روشنی کی کرن - افسانہ از عاشق بٹالوی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-06-12

روشنی کی کرن - افسانہ از عاشق بٹالوی

raushni-ki-kiran-short-story

سعید شام کے وقت شملہ کی مال پر کھڑا حسرت بھری نظروں سےے دیکھ رہا تھا۔ کشمیر سے لے کر مدراس کا تمول اور حسن اپنی پوری شانِ خود آرائئی کے ساتھ سامنے سڑک پر متحرک تھا۔ بنے ٹھنے، بانکی وضع کے نوجوان اور خوبصورت ، جامہ زیب عورتیں خراماں خراماں چلی جارہی تھیں۔ ہوا میں قہقہوں کا لوچ اور خوشبو کی مہک رچی ہوئی تھی۔ انگریزی طرز کی دکانیں، جن میں ہزاروں لاکھوں کا ولایتی مال بھرا پڑا تھا۔ اس سلیقے سےسجائی گئی تھیں کہ راستہ چلنے والوں کی توجہ خواہ مخواہ ان کی طرف مبذول ہوجاتی تھی۔ آہستہ آہستہ اندھیرا چھانے لگا اور بجلی کی روشنی نے اس رونق کو اور بھی چار چاند لگادئیے۔
سعید سوچ رہا تھا کہ شملہ کا یہ منظر دیکھ لینے کے بعد کوئی شخص کیوں کر باور کرسکتا ہے کہ ہندوستان کی آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ فاقہ کشی کی زندگی بسر کررہا ہے۔ اس ملک کے کروڑوں باشندے تن ڈھانکنے کو چند گز کپڑے اور پیٹ بھرنے کو روٹی کے چند ٹکڑوں سے محروم ہیں۔ اور اس خطۂ ارض پر بسنے والے بے شمار انسان محض افلاس کے ہاتھوں قبل از وقت موت کی نذر ہورہے ہیں۔ سعید نے سوچا کہ اگر یکایک کسی طلسمی طاقت سے مال کے پہلو بہ پہلو ہندوستان کی ان درماندہ ، مفلوک الحال اور خستہ و نیم جان بستیوں کا نقشہ بھی سامنے آجائے تو یہ عشرت پسند اور نازک مزاج لوگ جو سات ہزار فٹ کی بلندی پر رہنے کے باوجود بے چین راتیں بسر کرتے ہیں۔ ان آبادیوں کو دیکھ کر کیا کہیں گے جہاں عورتیں پھٹے ہوئے چیتھڑوں میں جسم چھپائے، تپتی ہوئی دوپہر میں پتھر اٹھا اٹھا کر مزدوری کرتی ہیں اور ننھے ننھے شیر خوار بچے پاس زمین پر پڑے دودھ کے ل ئے بلبلاتے ہیں۔ جہاں قحط زدہ ، فاقہ کش اور مجبور و لاچار مزدوروں کی برہنہ پشت پر اس لئے کوڑے برستے ہیں کہ انہوں نے کسی جاگیر دار کے کارندے سے کام کی اجرت طلب کی تھی سعید نے دیکھا کہ چند عورتیں حریر ودیبا میں ملبوس، چہروں کو غازہ و گلگونہ سے رشکِ آفتاب بنائے اور بالوں کو حد درجہ احتیاط سے سنوارےآرہی ہیں۔ ان عورتوں کی تعداد میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہونے لگا۔ بیش قیمت اور مرصع ساڑہیاں ان کے جسموں پر عش پیچاںں کی بیل کی طرح چمٹی ہوئی تھیں۔ خوشبوؤں میں بسے ہوئے بال گھنٹوں کی محنت سے آراستہ کئے گئے تھے اور قدم قدم پر ان کے جسموں کی لچک سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ حسن و نزاکت کے مجسمے ابھی ہوا میں تحلیل ہوجائیں گے۔ خود اعتمادی کی رنگ میں مسکراتی، دزدیدہ نگاہوں سے گردوپیش کی ہرچیز کاجائزہ لیتی اور اپنے پیچھے ہوا میں عطر کی خوشبو کی ایک لہر پیدا کرتی یہ نورولطافت کے خمیر سے بنی ہوئی پتلیاں انگریزی دکانوں میں جو بجلی کے قمقموں سے جگمگارہی تھیں داخل ہونا شروع ہوئیں روپیہ پانی کی طرح بہنے لگا۔ شب و روز کی محنت سے پیدا کی ہوئی دولت سے ، جس میں ہزاروں غریبوں کے خون کی آمیزش تھی۔ آرائش اور سنگار کا سامان خریداجارہا تھا۔


سعید نے سوچا کہ اگر ان چہروں سے غازے کی آب و تاب ، آنکھوں سے سرمے کا دنبالہ، ہونٹوں سے سرخی کی جلا اور ابروؤں سے کاجل کی شوخی چھین لی جائے تو کیا یہ چہرے اتنے ہی حسین قاتل رہیں گے۔ اگر یہ دبلے پتلے جسم جو شاخِ گل کی طرح ہوا کے ہر جھونکے سے لچک لچک جاتے ہیں ان زرنگار ساڑھیوں سے محروم ہوجائیں تو کیا یہ قد اتنے ہی رعنا، یہ رفتار اتنی ہی حشر انگیز اور یہ اندازاتنے ہی ہوش ربا ہوں گے۔ بے اختیار اس کی نظریں اپنے آپ پر پڑ گئیں۔وہ موٹے کھدر کا پاجامہ اور کرتہ پہنے ہوئے تتھا۔ پاؤں میں معمولی سا چپل اور سر پر کھدر کی کشتی نما ٹوپی تھی۔ وہ ابھی تین مہینے ہوئے دو سال کی قید کاٹ کر جیل سے رہا ہوا تھا۔ ترکِ موالات کی سیاسی تحریک میں اس نے بہت سر گرمی سے حصہ لیا تھا۔ قانون کی تعلیم ختم کرنے کے بعد اس نے وکالت کے پیشے میں قدم رکھا ہی تھا کہ ترک موالات کا ہنگامہ شروع ہوگیا اور عدالتوں کے مقاطعہ کی تلقین ہونے لگی۔ سعید خود آتشیں جذبات کا مالک نوجوان تھا۔ چنانچہ مستقبل کی طرف سے آنکھیں بند کرکے وہ بے دریغ سیاست کے خارزار میں کود پڑا۔ وہ اس رو میں بہتا چلا گیا۔ تقریر و تحریر پر اسے قابل تحسین عبور تھا لیکن نو عمری کی وجہ سے وہ احتیاط اور دور اندیشی نہ تھی جو صرف پختہ سالی سے پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ اپنی انقلاب انگیز اور خلاف آئین تقریروں کی بناپر وہ جلد ہی گرفتار ہوکر سزا یاب ہوگیا۔


طالب علمی کے زمانے میں بھی سعید اپنی افتاد مزاج کے اعتبار سے دلچسپ اور متضاد عناصر کا مجموعہ تھا۔ قومی جوش تو ہر وقت اس کے دل میں موجزن رہتا تھا۔ لیکن ساتھ ہی وہ شاعرانہ دل و دماغ کا مالک اور ایک حقیقی صناع کی طرح خوبصورت چیزیں وضع کرنے اور ان سے حظ اٹھانے کا شوقین بھی تھا۔ انہی دنوں میں اس کی ملاقات ایک لڑکی سے ہوئی جو اس کے بہت دور کے قرابت داروں میں سے تھی۔ اس کا نام زبیدہ تھا۔ زبیدہ بی اے میں پڑھتی تھی اور اس کے باپ نے جو سرکاری ملازمت کی وجہ سے تقریباً تمام عمر گھر سے باہر رہا تھا اب پنشن لینے کے بعد وطن میں بودوباش اختیار کرلی تھی۔ زبیدہ کی شکل و صورت میں دلکشی اور عادات و اطوار میں شائستگی اور متانت تھی۔ اس کے چہرے سے ذہانت اور ہمدردی کے آثار ٹپکتے تھے۔ سعید جب پہلی مرتبہ اس سے ملا تو اپنے دل پر عجیب و غریب تاثرات لے کر آیا، زبیدہ کی مہذب گفتگو ، اندازِ نشست و برخاست میں اس کا قابل رشک سلیقہ ،ذکاوت و ذہانت کے ساتھ اس کی ادبی لیاقت اور قومی و ملکی معاملات سے اس کی گہری دلچسپی۔ ان تمام باتوں نے مل کر سعید کے دل میں زبیدہ کے لئے بہت بڑی جگہ بنادی۔ پھر آہستہ آہستہ انہیں ملاقات کے زیادہ موقعے میسر آنے لگے۔


تعلیمی مشاغل میں منہمک ہونے کی وجہ سے ان کی باتیں بالعموم علمی و ادبی موضوعات تک محدود رہتی تھیں۔ کبھی کبھی ہنداور بیرون ہند کے سیاسی حالات بھی زیر بحث آجاتے تھے۔ سعید نے حیرت انگیز مسرت کے ساتھ دیکھا کہ زبیدہ قومی ادبار کو شدت سے محسوس کررہی ہے۔ وہ اکثر ان اسباب وواقعات پر اظہار خیال کرتی جو اس کے نزدیک ہندوستان کی موجودہ پستی کا باعث تھے اور پھر اس زبوں حالی سے نجات پانے کے لئے اپنی فہم و فراست کے مطابق تدابیر بھی پیش کیا کرتی۔ سعید کے دل میں ملک و ملت کے درد کی جو چنگاری چھپی ہوئی تھی وہ ان گفتگوؤں کے بعد پہلے سے زیادہ روشن ہوجاتی تھی۔ سعید گھر آکر سوچتا کہ زبیدہ کی معیت اس کے لئے کس درجہ خیال انگیز ، روح پرور اور حیات افروز ہے۔ وہ جب بھی اس سے مل کر آتا اپنے دماغ میں زندگی کا نیا تصور دل میں جدوجہد کا نیا ولولہ اورروح میں عزم و ہمت کا نیا جذبہ محسوس کرتا تھا۔اس کے علاوہ زبیدہ کے مزاج کا جمالیاتی پہلو بھی اس پر اثر انداز ہورہات ھا وہ ادب کا نہایت پاکیزہ مذاق رکھتی تھی اور موسیقی میں اسے کافی دسترس تھی۔ شعروسخن کی گفتگو میں سعید بسا اوقات اس کے سامنے ہتھیار ڈال دینے پر مجبور ہوجاتا تھا۔ زبیدہ کی جامہ زیبی اور اس کے لباس کی نئی سے نئی وضع قطع ، جس کے اختراع میں خود اس کی فن کارانہ طبیعت کو بہت دخل تھا، سعید کے لئے کسی بلند پایہ صناع کے شاہکار سے کم اہمیت نہ رکھتی تھی۔ زبیدہ کی ہر چیز اس سے خراج تحسین حاصل کررہی تھی لیکن وہ ہمیشہ کوشش کرتا تھا کہ زبیدہ کے سامنے اس کی کسی چیز کی تعریف نہ کرے۔


وہ اس کے منہ پر مدح و ستائش کے کلمات کہنا مذاق سلیم کے منافی سمجھتا تھا یوں بھی وہ نہیں چاہتا تھا کہ زبیدہ پر ظاہر ہوکہ وہ اس سے کس حد تک متاثر ہوچکا ہے۔ تنہائی میں اس ضبط و احتیاط اور بیگانگی و بے نیازی کا زبردست رد عمل شروع ہوتا۔ کرسی پر بیٹھے بیٹھے، مطالعہ کی میز پر جھکے جھکے اور بستر پر لیٹے لیٹے اس کی چشم تصور کے سامنے زبیدہ آجاتی۔زبیدہ کی صورت ایسی نہ تھی کہ نظر اول میں دیکھنے والے کی آنکھیں خیرہ ہوجائیں لیکن قدرت نے اس کے حسن میں ایسی ملائمت اور دلکشی رکھی تھی کہ انسان جوں جوں اسے دیکھتا فریفتگی اور والہیت کا جذبہ بڑھتا جاتا تھا۔ سعید کے سینے میں جذبات کی نئی نئی لہریں اٹھ رہی تھیں اور اس کی دنیا خیالات کی نئی سے نئی دلآویزیوں سے مزین ہورہی تھیں۔


مدت ہوئی زبیدہ کی منگنی ایک بہت امیر گھرانے میں ہوچکی تھی۔ لڑکا فارغ التحصیل ہوکر اب ایک اچھے عہدے پر فائز تھا اور ان کا تقاضا تھا کہ شادی جلد ہوجائے۔ زبیدہ کے والدین اس انتظار میں تھے کہ زبیدہ تعلیم سے فارغ ہو تویہ فرض بھی ادا کردیاجائے۔ زبیدہ نے اس رشتے پر کبھی اظہار خیال نہ کیا تھا اور اس کی عزیز ترین سہیلیوں میں سے بھی کسی کو اس کی خوشی یا ناخوشی کا حال معلوم نہ تھا۔ خود زبیدہ اپنے ہونے والے شوہر کے متعلق اتنا جانتی تھی کہ وہ ایک معزز خاندان کا چشم و چراغ ہے ، تعلیم یافتہ ہے اور سرکاری ملازم ہے۔ اس کے مذاق و مزاج کے متعلق اسےصرف اتنی واقفیت تھی کہ وہ دفتری زندگی کے علاوہ اور کسی چیز سے شغف نہیں رکھتا۔ قومی و ملکی معاملات سے اسے کچھ دلچسپی نہیں۔ شعروادب کی طرف اس کا بالکل رجحان نہیں اور اس کی سب سے بڑی تفریح یہ ہے کہ کبھی کبھی دوستوں میں بیٹھ کر تاش کھیل لیاجائے۔


سعید سے ملنے کے بعد زبیدہ کو عمر میں پہلی مرتبہ یہ احساس ہوا کہ ایک ہم خیال و ہم ذوق نوجوان مرد کی رفاقت کس درجہ خوشگواراور روحانی مسرت سے لبریز ہوتی ہے۔ زندگی کے متعلق جب دونوں کے نظرئیے ہم آہنگ ہوجائیں یا اگر اختلاف ہو بھی تو اتنا جتنا موسیقی کے دوسُروں میں ہوتا ہے تو دل و دماغ کی شگفتگی کے لئے یہ صحبت کتنی موثر ومفید ہوتی ہے۔ خیال اور مذاق کی یگانگت سے ہمدردی اور ہمدردی سے محبت پید ا ہوجایا کرتی ہے۔ زبیدہ نے یکایک محسوس کیا کہ اس کے دل کے ایک خفیہ گوشہ میں سعید کے لئے بہت لطیف اور نرم و نازک جذبات پرورش پارہے ہیں۔ یہ احساس جس ناگہاں تیزی سے رونما ہوا اسی وقت کے ساتھ زبیدہ نے اسے دبا دینے کی کوشش کی۔ ایک کنواری لڑکی کے لئے، جس کی منگنی ہوچکی ہو۔کیسے زیبا ہے کہ ایک اور نوجوان کے خیال کو اپنے دل میں جگہ دے۔ زبیدہ نے سعید سے میل ملاقات ترک کردی کہ مبادا یہ چنگاری کہیں بھڑک کر شعلہ بن جائے۔ سعید اب بھی گاہے گاہے ان کے ہاں جاتا لیکن زبیدہ کی طرف سے کسی سرگرمی کا اظہار نہ پاکر وہ بجھے ہوئے دل کے ساتھ واپس آجاتا تھا۔ اس نے سوچا کہ عورتوں کی تلون کیشی کے قصے جو اس نے کتابوں میں پڑھے تھے من و عن درست نکلے۔ زبیدہ کی سرد مہری کو اس نے نسوانی فطرت کی اس روایتی دھوپ چھاؤں پر محمول کیا جہاں عورت گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ ہوجاتی ہے۔


زبیدہ نے جب بی اے کرلیا تو اس کی شادی ہوگئی۔ سعید کسی ضروری کام کا بہانہ کرکے شادی سے چند روز پہلے کہیں باہر چلا گیا تاکہ اس تقریب میں شریک نہ ہوسکے۔ لیکن اس کا تحفہ زبیدہ کے جہیز میں موجود تھا یہ ایک عورت کا خوبصورت مجسمہ تھا جو سنگ مرمر سے تراشا گیا تھا۔ عورت کے ہاتھ میں سورج مکھی کا پھول تھا۔ جس پر آفتاب کی شعاعیں پڑ رہی تھیں اور خود عورت کا وجود سراسر تاریکی میں تھا۔


زبیدہ معصومیت کردار اور پابندی خیال کی تمام رعنائیاں لے کر اپنے خاوند کے پاس گئی اور ہمیشہ اپنے آپ کو یقین دلانے کی کوشش کرتی رہی کہ اس کے دل کے ہر کونے میں خاوند کی محبت جاگزیں ہے۔ سعید کے متعلق اسے براہ راست کوئی اطلاع موصول نہ ہوتی تھی۔ کبھی کبھار وہ میکے جاتی بھی تو سعید سے ملاقات نہ ہو نے پاتی تھی۔ اس نے سنا کہ سعید کی صحت خراب رہنے لگی ہے۔ پھر پیہم اس کو سعید کی بیماری کی خبریں پہنچنے لگیں۔ اس دوران میں سعید قانون کی تعلیم ختم کرچکا تھا لیکن آئندہ بسر اوقات کے متعلق اس نے کوئی طریق کار تجویز نہیں کیا تھا۔ اس کے دوست و احباب اور عزیز و اقربا زور دے رہے تھے کہ وہ جلد وکالت شروع کردے لیکن خود اس کی حالت یہ تھی کہ وہ ناقابل فہم طریق پر اداس، غمگین اور پریشان نظر آتا تھا۔ پوچھنے پر بھی وہ اپنے دل کا حال کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرتا تھا۔ اس پراسرار تبدیلی کی وجوہ بیان کرتے وقت وہ صرف اپنی ناسازی مزاج کا ذکر کردیتا تھا۔ اس کے فکر مند والدین نے اس خیال سے کہ شاید تبدیل آب و ہوا سے کچھ فائدہ ہو اسے دو ایک ماہ کے لئے باہر بھیج دیا لیکن جب وہ واپس آیا تو اس کی خود ساختہ بیماری ویسی ہی شدید اور ناقابل علاج تھی۔ آہستہ آہستہ لوگوں میں چرچا ہونے لگا کہ سعید کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہے۔


زبیدہ جب میکے آئی اور سعید کے متعلق اس نے تشویش ناک باتیں سنیں تو خود اسے دیکھنے کے لئے ایک دن اس کے مکان پر چلی گئی سعید نے پہلے تو چاہا کہ ملنے سے انکار کردے لیکن چونکہ وہ مکان میں تنہا تھا اس لئے ملاقات کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا۔ زبیدہ نے ڈرتے ڈرتے، محجوبانہ انداز میں مزاج پرسی کی تو سعید نے رسمی طورپر شکریہ ادا کیا اور پھر یکایک دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک سیلاب بہہ نکلا۔ زبیدہ نے حیران ہوکر اس کاہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ لیکن سعید کی یہ حالت تھی کہ ایک کمسن بچے کی طرح، ہچکیاں لے لے کر رورہا تھا۔ صبرو ضبط کی وہ دیوار جس نے اب تک اس کی آنکھوں کو خوں چکانی سے روک رکھا تھا مسمار ہوچکی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ ان آنسوؤں کی روانی میں اس کے خون جگر کا آخری قطرہ بھی بہہ جائے تو اچھا ہے۔ وہ آگ جو مدت سے اس کے رگ و ریشہ میں سلگ سلگ کر اسے نیم جاں بنارہی تھی اب ہوا کے ایک جھونکے سے شعلوں میں تبدیل ہوگئی تھی اور وہ چاہتاتھا کہ ان شعلوں میں جل کر یکبارگی خاک سیاہ ہوجائے تو بہتر ہے۔


زبیدہ تھر تھر کانپ رہی تھی کہ اگر اس حالت میں کوئی آگیا تو کیا ہوگیا۔ وہ ایک لمحہ میں سعید کے دل کا راز پاچکی تھی۔ اس کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ سعید اپنے آپ کو اس کی خاطر ہوں تباہ کررہا ہے۔ اب جو اس نے دیکھا کہ وہ اپنی جوانی کے ایام بہار کو اس کی یاد میں سوگوار بنارہا ہے تواس کے لطف و رحم کا فطری جذبہ فوراًبیدار ہوگیا اور ساتھ ہی اس جذباتِ شوق میں حرکت پیدا ہوئی جو سعید کے متعلق مدت سے زبیدہ کے دل میں موجود تھے اور جنہیں وہ ہزار مصلحت اور کوشش سے دبادبا کر اپنے خیال میں مٹاچکی تھی۔ وہ شرم و حجاب کی بندشوں اور آداب ووضع کی پابندیوں کے حصار سے دفعتاً چند منٹ کے لئے باہر نکل آئی، اس نے اپنے ہاتھ سے سعید کے آنسو پونچھے۔ الفاظ اس کے حلق سے نکلتے نہیں تھے لیکن اس نے اپنے آپ پر جبر کیا اور ٹھہر ٹھہر کر لرزتی ہوئی آواز میں کہنے لگی۔"خدا کے لئے طبیعت کو سنبھالو۔ مقدر کے خلاف جنگ نہیں کی جاسکتی۔ جوہونا تھا ہوچکا۔ اب یوں رورو کر اپنے آپ کو ہلاک کرنے سے کیا فائدہ۔ تم اپنا خیال نہیں کرتے تو میری ہی عزت کی پرواہ کرو ، ذرا سوچواگر یہ راز عام ہوجائے تو میرا کیا حشر ہوگا۔مجھے زمین و آسمان کے درمیان سر چھپانے کو جگہ نہیں ملے گی یاد رکھومیری آبرو تمہارے ہاتھ میں ہے۔ تمہاری زبان سے ایک لفظ بھی نکل گیا تو میں عمر بھر کے لئے تباہ ہوجاؤں گی۔"


ان آخری الفاظ نے سعید پر معجز نما اثر کیا۔ اس کے بہتے ہوئے آنسو فوراً خشک ہوگئے اور اس کے چہرے پر خشونت آمیز متانت پیدا ہوگئی۔ اس نے انتہائی لجاجت کے ساتھ گویا بھکاری کسی امیر آدمی سے خیرات طلب کررہا ہے کہا۔"میں تم سے ادنیٰ التفات کی بھیک مانگتا ہوں اور اس کے عوض وعدہ کرتا ہوں کہ میری زبان ہمیشہ بند رہے گی۔ اگر تمہیں میرے خلاف کبھی کوئی وجہ شکایت ہوئی بھی تو میں اپنا گلا کاٹ لوں گا۔"


زبیدہ نے اس کو یقین دلایا کہ "دل میں جب ایک مرتبہ شوق کی آگ بھڑکتی ہے تو بجھتی کبھی نہیں،چنگاریاں راکھ کے اندر دبی رہتی ہیں اور دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ تنور ٹھنڈا ہوگیا۔ سمندر بظاہر پرسکون نظر آتا ہے لیکن سطح کے نیچے شورش و اضطراب کا ایک محشر بپا ہوتا ہے۔ آؤ ہم اس وقت عہد کریں کہ شوق کے ان دھاروں کو خاموشی سے بہنے دیں گے۔ ان میں طوفان کا آنا اچھا نہیں۔ اس دنیا میں تو ہم آپس میں نہ مل سکیں گے لیکن ایک زندگی اور بھی ہے جہاں اس دنیا کے رسم و رواج کی حکومت نہیں۔"


زبیدہ کے پے در پے اصرارسے مجبور ہوکر سعید نے شادی کرلی۔ زبیدہ سمجھتی تھی کہ شادی کے بعد سعید کے خیالات کا انتشار رفع ہوجائے گا اور اس کی زندگی ایک نظام کے ماتحت کام کرنے سے باقاعدگی اختیار کرلے گی۔ سعید مسلسل انکار کئے جاتا تھا لیکن زبیدہ اسے بار بار دھمکی دیتی تھی کہ اگر اس نے کی بات نہ مانی تو وہ ہمیشہ کے لئے ناراض ہوجائے گی۔ سعید کا خیال تھا کہ زبیدہ کی محبت کو دل میں جگہ دینے کے بعد کسی عورت سے شادی کرنا بے وفائی کی مکروہ ترین صورت تھی۔ وہ اس کی یاد میں زندگی بسر کرنے کا تہیہ کرچکا تھا۔ آخر جب وہ زبیدہ کے روز روز کے تقاضوں سے تنگ آگیا تو اس نے حامی بھرلی۔ زبیدہ کے مشورے اور کوشش سے ایک بڑے اونچے گھرانے میں رشتہ ڈھونڈا گیا۔ سعید کی بیوی تعلیم یافتہ حسین اور مہذب و شائستہ تھی۔ لیکن متمول اور بہت حد تک مغربی معاشرت رکھنے والے کنبے میں پرورش پانے کی وجہ سے اس کے مزاج میں نخوت اور خود پسندی کا عنصر غالب تھا۔ زبیدہ کو یقین تھا کہ خانگی زندگی کی دلچسپیاں آہستہ آہستہ سعید کے درد کا درماں بن جائیں گی۔ سعید بھی ایک ذمہ دار شوہر کی طرح اپنی بیوی کے آرام و راحت کا ہر گھڑی احساس رکھتا تھا۔ چنانچہ شروع شروع میں امید بندھ چلی تھی کہ دونوں میاں بیوی باہمی کوششوں سے اپنے لئے ایک روشن و زریں مستقبل وضع کرلیں گے۔ سعید نے اگرچہ کبھی اس خواہش کا اظہار نہیں کیا تھالیکن وہ غیر شعوری طور پر متوقع تھا کہ اس کی بیوی اس کے دکھے ہوئے دل کے لئے مرہم مہیا کرے گی۔ وہ اپنی بیوی کو اپنے ماضی کی داستان سے آگاہ کرنا نہیں چاہتا تھا مگر اس بات کا آرزو مند تھا کہ وہ اس کی لوحِ قلب سےغم رفتہ کے اندوہگیں نقوش کو مٹانے کے لئے درد ومحبت کے چند آنسو بہائے۔ وہ اس سے دلجوئی، غم خواری اور شفقت و الفت کی امید لگائے بیٹھا تھا۔ لیکن اسے جلد ہی معلوم ہوگیا کہ اس کے اوراس کی بیوی کے خیالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وہ جس قدرخیال پرست اورجذبات پرور انسان تھا۔ اس کی بیوی اسی قدر خود نمائی اور خود پسندی کے دائرے میں محصور تھی۔ سعید کو علمی و ادبی کاموں سے دلچسپی تھی۔ وہ قومی معاملات اور سیاسی تحریکات سے بھی شغف رکھتا تھا۔ لیکن اس کی بیوی کو ان باتوں سے کوئی دلبستگی نہ تھی۔ وہ عام لوگوں کے مذاق کی ہم نوائی کرنا یا ان کی سطح پر رہ کر زندگی گزارنا اپنے خاندانی وقار کے خلاف سمجھتی تھی۔ جس ماحول میں اس نے تربیت پائی تھی اس کا تقاضا تھا کہ وہ ایک بلند پایہ، صاحب ثروت ، جاہ پسند خاتون کی طرح ایک تحکمانہ انداز اور شانِ خود آرائئی کے ساتھ زندگی بسر کرے۔ سعید کا حساس دل غربت و افلاس اور مصیبت و ناداری کے تکلیف دہ مناظر دیکھ کر تڑپ اٹھتا تھا۔ وہ اپنے گردوپیش، ملک کے اندر، جہالت، غلامی، تنگدستی کی خوفناک تصویریں دیکھتا تو اس کی روح کانپ جاتی تھی لیکن اس کی بیوی ان چیزوں سے بالکل اثر پذیر نہ ہوتی تھی۔ وہ سعید کی خیال آرائیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتی تھی۔ وہ ہمیشہ اس کو تنبیہ کرتی تھی کہ ان بے سود اورمضر خیالات کو ترک کردے۔ سعید حیران تھا کہ جو عقائئد اس کی زندگی کا جزو بن چکے تھے اور جو رجحانات بڑھتے بڑھتے اس کے دل و دماغ پر حاوی ہوگئے تھے ان کو ترک کرنے کے بعد اس کے پاس رہ کیاجائے گا۔ زاویہ ہائے نگاہ کے اس اختلاف نے دونوں میں غلط فہمی پیدا کردی اور اس غلط فہمی کو سعید کی بیوی کی متکبرانہ روش نے بڑھا بڑھا کر کشیدگی کی حد تک پہنچادیا۔ سعید جو پہلے ہی دل گرفتہ و پریشان تھا اور زیادہ غمگین رہنے لگا۔


اتنے میں ترک موالات کی ہنگامہ خیز تحریک شروع ہوگئی۔ ہندوستان کی سیاسی فضا میں شعلے بلند ہونے لگے اور ملک کے طول و عرض میں انقلاب کی ایک ایسی زبردست روچلی کہ دیکھتے ہی دیکھتے کہرام مچ گیا۔ کالج اور اسکول بند ہوگئے۔ وکلاء عدالتوں کو خیرباد کہہ کر میدان عمل میں نکل آئے اور قید وبند کا سلسلہ شدت کے ساتھ جاری ہوگیا۔ سعید سوچ رہا تھا کہ تحریک میں شرکت کرنے اور گوشہ ٔ عافیت میں پناہ لینے میں سے کس کو ترجیح دے۔ ملک و ملت کے جس درد سے وہ ہمیشہ بے تاب رہا تھا اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ وقت کی آوازپر بلا تامل لبیک کہاجائے لیکن اس کی بیوی سد راہ ہورہی تھی۔ سعید کچھ دیر اس کشمکش میں مبتلا رہا اور آخر قوم کی پکار کے سامنے اس نے اپنی بیوی کی رائے کو ٹھکرادیا۔ وکالت چھوڑ کر وہ قومی رضاکاروں کی جماعت میں شامل ہوگیا اور اس کی بیوی ناراض ہوکر اپنے میکے چلی گئی۔ سعید نے اس مستعدی اور سر گرمی سے کام لیا کہ گویا اس کی زندگی کا تنہا مقصد یہی تھا۔ اس نے اپنے صوبے کے دوردراز گوشوں میں جاجاکرر عوام کو آزادی کا پیغام سنایا۔ تقریر و تھریر کے ذریعہ سے اس نے جگہ جگہ قانون شکنی کے جراثیم پھیلاکر لوگوں کو حکومت کے خلاف صف آرا ہونے پر ابھارا۔ انجام کار اس کی سر گرمیوں کو خلاف آئین قرار دے کر حکومت نے اس پر بغاوت پھیلانے کا مقدمہ قائم کیا اور دو سال قید بامشقت کی سزا دے دی۔


جب وہ قید کی میعاد ختم کرکے جیل سے نکلا تو ملک کی حالت یکسر بدل چکی تھی۔ ترک موالات کی تحریک فرقہ وارانہ کشیدگی کے ہاتھوں سسک سسک کر دم توڑ رہی تھی۔ روشن خیال اور مخلص قومی کارکن کوئی واضح اور معین لائحہ عمل پیش نظر نہ ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ سیاسیات سے کنارہ کش ہوتے جارہے تھے۔ سعید اس افسوسناک عمل سے بے حد متاثر ہوا۔ اس کی جسمانی صحت اور مالی حالت سخت نازک ہوگئی تھی۔ آئندہ کی فکر نے اس کے مستقبل کو اوربھی تاریک بنارکھا تھا۔ ان حالات میں اس کو ہمدردی اور دل نوازی کی جائز توقع اگر کہیں سے ہوسکتی تھی تو اپنی بیوی سے۔ لیکن وہ سعید سے اس قدر ناراض تھی کہ اس نے دو سال کے عرصےے میں اس سے ملنا یا اس کو خط تک لکھنابھی گوارا نہ کیاتھا۔ وہ سعید کے قید ہوجانے کو اپنی خاندانی عظمت و نجابت کے دامن پر ایک ایسا مکروہ دھبہ سمجھتی تھی جس کے لئے سعید ہرگز معافی کے قابل نہ تھا۔ اس مصیبت میں سعید کے خیالات کے تاریک افق پر رہ رہ کر زبیدہ کا درخشندہ چہرہ نمودار ہوتا اور اس کے دل کو امید اور محبت کی شعاعوں سے منور کردیتا تھا۔ لیکن وہ زبیدہ کے پاس جانے سے گھبراتا تھا۔ اسے اپنی کمری اور بے کسی کا احساس اس شدت سے ستارہا تھا کہ وہ ڈرتا تھا کہ مبادا زبیدہ اسے شرفِ ملاقات بخشنے سے انکار کردے۔ اس نے سنا تھا کہ زبیدہ نے پردہ ترک کردیا ہے اور آج کل اپنے خاوند کے ہمراہ شملہ میں مقیم ہے۔ سعید کاایک عزیز دوست بہ سلسلۂ ملازمت شملہ میں تھا اور سعید کی رہائی کے بعد اس نے سعید کو دعوت دی تھی کہ گرمیوں کا موسم اس کے پاس بسر کرے۔ چنانچہ سعید یہ سوچ کر کہ کچھ عرصہ پہاڑ پر قیام کرنے سے اس کی صحت بہتر ہوجائے گی شملہ چلا گیا۔


مال پر اسی طرح کھڑے کھڑے وہ شملہ کے تمول اور حسن کے بو قلموں نظارےدیکھ دیکھ کر اپنی حالت پر کافی غور کرچکا تھا۔ مختلف خیالات اس کے دماغ میں گھوم رہے تھے۔ وہ سوچتا تھا کہ اگر آزادی ٔ وطن کی تحریک اس قدر کمزور تھی تو اس نے کیوں قید و بند کی مشقتیں جھیلیں۔ اگر اس کے ہم وطن ملکی ضروریات سے اس قدر غافل اور قومی مصائب سے اس قدر بے پروا ہیں تو اس نے کیوں جلتی آگ میں کود کر اپنے مستقبل کو تباہ کیا۔ اس کے دل میں شکوک و شبہات پیدا ہورہہے تھے اور بعض اوقات وہ تحریک حریت کو ایک بے معنی ہاؤہو سمجھنے پر مجبور ہوجاتا تھا۔ انہی خیالات میں محووہ سڑک پر جارہا تھا کہ سامنے زبیدہ آگئی۔ سعید نے بچ کر نکل جانے کی کوشش کی لیکن زبیدہ نے دیکھ لیا۔ چند منٹ گفتگو کرنے کے بعد زبیدہ نے اس کو اپنے مکان کا پتہ بتایا اور تاکید سے اس کو وہاں آنے کی دعوت دی۔


دوسرے روز زبیدہ کے مکان پر جو باتیں ہوئیں انہوں نے سعید کی آنکھوں کے سامنے سے پردے ہٹا دئیے۔ سعید کی مایوسی اور افسردگی کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ اس کے کان محبت اور ہمدردی کی آواز سے ناآشنا ہوگئے تھے۔ اس کے تکدر و اضمحلال کا ایک بہت بڑا باعث یہ بھی تھا کہ آلام روزگار کے ہجوم میں اسے کہیں سے تسکین و تشفی کا پیغام نہ ملتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ جو لوگ کسی زمانے میں اس سے محبت کرتے تھے اب اس کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ احساس روز بروز قوی ہوکر اسے خود اپنی نگاہ میں پست کررہا تھا۔ زبیدہ نے سعید کی بیوی کا ذکر کرنے سے عمداًگریز کیا تھا۔ اسے واقعات کا علم تھا اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ قصہ چھیڑ کر سعید کے دل کے سب سے نازک حصے کو تکلیف پہنچائے۔ سعید اپنے زمانۂ اسیری کے حالات سناتا رہا۔ سیاسی بحران اور اس کے بعد کے واقعات پر بحث ہوتی رہی۔ ملک کی موجودہ کیفیت اور اپنے غیر یقینی مستقبل کے متعلق بھی سعید نے اندیشہ و اضطراب کا اظہار کیا۔ زبیدہ نے یہ دیکھ کر کہ سعید بے حد مایوس ہورہا ہے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا:
"تم باربار کیوں کہتے ہو کہ دنیا سے محبت اور وفا کا وجود مٹ گیا ہے۔ یہ خیال بار بار کیوں دماغ میں لاتے ہو کہ تم نے ترک موالات کی تحریک میں شامل ہوکر دور اندیشی کا ثبوت نہیں دیا؟ کون کہتا ہے کہ ملک ایک دن میں آزاد ہوجائے گا یا قوم ایک دن میں غلامی کی زنجیریں کاٹ سکتی ہے؟ یاد رکھو یہ ایک طویل جدوجہد ہے جو خدا ہی جانتا ہے کب تک جاری رہے گی۔ یہ ایک طوفان ہے جس میں نہیں معلوم کب تک نئے نئے مدوجزر پیدا ہوتے رہین گے۔ ہزاروں جوان اپنی جوانیاں قربان کریں گے۔ لاکھوں انسان اپنی زندگیاں نچھاور کریں گے۔ عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوجائیں گے۔ حکومت کی بنیادیں متزلزل ہوتے ہوتے اور نظامِ کہنہ کی دیواریں گرتے گرتے زلزلے اور فتنے پید اکریں گے۔خون کی ندیاں بہہ بہہ کر وطن کی مقدس سر زمین کو گردوغبار سے صاف کرڈالیں گی اور پھر کہیں آزادی کا آفتاب طلوع ہوگا۔ کیا تمہارے لئے یہ اعزاز قابل فخر نہیں کہ تم حریت طلب جماعت میں سب سے پہلے شریک ہوگئے ہو؟ پانی کاب ے مقدار قطرہ سمندر میں مل کر بحر بے پایاں کا لقب اختیار کرلیتا ہے اور ریت کا حقیر ذرہ ریگ زار میں سماتا ہے تو صحرا بن جاتا ہے۔ تم بھی آزادی کی جنگ میں حصہ لے کر انفرادیت کے محدود حلقے سے نکل کر قوم کی اجتماعی قوت کی صورت اختیار کرگئے ہو اور یہی انسانی زندگی کا مقصد ہے۔ تمہیں کیا معلوم کہ میں نے کس درد اور پریشانی کے ساتھ یہ دو سال گذارے ہیں۔ میں راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگا کرتی تھی کہ تمہارے ارادے مضبوطی اور تمہاری ہمت کی بلندی قائم رہے۔جاں سپاری اور سرفروشی کا جو مسلک تم نے اختیار کیا ہے خدا اس میں استقامت بخشے۔
میں اگر اپنا دل چیر کر تمہارے سامنے رکھ دوں تو تم شاید سمجھ سکو کہ دنیا میں محبت اور وفا کا وجودباقی ہے یا یہ متاع گرانمایہ ختم ہوچکی ہے۔ میں نے پردہ ترک کردیا کہ تمہاری غیر حاضری کے یہ دو برس کسی مفید کام میں صرف کرسکوں۔ میں نے ایک زنانہ مدرسہ قائم کرکے دن رات محنت کی۔ لڑکیوں کو تعلیم دینے، سلائی کا کام کرنے اور دستکاری سکھانے سے میں نے دو ہزار کی رقم جمع کی کہ جب تم قید سے نکل کر آؤ تو میں سرخروئی سے تمہارا خیر مقدم کرسکوں۔ دنیا میں ایک ہی دل ہے جس میں تمہاری محبت ایمان کے درجے تک پہنچ چکی ہے۔ ایک ہی زبان ہے جس کا وظیفہ ٔ حیات تمہارا نام ہے۔ تم جہاں بھی رہو گے اس دل کی تمنائین اور اس زبان کی دعائیں تمہارے ساتھ ہوں گی۔"


سعید بے جان بت کی طرح گم سم، پتھرائی ہوئی آنکھوں اور گھبرائے ہوئے حواس کے ساتھ سب کچھ سن رہا تھا۔ وفور جذبات سے اس کے دل میں ایک طوفان اٹھا اور پھر ساون کے مینہ کی طرح اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش شروع ہوگئی۔


و ہ زبیدہ کے مکان سے نکلا تو اس کے سامنے ایک اور ہی دنیا تھی۔ حزن و ملال اور اندوہ ویاس کے بادل چھٹ چکے تھے اور افق سے روشنی کی کرنیں پھوٹ پھوٹ کر شاہراہِ حیات کو منور کررہی تھیں۔ اسے منزل مقصود کے کنگرے صاف نظر آرہے تھے۔

***
ماخوذ از رسالہ: ادبی دنیا (لاہور)، سالنامہ 1939ء
Raushni ki kiran, short-story by: Aashiq Batalvi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں