیا ہے کہ پولیس نے ان سے 'ضمانتی' کے طور پر ہندو شہریوں کو پیش کرنے کو کہا ہے۔ شانتھا نے صاف طور پر اپنا مشاہدہ لکھا ہے کہ پولیس کی طرف سے اپنی نوعیت کا یہ غیر آئینی اور غیر قانونی مطالبہ، ماضی میں ہائی کورٹ کی بارہا لعن طعن اور نقد و نظر کے باوجود ظاہری طور پر آکولہ میں معمول کی بات ہے۔


ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) سے وابستہ وکیل ایم بدر نے بتایا کہ جیسے ہی مجسٹریٹ کی عدالت نے ان تمام ماخوذ مسلمانوں کو ضمانت دی فوراً انہیں لوکل کرائم برانچ کے سامنے قطار اندر قطار کھڑا کرکے ان میں سے ہر ایک کے 'مجرمانہ ریکارڈ' کے اعتبار سے 'چیپٹر پروسیڈنگ' یا پیش بندی کاعمل شروع کردیا گیا۔ ٹائمز آف انڈیا کے سرفراز احمد نے لکھا ہے کہ بامبے ہائی کورٹ نے کم سے کم اپنے تین فیصلوں میں اس غیر قانونی رجحان پر سخت تنبیہ کی ہے لیکن پولیس کا رویہ ابھی تک بدلا نہیں ہے۔


چیپٹر پروسیڈنگ کیا ہے؟ سی آرپی سی کی دفعہ 107 کے تحت مجسٹریٹ کو یہ اختیار ہے کہ وہ ہنگامی حالات میں نقض امن کے خطرہ کے پیش نظر ملزم کو یہ حکم دے سکتا ہے کہ وہ ایک خاص مدت کیلئے ایک 'بانڈ' بھرنے پر رضامندی کا اظہار کرے اور وعدہ کرے کہ وہ امن قائم رکھے گا۔ اس دفعہ کے ذیل میں کہیں بھی یہ اختیار پولیس کو نہیں دیا گیا ہے۔آکولہ کے مذکورہ بالا معاملہ میں مجسٹریٹ نے اپنے ضمانت دینے کے فیصلہ میں کہیں ایسی ہدایت نہیں دی ہے۔


سوال یہ ہے کہ پھر پولیس ان ملزموں کو عدالت سے ضمانت مل جانے کے باوجود کیوں ان کے خلاف چیپٹر پروسیڈنگ کا یہ غیر آئینی اور غیر قانونی عمل اختیار کر رہی ہے؟ آکولہ کے ایس پی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے لہذا وہ ایسے کسی واقعہ کاسرے سے ہی انکار کر رہے ہیں۔ لیکن مختلف رپورٹوں کے مطالعہ سے اس کاشافی جواب مل جاتا ہے۔


13مئی کو آکولہ میں 'چھترپتی سینا' نامی ایک انتہا پسند تنظیم کے شرپسند لیڈر کرن ساہو نے اپنے انسٹاگرام پر اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں سے متعلق ایک انتہائی ہتک آمیز پوسٹ نشر کی تھی۔ دی وائر، ٹائمز آف انڈیا، نیوز کلک اور دی ہندو جیسے میڈیا اداروں کی رپورٹ بتاتی ہے کہ اس شرپسند کے متبعین کی تعداد اس علاقہ میں بہت زیادہ ہے۔ تھوڑے ہی وقت میں اس کی اشتعال انگیز پوسٹ جنگل کی آگ کی طرح یہاں سے وہاں تک پھیل گئی۔


یہ خبر مسلمانوں تک بھی پہنچی اور ان کے اندر بھی اشتعال پیدا ہوگیا۔ لیکن شام ہوتے ہوتے مسلم قائدین نے طے کیا کہ پولیس میں شکایت درج کرائی جائے۔ انہوں نے رام داس پیٹھ پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی۔ پولیس نے مجموعی طور پر دو پولیس تھانوں میں 6 ایف آئی آر درج کیں۔ ان میں توڑ پھوڑ اور فساد کے الزمات عاید کئے گئے۔ بعد میں ولاس گائیکواڈ نامی ایک آٹو ڈرائیور کے قتل کی دفعہ بھی شامل کردی گئی۔ میڈیا رپورٹوں کا کہنا ہے کہ ولاس کو شر پسندوں نے غلطی سے مسلمان سمجھ کر مارڈالا۔ اس کے آٹو کی جبیں پر 'انگریزی کے حروف تہجی 'کے جی این' لکھے ہوئے تھے۔ کے جی این دراصل 'خواجہ غریب نواز' کا مخفف ہے۔


رپورٹوں کے مطابق پولیس نے 150 مسلمانوں اور 10 ہندوؤں کو گرفتار کیا۔ یہ غیر متناسب گرفتاری فہم سے بالاتر ہے۔ شان اقدس میں گستاخی شرپسندوں نے کی، پھر انہوں نے ہی ولاس کو مسلمان سمجھ کر مار ڈالا، مسلمانوں نے ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس میں شکایت درج کرائی، لیکن گرفتاری کا تناسب بتاتا ہے کہ مظلوم بھی مسلمان اور ماخوذ بھی مسلمان۔


حقوق انسانی کے علم برداروں اور متاثرین کے وکلاء نے پولیس کے رویہ پرسخت تنقید کی ہے۔ وکلاء کہتے ہیں کہ زیادہ تر ماخوذ مسلمانوں کا فساد میں کوئی رول نہیں ہے۔ جائے وقوع کے آس پاس بھی ان کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ نہ کوئی ویڈیو یا سی سی ٹی وی فوٹیج ہے اور نہ ہی موبائل کی کوئی تصویر یا ویڈیو۔ پولیس نے بھی اپنے الزامات کے حق میں کوئی شواہد پیش نہیں کئے۔


فیضان خان ایڈوکیٹ نے ایک درجن سے زیادہ گرفتار شدگان کو ضمانت دلوائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ متعدد ایسے لوگوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا جو اس روز شہر میں تھے ہی نہیں۔پولیس نے ایک ایسے شخص کو بھی ماخوذ کرلیا جو 13 مئی کو آکولہ شہر سے 60 کلومیٹر دور تھا۔ ایک مہینہ تک جیل میں رہنے کے بعد 110 افراد کے بارے میں تو مجسٹریٹ نے صاف طور پر اور زور دے کر یہ لکھا کہ پولیس کو ان کے خلاف تفتیش کرنے کیلئے ان کی مزید کسٹڈی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے باوجود پولیس ان کے خلاف 'چیپٹر پروسیڈنگ' کر رہی ہے اور ان کے خلاف مزید کارروائی چاہتی ہے۔۔۔


سوال یہ ہے کہ جب مجسٹریٹ نے 'پیش بندی' کا کوئی حکم نہیں دیا ہے تو پولیس ان ضمانت یافتگان کی 'پیش بندی' کیوں چاہتی ہے اور کیوں اسے 'ہندو' ضمانتی پیش کرنے پر ہی اصرار ہے؟ اس سوال کا جواب ملزمین کے وکیل ایم بدر کے اس انکشاف سے مل جاتا ہے کہ ہندو ضمانتی پیش کرنے کیلئے پانچ تا چھ ہزار روپیہ خرچ کرنے پڑتے ہیں جو ان غریب مسلمانوں کے پاس نہیں ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ آکولہ میں بڑے پیمانے پر 'پروفیشنل ہندو ضمانتی' موجود ہیں جو رقم کے عوض یہی کام کرتے ہیں۔


مجھے اس واقعہ پر یہ سطور تحریر کرتے وقت کچھ مختلف واقعات بھی یاد آگئے جب مسلمانوں نے پریشان حال اور ماخوذ ہندؤں کیلئے مہم چلاکر رقم اکٹھی کی۔ یہ واقعہ تو بہت تازہ ہے جب 8 جنوری 2023 کو قطر میں ڈرائیور کے طور پر برسرکار 28 سالہ دویش لال کا پانی کا ٹینکر کھڑے کھڑے اچانک پیچھے کی طرف چل پڑا اوراس سے کچل کر ایک مصری کی موت ہوگئی۔دویش کو گرفتار کرلیا گیا۔


دویش کا تعلق کیرالہ کے مسلم اکثریت والے ملاپورم کے ایک گاؤں سے ہے۔قطر کے قانون کے مطابق دویش کے سامنے دو متبادل رکھے گئے: وہ قصاص کی رقم 46 لاکھ روپیہ متاثرہ کے اہل خانہ کو اداکرکے آزادی حاصل کرلے یا پھر ساری زندگی جیل میں کاٹ دے۔ ملاپورم میں جب اس واقعہ کی اطلاع انڈین یونین مسلم لیگ کو ملی تو اس کے لیڈروں نے 26 لاکھ روپیہ اپنے ذرائع سے اور 20 لاکھ روپیہ عوامی چندہ سے جمع کرکے دویش لال کی رہائی کو یقینی بنادیا۔


اس سے پہلے کیرالہ سے تعلق رکھنے والے 'لولو گروپ' کے چیرمین ایم اے یوسف علی نے بھی اسی طرح کے ایک واقعہ میں ماخوذ کیرالہ کے ایک ہندو ڈرائیور کی طرف سے کئی کروڑ روپیہ قصاص کی رقم ادا کرکے اسے رہا کرایا تھا۔ ٹیلی گراف کے صحافی کے ایم راکیش نے کیرالہ کے واقعہ کونقل کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ ملاپورم میں مسلمانوں اور مسلم لیگ کے ذریعہ پریشان حال ہندؤں کی مدد کرنا ایک عام بات ہے۔


یہی بات جب پچھلے دنوں دوسرے انداز سے راہل گاندھی نے کہی تھی کہ انڈین یونین مسلم لیگ ایک سیکولر پارٹی ہے تو بی جے پی کے بعض قائدین نے اس پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مسلم لیگ کو دہشت گرد جماعت قرار دیا تھا۔


27 نومبر 2015 کو 'آئی ٹی نیوز' کے بوبنس ابراہم نے رپورٹ شائع کی تھی کہ بریلی کے مسلمانوں کے ایک گروپ نے پچاس ہزار روپیہ کی رقم جمع کرکے 15 غریب ہندوؤں کو رہا کرایا تھا۔ یہ لوگ چھوٹے موٹے واقعات میں ملوث تھے اورچھ ماہ سے لے کر دس سال تک کیلئے اس لئے جیلوں میں بھیج دئے گئے تھے کہ ان کے اہل خانہ کے پاس ادا کرنے کیلئے جرمانہ کی رقم نہیں تھی۔


مسلمانوں نے نہ صرف ان کی جرمانہ کی رقم جمع کی بلکہ ان کا استقبال کرنے کیلئے جیل کے باہر بھی پہنچے۔اس کے بعد ان تمام رہا شدہ ہندوؤں کو ان کے متعلقہ گاؤوں تک پہنچانے کیلئے ٹرانسپورٹیشن کا بھی نظم کیا گیا۔


کورونا وبا اور لاک ڈاؤن کے دوران تو ایسے درجنوں واقعات رپورٹ ہوئے جب مسلمانوں نے مرجانے والے ہندؤں کی آخری رسومات کے انتظامات کئے۔ یہی نہیں ایسے واقعات بھی سامنے آئے جب کورونا سے مرجانے والے ماں باپ کی لاشوں کو ان کی اولاد چھوڑ کر بھاگ گئی، اور پڑوسی مسلمانوں نے ان کا 'کریاکرم' کیا۔ 11مئی 2021 کو حیدر آباد کے ابھینودیش پانڈے نے لکھا کہ اولڈ ایج ہوم میں رہنے والے 70سالہ ویراسوامی کی کورونا سے موت ہوگئی۔اس کے رشتہ داروں یہاں تک کہ اس کی اولاد نے ہاتھ کھڑے کردئے۔ایسے میں ایک برقع پوش خاتون یعقوب بی نے اس کی آخری رسومات اداکیں۔


گوگل اور سوشل میڈیا ایسے واقعات سے بھرا پڑا ہے۔7 جولائی 2022 کو پٹنہ کے صحافی امت چترویدی نے لکھا کہ ہوزری مالک محمد رضوان خان نے اپنے 75سالہ ہندو ورکر 'ساہو' کی آخری رسومات اداکیں۔ اس نے بتایا کہ رضوان، ساہو کو اپنے سرپرست کی طرح مانتا تھا۔ وہ کوئی 25 برس پہلے نوکری کی تلاش میں رضوان کے پاس پہنچا تھا۔رضوان نے ساہو کو رکھ تو لیا لیکن چند ہی برسوں میں ساہو محنت کے لایق نہ رہا۔ رضوان نے اسے کام کی بجائے آرام کرنے کو کہا اور مرتے دم تک اس کی تنخواہ برابر اسے پہنچاتا رہا۔یہی نہیں رضوان نے اس کی دوا دارو کا بھی خیال رکھا۔


واقعات اتنے ہیں کہ ایسے دس کالم کم پڑجائیں۔ہمارے وزیر اعظم امریکہ کے صدر کے سامنے وہائٹ ہاؤس میں کہہ کر آئے ہیں کہ ہندوستان میں مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوتا۔ لیکن ملک بھر میں ہر روز شرپسندوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے خلاف جارحانہ اور متعصبانہ سلوک ہورہا ہے۔۔


سرکاری ادارے 'پی آئی بی' کے ذریعہ یہ سطور بھی یقینی طور پر وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے دفاتر تک ترجمہ ہوکر پہنچ جائیں گی۔ وہائٹ ہاؤس میں کہی گئی وزیر اعظم کی بات کا بھرم رکھنے کیلئے ہی سہی، کیا وزیر داخلہ آکولہ پولیس کی اس حرکت کا نوٹس لیں گے؟۔ مہاراشٹر میں تو عملاً انہی کی حکومت ہے۔

***
(بشکریہ: کالم ردعمل / روزنامہ انقلاب / 25 جون 2023ء)
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

The bail by Hindus. - Column: M. Wadood Sajid.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں