کرشنگری - تمل ناڈو کا ایک قدیم شہر - تاریخ کے آئینہ میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-06-11

کرشنگری - تمل ناڈو کا ایک قدیم شہر - تاریخ کے آئینہ میں

krishnagiri-tamil-nadu-ancient-city

کرشنگری تمل ناڈو کا ایک قدیم اور تاریخی شہر ہے۔ یہ شہر ضلع کرشنگری کا دار الخلافاء ہے۔ ضلع کرشنگری قدیم دور میں 'کونگو منڈل' علاقے میں شمار کیا جاتا تھا۔ یہ علاقہ اس وقت کے چیرا حکمرانوں کے زیر تحویل میں تھا۔ آگے چل کر اسے ہوئیسالا ، پلّوا حکمرانوں نے بھی اپنی سلطنت کا حصہ بنایا تھا۔ کرشنگری، شہر چینئی سے بنگلور گذرنے والی شاہراہ پر واقع ہے۔ صوبہ تمل ناڈو کا شہر کرشنگری وہ تاریخی مقام ہے جو کرناٹک اور آندھرا پردیش کی سرحدوں پر واقع ہے۔کرشنگری سے بنگلور کی مسافت 91کلومیٹر ہے جبکہ کے یہاں سے شہر ہسور کا فاصلہ 52، علاقہ چتور 152 کلو میٹر کے فاصلے پر۔ مدراس 254 کلو میٹر اور شہر ترپاتور 44 کلو میٹرکے فاصلے پر واقع ہے۔ کرشنگری کا علاقہ چاروں طرف پہاڑوں کے سلسلہ سے گھرا ہوا ہے۔ بنگلور شہر یہاں سے قریب ہونے کے سبب کرشنگری کا موسم بھی خوش گوار رہتا ہے۔ یہاں کی آب و ہوا ہر موسم میں ہمیں تر و تازہ رکھتی ہے۔کرشنگری اور اس کے آس پاس کے خطوں میں معتدل گرمی اور بارش ہوتی ہے تو موسم گرما میں گرمی زیادہ اور موسم سرما میں سردی خوب پڑتی ہے۔ اس لیے شہر کرشنگری تمل ناڈو کے دیگر علاقوں کی بہ نسبت زیادہ گنجان آبادی والا ضلع کہلاتا ہے۔ یہاں کی مقامی زبان تمل ہے اس کے علاوہ اردو، دکنی اردو، تلگو اور کنڑا زبانیں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ یہاں کے مسلمانوں کی اکثریت دکنی اردو بولتی ہے۔


شہر کرشنگری میں موجود قلعہ جو پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے بہت مشہور ہے۔ یہ قلعہ جنوبی ہند کی تاریخی نوادرات کو بیان کرتاہے۔کہا جاتا ہے کہ سولھویں صدی میں وجیا نگر سلطنت کے حکمراں راجہ کرشنا دیوا رایہ نے اسے تعمیر کیا تھا۔ یہ قلعہ بنگلور، چینئی کے شاہراہ سے گزرنے والوں کو واضح طور پر نظر آتا ہے۔وجیہ نگر سلطنت کے حکمراں راجہ کرشنا دیوارایہ کے نام کی مناسبت سے اس خطہ کا نام 'کرشنا گری' پڑا۔ کرشنگری کا یہ قلعہ ریاست کے مضبوط ترین قلعوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ قلعہ پہاڑ کے ایک بڑے چٹان پر واقع ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ قلعہ سلطنت کی حفاظت اور دشمن فوج کا پتہ لگانے کے لیے کے بنایا گیا ہو۔فی زمانہ اس قلعہ کی دیواروں کے علاوہ کوئی بھی ثبوت باقی نہیں ہے البتہ غار میں موجود انسان اور پرندوں پر مشتمل سنگ تراشی کے کچھ نمونے اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔ اس پہاڑ پر حیدر علی کے دور میں بنائی ہوئی درگاہ 'حضرت سید پاشاہ' بھی موجود ہے جو زیارت خاص و عام بنی ہے۔اس درگاہ کو یہاں کے خواص و عوام 'سید پاشاہ پہاڑ ' کے نام سے پہچانتے ہیں۔ اس پہاڑ کے مغربی گوشہ میں دو شہدا کی سید شاہ بہاؤ الدین اور سید شہاب الدین کے اجسام اطہر مدفون ہیں جب کہ ان کے سرِمبارک پہاڑ کے دامن میں دفن ہیں ، جو بعد ازاں مزارات کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ ماہ شوال میں ان مزارات پر عروس کا اہتمام کیا جاتاہے۔ اس پہاڑ پر تین گہرے غار بھی موجود ہیں جن میں کئی پر اسرار اور حیرت انگیز راز پوشیدہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان غاروں میں سے آس پاس کے قلعوں تک راستہ موجود ہے مثلا: ویلور کا قلعہ، گڈھ آمبور کا قلعہ اور رایا کوٹّہ کے قلعہ تک ان غاروں سے رسائی حاصل ہوتی تھی۔ قلعہ کرشنگری تک پہنچنے کے لیے تقریباً 370 سیڑھیوں کی مصافت طے کرنی پڑتی ہے۔ یہ سیڑھیاں بیشتر چٹانوں سے تراشی گئی ہیں۔ قلعہ کرشنگری کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر اسے آثارقدیمہ کے سروے آف انڈیا کے تحت محفوظ کر دیا گیا ہے۔


کرشنگری کے آس پاس کے علاقے جسے نوابوں کے دور میں 'بارہ محل' کہا جاتا تھا۔ شہر کرشنگری سے متصل 'جگ دیوی' کا ایک علاقہ ہے جسے جگ دیوی یار نے اپنا دار الحکومت بنایا تھا۔ تاہم بعد میں اس پر بیجا پور سلطنت، مراٹھوں اور سلطنت میسور سمیت دیگر خاندانوں نے بھی قبضہ کیا تھا۔ بالآخراٹھارویں صدی میں حیدر علی نے میسور کے باشاہ چکَّ دیوراجہ اوڈیّار کی ہدایت پر یہ قلعہ اور بارہ محل کو قبضہ کیاتھا۔ وجیہ نگر کے بادشاہوں کے زوال کے بعد سترویں صدی کے دوران مہاراجہ شیواجی نے اپنی دکن مہم کے دوران اس قلعہ پر قبضہ کرلیا تھا۔ آگے چل کر جب وہ میسور کے بادشاہ سے الگ ہوئے تو اپنا دار الحکومت شری رنگا پٹنم کو بنالیا تھا۔ تیسری اینگلو میسور جنگ کے دوران اس قلعہ پرحملہ ہوا جس کے نتیجے میں پچاس سے زیادہ برطانوی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ یہ قلعہ 1792ء میں شری رنگا پٹنم کے معاہدے کے بعد سے اپنی آخری سانس تک حضرت ٹیپو سلطان کے قبضہ میں رہا اور پھر انگریزوں کے قبضہ میں چلا گیا۔ میسور کے میوزیم میں محفوظ کی گئی قلعہ ، کرشنگری کی تصویر آج بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ شہر کرشنگری جو بارہ محل کا ایک حصہ شمار کیا جاتا تھا یہاں کبھی وجیا نگرکے فوجی تو کبھی بیجاپور کے لشکرنے اسے اپنا مسکن بنایا،تو کبھی یہ علاقہ حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی فوجیوں کے لیے بطور چھاؤنی استعمال ہوتا تھا۔ اس طرح دھیرے دھیرے بیجاپور اور میسور سے آئے ہوئے لوگ یہاں مقیم ہونے لگے جو آگے چل کرچھاؤنی سے بستی اور پھر بستی سے شہر ترقی پاتے چلے گئے۔ آج شہر کرشنگری کو ضلعی صدر مقام ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تجارتی مرکز ہونے کا فخر بھی حاصل ہے۔


اس شہر کے ارد گرد کئی سیاحتی مقامات بھی موجود ہیں جن میں مندریں، ڈیم، جھیلیں، تاریخی مقامات وغیرہ شامل ہیں۔ایسے ہی سیاحتی مقامات میں کے آر پی ڈیم، قلعہ رائے کوٹّہ، بوٹ ہاؤزاور حضرت سید پاشاہ درگاہ وغیرہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔یہاں کے ڈیم اور جھیلوں میں سرکاری طور پر مچھلی پالن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ شہر کرشنگری کے لوگ اس ڈیم اور جھیل کی پالن مچھلیوں کو خرید کر شوخ سے کھاتے ہیں۔ یہاں مختلف قسم کے اناج مثلاً: چاول ، راگی، جوار، مکئی، باجرہ کے علاوہ گنّا، ناریل، آم، مونگ پھلی، مختلف قسم کی سبزیاں، ترکاریاں مختلف قسم کی دالیں، پھلوں، پھولوں کی پیداوار بھی ہوتی ہے۔ اسی پر موقوف نہیں یہ علاقہ چونکہ چاروں طرف مضبوط چٹانی پہاڑیوں سے بھی گھرا ہوا ہے۔ اس لیے ان مضبوط پہاڑی پتھروں سے گرینائٹ دستیاب ہوتا ہے جسے تراشنے کے لیے یہاں پر بڑے بڑے کارخانے بھی موجود ہیں جہاں سے یہ تراشے ہوئے پتھر ملک اور بیرونی ملک میں بھی بھیجے جاتے ہیں۔ ضلع کرشنگری کا ایک بڑا حصہ جنگلات پر مشتمل ہے جس کا جغرافیائی رقبہ 39 فیصد ہے۔ ان جنگلات سے شہد، بانس مختلف قسم کی جڑی بوٹیاں نیز ادویات کے پیڑوں کی وافر پیدا وار سے ان علاقوں میں بسنے والے دیہاتی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوتے ہیں۔


علاقہ کرشناگری آم اور املی کے لیے بھی مشہور ہے۔ شہر کرشنگری کا ایک بڑا حصہ آم کے باغات پر محیط ہے جہاں سے سالانہ آم کی پیداوار تقریباً تین لاکھ ٹن ہے۔ صوبہ تمل ناڈو میں آم کی پیداوار کے لیے علاقہ کرشنگری کو اول درجہ حاصل ہے۔ یہاں کے آم کی فصلوں میں مختلف قسمیں شامل ہیں مثلاً: طوطا پری (بنگلورا)، امام پسند، حمایت،شیریں، پیتر، نیلم، بے نشاں(بنگن پلی)، چیندورا، قادر، رومانی، ملغوبہ کالا پاڑ وغیرہ۔ ان کے علاوہ اچار بنانے کے مختلف آم بھی یہاں دستیاب ہوتے ہیں۔ نیز اس علاقے میں آم کے مشروبات بنانے کی فیکٹریاں بھی موجود ہیں۔اس علاقے کے آم بیرون ممالک کو بھی بھیجے جاتے ہیں جس سے سالانہ دس بلین روپیوں کی آمدنی ہوتی ہے۔ دہلی کی طرح یہاں بھی ہر سال تہوار کے طور پرآموں کی نمائش بھی ہوتی ہے جس کا اہتمام ریاستی حکومت ہر سال کرتی آرہی ہے۔ یہاں کی املی کے اقسام میں پہاڑی املی اور جنگلات کی املی کافی مشہور ہے املی کی یہ قسم جو نہایت مغز دار ہوتی ہے، جسے ملک اور بیرونی ملک میں بر آمد کیا جاتا ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی میں بھی یہ علاقہ پیچھے نہیں رہا ہے۔2021ء میں اولا فیوچر فیکٹری، الکٹرک اسکوٹرز جو سب سے بڑی دو پہیوں کی فیکٹری شہر کرشنگری کاایک قصبہ پوچم پلّی میں قائم ہوئی ہے جس کا رقبہ تقریباً 500 ایکڑ زمین پر مشتمل ہے۔ اولا نے الکٹرک اسکوٹرس کی دستیابی کے پہلے مہینے میں تقریباً پچاس ہزار بکنگ حاصل کی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جانکاری ملی ہے کہ سال 2022ء سے روزانہ یہاں تقریباً ایک ہزار الکٹرک اسکوٹرس تیار ہورہے ہیں۔شہر کرشنگری میں میڈیکل کالج کا بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 2021ء میں گورنمنٹ میڈیکل کالج قائم کیا گیا ہے جس کا شمار تمل ناڈو کی بہترین سرکاری میڈیکل کالجوں میں کیا جاتاہے جو تمل ناڈو ڈاکٹر ایم جی آر میڈیکل یونیورسٹی، چینئی کے زیر اقتدار ہے۔


ضلع کرشنگری میں اردو کی تعلیم :

شہر کرشنگری کے طلبا و طالبات جن کی مادری زبان اردو ہے وہ اردو ذریعہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ضلع کرشنگری میں کل57 سرکاری اردو اسکولوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ جن میں30 پرایمری اسکول، 22 مڈل اسکول اور 5ہائر سکنڈری گورنمنٹ اسکولیں شامل ہیں۔ان اسکولوں میں بارھویں جماعت تک اردو بحیثیت زبان پڑھائی جاتی ہے۔ جہاں تقریباً 48 ،اردو کے اساتذہ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور اکتالیس اساتذہ کی جگہ پچھلے کئی برسوں سے خالی ہے۔ گورنمنٹ آرٹس کالج میں اردو کا شعبہ پچھلے دس سالوں سے بند پڑا ہے، جو لڑکوں کا کالج ہے، جبکہ لڑکیوں کے لیے گورنمنٹ سندھیاکالج میں اردو کا شعبہ ابتدا ہی سے قائم نہیں ہے، یہاں البتہ اردو پڑھانے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ ناچیزخود پچھلے دس سالوں سے اس علاقہ میں رہ رہی ہوں ، میری مسلسل کوششیں ہیں کہ کم از کم پی ٹی اے سے یہاں گسٹ لکچررکا عہدہ قائم ہو جائے۔ لیکن میری کوششیں ناکام ہی رہیں۔اس علاقہ میں اردو کا کوئی اخبار یا رسالہ بھی نہیں ہے، البتہ ناچیز نے اس علاقے میں اردو اخبارات خرید کر محبان اردو کے لیے اخبار بینی کی ترغیب دلائی ہے۔ جناب مولوی الطاف صاحب نے لاک ڈاؤن سے قبل تک روزنامہ سالار، بنگلور ایڈیشن کی کاپیاں لے آتے تھے اور یہاں کے دو چار احباب اس کو تبرکاً پڑھ لیتے تھے، لاک ڈاؤن کے بعد یہ سلسلہ بھی بند ہوگیا ہے۔ یہاں کے عوام کو اردو سے محبت ہے لیکن اپنے بچوں کو اردو تعلیم دلانے میں دشواریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ آج اس علاقے میں کوئی بھی تنظیم فعال نہیں ہے، بڑے لوگ بڑی باتیں کرتے تو ہیں لیکن ٹھوس کام اور مثبت قدم اٹھانے کی طرف مائل نہیں ہیں۔ اس علاقے میں مینجمنٹ کا کوئی بھی اردو اسکول یا کالج نہیں ہے جس سے اردو کی بہتر اشاعت ہوسکے۔ نئی نسل کو اردو کی تعلیم دلانے میں ایک اور دشواری یہ بھی ہے کہ صوبہ تمل ناڈو میں ذو لسانی قانون رائج ہے۔ جس سے صرف ضلع کرشنگری ہی نہیں بلکہ پورے تمل ناڈو کا اردو دان طبقہ متاثر ہوا ہے۔ جس کے لیے کئی احتجاج بھی ہوئے ہیں اور کئی مقدمات عدالتوں میں درج بھی ہوئے ہیں۔ مسلسل درخواستوں کے باوجود بھی حکومت کی جانب سے کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ اس معاملے میں علاقے کے ہی نہیں بلکہ تمام اردو داں یکجا ہوکر مثبت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس ذو لسانی قانون سے ریاست کے اردو داں طبقے کو جو نقصان لاحق ہے اس کا ازالہ نا ممکن سا نظر آتا ہے۔ ایسے تشویش ناک حالات میں اردو تعلیم کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ مساجد، مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اردو کی تعلیم ضروری قرار دی جائے۔ انفرادی کوششوں کے ذریعے اگر اردو داں طبقہ اردو زبان کی ترقی و ترویج کے لیے اقدام اٹھائے تواردو کی بقاء کا کام انجام پاسکتا ہے۔ ہاں اس بات کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو تعلیم روزی روٹی سے جڑی ہوئی نہ ہو سماج میں اس کا خیر مقدم اتنا آسان نہیں۔


کرشنگری کے شعراء و ادباء :

علاقہ کرشنگری کو زمانہ دراز سے اہل علم و نظر اور علما و صوفیاء کرام نے جب سے اپنا مسکن بنایا اس وقت سے یہاں ادب کے میدان میں پیش روفت ہونے لگی۔دینی تعلیم کے لیے علماء نے جب اردو زبان کا سہارا لیا تو اردو کے ارتقاء کے لیے راستے ہموار ہونے لگے۔ یہاں کے علماء کرام کی خاص توجہ اور ان کے علم و فضل سے شہر کرشنگری میں اردو تعلیم و تربیت کا سازگار ماحول فراہم ہوا۔ دکنی زبان کے نامور شاعر حضرت نابیناؔ حیدر آباد سے ترپاتورہوتے ہوئے کرشنگری تشریف لائے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کی اوراسی سرزمین میں پیوند خاک ہوئے۔ ان کا مزار کرشنگری میں موجود ہے۔ حضرت نابیناؔ کا شمار اس دور کے باکمال اساتذہ میں ہوتا ہے۔ آپ کی آمد سے کرشنگری کا ماحول ادبی اعتبار سے ترقی کی منزلیں طے کرنے لگا۔ یہاں کے عوام میں شعر و ادب سے دلچسپی پیدا کرنے میں حضرت نابیناؔ کا اہم رول رہا ہے۔ ان کے علاوہ شہر کرشنگری میں ایسے قادر الکلام شعرا پیدا ہوئے ہیں جن میں مختارؔ بدری کا نام سر فہرست ہے۔ ان کے علاوہ اس علاقے کے شعراء میں سید کریم اللہ حسینی، ساغرؔ عباسی، سید عبد الرشید خورشیدؔ ، سید یوسف عاکفؔ، تراب علی خان ترابؔ، عبد الستار ستارؔ، رؤف خان ثاقبؔ، حضرت عثمان فہمیؔ عمری، سید ظہور اللہ شاہ نادرؔ قادری، وزیر احمد حیرتؔ، منیرؔ رشیدی، رفیع الدین اوجؔ، برکت اللہ، نعیم اللہ شریف، مولوی سید کبیر احمد فائق، ڈاکٹر سید شاہ علیؔ، مولوی کلیم اللہ کلیمؔ، ڈاکٹر صلاح الدین صلاحؔ ، قمر سلطانہ نگاہؔ(مختارؔ بدری کی بہن)وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔


کرشنگری میں اردو کی لسانی و شعری فضا کو پروان چڑھانے میں مولوی محمد عثمان فہمیؔ عمری کا اہم رول رہا ہے۔ جب وہ شہر کے ہائی اسکول میں بحیثیت منشی خدمت کے لیے آئے تو اس علاقے کو ایسی فضا فراہم کی جس سے کرشنگری اردو زبان و ادب کا ایک اہم مرکز بن گیا۔ فہمیؔ تادمِ حیات نئی نسل کو زبان و ادب سے روشناس کرانے ، دلچسپی پیدا کرنے اور ان کے اندر چھپے ہوئے ادبی ذوق کو نکھارنے میں مصروف عمل رہے۔ عثمان فہمیؔ نے اپنی تعلیمی و تدریسی تحریک سے جو نئی نسل کوتیار کیا ان میں منیر رشیدیؔ، مختار بدریؔ بھی شامل ہیں۔ آپ کی رہبری و رہنمائی نے طلبا و طالبات میں ذوق و شوق کو ابھارا اور آپ ایک رول ماڈل ثابت ہوئے۔ یہی دلچسپی، یہی جد و جہد آپ کے بعد بھی آپ کے صاحب زادوں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔
منیرؔ رشیدی علاقہ کرشنگری ہی نہیں بلکہ پوری ریاست میں پہچانے جاتے ہیں۔ آپ غزلیہ شاعری کے علاوہ دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ آپ مختار بدری کے بچپن کے ساتھی، قریبی دوست ہی نہیں بلکہ ہمسفر بھی رہے ان دونوں شعراء کرام نے اردو کی ترقی و بقاء کے لیے جاں توڑ کوششیں کیں اور شہر کرشنگری کو ادبی لحاظ سے زعفراں زار بنا دیا۔ حال ہی میں منیر رشیدی کا انتقال ہوا اور کرشنگری ہی میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔


کرشنگری کی محفل شعر و ادب میں مختار ؔ بدری ایک منفردحیثیت رکھتے ہیں۔ موصوف نے ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔آپ اردو اور تمل دونوں زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ مختارؔ بدری نہ صرف ایک شاعر بلکہ ماہر مترجم، کامیاب افسانہ نگار کی حیثیت سے بھی اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں۔آپ کی تخلیقات میں تاریخی کہانیاں، منتخب افسانوں کے ترجمے، اسلام الف سے ی تک، لغت نویسی، تمل اردو لغت (ذو لسانی لغت)، تروکرل (تمل شاعری کا کلاسیکی شاہکار) کا منظوم ترجمہ۔ لفظ لفظ گہر کافی مشہور ہوئیں۔ شہر کرشنگری کو آپ پر ناز ہے۔ اس سر زمین میں وقتاً فوقتاً شعرا و ادبا پیدا ہوتے رہے جن میں بعض کم معروف تھے تو بعض نے آفاقی شہرت بھی پائی ہے۔
کرشنگری میں اردو تعلیم کے لیے اگر راستے ہموار کیے جائیں تو اس سے بہت کچھ ممکن ہے۔ اساتذہ کی کمی ، اردو تعلیم کے فقدان سے طلبا اور طالبات کی تعداد متاثر ہورہی ہے۔ اس کمی کو پر کرنے کے لیے مدارس کا قیام، ادبی محفلوں کا اہتمام اور مشاعروں کے انعقاد سے طلباء کے اندر اردو کا ذوق و شوق پیدا کیا جاسکتا ہے۔
ذرا نم ہوتو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔۔

***
عائشہ صدیقہ جے
ریسرچ اسکالر، شعبہ عربی، فارسی و اردو، مدراس یونیورسٹی۔ چنئی، تمل ناڈو
ای-میل: ayeshadoulath555[@]gmail.com

Krishnagiri, An Ancient City of Tamil Nadu, a historical view

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں